1. اس فورم پر جواب بھیجنے کے لیے آپ کا صارف بننا ضروری ہے۔ اگر آپ ہماری اردو کے صارف ہیں تو لاگ ان کریں۔

اُجالے ماضی کے ڈاکٹر ابو طالب انصاری

'اردو ادب' میں موضوعات آغاز کردہ از ابوازھر, ‏16 مارچ 2014۔

  1. ابوازھر
    آف لائن

    ابوازھر ممبر

    شمولیت:
    ‏17 فروری 2014
    پیغامات:
    423
    موصول پسندیدگیاں:
    465
    ملک کا جھنڈا:
    النسفی
    النسفی حافظ الدین ابو البرکات مشہور فقیہہ تھے۔ان کی ولادت نسف میں ہوئی۔اسی نسبت سے نسفی مشہور ہوئے۔کرمان کے مدرسہ القطبیتہ السلیمانیہ میں مدرس تھے۔اس کے بعد بغداد آگئے اور یہیں ۷۱۰ ؁.ھ میں انتقال ہوا۔ان کی بہترین تصنیف’’ کتاب المنار فی اصول الفقہ‘‘ ہے۔جس کی شرح بھی انھوںنے’’ کشف الاسرار‘‘ کے نام سے لکھی۔فقہ پر ایک تصنیف ’’کتاب الوافی‘‘ کے نام سے ہے جس کا خلاصہ’’ کنزالدقایق‘‘ ہندوستان کے درس نظامی میں بھی شامل تھا۔اسکے علاوہ انھوںنے ’’مدارک التنزیل ‘‘کے نام سے تفسیر قرآن بھی لکھی۔
     
  2. ابوازھر
    آف لائن

    ابوازھر ممبر

    شمولیت:
    ‏17 فروری 2014
    پیغامات:
    423
    موصول پسندیدگیاں:
    465
    ملک کا جھنڈا:
    سیرافی
    سیرافی ابو سعید الحسن مشہور نحوی ، فقیہہ اور عالم تھے۔ان کی ولادت سیراف میں ۲۹۰ ؁.ھ میں ہوئی۔ابتدائی تعلیم سیراف میں ہی حاصل کی۔اس کے بعد مزید تعلیم کے حصول کے لیے عمان اور بغداد گئے۔جہاں انھوںنے ابوبکر ابن درید کی شاگردی اختیار کرلی۔انھوںنے ادبیات ، فقہ ، ریاضی ، حدیث اور علوم قرآنیہ میں مہارت تامہ حاصل کی۔انہوں نے ۴۰ سال تک مفتی کی خدمات انجام دیں۔
    ان کی مشہور تصانیف المقصورہ ، الفات القطع والوصل ، الجزیرۃالعرب ، المدخل الی الکتاب السیبویہ ، کتاب الوقف والابتداء ہیں۔
     
