1. اس فورم پر جواب بھیجنے کے لیے آپ کا صارف بننا ضروری ہے۔ اگر آپ ہماری اردو کے صارف ہیں تو لاگ ان کریں۔

اکثریت بھی غیر محفوظ ہے۔۔۔!

Discussion in 'کالم اور تبصرے' started by آصف احمد بھٹی, Sep 25, 2013.

  1. آصف احمد بھٹی
    Offline

    آصف احمد بھٹی ناظم خاص Staff Member

    Joined:
    Mar 27, 2011
    Messages:
    40,593
    Likes Received:
    6,030
    ملک کا جھنڈا:
    اکثریت بھی غیر محفوظ ہے۔۔۔!

    طیبہ ضیاءچیمہ

    پشاور میں مسیحی برادری کے المناک واقعہ پر اظہار تعزیت کے لئے الفاظ کم پڑ گئے ہیں ۔ وطن عزیز میں کوئی انسان محفوظ نہیں رہا،شاید ہی کوئی گھر ایسا ہو جس کے خاندان کا کوئی فرد کسی نہ کسی حادثے میں جاں بحق نہ ہوا ہو،شاید ہی کو فرد ایسا ہو جس کا مال محفوظ رہا ہو، شاید ہی کوئی شخص ایسا ہو، جو بے خوف گھر سے نکل سکتا ہو۔ہر واقعے اور سانحے کے بعد کہہ دیا جاتا ہے کہ’ یہ کام کوئی مسلمان نہیں کر سکتا‘۔۔۔ دہشت گردوں کے ساتھ مسلمان یا اسلام جیسے الفاظ جوڑنا بھی گناہ ہے۔ان درندوں اور وحشیوں کو انسان کہنا بھی انسانیت کی توہین ہے۔ہم ہر وقت اقلیتوں کے غیر محفوظ ہو نے کا رونا روتے رہتے ہیں اور اقلیتیں بھی اپنی محرومیوں کا احساس دلاتی رہتی ہیں جبکہ پاکستان وہ ملک ہے جہاں اکثریت بھی غیر محفوظ ہے۔ہم بارہا لکھ چکے ہیں کہ دہشت گردوں کو طالبان کہہ دینے سے مسئلہ حل نہیں ہو گا اور نہ ہی مذاکرات کو عملی جامہ پہنایا جا سکتا ہے ۔دہشت گردی پر قابو پانا ہے تو اسلحہ کی سپلائی پر قابو پانا ہو گا،ان طاقتوں کو بے نقاب کرنا ہو گا جو پاکستان کو غیر محفوظ اور غیر مستحکم کرنے کا عزم رکھتی ہیں اورجو دہشت گردوں کو اسلحہ و بارود سپلائی کر رہی ہیں۔ان ذرائع کا پتہ لگانا ہو گا جہاں سے ان دہشت گردوں کو ہتھیار اور پیسہ مہیا کیا جا رہاہے۔ ڈرون حملے اور دہشت گردی اگر نہیں روکے جا سکتے تو نیٹو سپلائی تو روکی جا سکتی ہے۔ حملوں کا جواب نیٹو سپلائی روکنے سے دیا جا سکتا ہے۔ہنودو یہودو نصاریٰ کی شر پسندانہ پالیسیوں کو برملا بے نقاب کرنے کی جرات نہیں تو طالبان طالبان طالبان کا شور مچانا بند کر دیں۔گزشتہ بارہ سال سے دہشت گردی سے متعلق جتنے کالم لکھے گئے،سب کا مضمون ایک ہے، ہر دھماکے اور ڈرون حملے کے بعد ایک جیسے الفاظ،تجزیے اور مرثیے رقم ہوتے ہیں ۔اب نہ الفاظ بچے ہیں اور نہ ہی اظہار جذبات میں شدت رہی ہے۔اب تو دہشت گردی پر لکھتے ہوئے بھی شرم محسوس ہونے لگی ہے ،کس کو مورد الزام ٹھہرائیں اور کس سے نجات کی التجاءکریں۔
