1. اس فورم پر جواب بھیجنے کے لیے آپ کا صارف بننا ضروری ہے۔ اگر آپ ہماری اردو کے صارف ہیں تو لاگ ان کریں۔

اِن ہاؤس تبدیلی انحصار صرف نمبرز گیم پر؟ ۔۔۔۔۔ سلمان غنی

'حالاتِ حاضرہ' میں موضوعات آغاز کردہ از intelligent086, ‏29 جنوری 2021۔

  1. intelligent086
    آف لائن

    intelligent086 ممبر

    شمولیت:
    ‏28 اپریل 2013
    پیغامات:
    7,273
    موصول پسندیدگیاں:
    797
    ملک کا جھنڈا:
    اِن ہاؤس تبدیلی انحصار صرف نمبرز گیم پر؟ ۔۔۔۔۔ سلمان غنی

    حکومت کا بڑا مسئلہ کارکردگی ہے تو اپوزیشن کیلئے اس کے اندرونی تضادات‘ یہی وجہ ہے کہ ملک ایک بحرانی اور ہیجانی کیفیت میں مبتلا نظر آ رہا ہے۔ ملک کا بڑا سیاسی المیہ رہا ہے کہ انتخابی کریڈیبلٹی کو جواز بنا کر ہر اپوزیشن حکومت کو دھاندلی کی پیداوار اور ہر حکومت اپوزیشن پر ملک دشمن ایجنڈا اور عوام دشمنی کے الزامات لگاتی نظر آتی ہے جس کے باعث نہ تو سیاست مضبوط ہو سکی ا ور نہ ہی جمہوریت ڈیلیور کرتی نظر آئی جس کے باعث عوام کی زندگیوں میں اطمینان نہ آ سکا۔ آج بھی سیاسی حالات کا جائزہ لیا جائے تو ملک پر ایشوز کی جگہ نان ایشوز کا غلبہ نظر آ رہا ہے۔
    ملک کو درپیش اصل اور بڑا ایشو معاشی چیلنج ہے جس کے نتیجے میں مہنگائی‘ بے روزگاری اور غربت کا دور دورہ ہے۔ تمام تر حکومتی بیانات‘ اعلانات اور اقدامات کے باوجود مہنگائی ہے کہ قابو نہیں جا رہی۔ خصوصاً عام اشیائے ضروریہ کی قیمتوں میں لگنے والی آگ پر قابو پانا صوبائی حکومتوں کی ذمہ داری ہے لیکن حکومتیں گورننس کے بحران سے دوچار ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ حکومتی احکامات اور ہدایات کے باوجود اشیاء کی قیمتیں کنٹرول نہیں ہو پا رہیں ۔ وزیر اعظم کی جانب سے اس کی ذمہ داری مافیاز پر عائد کی جاتی رہی اور وہ مافیاز کو ان کے انجام تک پہنچانے کا عزم ظاہر کرتے نظر آتے رہے مگر عملاً دیکھا جائے تو نہ گندم مافیا پر ہاتھ پڑسکا نہ شوگر مافیا پرقابو پایا جا سکا اسی طرح خوردنی تیل‘ دالوں‘ چاول اور مصالحہ جات کی قیمتیں بھی عوام کی پہنچ سے باہر نظر آئیں ۔وفاقی وزرا ء اور ذمہ داران کے بیانات دیکھے جائیں تو ان کا بڑا مسئلہ صرف اور صرف اپوزیشن نظر آتا ہے اور وہ سارے مسائل کی جڑ اپوزیشن کو قرار دیتے ہوئے اپنی حکومت کے اڑھائی سال گزرنے کے باوجود حزب مخالف کو ہی مورد الزام ٹھہراتے نظر آتے ہیں اور اب اس محاذآرائی اور تنائو سے صورتحال یہاں تک پہنچ چکی ہے کہ مسائل زدہ اور مہنگائی زدہ عوام دونوں کو صورتحال کا ذمہ دار قرار دیتے ہوئے یہ کہتے نظر آتے ہیں کہ ’’یہ سب چور ہیں اور انہیں عوام کی کوئی فکر نہیں۔‘‘

    دوسری جانب اپوزیشن کی سیاست پر نظر دوڑائی جائے تو ان پر بھی حکومت کا بخار سوار ہے۔ وہ مسائل زدہ عوام کی آواز بننے اور اس حوالے سے حکومت کو ٹف ٹائم دینے کے بجائے اس کو گرانے اور بنانے پرمصر نظر آتے ہیں۔ پی ڈی ایم کے پلیٹ فارم سے جاری احتجاجی مہم کا مقصد تو یہ بتایا گیا تھا کہ ہم 2سالہ ناقص کارکردگی کی بنا ء پر حکومت سے نجات چاہتے ہیں اور اس حوالے سے احتجاجی جلسوں‘ لانگ مارچ کے عمل اور منتخب ایوانوں کے اجتماعی استعفوں کے آپشنز کا اعلان کیا تھا لیکن احتجاجی جلسوں کے پروگرام پر عملدرآمد کے بعد اب وہ اپنی حکمت عملی کے حوالے سے کنفیوژ نظر آ رہے ہیں۔ ایک ہی وقت میں وہ احتجاجی استعفوں کی بات کر رہے ہیں اور ساتھ ہی سینیٹ اور ضمنی انتخابات میں بھرپور حصہ لینے کا اعلان بھی کر رہے ہیں۔ ایوانوں میں حکومت کو ٹف ٹائم دینے کا عندیہ بھی ظاہر کر رہے ہیں اور ساتھ ہی لانگ مارچ کا اعلان بھی کرتے نظر آ رہے ہیں۔