  3. ابوازھر
    آف لائن

    ابوازھر ممبر

    شمولیت:
    ‏17 فروری 2014
    پیغامات:
    423
    موصول پسندیدگیاں:
    465
    ملک کا جھنڈا:
    شیخ احمد سرہندی (مجدد الف ثانی )
    شیخ احمد سر ہندی ابن شیخ عبدالا حد فاروقی ،دسویں صدی ہجری کے نہا یت ہی مشہور عالم و صوفی تھے ۔ صغرسنی میں ہی قرآن حفظ کر کے اپنے والد سے علوم متداولہ حاصل کیے پھر سیالکوٹ جا کر مولانا کمال الدیّن کشمیری سے معقولات کی تکمیل کی اور اکابر محد ثّین سے فنِ حدیث حاصل کیا ۔ آپ سترہ سال کی عمر میں تمام مراحل تعلیم سے فارغ ہو کر درس و تدریس میں مشغول ہوگئے ۔
    تصوف میں سلسلہ چشتیہ کی تعلیم اپنے والد سے پائی ،قادریہ سلسلہ کی شیخ سکندر کیتھلی اور سلسلہ نقشبندیہ کی تعلیم دہلی جاکر خواجہ محمد باقی با اللہ سے حاصل کی ۔آپ کے علم و بزرگی کی شہرت اس قدر پھیلی کہ روم ، شام ،ماور النہر اور افغانستان وغیرہ تمام عالم اسلام کے مشائخ علماء اور ارادتمند آکرآپ سے مستفیذ ہوتے۔۔
    یہاں تک کہ وہ ’’مجدد الف ثانی ‘‘ کے خطاب سے یاد کیے جانے لگے ۔یہ خطاب سب سے پہلے آپ کے لیے ’’عبدالحکیم سیالکوٹی ‘‘نے استعمال کیا ۔طریقت کے ساتھ وہ شریعت کے بھی سخت پابند تھے ۔
    ایک بار جہانگیر بادشاہ نے آپ کو طلب کیا لیکن دربار کی تہذیب کے مطابق آپ زمیں بوس نہیں ہو ئے ۔جب آپ سے پوچھا گیا تو آپ نے جواب دیا ’’غیراللہ کو سجدہ کرنا حرام ہے ‘‘۔ جہانگیر نے انہیں گوالیار کے قلعہ میں قید کروادیا ۔لیکن تین سال بعد اس شرط پر رہا کردیا کہ لشکر سلطانی کے ساتھ رہیں چنانچہ چند دن یہ پابندی رہی پھر آپ ’سر ہند ‘ آگئے اور یہیں ۲۸،صفر ۱۰۳۴؁ھ میں انتقال کیا ۔ اور شوال ۹۷۱؁ھ میں سر ہند میں طلوع ہونے والا سورج ہمیشہ ہمیشہ کے لیے غروب ہوگیا۔ آپ کی مشہور تصانیف یہ ہیں رسالہ تہلیلہ،رسالہ معید و معاد ،مکا شفات غیبیہ ، آداب المریدین ،معارف اللدنیہ ،رسالہ ردِ شیعہ ،تعلیقات العوارف اور مکتوبات ، مکتوبات کی تین جلدیں گویا علم وعرفان اور رشد و ہدایت کا مخزن ہیں ۔
     
  4. ابوازھر
    آف لائن

    ابوازھر ممبر

    شمولیت:
    ‏17 فروری 2014
    پیغامات:
    423
    موصول پسندیدگیاں:
    465
    ملک کا جھنڈا:
    شاہ ولی اللہ محدّث دہلوی
    آپ کا تاریخی نام عظیم الدّین ہے ۔ولادت ۱۱۱۴ ؁ھ میں ہوئی ۔سات سال کی عمر میں قرآن حفظ کیا ۔ عربی فارسی کے مروجہ نصاب کی تعلیم اپنے والد سے حاصل کی اور فارغ التحصیل ہو کر ۱۵،سال کی عمر میں اپنے والد سے سلسلہ نقشبندیہ میں بیعت کی ۔ ۱۱۴۳؁ھ میں آپ حج کے لیے گئے تو وہاں بھی آپ نے اکابر علماء سے استفادہ کیا۔ آپ کو بارہویں صدی کا مجدد تسلیم کیا گیا ہے۔ آپ کی سب سے مشہور کتاب’’ حجتہ البالغہ‘‘ ہے ۔ اس کے علاوہ دیگر تصانیف میں فتح الرحمان ، فوز الکبیر ،المصفی المسویٰ، القول الجمیل ،فیوض الحر مین سرور المحزون ،البدور البازغہ ، الدار الثمین اور انفاس العارفین ہیں ۔
     
  5. ابوازھر
    آف لائن

    ابوازھر ممبر

    شمولیت:
    ‏17 فروری 2014
    پیغامات:
    423
    موصول پسندیدگیاں:
    465
    ملک کا جھنڈا:
    شیخ عبدالحق محدّث دہلوی
    دہلی کے مشہور صوفی ،فقیہہ اور محدّث تھے ۔ ان کے مورث اعلیٰ تیمور کے ساتھ بخارا سے دہلی آگئے تھے ۔ ۲۰،سال کی عمر میں تمام علوم دینیہ کی تکمیل کی ۔ہندوستان میں علم حدیث کی اشاعت زیادہ تر انہیں کی ذ ات کی ممنون ہیں ۔ آپ حج کے لیے گئے وہاں اکابر علماء سے استفادہ کیا ۔ آپ شاعر بھی تھے اور ’’حقّی‘‘ تخلّص رکھتے تھے ۔ تصوف میں آپ سلسلہ قادریہ سے وابستہ تھے۔
    ان کی مشہور تصانیف لمعات،اشغہ اللمعات مدارج النبوۃ ،جمع البحرین ذاد المتیقین اور شرح اسماء الرجال بخاری ہیں ۔آپ کی ولادت ۱۵۵۱؁ء میں جبکہ وفات ۱۶۴۲؁ء میں ہوئی۔ مقبرہ قطب مہرولی میں حوض شمسی کے کنارے آپ آسودہ خاک ہیں ۔
     
