1. اس فورم پر جواب بھیجنے کے لیے آپ کا صارف بننا ضروری ہے۔ اگر آپ ہماری اردو کے صارف ہیں تو لاگ ان کریں۔

ایبولاسے موت ۔۔۔۔۔ محمد ریاض

'میڈیکل سائنس' میں موضوعات آغاز کردہ از intelligent086, ‏13 اگست 2020۔

  1. intelligent086
    آف لائن

    intelligent086 ممبر

    شمولیت:
    ‏28 اپریل 2013
    پیغامات:
    7,273
    موصول پسندیدگیاں:
    797
    ملک کا جھنڈا:
    ایبولاسے موت ۔۔۔۔۔ محمد ریاض

    عالمی ادارہ صحت نے حال ہی میں کہا ہے کہ جمہوریہ کانگو کے بعض علاقوں میں ایبولا وائرس کے کیسز بڑھ رہے ہیں۔ ایبولا کووڈ 19 کی طرح ایک وبا ہے لیکن ایک لحاظ سے یہ کووڈ 19 سے کم خطرناک ثابت ہوئی ہے۔ دراصل اس کے مریضوں میں مرنے کی شرح کووڈ 19 سے کہیں زیادہ ہے لیکن اس کا پھیلاؤ کم ہے۔
    ایبولا ایک سے دوسرے فرد کو منتقل ہونے والی جان لیوا انفیکشن ہے۔ اسے ''ایبولا وائرس ڈیزیز‘‘ اور ''ایبولا ہیمرجک فیور‘‘ بھی کہا جاتا تھا۔ ایک اندازے کے مطابق ایبولا بخار میں مبتلا 90 فیصد افراد ہلاک ہو جاتے ہیں۔ اس کے مقابلے میں کووڈ 19 میں ہلاک کی شرح دو فیصد ہے۔
    اس کی علامات ڈینگی بخار سے ملتی جلتی ہیں۔ ڈینگی بخار اور کووڈ 19 کی طرح ابھی تک ایبولا کے لیے بھی کوئی ویکسین نہیں بنائی جا سکی۔
    اگرچہ ایبولا کا کوئی علاج دریافت نہیں ہوا لیکن ہسپتال کے ماحول میں بہتر نگہداشت سے مریض کی بقا کا امکان بڑھ سکتا ہے۔ مزید یہ کہ روبہ صحت مریضوں کے پلازما ٹرانس فیوژن اور ایک تجرباتی اینٹی باڈی دوا کا استعمال بعض مریضوں کے علاج میں کیا گیا ہے جس کے مثبت نتائج برآمد ہوئے۔
    ایبولا کا وائرس بخار، جسم کے درد اور اسہال کا سبب بنتا ہے اور بعض اوقات جسم میں اندرونی اور بیرونی طور پر خون جاری ہو جاتا ہے۔
    جیسے جیسے یہ وائرس جسم میں پھیلتا ہے یہ جسم کے مدافعتی نظام پر حملہ آور ہو کر اعضا کو شدید نقصان پہنچاتا ہے۔ بالآخر اس سے خون کے کلاٹنگ خلیات کی سطح کم ہونا شروع ہو جاتی اور خون رسنے کا نہ روکنے والا سلسلہ شروع ہو جاتا ہے۔
    عالمی ادارہ صحت کے مطابق سب سے پہلے یہ بیماری وسطی اور مغربی افریقہ کے دور دراز دیہاتوں میں آئی۔ یہ برساتی جنگلات کے قریب واقع ہیں۔ وائرس پہلے جانوروں سے انسانوں میں منتقل ہوا۔ اس کے بعد ایک سے دوسرے انسان میں پھیلنے لگا۔ کووڈ 19 کی نسبت یہ خاصی پرانی بیماری ہے۔ 1976ء میں یہ مرض سب سے پہلے کانگو اور سوڈان میں رپورٹ ہوا۔ یہ وائرس افریقی جنگلات میں بیمار جانوروں بن مانس، بندر، چمگادڑ اوردیگر سے انسانوں میں آیا۔
