1. اس فورم پر جواب بھیجنے کے لیے آپ کا صارف بننا ضروری ہے۔ اگر آپ ہماری اردو کے صارف ہیں تو لاگ ان کریں۔

اپنی نسلوں کی فکر کرو ۔ ۔ ۔

'کالم اور تبصرے' میں موضوعات آغاز کردہ از آصف احمد بھٹی, ‏3 جولائی 2013۔

  1. آصف احمد بھٹی
    آف لائن

    آصف احمد بھٹی ناظم خاص سٹاف ممبر

    شمولیت:
    ‏27 مارچ 2011
    پیغامات:
    40,593
    موصول پسندیدگیاں:
    6,030
    ملک کا جھنڈا:
    اپنی نسلوں کی فکر کرو ۔ ۔ ۔
    کالم نگار : - طیبہ ضیاءچیمہ
    دنیا بھر میں نئی نسل کی بے را ہ روی کا سیلاب امڈ آیا ہے۔اہل مغرب کے مادر پدر طرز زندگی کو مسلم ممالک میں تنقید کا نشانہ بنایا جاتا ہے مگر مسلم دنیا میں نئی نسلوں کی بے راہ روی کا بڑھتا ہوا رحجان دیکھ کر انہیں مسلم ممالک کہتے ہوئے شرم محسوس ہونے لگی ہے۔امریکہ میں مقیم وہ مسلمان جنہو ںنے اپنی اولادوں کی تعلیم و تربیت میں جانیں کھپا دیں ،اب اپنی اگلی نسلوں کے ایمان کی سلامتی کی فکر میں ہیں۔جس ملک میں ہم جنس شادی کو نہ صرف قانونی قرار دے دیا جائے بلکہ انہیں تمام سرکاری فوائد بھی دینے کا قانون منظور کر لیا جائے ،وہاں مسلمان ہی نہیں دیگر قومیں بھی پریشان ہیں ۔امریکی سپریم کورٹ نے ہم جنس شادی کی قانونی اجازت دیتے ہوئے ،ہم جنس شادی شدہ جوڑوں کو سرکاری ملازمتوں کی جانب سے تمام فوائد کا حقدار قرار دیا ہے۔ امریکہ میں ہم جنس کے مخالفین نے ہم جنس شادی کو قانونی قرار دئے جانے کے خلاف سپریم کورٹ میں اپیل دائر کر دی ہے۔گزشتہ دنوں برطانیہ میں دو پاکستانی لڑکیوں نے آپس میں شادی کر لی ۔ ریحانہ کوثر پنجاب یونیورسٹی سے پی ایچ ڈی ہے جبکہ ثوبیہ کومل آزاد کشمیر کی رہائشی ہے۔برطانوی کونسل نے اعتراض لگایا کہ اسلام میں ہم جنس کی شادی کی اجازت نہیں لہذا اسے قانونی قرار نہیں دیا جا سکتا مگر پاکستانی لڑکیوں نے کہا کہ وہ برطانیہ کی بالغ شہری ہیں اور یہ ان کی زندگی کا ذاتی فیصلہ ہے، اس پر انہیںہم جنس شادی کی قانونی اجازت دے دی گئی البتہ مسلم کمیونٹی کی جانب سے شدید مخالفت کا سامناکرنا پڑا ۔مسلم کمیونٹی تنقید کے علاوہ اور کر بھی کیا سکتی ہے۔اس طوفان میں وہی محفوظ رہ سکا جس نے طغیانی کا ڈٹ کر مقابلہ کیا اور اسلام کی رسی کو مضبوطی کے ساتھ تھام لیا ۔عقیدہ ایمان کو اپنے بچوں کی گھٹی میں گھوٹ کر پلا دیا۔انٹر نیٹ فحاشی ایک عالمی مسئلہ بنتا جا رہا ہے ۔انٹر نیٹ کے ذریعہ فحش ویب سائٹس اور بیہودہ مواد بچوں اور نوجوان نسل کے اندر زہر کا کام کر رہاہے۔ نئی نسل نفسیاتی و اخلاقی رویوں کا شکار ہو رہی ہے۔پاکستانی قوم گولہ بارود کی دہشت گردی کا ہی شکار نہیں ، انٹر نیٹ کی دہشت گردی بھی اس معاشرے کی نسلوں کو نگل رہی ہے۔بارودی دھماکوں سے جانیں جا رہی ہیں لیکن انٹر نیٹ کے فحش مواد سے اخلاقیات کا خون ہو رہاہے ۔کردار جان سے بھی زیادہ اہم ہے۔ایمان اور اخلاقیات چلی جائیں تو انسان اور حیوان میں تمیز مٹ جاتی ہے ۔ہم نے ایسے والدین بھی دیکھے ہیں جو اپنی گمراہ اولاد کی موت کی دعائیں کرنے پر مجبور ہو جاتے ہیں۔ ایسی اولاد جو، ان کے لئے دنیا و آخرت کی رسوائی کا سبب بن جائے ،سے نجات مانگ رہے ہوتے ہیں ۔والدین کو یہ بات یقینی بنانی چاہئے کہ وہ اپنے بچوں کے انٹر نیٹ کے استعمال پر کڑی نظر رکھیں۔مغرب میں اٹھارہ سال کے بعد بچے خود مختار ہو جاتے ہیں مگر مسلم ممالک میں والدین کم عمر بچوں کے سامنے بھی بے بس دکھائی دیتے ہیں۔نئی نسل نیندکا بہانہ کرکے اپنے کمروں میں چلی جاتی ہے اور والدین بھی بے فکر ہو کر سو جاتے ہیں جبکہ والدین کو چاہئے کہ وہ بچوں کا دروازہ چیک کیا کریں کہ لاک تو نہیں۔بچوں کے کمرے اور الماریوں کا وقتََا فوقتََاجائزہ لیتے رہا کریں۔جب تک اولاد ان کے زیر تربیت ہے ،ان پر کڑی نگا ہ رکھیں۔حدیث مبارکہ ہے کہ” ڈرو اس وقت سے جب والدین اپنی اولاد کے غصہ کے خوف سے انہیں نصیحت کرنا چھوڑ دیں“۔ بیٹی کو اپنی ماں اور لڑکے کو اپنا باپ بنانے سے گریز کریں۔اولاد کو اس کے مقام پر رکھ کر تربیت کی جائے۔ماں باپ کو اپنے رتبہ اور فرائض کو مقدم رکھنا چاہئے ۔بچے پیار کی زبان سمجھ جاتے ہیں مگر جو اولاد سر کشی کا راستہ اختیار کرے ،وہ نہ پیار کی زبان سمجھتی ہے اور نہ ہی سختی ان پر اثر کرتی ہے۔سیاسی گفتگو اور سیاسی ٹی وی شوز پر تبصرے پاکستانی مردوں کا محبوب مشغلہ بنتا جا رہا ہے مگر اولاد کی تعلیم و تربیت کے لئے ان کے پاس وقت نہیں بلکہ کئی باپ تو خود بھی انٹر نیٹ فحاشی کے مرض میں مبتلا ہیں۔حکومت لیپ ٹاپ تقسیم کرنے کی مہم کو روشن پاکستان کی ضمانت قرار دےتی ہے جبکہ اس لیپ ٹاپ کے منفی پہلوﺅں کو اجاگر کرنا بھی روشن پاکستان کے لئے ضروری ہے۔ انٹر نیٹ کے منفی استعمال سے مستقبل کے معماروں کو شدید خطرہ لاحق ہو چکا ہے۔ باپ سمجھتا ہے کہ بچوں کی اچھی تعلیم و تربیت صرف ماں کا فرض ہے ،باپ کا کام صرف پیسہ کمانا ہے جبکہ اولاد کو باپ کی توجہ اور تربیت کی زیادہ ضرورت ہوتی ہے۔نبی کریم ﷺ نے فرمایا ”باپ اپنی اولاد کو جو کچھ دیتا ہے اس میں سب سے بہتر عطیہ اس کی اچھی تعلیم و تربیت ہے“۔امریکی والدین اپنے بچوں کوڈسپلن سکھانے اورانہیں منشیات اور جرائم سے بچانے کے لئے پریشان ہیں ۔باپ خواہ کسی ملک اور مذہب کا ہو اپنی اولاد کو کامیاب اور مضبوط دیکھنا چاہتا ہے ۔ایک باپ کو چاہئے کہ وہ اپنے بیٹے کے ساتھ ہربات کھل کرکرے اور بیٹے کی سرگرمیوں پر کڑی نظر رکھے۔ امریکہ ایک مادر پدر آزاد معاشرہ ہے ، یہاں کا کلچر یہاں کے لوگوں کا طرز زندگی ہے ۔ہم اپنے بچوں کی یہ کہہ کر اسلامی و اخلاقی تربیت کرتے ہیں کہ امریکہ ایک غیر مسلم معاشرہ ہے جبکہ ہمارا دین ان سے مختلف ہے۔ہم لوگ مسلمان ہیں اور ہمارا کلچر اسلام ہے،اسلام حیاءسکھاتا ہے وغیرہ۔ لیکن اسلامی ممالک میں والدین کے پاس کہنے کو یہ الفاظ بھی نہیں ۔گود میںلیپ ٹاپ اور آئی پیڈ رکھے فحش سائٹس کے ساتھ کھیل رہے ہوتے ہیںجبکہ والدین قریب ہوتے ہوئے بھی دور ہوتے ہیں۔انٹر نیٹ کا منفی استعمال بالی ووڈ اور ہالی ووڈ کی فلموں سے بھی زیادہ مہلک ثابت ہو رہاہے۔​
     
