1. اس فورم پر جواب بھیجنے کے لیے آپ کا صارف بننا ضروری ہے۔ اگر آپ ہماری اردو کے صارف ہیں تو لاگ ان کریں۔

اک خواب میرے آباواجداد نے دیکھا تھا اک خواب میں نے دیکھا ہے

'آپ کے مضامین' میں موضوعات آغاز کردہ از محمد یاسرعلی, ‏27 ستمبر 2011۔

  1. محمد یاسرعلی
    آف لائن

    محمد یاسرعلی ممبر

    شمولیت:
    ‏26 ستمبر 2011
    پیغامات:
    140
    موصول پسندیدگیاں:
    3
    ملک کا جھنڈا:
    14 اگست 1947 تاریخ کا وہ روشن ترین دن ہے جب میرے آباواجداد کی قربانیاں رنگ لائیں اور ان کے خواب کو تعبیر ملی یہ خواب انہوں نے میرے لیے دیکھا تھا ایک آزاد اور خود مختاراسلامی ملک کا خواب ۔ یہاں میں آزادی سے اپنی زندگی کو اسلامی نظریات کے مطابق بسر کر سکوں ۔ آج 6 دہائیوں بعد ان کا خواب کچھ یوں شرمندہ ِ تعبیرہے کہ

    اگر میں خود کو مکمل طور پہ اسلام کے سانچے میں ڈھالنے کی کوشش کرتا ہوں تو روشن خیال طبقہ مجھ پہ انتہاء پسند کا لیبل لگا دیتا ہے ۔
    اگر دنیا اور دین کو جدید دور کے مطابق لے کے چلنےکی کوشش کروں تو مذہب کے نام نہاد ٹھیکیداروں کو تکلیف ہو جاتی ہے۔
    اگر میلادِ مصطفیﷺ کا جشن مناوں اور کسی ولی کا سہارا تلاش کروں تو مجھے مشرک قرار دے دیا جاتا ہے ۔
    اگر غمِ حسینؑ میں دو آنسو بہا دوں تو مجھے کافرکہا جاتا ہے ۔
    اور اگر صحابہ ؒ سے اظہارِ عقیدت کر دوں تو دشمنِ اہلیبیت بن جاتا ہوں ۔
    ہاں مجھے اتنی مذہبی آزادی ضرور ہے کہ میں جسے دل چاہے کافر اور مشرک کہہ سکتا ہوں اور جسے دل چاہے مردِ مومن بنا دوں اتنی مذہبی آزادی کا تو میرے ابااجدادنے سوچا تک بھی نہ ہو گا ۔

    میرے آباواجداد نے میرے لیے غیروں سے آزادی کا خواب دیکھا تھا مگر انہوں نےیہ نہیں بتایا کہ انہوں نے مجھے یہ آزادی برطانیہ سے دلوائی ہے کہ یہود و نصاریٰ سے، اگر مجھے برطانیہ سے آزادی دلوائی تھی پھر تو میں بہت آزاد ہوں اور اگر یہود و نصاریٰ سے تو یہ ان کی خوش فہمی ہی تھی ،آج 6 دہائیوں بعد برطانیہ ہم پہ براہ ِ راست قابص نہیں ہے مگر امریکہ اور imf کی شکل میں یہود و نصاریٰ جو چاہتے ہیں ہم سے منوا لیتے ہیں اور اپنے چیلوں کے ذریعے میرے ملک پہ حکومت بھی کر رہے ہیں ۔

    میرے آباواجداد نے مجھے آزادی لے کے دی تھی کہ میرے جان و مال محفوظ رہیں اور آج 6 دہائیوں کے بعد میرے جان و مال یوں محفوظ ہیں کہ صبح گھر سے نکلتے وقت گھروالوں کو آخری بار الوداع کہہ کے آتا ہوں کیا پتا اب کی بار اگر میں دہشت گردوں اور قاتلوں کا نشانہ بننے سے بچ گیا تو کہیں محافظوں کی گولیوں کا شکار نہ بن جاوں ۔

