1. اس فورم پر جواب بھیجنے کے لیے آپ کا صارف بننا ضروری ہے۔ اگر آپ ہماری اردو کے صارف ہیں تو لاگ ان کریں۔

اک اور سال بیت گیا ۔۔۔۔۔خواتین کے حوالے سے کیسا رہا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔تحریر : نجف زہرا تقوی

'گوشہء خواتین' میں موضوعات آغاز کردہ از intelligent086, ‏9 جنوری 2020۔

  1. intelligent086
    آف لائن

    intelligent086 ممبر

    شمولیت:
    ‏28 اپریل 2013
    پیغامات:
    7,273
    موصول پسندیدگیاں:
    797
    ملک کا جھنڈا:
    اک اور سال بیت گیا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔تحریر : نجف زہرا تقوی
    خواتین کے حوالے سے کیسا رہا؟
    پر لگائے2019بھی ہم سے رخصت ہوگیا۔یوں محسوس ہورہاہے کہ روز مرہ کے معمولات نمٹاتے صبح سے شام اور رات آنے کے بعد اگلے دن کا انتظار کرتے اچانک ایک شور سا اٹھا اور پتا چلا کہ اکیسویں صدی کے بیسویں سال کا آغاز ہو گیا۔زندگی کے باقی سالوں کی طرح کئی تلخ اور حسین یادیں لیے کیسے پچھلا سال گزر گیا پتا ہی نہیں چلا،کسی کے لیے اداسیاں چھوڑے تو کسی کو خوشیوں کے پیغام دے کر بارہ مہینے اپنے اختتام کو پہنچے،ہر انسان کی کہانی مختلف ہے سب کے اپنے اپنے تجربات رہے ایسے میںچند روز پہلے ہم سے رخصت ہو چکا سال خواتین کے حوالے سے کیسا رہا اس بارے میں ایک تفصیلی رپورٹ قارئین کی نذر ہے۔

    ملنے کے نہیں نایاب ہیں ہم

    روحی بانو:
    ورسٹائل اداکارہ روحی بانو نے گورنمنٹ کالج لاہور سے نفسیات کی تعلیم لینے کے دورا ن ہی ٹی وی پر کام کا آغاز کر دیا۔ اور اسی کی دہائی میں ’’کرن کہانی،زرد گلاب ،قلع کہانی،حیرت کدہ اوردروازہ ‘‘جیسے مشہور ڈراموں میں اپنی اداکاری کے جوہر دکھائے۔روحی نے ٹی وی کے علاوہ کئی فلموں میں بھی کام کیا لیکن ٹی وی پر ان کے کام کو زیادہ سراہا گیا۔روحی بانونے اپنے کیرئیر کے دوران کئی پاکستان ٹیلیویژن ایوارڈ، نگار ایوارڈاور لائف ٹائم اچیومنٹ جیسے ایوارڈز اپنے نام کیے۔ سال2005میں انہیں اپنے جوان بیٹے کے قتل کا اس قدر شدید صدمہ پہنچا کہ یہ شیزو فرینیا نامی دماغی بیماری میں مبتلا ہو گئیں،اور اس کے بعد اپنے کیرئیر بھی جاری نہ رکھ سکیں۔ماضی کی یہ معروف اداکارہ رواں سال ہم سے بچھڑ گئیں۔اداکاری کی دنیا میں روحی بانو کا نام ہمیشہ یاد رکھا جائے گا۔

    ذہین طاہرہ:
    تین دہائیوں تک ٹی وی کے سات سو مختلف ڈراموں میں اپنی فنکارانہ صلاحیتوں سے دیکھنے والوں کو گرویدہ بنا یا۔مشہور ڈرامہ سیریل ’’خدا کی بستی ‘‘میں ان کی اداکاری کو بے حد سراہا گیا۔ذہین طاہرہ نے کچھ ڈرامے پروڈیوس اور ڈائریکٹ بھی کیے۔سال2013میں ان کے کام کو سراہتے ہوئے حکومتِ پاکستا ن کی جانب سے ا نہیں’’ تمغۂ امتیاز‘‘ سے نوازا گیا۔افسوس کہ رواں سال دل کا دورہ پڑنے کے باعث یہ با صلاحیت اداکار دنیائے فانی سے کوچ کر گئیں۔