  6. ابوازھر
    آف لائن

    ابوازھر ممبر

    شمولیت:
    ‏17 فروری 2014
    پیغامات:
    423
    موصول پسندیدگیاں:
    465
    ملک کا جھنڈا:
    مولانا مملوک علی
    مولانا مملوک علی مشہور عالم اور حضرت مولانا خلیل احمد المدنی کے نانا تھے۔مولانا مملوک علی صاحب نے درسیات کا اکثر حصہ ماہتابِہند شاہ عبدالعزیزصاحب قدس سرہ کے ارشدِ تلامذہ حضرت مولانا رشید الدین خانصاحب سے پڑھا تھا۔فلکِعلم کے نیّرین امام ربانی حضرت مولانا رشید احمد گنگوہی وقاسم الخیرات حضرت مولانا قاسم صاحب نانوتوی اور مولانا محمد مظہر صاحب صدرالمدرسین مظاہر علوم سہارنپور جیسی مقدس و مشہور ہستیوں کے استاد تھے۔ان سب حضرات نے علومِ دینیہ و فنونِادبیہ کی پیاس اسی بحرِ ذخارکے آبِ دہن سے بجھائی اور ہر چہار طرف سے پریشان ہوکر اسی آستانہ پر شفا وتسکین پائی تھی۔
     
  7. ابوازھر
    آف لائن

    ابوازھر ممبر

    شمولیت:
    ‏17 فروری 2014
    پیغامات:
    423
    موصول پسندیدگیاں:
    465
    ملک کا جھنڈا:
    مولانا محمد قاسم نانوتویؒ
    حضرت مولانا محمد قاسم نانوتویؒ بارہویں صدی ہجری کی ایک ایسی ممتاز شخصیت ہیں جو نہ صرف اپنے منتخب علم وعمل ،ممتاز اخلاق وکردار اور مثالی کمالات وفضائل ہی کے ساتھ ہندوستان کی سرزمین پر نمایاں ہوئے بلکہ ساتھ ہی ایک ایسا جامع اور ہمہ گیر نصب العین بھی لے کر اٹھے ۔جس میں مردہ دلوں میں روح پھونکنے اور قوم کے مردہ پیکر میں ازسرنو جان ڈالنے کی اسپرٹ موجود تھی اور جس میں عملی طور پر بالآخر یہی تاثیر دکھلائی بھی اور انھیں قوم کا ایک یگانہ روزگار ہیرو پیش کیا۔
    حضرت مولانا نانوتوی ؒایک مسیحائے ملت کی حیثیت سے اس وقت نمایاں ہوئے جب کہ ۱۸۵۷ ؁.ء کے انقلابی دور میں ہندوستان اپنی اسلامی عظمت اور شوکت سے محروم ہورہاتھا۔غرضیکہ ہندوستان کے دین ، دیانت ، سیاست ، شوکت ، علم ، اخلاق اور خودداری کا آفتاب گہن میں آچکا تھا۔اس وقت حضرت مولانا قاسم نانوتوی ؒ نہ صرف اپنی غیر معمولی علم وفضل اور زہد واتقاء کے ساتھ بصورت آفتاب سرزمین ہند پر چمکے جس سے قوم وملت ورطۂ حیرت سے نکلی۔آپ کے نصب العین کا مرکزی نقطہ تعلیمی تھا جس سے علم الٰہی کی شعاعیں ہند وبیرون ہند پر پڑیں۔جس سے سارا عالم استفادہ حاصل کررہا ہے۔بہر حال ملک کے اس مایوس کن حالات میں حضرت مولانا قاسم نانوتویؒ نے اسلام کی تعمیر ودفاع کے لیے اپنے آپ کو ظاہری وباطنی کمالات کے ساتھ پیش کیا۔تلوار کے وقت تلوار سے ، قلم کے وقت قلم سے اور زبان کے وقت زبان سے اسلام اور ملک وملت کی نادرروزگار خدمت انجام دی۔تعلیم کتاب وسنت کی ترویج کے لیے آپ کا مرکزی مورچہ دارالعلوم دیوبند اعلاء کلمۃ اللہ کے لیے شاملی کا میدان ہموار ہوا۔دینی مدافعت کا میدانِ مباحثہ شاہجہاں پور روڈکی ومیرٹھ بنا۔غرض کہ دین ودنیا کا وہ کون سا شعبہ ہے جہاں حضرت مولانا قاسم نانوتوی ؒنے اپنے نقوش نہ چھوڑے ہوں۔
     
