1. اس فورم پر جواب بھیجنے کے لیے آپ کا صارف بننا ضروری ہے۔ اگر آپ ہماری اردو کے صارف ہیں تو لاگ ان کریں۔

آسٹریلیا کا مالک کون ؟ ۔۔۔۔ محمد ندیم بھٹی

'متفرقات' میں موضوعات آغاز کردہ از intelligent086, ‏20 مئی 2021۔

  1. intelligent086
    آف لائن

    intelligent086 ممبر

    شمولیت:
    ‏28 اپریل 2013
    پیغامات:
    7,273
    موصول پسندیدگیاں:
    797
    ملک کا جھنڈا:
    آسٹریلیا کا مالک کون ؟ ۔۔۔۔ محمد ندیم بھٹی

    ایک چوتھائی ملک 400 افراد نے خرید لیا
    ہمارے ہاں یہ جاننے کا رواج نہیں ہے کہ ملک کی زمینیں کن افراد یا اداروں کی ملکیت میں ہیں اور کل کلاں وہ ہمارے لئے کون کون سے مسائل پید اکر سکتے ہیں ۔ لیکن دیگر ممالک اپنی جائیدادوں اور ان کے مالکان کے بارے میں گاہے بگاہے رپورٹس مرتب کرواتے رہتے ہیں۔حال ہی میں ایک غیر ملکی جریدے ''دی گارڈین ‘‘ نے ایک ہوشرباء رپورٹ ''آسٹریلیا کا مالک کون؟ ‘‘ شائع کی ہے۔ یعنی آسٹریلیا کی زرعی زمینیں ، چراگاہیں او رہائوسنگ سوسائٹیاں کن لوگوں یا اداروں کے قبضہ میں ہیں ۔رپورٹ سے ایک چونکا دینے والا انکشاف ہو ا... ٹاپ کی 3 چراگاہوں کا تخمینہ 7.4ارب ڈالرز لگایا گیا ہے اور یہ صرف3 ہاتھوں میں ہیں۔آسٹریلیا کا ایک چوتھائی حصہ یعنی 25 فیصد املاک ، چراگاہیں اور زمینیں 400افراد کے تسلط میں ہیں ،کوئنز لینڈ، سائوتھ آسٹریلیا اور ناردرن ٹیریٹری میں 20انتہائی بڑے رقبے بھی چند ہاتھوں میں ہیں۔جس کا مطلب یہ ہوا کہ آسٹریلیا کے 700سٹیشنز (گائوں، قصبات یا شہر ) میں 18.95 کروڑ ہیکٹر چراگاہیں کل 400 افراد یاکمپنیوں کی ملکیت میںہیں۔ چونکہ چراگاہیں آسٹریلیا کے آدھے حصے سے کچھ ہی کم ہیں اس لئے یہ نتیجہ نکالا گیا ہے کہ آسٹریلیا کے ایک چوتھائی حصے کی قسمت 400افراد کے ہاتھوں میں ہے یہ جو چاہیں کر سکتے ہیں۔
    آپ کو یہ جان کر حیرت ہو گی کہ آسٹریلیا کی اونرشپ یعنی ملکیت کئی ہاتھوں میں منتقل ہوئی اولین مالک 60 ہزار برس قدیم اصل باشندے تھے ۔1788ء تک تمام جائیدادیں مقامی باشندوں کی ملکیت میں تھیں کمی پیشی کے ساتھ اب یہ رقبے کل ملک کا 26.7فیصد رہ گئے ہیں۔ اب وہاں برطانیہ ، چین اور امریکہ بھی آسٹریلیا کے مالکان میں شامل ہیں 1.02ہیکٹرز فار م لینڈ برطانیہ ،92 لاکھ ہیکٹرزچین اور 20،20لاکھ ہیکٹرز کے مالکان امریکہ ، کینیڈا، بہاماس اور نیدر لینڈز بھی ہیں۔
    ''کینیڈین گورنمٹ ورکرز فنڈ‘‘، ''نیو یارک ٹیچرز انشورنس فنڈ ‘‘اور ''ڈچ پنشن فنڈ ‘‘ نے بھی زمینیں خرید رکھی ہیں، 63 لاکھ ہیکٹر زپر مشتمل چراگاہیں ان کی ملکیت میں ہیں۔یعنی تین ممالک کے محنت کش بھی ایک بڑے براعظم میں حصہ دار ہیں۔
    یوں آسٹریلیا کی کل 38.5کروڑ زرعی زمین میں سے 5.26کروڑ ہیکٹرز (13.6فیصد) کی ملکیت تو غیر ملکیوں کے پاس ہے۔حکومت نے بھی بڑی تعداد میں سائوتھ، ناردرن اورکوئنز کے علاقوں میں زمینیں لیز پردے رکھی ہیں،ادارے اور کمپنیاں ان زمینوں پر کچھ بھی کرنے کیلئے آزاد ہیں اگر ملک کا نظم و نسق بہتر انداز میں نہ چلایا گیا تو یہ ادارے ، فنڈز اور افراد مسئلہ بھی بن سکتے ہیں۔
    چراگاہوں کی ملکیت انتہائی اہمیت کی حامل ہے ، اسی پرکروڑوں افراد کا روزگار چل رہا ہے لیکن بڑے حصے کا مالک کون ہے یہ نہیں معلوم۔ آف شور کمپنیوں کے نام پر بھی زمینیں لی گئی ہیں۔
    نجی ملکیت میں چراگاہیں اور دیگر رقبے :کل آسٹریلیا کا 54.5فیصد۔جبکہ 5.3 فیصد کی مالک غیر ملکی کمپنیاں ہیں ۔ یہ واضح نہیں ہے کہ باقی ماندہ 53.2فیصد چراگاہوں کاا صل مالک کون ہے۔