    شہناز رحمت اُللہ:
    ہر پاکستانی کے کانوں میں گونجنے والے خوبصورت قومی گیت’’سوہنی دھرتی اللہ رکھے‘‘اور’’جیوے جیوے پاکستان ‘‘جیسے مشہور قومی نغمے گانے والی مشرقی پاکستان کی گلوکارہ ’’شہناز رحمت اُللہ ‘‘اس سال67برس کی عمر پانے کے بعد دنیا سے رخصت ہو گئیں۔ان کے گائے ہوئے لازوال گیت تا قیامت سننے والوں کے کانوں میں رس گھولتے رہیں گے۔

    نادیہ فیصل:
    پچھلے بیس سال سے صحافت کی دنیا سے جڑی پاکستا ن کی پہلی ویڈیو جاکی’’ نادیہ فیصل‘‘ نے سال2000میں اپنے کیرئیرکا آغاز ایک نجی ٹی وی چینل سے کیا۔کینسر لاحق ہونے کے بعد اپنی بیماری سے لمبی جنگ لڑنے کے بعد رواں سال نادیہ فیصل انتقال کر گئیں۔

    صبیحہ زاہد:
    چار بار انٹر نیشل سائیکلنگ چمپئن بننے اور سائوتھ ایشین سلور میڈل جیتنے والی ’’صبیحہ زاہد‘‘بتیس سا ل کی عمر میں کینسر سے جنگ ہارنے کے بعد رواں سال دنیائے فانی سے کوچ کر گئیں۔صبیحہ نے پہلی بار سال2013میںخیبر پختونخواہ انٹر ڈویژن سائیکلنگ چمپئن شپ میں ہزارہ ڈویژن کے لیے گولڈ میڈل جیتا۔جس کے بعد انہوں نے سال 2017,2016,2015,2014 اور 2018 میں بھر پور محنت اور لگن سے نیشنل چمپئن شپ جیت کرخراج حاصل کیا۔صبیحہ نے کوریا میں ’’ورلڈ سائیکلنگ اکیڈمی‘‘میں پاکستان کی نمائندگی کی اورانڈیا میں منعقد ہوئے Asian individual time trialsمیں برونز میڈل جیتا۔اس کے علاوہ’’ایشین ٹیم چمپئن شپ‘‘میں سلور میڈل جیت کر اپنی قابلیت کا لوہا منوایا۔صبیحہ زاہد کے چلے جانے سے پڑنے والا خلا برسوں پُر نہیں ہو سکے گا۔

    ہم کسی سے کم نہیں

    جلیلہ حیدر:
    ہمارے لیے نہایت فخر کی بات ہے کہ انسانی حقوق کے لیے آواز اٹھانے والی وکیل ’’جلیلہ حیدر‘‘کا نام ’’برٹش براڈ کاسٹنگ کارپوریشن‘‘(BBC)کی جانب سے دنیا بھرمیں سو متاثر کن خواتین کی فہرست میں شامل کیا گیا ہے۔جلیلہ حیدر پاکستانی خواتین کے حقوق کی بڑی حامی ہیںا ور اس کی خاطر خواتین کو ان کا حق دلانے کے لیے بلا معاوضہ خدمات فراہم کرتی ہیں۔جلیلہ ’’وی دا ہیومن‘‘نامی غیر منافع بخش ادارہ بھی چلا رہی ہیں۔جس کے ذریعے ضرورت مند بچوں اور خواتین کو تحفظ فراہم کیا جاتا ہے۔جلیلہ حیدر کو ایک اعزاز یہ بھی حاصل ہے کہ یہ ہزارہ علاقے کی پہلی خاتون وکیل ہیں۔اپنا نام سو متاثر کن خواتین کی فہرست میں شامل ہونے پر جلیلہ نے خوشی کا اظہار کیا اور ساتھ ہی یہ بھی کہا کہ یہ صرف ان کی اپنی محنت کا نتیجہ نہیں ہے بلکہ اس کا سہرا ان تمام لوگوں کے سر ہے جنہوں نیاپنے معاشرے میںبہتری لانے کے مشن میں نہ صرف ان کی حوصلہ افزائی کی بلکہ ان کا بھر پور ساتھ بھی دیا،اور یہ کہ وہ اپنی کوشش کو مزید بہتر اقدامات کے لیے جاری رکھیں گی۔