    میرے آباواجداد اپنی الگ پہچان چاہتے تھے تو آج دہشت گردی اور کرپشن کے میدان میں پاکستان کی خوب پہچان بن رہی ہے ۔پچھلی 6 دہائیوں میں جہاں اس ملک کو دو لخت کر دیا گیا تو وہیں کبھی مارشل لاء آیا تو کبھی ملااِزم ،کبھی روشن خیال اور آج کل مفامت کی سیاست کا دور ہے ۔اقتدار کی باریا ں لگائے بیٹھے ( پہلے تواڈی باری تے پھر ساڈی باری ) سیاہ ست دان ملک کو کرپٹ ترین ممالک کی فہرست میں اوپر سے اوپر لے کے جانے کی جی جان سے کوشش کر رہے ہیں اور اگر یہ کوششیں اسی طرح ہوتی رہیں تو ایک ،دو دہائیوں بعد ہم سب سے آگے ہوں گے ۔

    میرے آباواجداد نے جس خواب کی تعبیرکے لیے بےتحاشا قربانیاں دی تھیں آج 6 دہائیوں بعد اس خواب کی تعبیر ان کی روحوں کو بھی بے شک تڑپاتی ہو گی ۔اس لیے اب کےمیں ایک خواب دیکھ رہا ہوں خود مختار، کرپشن سے پاک ، عوام کے پاکستان کا خواب ،
    جہاں نفرت، فرقہ واریت ، کرپشن اور طبقاتی تفریق نہ ہو۔
    جہاں بے انصافی ، حق تلفی نہ ہو اور سچ بولنے پہ زبانیں نہ کاٹی جاتی ہوں ۔
    جہاں پیار ہو، امن ہو، مساوات ہو ا،ماں بہنوں کی اور بزرگوں کی عزت ہو،
    جہاں پولیس بلکہ ہر سرکاری ادارے کی پہچان عوام کی خدمت ہو۔
    جہاں والدین کو غربت کی وجہ سے اپنی اولادوں کو نہ مارنا پڑے۔
    میرے آباواجداد خوش قسمت تھے کہ انہوں نے پاکستان بنانے کا جو خواب دیکھا اس کی تعبیر کے لیے ان کو بے لوس اور مخلص لیڈربھی مل گے تھے اور سچے کارکن بھی مگر مجھے اپنے اردگرد کوئی ایسا لیڈر نظر نہیں آرہا جو میرے خواب کو شرمندہ تعبیر کر سکے اور ہم عوام کے پاس بھی ملک کے لیے سوچنے کی کہاں فرصت ہے سارا دن محنت کے بعد دو وقت کی روٹی مل جاتی ہے کافی ہے ۔ویسے بھی خواب دیکھنے میں کیا ہے جو مرضی خواب دیکھو اب ہر خواب شرمندہ ِ تعبیر تھوڑے ہی ہوتے ہیں ۔
    تحریر "محمدیاسرعلی"
    نوٹ: اگر میں اپنی کم علمی کی بنا پہ کوئی غلط بات لکھ گیا ہوں یا کسی کی دل اعزاری ہوئی ہو تو میں معذرت خواہ ہوں 'محمد یاسرعلی"
     
  2. صدیقی
    آف لائن

    صدیقی مدیر جریدہ سٹاف ممبر

    شمولیت:
    ‏29 جولائی 2011
    پیغامات:
    3,476
    موصول پسندیدگیاں:
    190
    ملک کا جھنڈا:
    جواب: اک خواب میرے آباواجداد نے دیکھا تھا اک خواب میں نے دیکھا ہے

    شکریہ جی اتنی اچھی تحریر کا
     
  3. محمد یاسرعلی
    آف لائن

    محمد یاسرعلی ممبر

    شمولیت:
    ‏26 ستمبر 2011
    پیغامات:
    140
    موصول پسندیدگیاں:
    3
    ملک کا جھنڈا:
    جواب: اک خواب میرے آباواجداد نے دیکھا تھا اک خواب میں نے دیکھا ہے