    پیپلز پارٹی جو موجودہ سسٹم کی بڑی سٹیک ہولڈر ہے اس نے شروع سے ہی اجتماعی استعفوں کے آپشنز پر تحفظات ظاہر کئے تھے۔ عوامی اور سیاسی حلقوں میں عام رائے یہی تھی کہ پیپلز پارٹی سسٹم کو غیر مستحکم نہیں ہونے دے گی، اور نہ ہی اسمبلیوں سے استعفے دے کر اپنی سندھ حکومت گنوائے گی۔پھر وہی ہوا کہ انہوں نے اس سے یکسر انکار کر کے خصوصاً ضمنی انتخابات بھرپور انداز میں لڑنے کا اعلان کر دیا جس پر پی ڈی ایم کی صفوں میں پریشانی کا اظہار ہوا۔ اس کے بعد مسلم لیگ (ن) نے بھی حالات کا رخ دیکھ کر سینیٹ اور ضمنی انتخاب لڑنے کا اعلان کر دیا، کیونکہ بڑی جماعتیں کبھی نہیں چاہتیں کہ انتخابی میدان کسی کیلئے بھی کھلا چھوڑا جائے ۔ اس صورتحال پر پی ڈی ایم کے سربراہ مولانا فضل الرحمن کے شدید تحفظات ہیں، مگر پی ڈی ایم کے سربراہ کے طور پر محسوس ہو رہا ہے کہ ان کا مائنڈ سیٹ اور ایجنڈا کارگر نہیں ہو پا رہا۔

    رہی بات اِن ہائوس تبدیلی کی تو پی ڈی ایم میں مسلم لیگ (ن) کیلئے بڑا امتحان تھا کیونکہ اس سے قبل مسلم لیگ( ن) اِن ہائوس تبدیلی کی زبردست ناقد رہی ہے اور وہ اس آپشن کو منتخب ایوانوں کی ساکھ تسلیم کرنے کا ذریعہ سمجھتی رہی ہے ویسے بھی دیکھا جائے تو ملکی سیاست میں اِن ہائوس تبدیلی کے آپشن کا انحصار صرف نمبرز گیم پر نہیں ہوتااس کیلئے کچھ اور عوامل بھی دیکھے جاتے ہیں۔ موجودہ صورتحال میں جب اپوزیشن نے لانگ مارچ کی طرف بڑھنا تھا اور اس کیلئے تیاریاں بھی جاری تھیں اس صورتحال میں پیپلز پارٹی کے چیئر مین بلاول بھٹو زرداری کی جانب سے آنے والی اِن ہائوس تبدیلی کی تجویز حکومت پر تو اتنی اثر انداز نہیں ہوئی جتنی پی ڈی ایم پر اثر کرتی نظر آ رہی ہے ۔ سیاسی سوجھ بوجھ رکھنے والوں کا تو کہنا ہے کہ یہ دراصل پی ڈی ایم کے لانگ مارچ پر اثر انداز ہونے کی کوشش ہے۔

    مسلم لیگ( ن) کی پارلیمانی پارٹی کے اجلاس میں بلاول بھٹو کی تجویز، لانگ مارچ ، اور حکومت سے نجات کیلئے حکمت عملی پر تفصیلی غور و خوض کے بعد زور اس امر پر تھا کہ پی ڈی ایم میں کوئی اختلاف نہیں سب حکومت کو گھر بھیجنے پر متفق ہیں۔ فیصلہ اتفاق رائے سے کیا جائے گا البتہ مذکورہ اجلاس میں عدم اعتماد کے حوالے سے تجویز پر کوئی واضح لائن اختیار کرنے کی بجائے یہ معاملہ 4 فروری کے اجلاس پر چھوڑ دیا گیا۔

    جہاں تک اِن ہائوس تبدیلی کی تجویز کا سوال ہے تو یہ محض وقت گزاری اور لانگ مارچ کے آپشن سے بچنے کا عمل ہے کیونکہ وفاق میں اِن ہائوس تبدیلی کی کوئی روایت نہیں ۔ مسلم لیگ (ن) اب بھی نہیں چاہتی کہ پی ڈی ایم کا پلیٹ فارم متاثر ہو یہی وجہ ہے کہ ایک جانب وہ مولانا فضل الرحمن کی احتجاجی سیاست کے ساتھ کھڑی نظر آتی ہے اور دوسری جانب پیپلز پارٹی کو بھی موجودہ صورتحال میں ہاتھ سے گنوانے کی خواہاں نہیں ۔یہی وہ صورتحال ہے جس سے حکومت محفوظ نظر آ رہی ہے اور الٹا اپوزیشن پر چڑھائی کے موڈ میں ہے اور بڑا سوال اپوزیشن کے سامنے یہ کھڑا ہے کہ جس حکومت سے نجات کیلئے مشترکہ سفر کا آغاز کیا گیاتھا اور احتجاجی سیاست کی راہ لی گئی تھی وہ کیا وجوہات ہیں کہ اس کی جانب عملاً پیش قدمی نظر نہیں آ رہی اور جس حکومت کی عوامی کارکردگی پر دو آراء نہیں وہ حکومت اب دفاعی محاذ سے نکل کر جارحانہ موڈ میں دکھائی دے رہی ہے، ایسا کیوں ہے؟




     

اس صفحے کو مشتہر کریں