    زینب عباس:
    ہم کیوں نہ شکر ادا کریں اپنے خدا وند کریم کا جس نے نہ صرف ہمارے ملک کو دنیا کی ہر نعمت سے مالا مال کیا ہے بلکہ یہاں با ہنر افراد کی بھی کوئی کمی نہیں۔یہاں ’’زینب عباس‘‘جیسی با صلاحیت خواتین موجود ہیں جو اپنے اعتماد اور صلاحیتوں کے باعث دنیا بھر میں پاکستان کی نمائندگی کرتے ہوئے ملک کا نام روشن کر رہی ہیں۔جوش و جذبے سے بھر پور کھیلوں کی خبریں پیش کرنے والی صحافی’’زینب عباس‘‘نے 2019کے ورلڈ کپ کی میزبانی کر کے پاکستان کی پہلی ورلڈ کپ میزبان ہونے کا اعزاز اپنے نام کیا ہے۔

    سلمیٰ زاہد،اقراء خالد:
    صحافت ہو یا سیاست بلاشبہ ہماری خواتین ہر میدان میں نہ کسی سے پیچھے اور نہ ہی کسی سے کم ہیں۔پچھلے چند سالوں میں سیاست کے شعبے میں بھی خواتین کی بڑی تعداد نے متعدد سیٹوں پر کامیابی حاصل کر کے ثابت کیا ہے کہ لوگ خواتین کی صلاحیتوں پر بھی اعتماد کرنے لگے ہیںا ور انہیں آگے بڑھتا ہوا دیکھنا چاہتے ہیں۔اس ہی کی ایک مثال سلمیٰ زاہد اور اقراء خالد ہیں جنہوں نے سال2019میں کینیڈا میں لبرل پارٹی کی جانب سے الیکشن جیت کر دو سیٹیں حاصل کیں۔ہمارے لیے باعثِ فخر ہے کہ پاکستان میں ہی نہیں بلکہ دنیا بھر میں رہنے والی ہمارے ملک کی خواتین مختلف شعبوں میں نام پیدا کر کے وطن کا نام روشن کر رہی ہیں۔

    ناز شاہ:
    سال 2019کے آخر ی مہینے میں برطانوی انتخابا ت میںلیبرپارٹی کی امیدوار’’ناز شاہ‘‘ کامیابی حاصل کر کے تیسری بار ممبر پالیمنٹ منتخب ہوئیں۔

    اسماء شاہین:
    اسماء نے یونیورسٹی آف لاہور سے کمپیوٹر سائنس کی ڈگری حاصل کی اور پھر نیشنل یونیورسٹی آف کمپیوٹر اینڈ ایمرجنگ سائنسز سے ماسٹرز کیا۔اس کے بعد سال2013میں انہوں نے امریکہ کی ملٹی نیشنل انفارمیشن ٹیکنالوجی کمپنیIBM (انٹر نیشنل بزنس مشینز کارپوریشن)میں نوکری حاصل کی۔ان کے بہترین کام اور دن رات کی محنت کو دیکھتے ہوئے کمپنی کی جانب سے انہیں’’بیسٹ آف آئی بی ایم 2019‘‘ایوارڈ سے نوازا گیا۔اسماء پاکستان کی پہلی خاتو ن ہیں جنہیں دنیا کی بڑی کمپنیIBMکی جانب سے کمپیوٹر سائنٹسٹ کا ایوارڈ حاصل کرنے کا اعزاز ملا ہے،جو یقینا پورے ملک کے لیے نہایت فخر کی بات ہے۔