    آپ کا بھی بہت بہت شکریہ پسند کرنے کے لیے
     
  4. ملک بلال
    آف لائن

    ملک بلال منتظم اعلیٰ سٹاف ممبر

    شمولیت:
    ‏12 مئی 2010
    پیغامات:
    22,418
    موصول پسندیدگیاں:
    7,511
    ملک کا جھنڈا:
    جواب: اک خواب میرے آباواجداد نے دیکھا تھا اک خواب میں نے دیکھا ہے

    محمد یاسر علی جی ۔
    آپ کی تحریر سے وطن کی محبت اور اس کے موجودہ نامساعد حالات پر دکھ واضح طور پر جھلکتا ہے۔ اس نسل پر بہت سی وطن کی بہتری کے لیے اقدامات کرنے کے حوالے سے بہت سی ذمہ داریاں ہیں۔ اللہ کریم ہم سب کو ان ذمہ داریوں کو سمجھنے کی توفیق عطا فرمائے۔ اور وطن پاکستان کی تعمیر و ترقی میں اپنا حصہ ڈالنے کی توفیق بھی عطا فرمائے۔ آمین
     
  5. محمد یاسرعلی
    آف لائن

    محمد یاسرعلی ممبر

    شمولیت:
    ‏26 ستمبر 2011
    پیغامات:
    140
    موصول پسندیدگیاں:
    3
    ملک کا جھنڈا:
    جواب: اک خواب میرے آباواجداد نے دیکھا تھا اک خواب میں نے دیکھا ہے

    بہت بہت شکریہ بلال بھائی
     
  6. واصف حسین
    آف لائن

    واصف حسین ناظم سٹاف ممبر

    شمولیت:
    ‏3 جولائی 2006
    پیغامات:
    10,073
    موصول پسندیدگیاں:
    1,807
    ملک کا جھنڈا:
    جواب: اک خواب میرے آباواجداد نے دیکھا تھا اک خواب میں نے دیکھا ہے

    یاسر بھائی بہت شکریہ ایک فکر انگیز تحریر ہمارے ساتھ شئیر کی۔

    میں آپ کی بات سے مکمل اتفاق کرتے ہوئے صرف دو باتوں کو آگے بڑھاؤں گا۔

    نمبر 1 لیڈر۔ ہمارے اجداد کو بے لوث لیڈر مل گئے۔کیا یہ لیڈر یوں ہی مل گئے یا ایک صدی جھیلی جانے والی مشکلات میں سے ابھرے؟ 1857 کی جنگ آزادی جس کو فرنگی نے بغاوت ہند کا نام دیا کے بعد مسلمانوں پر عرصہ حیات تنگ ہوا۔ لیکن جب ہم 1947 کے لیڈروں کو دیکھتے ہیں تو کوئی لیڈر ایسا دکھائی نہیں دیتا جو یہ لیڈرشپ وراثت میں لیکر چلا آیا ہو۔ تمام لیڈر عوام میں سے ابھرے اور عوام کی سطح پر سوچنے کی اہلیت رکھتے تھے۔کوئی بھی پٹا ہوا کم نظر مہرہ ان میں‌شامل نہ تھا۔ جبکہ آج ہم انہیں آزمائے ہوئے نااہلوں کو دوبارہ آزمانے میں لگے ہوئے ہیں۔پرانے چہرے کے دوبارہ آنے پر ہم مٹھائیاں بانٹتے ہیں اور جب نیا آ کر بھی وہی قصہ دہراتا ہے تو go-----go کا نعرہ مارتے ہوتے پھر پہلے والے کو خوش آمدید کہتے ہیں اور جلد ہی اگلے کے لیے گو کا نعرہ شروع۔ آج تک come-----come کا نعرہ ہم نہیں لگا سکے۔نااہل لیڈرشپ کا المیہ تب تک جاری رہے گا جب تک ہم پٹے ہوئے مہروں کو برطرف نہیں کریں گے۔
    نمبر2 عوام۔ عوام افراد کا مجموعہ ہے اور فرد کے شعور سے عوام میں شعور پیدا ہوتا ہے۔آج ہمارے لیے تعلیم نوکری کے حصول کی سیڑھی ہے۔بھیڑ چال ہمارہ وطیرہ ہے۔ہم ہر عمل روزگار کو سامنے رکھ کر کرتے ہیں۔اپنے فائدے کے لیے ہم دوسرے کا نقصان کرنے سے گریز نہیں کرتے۔قدرت کا اصول ہے کہ جیسے عوام ہوں گے ویسے ہی ان کے لیڈر ہوں گے۔