    ایبولا وائرس پہلی بار ایک دریا سے 60 میل کے فاصلے پر یامبوکو میں شناخت کیا گیا تھا لیکن شناخت کرنے والوں میں شامل پروفیسر پیٹر پایٹ نے قصبے کی بجائے دریا پر اس کا نام رکھا تاکہ قصبہ بدنام نہ ہو۔ اس لیے ایبولا وائرس اور ایبولا وائرس کی بیماری دریائے ایبولا سے موسوم ہیں۔ بعد ازاں اس دریافت کے باوجود کہ دریائے ایبولا یامبوکو گاؤں کے قریب نہیں، اس کا نام برقرار رہا۔
    اس بیماری کی عمومی علامات یہ ہیں: تیز بخار، سر درد، جوڑوں میں درد، پٹھوں میں درد، گلے میں درد، کمزوری، معدے میں درد اور بھوک کا ختم ہو جانا۔ بیماری خطرناک مرحلے میں داخل ہوتی ہے تو مریض کے جسم کے اندر خون بہنے لگتا ہے۔ اس کے ساتھ ہی اس کی آنکھوں، کانوں اور ناک سے بھی خون بہنے لگتا ہے۔ بعض مریض خون کی الٹیاں بھی کرتے ہیں اور بعض مریض کھانسی کے ساتھ خون تھوکتے ہیں۔ اس کے علاوہ بعض مریضوں کے پاخانے کے ساتھ خون آتا ہے اور جسم پر خسرے کی طرح کے دانے نکل آتے ہیں۔
    ایبولا وائرس کی بیماری نزلے، زکام اور چیچک کا باعث بننے والے وائرسوں کی طرح متعدی نہیں ہے لیکن ایبولا وائرس متاثرہ جانور یا انسان کی جِلد کے علاوہ ان کے جسم سے خارج ہونے والے سیال مادوں سے دوسرے انسانوں میں منتقل ہوتا ہے۔ یہ ایک جانور اور انسان سے دوسرے جانور اور انسان کو لگنا شروع ہو جاتا ہے، جو لوگ ایبولا وائرس کا شکار ہونے والوں کی تیمارداری کرتے ہیں یا اس سے ہلاک ہونے والوں کو دفناتے ہیں، انہیں بھی یہ وائرس لگ سکتا ہے۔
    جس شخص کے بارے میں تصدیق ہو جائے کہ وہ ایبولا وائرس سے لاحق ہونے والی بیماری میں مبتلا ہو چکا ہے، اسے فوراً دوسرے انسانوں سے الگ کر دینا چاہیے تاکہ بیماری دوسرے انسانوں کو نہ لگ جائے۔ مریض کو ٹھوس غذا نہ دی جائے۔ اسے آکسیجن بھی لگائی جاتی ہے۔ خون کا دباؤ یعنی بلڈ پریشر معمول پر رکھنے کی دوائیں بھی دی جاتی ہیں اور اسے خون بھی لگایا جاتا ہے۔ اس سے بچنے کا طریقہ یہ ہے کہ ان علاقوں کا سفر نہ کیا جائے جہاں ایبولا وائرس پایا جاتا ہے یا پھیل چکا ہے۔ حفظانِ صحت کی خدمات انجام دینے والے افراد بھی نقاب اور عینک لگا کر، دستانے پہن کر اس وائرس سے بچنے کی تدبیر کر سکتے ہیں۔
    وائرل اور وبائی امراض کے اعداد و شمار سے پتہ چلا کہ ایبولا وائرس وبا بننے سے بہت پہلے موجود تھا۔ آبادی میں اضافے، جنگلاتی علاقوں میں تجاوزات، اور جنگلات کی زندگی کے ساتھ براہ راست تعامل نے ایبولا وائرس کے پھیلاؤ میں اہم کردار ادا کیا۔

     

اس صفحے کو مشتہر کریں