اک نشہ سا طاری ہے درد کی داستان جاری ہے آگ میں بھی درخت اگتے ہیں برف میں بھی چنگاری ہے اک سفر ناکام ہوا دوجے کی تیاری ہے سب چالیں چل بیٹھا ہوں آب مٹی کی باری ہے آگے سب آسانیاں مرنے تک دشواری ہے تم سے رات نہیں کٹی میں عمر گزاری ہے اس سے خواب بھی مانگ کر جس نے نیند اتاری ھے ڈھونڈنا پڑتا ہے خود کو اتنی سی دشواری ہے وقت مسلسل وجد میں ہے رقص برابر جاری ہے
میری نظر سے تیرے روپ کے آلاو تک بچھی ہوئی ہے انا برف موسموں جیسی عمران فاصلے کٹ بھی گئے تو کیا حاصل میں بے قرار سمندر وہ ساحلوں جیسی
اداسی چاندنی رات اور تنہائی بن کے تصویر یاس بیٹھا ہوں اک نظر دیکھ آکے تو مجھ کو آج کتنا اداس بیٹھا ہوں
امیدیں بہت لے کر تھے ہم اس اجنبی دیس میں آئے امیدوں پہ لیکن برف پڑی اور غم کے بادل چھائے ہمت کی چنگاری دل میں مگر ہر وقت جلائے رکھتا ہوں کہ برف پگھل ہی جاتی ہے تھوڑی سی جوحِدت پائے
مجھے تم سے محبت ھے تم کہتی ھو مجھے پھولوں سے پیار ھے مگر جب پھول کھلتے ھیں توانہیں ٹہنی سے توڑ ڈالتی ھو تم کہتی ھو مجھے بارشوں سے پیار ھے!!! مگر جب بارش ھوتی ھے تو چھپتی پھرتی ھو تم کہتی ھو مجھے ھواوں سے پیار ھے مگر جب ھوا چلتی ھے تو کھڑکیاں بند کر لیتی ھو! پھر اس وقت میں خوفزدہ سا ھو جاتا ھوں! جب تم ۔،۔،۔،۔،۔،۔،۔،۔،۔،۔مجھ سے کہتی ھو!!! مجھے تم سے محبت ھے!!
اسے کچھ نہ کہنا پہلے ہی سے پریشان ھے اسے کچھ نہ کہنا نازک سی میری جان ھے اسے کچھ نہ کہنا مجبوری میں کر بیٹھا ھے سجدہ کسی بت کو دل سے تو مسلمان ھے اسے کچھ نہ کہنا پروانے کی مرنے سے قبل تھی یہ و صیت جو موت کو ساماں ھے اسے کچھ نہ کہنا کچھ بھی نہ کہا جانی کچھ بھی نہ کہیں گے اپنا تو یہ عنوان ھے اسے کچھ نہ کہنا پھولوں میں وہ چہکے سا ھے پھولوں کو توڑے بلبل کا گلستان ھے اسے کچھ نہ کہنا
شہزادہ جی ! بہت دلچسپ کلام ہے آپ کا۔ ہم بھی فی البدیہہ کچھ آپ کی نذر کرنے کی کوشش کرتے ہیں : پربتوں کی چھاؤں میں بارشوں کے موسم میں جب گلاب کھلتے ہیں تتلیوں کے جتھے بھی گردشوں میں آتے ہیں کونپلیں بھی شاخوں پہ رنگ دکھانے لگتی ہیں کوئلیں بھی باغوں میں چہچہانے لگتی ہیں اور سب پرندے بھی مسکرانے لگتے ہیں اس سہانے موسم میں کہ جب دل دلوں سے ملتے ہیں زخم سارے بھرتے ہیں یاد مجھ کو ساجن کی آکے یوں رلاتی ہے جیسے شبنمی قطرے پنکھڑی کی نازکی پہ آ کے یوں چپک جائیں پنکھڑی بھی کِھل جائے پھول مسکرا اٹھیں چاہے زیرِ دامن میں کانٹے بھی چبھ جائیں چھید چھید ہو جائیں سرد آہیں دب جائیں یوں ہی اشک میرے بھی آنکھ کے کناروں پہ آ کے رُک سے جاتے ہیں ہونٹ مسکراتے ہیں زخم چھپ سے جاتے ہیں دل میں ٹیس اٹھتی ہے آہیں بھی نکلتی ہیں پھر بھی میرے ہونٹوں پہ مسکراہٹیں پھیلیں یاد تیری ہر لمحے دل میں یوں سما جائے نہ کسی کو بتلاؤں نہ کوئی خبر پائے (کلام : نعیم رضا)
نیت شوق بھر نہ جائے کہیں تو بھی دل سے اتر نہ جائے لہیں آج دیکھا ھے تجکو دیر کے بعد آج کا دن گزر نہ جائے کہیں نہ ملا کر اُداس لوگوں سے! حسن تیرا بکھر نہ جائے کہیں آرزو ھے کہ تُو یہاں آئے اور پھر عمر بھر نہ جائے کہیں جی جلاتا ھوں اور سوچتا ھوں رائیگاں یہ ہنر نہ جائے کہیں آوُ کچھ دیر رو ھی لیں ناصر پھر یہ دریا یتر نہ جائے کہیں (ناصر کاظمی)
صبح ضرور آئے گی صبح کا انتظار کر نعیم بھائی آپ کی نظر ایک نظم غم کی اندھیر ی رات میں دِل کو نہ بے قرار کر صبح ضرور آئے گی صبح کا انتظار کر درد ھے ساری زندگی جس کا کوئی صلہ نہیں دل کو فریب دیجیئے اور یہ حوصلہ نہیں اس سے بد گمان نہ ھو اس پہ اعتبار کر صبح ضرور آئے گی صبح کا انتظار کر خود ھی تڑپ کے رہ گئے دل کی صدا سے کیا ملا آگ سے کھیلتے رھے ھم کو وفا سے کیا ملا دل کی لگی بجھا نہ دینا دل کی لگی سے پیار کر صبح ضرور آئے گی صبح کا انتظار کر