  8. ابوازھر
    آف لائن

    ابوازھر ممبر

    شمولیت:
    ‏17 فروری 2014
    پیغامات:
    423
    موصول پسندیدگیاں:
    465
    ملک کا جھنڈا:
    مولانا محمودحسن
    شیخ الہند مولانا محمودالحسن ۱۸۵۱؁.ء میں بریلی میں پیدا ہوئے۔ان کے والد مولوی ذوالفقار علی بریلی میں ہی بسلسلۂملازمت مقیم تھے۔دارالعلوم دیو بند میں تعلیم کی تکمیل کے بعد وہیں مدرس مقرر ہوئے۔کئی مشہور علماے عہد ان کے شاگرد تھے۔ملک کی آزادی کی تحریک میں بھی حصہ لیا اور اسی سلسلے میں قید وبند کی سزا پائی اور جزیرہ مالٹا میں جلا وطن بھی رہے۔
    ۳۰ !نومبر ۱۹۲۰ ؁.ء کو ان کا انتقال ہوااور دیوبند میں دفن ہوئے۔
     
  9. ابوازھر
    آف لائن

    ابوازھر ممبر

    شمولیت:
    ‏17 فروری 2014
    پیغامات:
    423
    موصول پسندیدگیاں:
    465
    ملک کا جھنڈا:
    مولانا حسین احمد مدنی
    شیخ الاسلام مولانا حسین احمد مدنی مشہور عالم اور مجاہد آزادی ہیں۔ان کی ولادت ۱۶!اکتوبر ۱۸۷۹ ؁.ء بمقام بانگر مؤ ،ضلع اناؤ(اتر پردیش) میں ہوئی۔ ان کا تاریخی نام چراغ محمد ،اوران کے والد کا نام سید حبیب اللہ تھا۔ابتدائی تعلیم یہیں پر ہوئی۔مزید تعلیم کے لیے دارالعلوم دیوبند میں داخل ہوئے۔یہاں سے فارغ ہونے کے بعد سعودی عربیہ(مدینہ)چلے گئے۔یہاں انھوں نے کافی وقت گزارا اور اس دوران درس وتدریس کے ساتھ حصول علم کی کوششیں بھی جاری رکھیں۔انھوں نے ملک کی آزادی میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا۔انگریزوں اور ان کی پالیسیوں کی سختی سے مخالفت کی۔نتیجتاًانھیں جیل (مالٹا۔نینی )جانا پڑا۔مولانا حسین احمد ملی نے تقسیم ہندکی بھی ڈٹ کر مخالفت کی ۔جمیعت العلماء سے آخری دم تک وابستہ رہ کرشریعت اور مسلم پرسنل لاء میں تبدیلی کی جم کر مخالفت کی۔حکومت ہند نے ان کی خدمات پرپدم بھوشن ایوارڈ دینا چاہا مگر انھوں نے یہ کہہ کر انکار کردیا کہ جو کچھ انھوں نے اپنے وطن کے لیے کیا ہے وہ ان کی ذمہ داری تھی۔ان کا انتقال ۵ ! دسمبر ۱۹۵۷ ؁.ء میں دیوبند میں ہوا۔
     

اس صفحے کو مشتہر کریں