    اقصیٰ کوثر:
    گوگل ڈویلپر ایکسپرٹ ایک عالمی ادارہ ہے جو دنیا بھر میں ذہین بچوں کی نشاندہی کرتا ہے۔کوئی بھی بچہ جو گوگل کی ایک سے زیادہ ٹیکنالوجیز کے بارے میںخاطر خواہ معلومات رکھتا ہووہ با آسانی گوگل ڈویلپر ایکسپرٹ منتخب ہو سکتا ہے۔منتخب ہونے کے بعد آپ کو ایک سال کے عرصے میںاپنی صلاحیت کواستعمال کرتے ہوئے گوگل سروسز میں اپنی خدمات انجام دینی ہوتی ہیں۔ایسی ہی ایک ذہین بچی کی نشاندہی رواں سال گوگل ڈویلپر ایکسپرٹ نے ہمارے ملک سے بھی کی ۔ غیرمعمولی ذہانت کی حامل اقصیٰ کوثر نے نیشنل یونیورسٹی آف سائنس اینڈ ٹیکنالوجی سے الیکٹریکل انجینئرنگ کی ڈگری حاصل کی ۔اقصیٰ مشین لینگوئج میں گوگل ڈویلپر ایکسپرٹ بننے والی پہلی پاکستانی ہیں۔چھوٹی عمر میںاس مشکل کام میں مہارت اور شہرت حاصل کرنے کی وجہ اقصیٰ کی قابلیت اور محنت ہے۔اقصیٰ کوثر سمجھتی ہیں کہ پاکستا ن میں ٹیکنالوجی کے لحاظ سے بے پناہ ٹیلنٹ موجود ہے۔خاص طور پر لڑکیوں کو اس شعبے میں ضرور آنا چاہیے،تا کہ وہ با عزت ذریعہ معاش سے نہ صرف اپنے پیروں پر کھڑی وہ سکیں بلکہ اپنا نام بھی پیدا کر سکیں،اور ملک کی ترقی میں اہم کردار ادا کر سکیں۔اقصیٰ کا کہنا ہے کہ قابلیت کا استعمال کر کے کوئی بھی اپنا نام پیدا کر سکتا ہے،اور انہیں یقین ہے کہ موجودہ دور میں لڑکی ہونا آپ کی ترقی کی راہ میں رکاوٹ حائل نہیں کر سکتا۔

    پاکستانی کرکٹ ٹیم:
    خواتین کی پاکستانی کرکٹ ٹیم نے بھی رواں سال کے اختتام سے پہلے عوام کو بڑا تحفہ دیا۔انہوں نے بنگلہ دیش کی ٹیم کو ٹی20کے فائنل میں شکست دے کر نہ صرف اپنی محنت اور قابلیت کا ثبوت دیا بلکہ یہ سالوں پہلے گائے گئے ملی نغمے کے بول ’’ہم کسی سے کم نہیں‘‘ سچ کر دیئے،اور ثابت کر دیا کہ لاکھ رکاوٹیں ہی کیوں نہ کھڑی کر دی جائیں خواتین کسی شعبے میں کم نہ تھیں اور رہتی دنیا تک ملک و قوم کا سر فخر سے بلند کرتی رہیں گی۔

    سادگی میں بھی قیامت کی ادا ہوتی ہے

    فیشن: اب کچھ بات کرتے ہیں فیشن کی،یوں تو رواں سال مختلف ڈیزائنرز نے دلکش رنگوں میں خواتین کے لیے نت نئے ڈیزائن اور مختلف کمبی نیشن متعارف کروائے لیکن خواتین میں سب سے زیادہ مقبول جو فیشن ہوا اور جس کے بارے میںسب سے زیادہ بات کی گئی وہ ڈچز آف کیمبرج’’کیٹ مڈلٹن‘‘کے دورئہ پاکستان کے دوران پہنے جانے والے ملبوسات ہیں۔ کیٹ مڈلٹن نے پاکستان کے مختلف علاقوں کے دورے کرنے کے دوران پاکستانی ثقافت کے مطابق ملبوسات زیبِ تن کر کے خواتین کو یہ پیغام پہنچایا کہ سادگی اور نفاست سے بھی فیشن کو اپنایا جا سکتا ہے۔ فیروز ی، کاسنی اور مونگیا رنگ ہو یا سبزو سفید کا امتزاج ہماری ثقافت میں ڈھلے تمام رنگوں کے کپڑے جس خوبصورتی اور اعتماد سے ایک غیر ملکی خاتون نے پہنے یہ ظاہر کرتا ہے کہ نہ ہم فیشن میں کسی سے پیچھے ہیں اور نہ ہمارا انداز کسی سے کم ہے۔بس ضرورت ہے تو اتنی سی کہ فخر کے ساتھ اسے اپنایا جائے۔​
     