    اس سلسلے میں آپ میری یہ پوسٹ پڑھیں۔
    http://www.oururdu.com/forums/showpost.php?p=432526&postcount=4
     
  7. محمد یاسرعلی
    آف لائن

    محمد یاسرعلی ممبر

    شمولیت:
    ‏26 ستمبر 2011
    پیغامات:
    140
    موصول پسندیدگیاں:
    3
    ملک کا جھنڈا:
    جواب: اک خواب میرے آباواجداد نے دیکھا تھا اک خواب میں نے دیکھا ہے

    بے شک واصف بھائی آپ درست کہہ رہے ہیں ان باتوں سے تو انکار کیا ہی نہیں جا سکتا اور اصل بدقسمتی بھی ہماری یہی ہم سب جانتے ہیں مگر کچھ کرتے ہیں میں خود ایسا ہی بے عمل انسان ہوں کہتا ہوں کے ملک بچانے کے لیے قوم کو کچھ کرنا پڑے گا مگر کیا اس پہ لاجواب ہو جاتا ہوں‌
     
  8. واصف حسین
    آف لائن

    واصف حسین ناظم سٹاف ممبر

    شمولیت:
    ‏3 جولائی 2006
    پیغامات:
    10,073
    موصول پسندیدگیاں:
    1,807
    ملک کا جھنڈا:
    جواب: اک خواب میرے آباواجداد نے دیکھا تھا اک خواب میں نے دیکھا ہے

    کیا کرنا ہے کے سوال پر ہم لاجواب ہو جاتے ہیں۔
    اس لیے کہ خود عمل کرنے سے کہیں آسان دوسرے پر الزام دھر دینا ہے۔ہمارے اجداد نے خواب دیکھا، محنت کی، قربانیاں دیں اور خواب کو پورا کر دکھایا۔ مگر ہم۔۔۔۔۔ ہم تو خواب دیکھنے سے ہی گریزاں ہیں اور اگر کوئی خواب دیکھتا بھی ہے تو آب و دانہ سے آگے نظر ہی نہیں جاتی۔ ہمارے بزگوں کا خواب اسلام اور مسلمانوں کو غیروں کے استبداد سے نجات دلانے کا تھا اور ہمارے خواب ڈاکٹر، انجینئر، نوکری، پیسہ، عیش کے گرد گھومتے ہیں۔ہمارے اجداد نے مشترکہ خواب دیکھا اور ہم انفرادی خواب دیکھتے ہیں۔
    ہم اپنے دائرہ اختیار میں عمل کرنے کے بجائے دوسرے کی بے عملی کو جواز بناتے ہیں۔اگر حاکم وقت خاموش اور مصلحت پسند ہے تو ہم بھی تو اپنے گھر کے حاکم ہیں۔اپنی حکم میں ہم بھی تو مصلحت پسند ہیں۔اگر حکومت اپنی عیاشی کے لیے آئی ایم ایف کا سہارا لیتی ہے تو ہم بھی تو نئی کار خریدنے کے لیے بینک سے سود پر قرضہ لیتے ہیں۔
    ہم کیا کریں اسکا جواب بہت سادہ ہے۔پر اس پر عمل بہت مشکل۔کسی لیڈر، حکومت، مولوی یا نظام پر تنقید کرنے سے پہلے اپنے گریبان میں دیکھیں۔ جو توقع میں دوسرے سے رکھتا ہوں کیا اپنے دائرہ اختیار میں خود اس کو اختیار کیے ہوئے ہوں۔اگر نہیں تو پہلے خود کو تبدیل کریں۔اپنے حلقہ اثر کو تلقین سے نہیں عمل سے بدلیں اور پھر دیکھیں حالات کیسے تبدیل ہوتے ہیں۔
     
