1. اس فورم پر جواب بھیجنے کے لیے آپ کا صارف بننا ضروری ہے۔ اگر آپ ہماری اردو کے صارف ہیں تو لاگ ان کریں۔

ایسے سو انتخابات کرا لیں نتیجہ یہی نکلے گا۔ زیرو + زیرو= زیرو۔ ۔ ایثار راناکافکرانگیزکالم

'کالم اور تبصرے' میں موضوعات آغاز کردہ از نعیم, ‏25 اگست 2013۔

  1. نعیم
    آف لائن

    نعیم مشیر

    شمولیت:
    ‏30 اگست 2006
    پیغامات:
    58,107
    موصول پسندیدگیاں:
    11,153
    ملک کا جھنڈا:
    ایسے سو انتخابات کرا لیں نتیجہ یہی نکلے گا۔ زیرو + زیرو= زیرو۔
    کہیے کہیے مجھے برا کہیے ۔۔۔ ایثار رانا

    جی اچھا حضورمان لیتے ہیں۔ ملکی تاریخ کے سب سے بڑے ضمنی انتخابات میں عوام نے اپنے بدلتے”ٹرینڈ“ کی طرف اشارہ دے دیا ہے۔ پہلے ہم کہتے تھے” شیر اک واری فیر“ اب یہ بھی کہہ سکتے ہیں ، غلام احمد بلور تھوڑا ہور تھوڑا ہور۔چلیں اے این پی کی بھی بسم اللہ ہوگئی۔ خان صاحب تینوں چھوڑی ہوئی نشستیں ہار گئے۔ پیپلز پارٹی کی بھی واپسی ہو گئی۔ خورشید شاہ کہتے بلکہ فرماتے ہیں لوگوں کو اندازہ ہو گیا اور اب انہوں نے حقیقی عوامی جماعت پیپلز پارٹی کی جانب پھر رخ کیا ہے۔ مسلم لیگ (ن) اپنی شاندار کارکردگی کے سبب ملک کی سب سے بڑی سیاسی جماعت کے طور پر سامنے آئی ہے۔ اس پر عوامی اعتماد کا سلسلہ جاری ہے۔ اس کی جانب سے اظہار تشکر کا سلسلہ منت سماجتوں کے باوجود رکنے کا نام نہیں لے رہا۔ اظہار تشکر کے طور پر پیٹرول ایک بار پھر مہنگا ہو گیا ہے۔ بجلی کی قیمت بھی بڑھ گئی ہے اور عوام خوشی میں سرشار گاتے پھر رہے ہیں”مل گئی مل گئی ہم کوپیار کی یہ منزل“ لوڈ شیڈنگ ایک بار پھر اپنے تمام تر حسن کے ساتھ ہمارے کمرو ں، محلوں، گلیوں بازاروں میں چھم چھم ناچتی پھر رہی ہے۔ گلیاں سنجیاں ہو چکیں اور وچ مرزا یار صاحباں کے ساتھ خرمستیاں کرتا پھرتا ہے۔ ٹیچر نے کلاس سے پوچھا یہ چاند کیوں روشن رہتا ہے، ایک نے جواب دیا میڈم کیونکہ ابھی واپڈا والے وہاں نہیں پہنچے ۔خلقتِ شہر کو رونے اور تجزیہ نگاروں کو بولنے کے بہانے چاہئیں۔ موجودہ ضمنی انتخابات کو کوئی پی ٹی آئی کے لئے دھچکااور کوئی پیپلز پارٹی کی واپسی قرار دے رہا ہے۔ میرا سوال یہ ہے کہ مئی کے انتخابات اس سے پہلے کے انتخابات اور موجودہ ضمنی انتخابات سے عوام کو کیا ملا؟ ڈالر پہلے ترقی کر رہا تھا، اب بھی سپیڈو سپیڈ بھاگے جا ررہا ہے۔ بجلی پہلے بھی کرنٹ مارتی تھی اب بھی زور کا جھٹکا لگاتی ہے۔ پٹرول پہلے بھی ناقابل تسخیر تھا اب بھی ہے۔ انڈہ ، روٹی ، ٹماٹر کاوجود اب کتابوں کی زینت بنتا جا رہا ہے۔ پھر انتخابات کا فائدہ ؟
    آئینے کے سو ٹکڑے کر کے ہم نے دیکھے ہیں
    ایک میں بھی تنہا تھے سو میں بھی اکیلے ہیں