  2. intelligent086
    آف لائن

    intelligent086 ممبر

    شمولیت:
    ‏28 اپریل 2013
    پیغامات:
    7,273
    موصول پسندیدگیاں:
    797
    ملک کا جھنڈا:

    بیٹیاں سب کے مقدر میں کہاں ہوتی ہیں

    گل سمان:
    سال کے آخری مہینے میں ایک معصوم بچی کے در د ناک قتل نے ہرانسان کا دل دہلا دیا۔تیر ہ سالہ بچی کا قریبی عزیزوں نے رشتہ مانگا تو ماں نے بچی کی عمر کم ہونے کے باعث رشتہ دینے سے انکا ر کر دیا۔جس کے بعد معاملہ جرگے میں گیا اور انسان نما حیوانوں نے ایک معصوم بچی کو ’’کاری‘‘قرار دے کر سنسار کرنے کا حکم سنا دیا۔جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ ہم کتنی ہی نئی دنیائیں کیوں نہ تسخیر کر لیں۔چاند پر پہنچنے کے دعوے کیوں نہ کر لیں ۔چاہے گھنٹوں کا سفر چاہے لمحوں میں طے کر لیں،اور چاہیں توکروڑوں میل دور بیٹھے انسان کو انگلی کے اشارے سے سامنے موجود پائیں،لیکن یہ تمام علم حاصل کرنے اوراکیس صدیاں گزر جانے کے باوجود اس دنیا میں روزِ ازل کی طرح جہالت،بدقسمتی اور حیوانیت کا ہی راج قائم ہے۔جس کی سب سے بڑی مثال معصوم بچی’’ گل سمان‘‘ کا بے رحمانہ قتل ہے۔ہم یقینا جاہل ہیں جو اپنی آنکھوں کے سامنے ظالموں کا انجام دیکھ کر بھی نہیں سیکھ پاتے،اور بھول جاتے ہیں کہ تمام جہانوں کا مالک اوپر بیٹھا ہمیں دیکھ رہا ہے۔جو سینکڑوں سال کی زندگی دینے کے بعدبھی ایک روز اپنے سامنے بُلائے گا اور ہم سے ایک ایک ظلم اور زیادتی کے بارے میں سوال کرے گا۔جانے ہمیں کیوں یاد نہیں رہتا کہ رب کی پکڑ بڑی سخت ہے ۔زمینوں پر نعوذ باللہ خدا بن کر بیٹھنے والے شاید بھول چکے ہیں کہ ان کی اوقات اتنی سی ہے کہ وہ ایک کے بعد دوسری سانس پر بھی اختیار نہیں رکھتے۔

    ہم بلاشبہ بد قسمت ہیں جو بیٹیوں کی صورت حاصل ہونے والی رحمت کو کبھی زندہ دفنا دیا کرتے تھے،تو کبھی کوڑے دانوں میں پھینک دیتے تھے اور اکیسویں صدی میں کہلواتے تو خود کو صاحبِ علم ہیں لیکن زمانئہ جاہلیت کی طرح بیٹیوں کو آج بھی پتھر مار مار کے قتل کر دینے کا ہی رواج عام ہے،اور میں نے کہا کہ اس دنیا میں حیوانیت کا ہی راج قائم ہے تو آپ خود سوچ کر فیصلہ کریں کہ کیا کویہ اہلِ دل انسان کسی معصوم بے گناہ جانور کو بھی پتھر مار کے قتل کر سکتا ہے؟یقینا نہیں تو پھر ایسے ظالمانہ اقدام کرنے والے کندھو ں پر انسان نما چہرے اٹھائے پھرتے حیوان نہیں تو اور کیا ہیں۔