    قدیم ، جدی پشتی ملکیت : کل آسٹریلیا کا 26.6فیصد ۔ قدیمی باشندوں کے ٹائٹلز دو طرح کے ہیں ،وہ بھی کچھ علاقوں تک محدود ہیں ۔
    پبلک کی ملکیت:کل آسٹریلیا کا 14.9فیصد۔
    باقی ماندہ رقبے: باقی ماندہ رقبے لیز پر دیئے گئے یا ان کی ملکیت واضح نہیں ہے۔
    اس طرح آسٹریلیا کی زرعی، کھیت، چراگاہیں اور ہائوسنگ سوسائٹیوں پر حکومتی کنٹرول کا اثر رسوخ کم ہوتا جا رہا ہے جبکہ بیرونی طاقتیں بھی اس کی جائیدادوں اور وسائل کی ملکیت حاصل کررہی ہیں مثال کے طور پر پانی ملک کی اہم ترین دولت ہے، چین نے بھی پانی کے کچھ وسائل کی ملکیت حاصل کر لی ہے ۔
    آسٹریلیا کا بڑا حصہ چراگاہوں پر مشتمل ہے ،یہ ملک کا لگ بھگ 44 فیصد ہے ،یعنی چراگاہیں آسٹریلیا کی معیشت چلا رہی ہیں، ان کا ایک حصہ جدی پشتی وراثتوں کے ذریعے تقسیم ہو رہا ہے اور اب چھوٹے رقبوں میں ڈھل چکا ہے جہاں کاشت کاری میں کمی آ رہی ہے ۔ان میں سے کچھ رقبے بادشاہ کی جانب سے لیز کر دیئے گئے ہیں اور کچھ حصہ کمپنیوں کی ملکیت میں ہے۔ان میں سے بھی سب سے زیادہ چراگاہوںکا قبضہ کان کنی کی ان داتا گینا رائن ہارٹ (Gina Rinehart) نامی ایک خاتون کے پاس ہے۔ وہ 1.2فیصد آسٹریلیا (92لاکھ ہیکٹرز)کی تن تنہا مالک ہیں ۔یہ ملکیتی جائیدادیں انہوں نے 3 کمپنیوں کے ذریعے حاصل کر رکھی ہیں۔ ایک اور کارپوریٹ ''مگر مچھ ‘‘ ہے ... ''آسٹریلین ایگریکلچرل کمپنی ‘‘۔مذکورہ کمپنی آسٹریلوی سٹاک مارکیٹ میں بھی رجسٹرڈ ہے۔لیکن اس کے زیادہ تر حصص بہاماس میں رجسٹرآف شور کمپنی ''AAٹرسٹ ‘‘ کی ملکیت میں ہیں جبکہ کمپنی کاانتظامی کنٹرول برٹش ارب پتی جولیوس نے سنبھال رکھا ہے۔ یہ ارب پتی شخص برطانیہ کی ایک فٹ بال ٹیم کا مالک بھی ہے۔یہ بڑا پیچیدہ کھیل ہے، کمپنی کے اصل مالک کا ہی پتہ نہیں چل رہا اور اگر پتہ چل بھی جائے تو کسی بھی وقت بیرون ملک رہتے ہوئے وہ اپنے لئے نیا مالک بھی چن سکتے ہیں۔ یوں مذکورہ کمپنی آسٹریلیا میں پورے ٹیکس دے رہی ہے نہ اس کی املاک پر حکومت کا بس چلتا ہے۔ یہ کمپنی کافی حد تک مادر پدر آزاد ہے۔ جنوبی آسٹریلیا اور ناردرن ٹیرٹری میں 17 املاک وراثتی نوعیت کی ہیں اور کئی سو برسوں سے منتقل ہوتی چلی آ رہی ہیں ۔ان پر کافی حد تک حکومت کا بس چلتا ہے لیکن ان کے بارے میں کہا جا رہا ہے کہ ان کی پیداوار بڑی کمپنیوں کی پیداوار سے میچ نہیں کرتی ،ان پر الزام ہے کہ کم پیداوار لینے کے باعث یہ لوگ ''بھوک بڑھانے‘‘ کے ذمہ دار ہیں۔
    اب ہم دیکھتے ہیں کہ آسٹریلیا میں نجی ملکیت نے ملک کو کتنافائدہ یا نقصان پہنچایا۔ 2021ء میں کورونا وباء کے آتے ہی دنیا بھر میں املاک کی قیمتیں نیچے آ گئیں لیکن آسٹریلیا میں ''رول بینک ‘‘ کی تازہ ترین رپورٹ کے مطابق زمین کی قیمت میں 12.9فیصد اضافہ ہوا۔یہ نجی شعبے کے کنٹرول کا ہی نتیجہ تھا کہ وہاں زمین کی قیمت مسلسل بڑھ رہی ہے۔ اب زرعی زمین کا ایک ہیکٹر 5907ڈالر میں مل رہا ہے۔ ڈاکٹر میلیسا نیووے (Melissa Neave) کے مطابق ''وراثتی جائیدادیں چھوٹے رقبوں پر مشتمل ہیں، چند کارپوریٹ پلیئرز مسائل پیدا کرسکتے ہیں‘‘۔ نیشنل فارمرز ایسوسی ایشن کے مطابق ''2030 ء تک 100ارب ڈالرز کی سالانہ پیداوار کیلئے 8.7 ارب ڈالرز سالانہ کی سرمایہ کاری کرنا پڑے گی اوریہ چھوٹے سرمایہ کار وں کے بس کا روگ نہیں‘‘۔
     

اس صفحے کو مشتہر کریں