    ایسے سو انتخابات کرا لیں نتیجہ یہی نکلے گا۔ زیرو + زیرو= زیرو۔جن انتخابات کی صحت پر اس ملک کاصدر شک کا اظہار کردے تو پھر باقی کیا بچتا ہے۔ انتخابات کے نام پر دھونس ، فراڈ ، جعل سازی ، غنڈہ گردی ، دولت کے انبار ، بیوروکریسی کا استعمال ہو تو پھر جمہوریت کس چڑیا بلکہ چیونٹی کا نام ہے۔ پاکستان کی جمہوریت ایک ایسی رضیہ ہے جو غنڈوں میں پھنس چکی ہے۔ یہ انتخابات جمہوریت ، سیاست ، قیادت سب فراڈ ہیں بس دھوکہ ہیں۔ جمہوریت کے نام پر طاقتوروں کے درمیان ملاکھڑاہے بس اور کچھ نہیں۔ اگر باجی مقصودہ اپنے بچے کے ہاتھوں میں پڑے چھالوں کو دیکھ کر رات بھر نہیں سوتی ، اگر رحمت بی بی کو انصاف نہیں ملتا، چھیمے کو زندہ رہنے کا جواز نہیں ملتا تو لعنت ہے ایسی جمہوریت پر ۔ ایسی جمہوریت کوحنوط کر کے مادام تساؤ کے میوزیم میں سجا دینا چاہئے۔ مجھے یقین ہے کہ پاکستان برانڈڈ جمہوریت سے وہاں کے تمام مومی مجسّمے بھی کرپٹ ہو جائیں گے۔ آپ مجھے برا کہہ لیں ، جمہوریت کا مخالف کہہ لیں، مجھے نظام کی خرابی کہہ لیں جو مرضی کہہ لیں
    ناروا کہیے برملا کہیے
    کہیے کہیے مجھے برا کہیے
    دل میں رکھنے کی بات ہے غم ِ دل
    اس کو ہر گز نہ برملا کہیے
    وہ مجھے قتل کر کے کہتے ہیں
    مانتا ہی نہیں تھا کیا کہیے
    آ گئی آپ کو مسیحائی
    مارنے والوں کو مرحبا کہیے
    لیکن مجھے صرف اس بات کا جواب دے دیں کہ اگر پورے ملک میں لاشیں گرنے کا نام جمہوریت ہے، غریب آدمی کے سسکنے کا نام جمہوریت ہے ، لاکھوں لوگوں کو ایک وقت کی روٹی میسر نہ ہونے کا نام جمہوریت ہے، سرکاری ہسپتالوں میں علاج کے نام پر ٹارچر کا نام جمہوریت ہے، عوام کے ٹکڑوں پر پلنے والی بیوروکریسی کا نام جمہوریت ہے، اپنی مرضی کے تھانیداروں کو تھانے دلانے کے بعد بدمعاشی کا نام جمہوریت ہے، بڑے بڑے قرضے لے کر ہڑپ کر جانے کا نام جمہوریت ہے اور کروڑوں بھوکے ننگوں کی لیڈرشپ اربوں کھربوں بلکہ پدم پتیوں کے ہاتھوں میں ہونے کا نام جمہوریت ہے تو پھر اس جمہوریت کا فائدہ؟ کیا اس کا فائدہ کسی فٹ پاتھ پرریڑھی لگانے والے کو ہو گا؟ جس شوگر مل کا مالک حکمران ہوگا تو کیا اس کے کارکن کو زندگی کی مٹھاس مل سکے گی؟ ہمیں من حیث القوم مٹی پاؤ کے تے کھانا کھاؤ کی پالیسی پر عمل کرنا چاہئے۔ سردار صاحب نے اپنے بیٹے سے پوچھا ، یہ دو بسترے کیوں بچھا رہے ہو، کہنے لگا امی کے بھائی آرہے ہیں۔ ان کے لئے ، دوسرا اپنے ماموں کے لئے ۔ سردار صاحب بولے تیسرا بھی بچھا دے ۔ اینج تے میرا سالا وی آریا اے(بیٹا تیسرا بھی بچھا دے ایسے تو میرا سالا بھی آرہا ہے) ۔ یہی جمہوریت ہے ایک شکل کے کئی رخ۔ راہ بھی وہی راہنما بھی وہی۔ سب کچھ وہی ہم سب خاک ۔ ۔ واہ کیا عطا ہے ، کیا بادشاہی ہے ۔ عوام کو ٹرینڈ سیٹر ہی قرار دے دیا اور حضور والا اگر ڈالر پٹرول اور بجلی کی امان پاؤں تو اتنا عرض ہے کہ ہم کیا ہماری اوقات کیا۔ کونسا ٹرینڈ کون سے سیٹر؟ یہ ملک آپ کا، اس کا ماضی آپکا، حال آپ کا، مستقبل آپ کا، مانا ہم آپ کی رعایا ہیں لیکن لگتا ہے کہ آپ بھی کسی کی رعایا ہیں، ان کی رعایا جو اصل ٹرینڈ سیٹرہیں آپ انتخابا ت سے قبل ٹرینڈ سیٹ کرتے ہیں کہ اس بار کس پٹھے کو باری ملنی ہے اور کس پٹھے کو کس صوبے کی ملنی ہے اور کن شرائط پر ملنی ہے بس ٹینڈر بھرنے پڑتے ہیں۔ بتانا پڑنا ہے کہ کون کتنی خدمات انجام دے سکتا ہے۔ اچھے اچھے انقلابی پھر اچھے اچھے بلکہ بہت اچھے بچے بن جاتے ہیں اور ڈیڈلی اینگری مین سے فرینڈلی اپوزیشن کا شرطیہ نیا پرنٹ بن جاتے ہیں۔ سو میرے نادرا کے شناختی کارڈ ہولڈر پاکستان میں بسنے والے ہاراکاری کے متوالو کنگ خان کی تین نشستوں کے کھونے پرپریشان نہ ہوں یہاں تک کے لاہور کی ایک نشست کے ہارنے پر رولا رپا نہ پاؤ۔ اب کی بار کنگ خان فلم فرینڈلی اپوزیشن کے ری میک میں جلوہ گر ہوں گے۔اب وہ اپنے حسین انداز میں کہیں گے کہ ہر طرف دھونس دھاندلی ہے لیکن وہ سسٹم کو تباہ نہیں کریں گے۔ وہ کے پی کے حکومت کے لئے وہی کریں گے جو میاں صاحب پنجاب اور وفاق بچانے کے لئے کرتے رہیں گے۔ لہٰذااتنے جذباتی ہونی کی ضرورت نہیں آپ دیکھیں گے کہ کنگ خان کی یہ میگا مووی بھی لمبے عرصے تک چلے گی۔ جون 2014ء تک کی تو میں گارنٹی دیتا ہوں۔ ان پٹیالوں کو اب متوالوں سے ٹریننگ لینا پڑے گی۔ انہیں صبر سیکھنا پڑے گا، سسٹم کا حصہ بننا پڑے گا۔ کنگ خان کو بھی بتا دیا گیا ہے کہ ” پہنچ تو گئے ہو پر ابھی اتنے بڑے نہیں ہوئے“ اور انہیں یہ بات سمجھ بھی آگئی ہے۔
    سو میرے ٹرینڈ سیٹر عوام جیسی مخلوق قوم آپ کی ملک کی بقاء جمہوریت سے وفا اور اپنے سوہنے قائدین سے رضا کا تقاضا یہ ہے کہ وہ چپ کر جائیں، دڑ وٹ جائیں۔ نہ ان میں اتنی ہمت ہے کہ یہ نظام ان قبضہ گروپوں سے چھین لیں۔نہ ان میں اتنی جرأت ہے حقیقی ٹرینڈ سیٹر بن کر ملک میں حقیقی جمہوری رجحان تشکیل دے سکیں۔ نہ ان میں اتنا اتحاد ہے کہ کاراکاری کے بجائے ایک دوسرے کو ہلا شیری دے جائیں۔ اس وائرس زدہ کرپٹ سسٹم کو اٹھا کر ایسے سمندر میں پھینک سکیں جہاں سے یہ دوبارہ باہر نہ آسکیں۔ اگر وہ ایسا نہیں کر سکتے تو پھر پرانی تنخواہ پر کام کرتے رہیں اور ہر انتخابات ضمنی انتخابات میں بطور” ٹرینڈ سیٹر“ اپنی خدمات انجام دیتے رہیں۔ ڈھور ڈنگروں کو اس سے زیادہ کیا مقام مل سکتا ہے۔ اگر کبھی انہوں نے ایسی ناکام کوشش کی بھی تو پھر جمہوریت کی جگہ”وہ“ آجائیں گے۔ ایک خاتون نے شوہر سے جھگڑے کے بعد اپنی ماں کو فون کیا اور روتے ہوئے کہا وہ میکے آرہی ہے۔ ساس بولی تم ٹھہرو غلطی تمہارے شوہر کی ہے سزا بھی اسے ملنی چاہیے ۔ میں خود آرہی ہوں کچھ ماہ تمہارے پاس ٹھہرنے ۔

    بشکریہ روزنامہ جنگ ادارتی صفحہ ۔
     
    احتشام محمود صدیقی نے اسے پسند کیا ہے۔

اس صفحے کو مشتہر کریں