    سال کے اختتام پرآئیے مل کر دعا کریں کہ سب سے بڑا وہ ''رب''ہمیں دلوں کو صاف رکھنے،حسد ،بغض اور کینہ سے پاک رہنے اور ایک دوسرے کے لیے آسانیا ں پیدا کرنے اور خاص طور پر گناہوں سے معافی کی توفیق عطا فرمائے،کیونکہ بے شک دنیا میں کوئی کسی کا اتنی شدت سے انتظار نہیں کرتا جس قدر خدا اپنے بندے کی توبہ کا کرتا ہے۔توبہ کا دروازہ آ ج بھی کھُلا ہے اور ہمارا خُدا بڑا رحیم ہے وہ ایک آنسو اورندامت کے احسا س کے بدلے معاف کر دیتا ہے۔ہمیں ضرورت ہے تو محض اپنے رب سے رجوع کرنے کی اور یہ یاد رکھنے کی کہ ہمیں ''اُسی''کی طرف لوٹ کر جانا ہے۔​
     
  3. intelligent086
    آف لائن

    intelligent086 ممبر

    شمولیت:
    ‏28 اپریل 2013
    پیغامات:
    7,273
    موصول پسندیدگیاں:
    797
    ملک کا جھنڈا:

    عورت مارچ

    قوموں کی عزت ہم سے ہے

    گزشتہ سال خواتین کے حوالے سے ایک اہم موضوع جو قابلِ بحث رہا''عورت مارچ''ہے۔جسے شدید تنقید کا سامنا کرنا پڑا،وجہ عورتوں کی اپنے حقوق کے لیے آواز بلند کرنا نہیں بلکہ اس کے لیے جو طریقہ اپنایا گیا وہ یقینا ناقابلِ قبول تھا،کیونکہ اس مارچ میں اُٹھائے گئے پوسٹرز پر درج ایک بھی تحریر عام عورت کے حقوق اور سوچ کی ترجمانی نہیں کرتی تھی۔ عورت مارچ کے ذریعے اپنے خواتین کے حقوق کے لیے آواز بلند کرنے والی خواتین شاید بھول گئی تھیں کہ دراصل لبرل ازم پاکستانی عورت کا مسئلہ ہی نہیںہے۔ ایک عام عورت کے مسائل کی عکاسی لبرل کلاس نہیں کرسکتی۔کچھ شہروں میں آزادی کی آڑ میں نہ صرف اخلاقیات کا جنازہ نکالا گیابلکہ عورت مارچ کے اصل مقصد کو بھی نقصان پہنچایا گیااور اس کا رخ اصل مسائل کی بجائے تنقید کی طرف موڑ دیا۔محض چند لبرل خواتین کے اس قسم کے مادر پدر آزاد خیالات نہ صرف معاشرے میں بگاڑ کا سبب بنتے ہیں بلکہ انہوں نے عورت کے ان حقیقی مسائل کو بھی پسِ پشت ڈال دیا ہے جن کے حل کے لیئے ایک عام عورت اس عورت مارچ میں آواز بلند کرنے نکلی۔

    معاشرے کی تعمیر و تکمیل میں عورت اور مرد دونوں کا حصہ ہے۔ کامیاب اور اچھے معاشرے کی تکمیل کسی ایک صنف کے بغیر نا ممکن ہے۔ اور یہ بات سمجھنا مرد و زن دونوں پر لازم و ملزم ہے۔مرد کا عورت کو اور عورت کا مرد کو نیچا دکھانا انتہائی کم عقلی کا منہ بولتا ثبوت ہے۔

    کچھ شہروں میں تو ان مسائل کو اچھے طریقے سے اجاگر کیا گیا اور عام عورت نے عورت مارچ میں شرکت کرکے اپنے آواز بلند کی مگر صد حیف ان خواتین پر جو اسے متنازعہ بنا کرنہ صرف خود تنقید و تضحیک کا نشانہ بنیں بلکہ ایک عام عورت کی تذلیل کی مرتکب بھی ہوئیں اور یہ بھول بیٹھیں کہ ''قوموں کی عزت ہم سے ہے ‘‘۔​
     

اس صفحے کو مشتہر کریں