    امریکی اخبار واشنگٹن پوسٹ لکھتا ہے ’وزیر اعظم نواز شریف کی انتخابی مہم کا ایک مقصد پاکستانی طالبان کی دہشت گردی سے چھٹکارا حاصل کرنا تھاجس میں جاں بحق ہونے والوں کی تعداد 50000 سے تجاوز کر چکی ہے ،ان میں 5000 فوجی شامل ہیں۔نواز حکومت نے طالبان کے ساتھ امن سمجھوتے کی کوششوں کا آغاز کر رکھا تھا،ان میں ابتدا سے ہی مسائل پیدا ہو گئے ہیں۔امریکی اخبار کے خیال میں نواز شریف کی یہ کوشش ملک کی معیشت میں نئی روح پھونکنے کے لئے اہم ہے۔اخبار کے مطابق اقتدار سنبھالنے کے تین ماہ کے اندر طالبان سے مذاکرات کے لئے ملک کی بارہ بڑی سیاسی پارٹیوں کو آمادہ کرنا نواز شریف کی بڑی کامیابی تھی لیکن امن کی کوشش شروع ہونے سے پہلے ہی مسائل پیدا ہو گئے۔امریکی اخبار کے مطابق نواز شریف نے اس بات کی وضاحت نہیں کی کہ ملک میں جو 40 سے زیادہ جنگجو تنظیمیں موجود ہیں ان کا کیا کیا جائے۔ پاکستان کے مشیر برائے امور خارجہ سرتاج عزیز نے نیویارک میں پاکستان کے سرکاری ٹی وی چینل کوانٹرویو دیتے ہوئے کہا ہے کہ مستحکم اور پائیدار خارجہ پالیسی تشکیل دینے کے لئے نواز حکومت پر عزم ہے،خارجہ پالیسی میں اہم تبدیلیاں لانے پر غور ہو رہاہے۔سرتاج عزیز کا کہنا ہے کہ دہشت گردی میں بیرونی عناصر ملوث ہیں ۔ سرتاج عزیز نے کہا کہ اقوام متحدہ کے اجلاس میں پاکستان کی نئی حکومت کے پاس ایک اہم موقع ہے کہ وہ بین الاقوامی دنیا کے خدشات دور کر سکے اور دہشت گردی سے متعلق اپنا موقف بیان کر سکے ۔جنرل اسمبلی کا اجلاس پاکستان کی نئی خارجہ پالیسیاں واضح کرنے کا اہم پلیٹ فارم ہے۔میاں نواز شریف اس وقت نیویارک میں موجود ہیں اور ہفتہ کے روز جنرل اسمبلی میں خطاب کریں گے۔پاکستان میں مسیحی برادری پر دہشت گرد حملوں سے وزیر اعظم کا دورہ نیویارک مزید ”بد مزہ“ ہو گیا ہے۔صدر اوباما اور وزیراعظم منموہن سنگھ سے ملاقات پہلے ہی نا ممکن دکھائی دے رہی تھی، رہی سہی کسر پشاور چرچ پر حملوں نے پوری کر دی۔گو کہ پشاور چرچ کا واقعہ دہشت گردی کے واقعات کا تسلسل ہے مگر اکثر واقعات خاص مواقع پر رونما ہوتے ہیں،حالیہ پشاور کا واقعہ وزیر اعظم نواز شریف کے لئے پیغام تھاکہ وہ امریکہ کی سر زمین پر قدم رکھنے سے پہلے سوچ لیں کہ انہیں بین الاقوامی پلیٹ فارم پر کیا پیغام دینا ہے ۔پاکستان کے عوام بھی حکمرانوں کے گھسے پٹے پیغامات اور خطابات سے بیزار ہو چکے ہیں ۔دہشت گردی کی طرح دہشت گردی کے خلاف جنگ کے بیانات و خطابات بھی تسلسل کا شکار ہو چکے ہیں۔کوئی نئی بات نہیں کوئی نئی راہ نہیں۔طالبان کے ساتھ مذاکرات ایک سراب کے سوا کچھ نہیں ۔نئی حکومت سراب کے پیچھے بھاگنے کی بجائے ،مرض کی تشخیص پر قوت صرف کرے ۔

     
    پاکستانی55 likes this.

Share This Page