  9. محبوب خان
    آف لائن

    محبوب خان ناظم سٹاف ممبر

    شمولیت:
    ‏28 جولائی 2008
    پیغامات:
    7,126
    موصول پسندیدگیاں:
    1,499
    ملک کا جھنڈا:
    جواب: اک خواب میرے آباواجداد نے دیکھا تھا اک خواب میں نے دیکھا ہے

    کسی ملک میں کئی صوبے یا ریاست ہوتے ہیں ان کے ڈویژن پھر ضلع، تحصیل، کونسل، گاؤں، دیہات، ڈاکخانے اور ان انتظامی جگہوں میں‌انسان بستے ہیں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔اور ہر انسان اپنے معاشرے میں رہتے ہوئے۔۔۔۔کسی خاندان کا حصہ ہوتا ہے۔۔۔۔۔اور یہ یہ خاندان مزید خاندانوں سے جڑے ہوئے ہوتے ہیں۔۔۔۔۔ایک خاندان کے اندر ایک شخص۔۔۔۔۔۔جب بدلنے کی کوشش کرے گا۔۔۔۔تو اثر خاندان پر پڑتا ہے۔۔۔۔پھر چلتے چلتے ایک دن پورے معاشرے میں اثرات مرتب ہوتے ہیں۔۔۔۔۔۔ہم کئی دہائیوں کا رونا تو خوب روتے ہیں۔۔۔۔مگر کیا کیا ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔اس پر ابھی بھی بحث و مباحث کے کئی محافل گرم ہیں۔۔۔۔۔۔۔۔ہونی چاہیے۔۔۔کہ غور و فکر کی دعوت توقرآن میں بھی دی گئی ہے۔۔۔۔۔مگر اس غور و فکر سے سبق جب تک نہیں سیکھیں گے اور سیکھ کر عمل کرنے کی کوش ۔۔۔۔۔۔اجتماعی نہ سہی۔۔۔۔انفرادی سطح پر جب تک اس کا اطلاق نہیں ہوگا۔۔۔۔کچھ بھی نہیں بدلے گا۔۔۔۔۔۔۔۔ہاں رونے والے بدلتے رہیں گے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔رونا بھی اچھی بات ہے۔۔۔۔۔مگر کبھی کبھی ۔۔۔۔۔ہر وقت کا جس ہنسنا بربادی ہے۔۔۔۔۔۔۔۔غفلت ہے۔۔۔۔۔۔اسی طرح ہر وقت کا رونا بھی کاہلی ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔سستی ہے۔۔۔۔۔۔اور کاہل و سست لوگ جانب منزل چلتے نہیں۔۔صرف دیکھتے ہیں۔۔۔۔۔۔۔۔حقیقت یہ ہے کہ منزل اسے ملتی ہے جو چلتا بھی ہے۔۔۔۔۔۔دیر سویر کوئی بات نہیں۔۔۔۔۔مگر چلنا شرط ہے نا کہ صرف دیکھنا۔۔۔۔۔۔۔یاسر بھائی فکر انگیز تحریر کے لیے بہت بہت شکریہ۔۔۔۔۔۔۔واصف بھائی آپ تبصرے بھی ہمیشہ کی طرح شاندار ہیں۔
     

اس صفحے کو مشتہر کریں