    نذر حافی، پاکستانی55 اور عطاءالرحمن منگلوری نے اسے پسند کیا ہے۔
  2. عطاءالرحمن منگلوری
    آف لائن

    عطاءالرحمن منگلوری ممبر

    شمولیت:
    ‏17 اگست 2012
    پیغامات:
    243
    موصول پسندیدگیاں:
    293
    ملک کا جھنڈا:
    یہ حالات دنیائے انسانیت اور خصوصا ملت اسلامیہ کے لئے لمحہ فکریہ ہیں۔اسلام تو عالم انسانیت کی اصلاح کا علمبردار ہے چہ جایئکہ مسلم کہلانے والے بھی ایسی اخلاق سوز حرکات پہ اتر آیئں۔جیسا کہ مذکورہ کالم میں بتایا گیا ہے کہ!
    ''گزشتہ دنوں برطانیہ میں دو پاکستانی لڑکیوں نے آپس میں شادی کر لی ۔ ریحانہ کوثر پنجاب یونیورسٹی سے پی ایچ ڈی ہے جبکہ ثوبیہ کومل آزاد کشمیر کی رہائشی ہے۔برطانوی کونسل نے اعتراض لگایا کہ اسلام میں ہم جنس کی شادی کی اجازت نہیں لہذا اسے قانونی قرار نہیں دیا جا سکتا مگر پاکستانی لڑکیوں نے کہا کہ وہ برطانیہ کی بالغ شہری ہیں اور یہ ان کی زندگی کا ذاتی فیصلہ ہے،''انا للہ وانا الیہ راجعون۔
    قرآن مجید میں ایسے ہی بعض لوگوں کی وجہ سے فرمایا گیا ہے''اولٰئک کاالانعام بل ھم اضل''یعنی ایسے لوگ چوپاؤں کی طرح ہیں بلکہ ان سے بھی بد تر۔
     
    آصف احمد بھٹی اور پاکستانی55 .نے اسے پسند کیا ہے۔
  3. نذر حافی
    آف لائن

    نذر حافی ممبر

    شمولیت:
    ‏19 جولائی 2012
    پیغامات:
    403
    موصول پسندیدگیاں:
    321
    ملک کا جھنڈا:
    عطاءالرحمن منگلوری صاحب آپ نے بہت فکر انگیز اور بروقت تحریر شیئر ہے۔خدا آپ کو سلامت رکھے اور آپ کی توفیقات خیر میں اضافہ فرماءے۔
     

اس صفحے کو مشتہر کریں