1. اس فورم پر جواب بھیجنے کے لیے آپ کا صارف بننا ضروری ہے۔ اگر آپ ہماری اردو کے صارف ہیں تو لاگ ان کریں۔

اندھے، بہرے، گونگے اور بے معزے

'حالاتِ حاضرہ' میں موضوعات آغاز کردہ از راشد احمد, ‏28 ستمبر 2009۔

  1. راشد احمد
    آف لائن

    راشد احمد ممبر

    شمولیت:
    ‏5 جنوری 2009
    پیغامات:
    2,457
    موصول پسندیدگیاں:
    15
    ہمارے جعلی، مصنوعی اور غیر خاندانی حکمران طبقات کی تو اوقات ہی کچھ نہیں۔ ان میں سے اکثر انگریز کے درباری، کچھ چوری چکاری کی پیداوار، کچھ مجاور، کچھ شکاری، کچھ مداری ، کچھ بھکاری لیکن اس کے باوجود ان کا خیال ہے کہ یہ ازل سے ہیں اور ابد تک رہیں گے اور استعمار کی عطا کردہ جاگیریں یا نام نہاد آزادی کے بعد لوٹ مار کے اربوں ڈالر ان کی اولادوں کے محافظ ہوں گے ۔
    ان کی تو اوقات ہی کچھ نہیں کہ یہاں تو وہ بھی تنکوں سے ہلکے، بے در بے گھر اور بے نام و نشان ہوگئے جنہوں نے صدیوں کئی کئی براعظموں پر حکومت کی، یہ بچہ سقہ ٹائپ بے شرف اشرافیہ کیا جانے کہ سلطنت عثمانیہ کیا تھی؟ اس کی شان و شوکت ، طاقت و حشمت ، طنطنہ اور دبدبا کیسا تھا؟ اس کی وسعت کتنی تھی اور کتنی صدیوں پر محیط تھی؟
    صرف چند روز پہلے اس عظیم الشان حکمران خاندان کا آخری چشم وچراغ ارطغرل عثمان گمنامی کی موت مرگیا… الامان الحفیظ… کہاں مائیکل جیکسن کی موت پر عالمی سوگ اور ہنگامہ … کہاں شہزادہ ارطغرل کی سنگل کالمی خبراور وہ بھی اس خطہ میں جہاں اس خاندان کی تباہی پر ”تحریک خلافت “ چلائی گئی تھی ۔”بولی اماں یہ شوکت علی کی جان بیٹا خلافت یہ دنیا“
    صدیوں تک دنیا کے بیشتر حصوں پر ترکی سے فرمانروائی کرنے والے عثمانی خلفاء کی آخری نشانی کا استنبول کی اسی تاریخی شہر میں انتقال ہو گیا جو کبھی تین براعظموں پر پھیلی اس عظیم الشان سلطنت کا دارالخلافہ تھا۔ شہزادہ ارطغرل عثمان سلطنت عثمانیہ کے آخری سلطان عبدالحمید کا پوتا تھا۔ عمر ستانوے سال تھی اور کون جانے کہ ارطغزل نے یہ ”ستانوے صدیاں “ کس صلیب پر گزاری ہوں گی۔ وہ اتاترک کے ہاتھوں عثمانی خلافت کے خاتمے اور ترک جمہوریت کے قیام کے بعد مدتوں امریکہ میں دو
    کمروں کے فلیٹ میں زندگی بسر کرتے رہے کہ انقلاب کے وقت ہمارے حکمران بچوں کی طرح مغرب میں زیر تعلیم تھے ۔ اب سے چند برس پہلے جب شہزادہ ارطغرل کو وطن واپسی کی ”اجازت “ ملی تو چشم فلک نے متعدد بار یہ دلخراش منظر بھی دیکھا کہ یہ گمنام شہزادہ قطار میں کھڑا ہو کر ٹکٹ خریدنے کے بعد عام سیاحوں کی طرح ان بحرالعقول عالیشان محلات اور عجائبات میں گم سم پھرا کرتا تھا جو کبھی اس کے تھے، اس کے آباؤ اجداد نے بنوائے تھے اور اس کا بچپن بھی یہیں بیتا تھا۔ایران کے رضا شاہ پہلوی کی اولاد کا انجام بھی ہمارے سامنے ہے اور اس سے پہلے عظیم مغلوں، عالم پناہوں، ظل سبحانیوں کی وہ شہزادیاں بھی ابھی کل کی کہانی ہیں جنہیں دو وقت کی روٹی کیلئے حسینی باورچی جیسوں سے شادیاں کرنی پڑیں اور وہ مغل شہزادے جو اپنے بزرگوں کے دارالحکومت دلی کے اجنبی گلیوں میں بھیک مانگ کر گزر بسر کرتے رہے ۔ جو ”شاہ جہاں“ اور ”عالم گیر “ تھے ۔ ان کے بچے کو کہنا پڑا۔ ”دو گز زمین بھی نہ ملی کوئے یار میں“اور آج کوئی کہے کہ وہ ”مغل” ہے تو لوگ زیر لب مسکراتے اور دل میں کہتے ہیں…”لوہار ہو گا “اندھے نہیں ہو تو عبرت پکڑو۔ بہرے نہیں ہو تو تاریخ اور تقدیر کے فیصلے سنو۔ گونگے نہیں ہو تو …توبہ کی قبولیت تک گڑگڑاؤ۔قسم رب ذوالجلال کی جو انسان میں دنوں کو پھیرتا رہتا ہے بنو امیہ سے سلطنت عثمانیہ تک …روس کے زاروں سے رضا شاہ پہلویوں تک سے عبرت حاصل کرو اور یہ سمجھ لو کہ …تمہاری اولادوں کی عزت، آبرو اور آسودگی کی ضمانت نہ بیرون ملک جائیدادیں ہیں نہ تمہارے غیر ملکی بنک اکاؤنٹس،اپنی اولادوں کا تحفظ چاہتے ہو تو عوام کا تحفظ یقینی بناؤ۔اپنی اولادوں کی عزت درکار ہے تو عوام کی عزت کرنا سیکھو۔اپنی اولادوں کا مستقبل روشن چاہتے ہو تو عوام کے روشن مستقبل کیلئے کام کرو۔حکمرانی انعام ربانی ہے اور جو اس انعام کی بے حرمتی کرے وہ جان لے کہ انعام دینے والے کا انتقام بھی خوفناک ہوتا ہے کہ یہ انعام دراصل پوشیدہ امتحان ہے ۔جس میں ناکامی کی سزا مجرموں کو نہ سہی ان کی اولادوں کو ضرور بھگتنی پڑتی ہے اور عبرت کی یہ دانستان نبی نوع انسان کی پوری ریکارڈڈ تاریخ پر پھیلی ہوئی ہے ۔ہماری حکمران اشرافیہ مغرب کی حکمران اشرافیہ کے سامنے اسی لئے حقیر، کمتر اور ذلیل ورسوا ہے کہ ان کی نظر تو اپنی اجتماعی نسلوں کی فلاح وبہبود پر ہوتی ہے جبکہ یہ کوتاہ قد کوتاہ نظر اپنی ذاتی نسلوں سے آگے نہ کچھ سوچ سکتے ہیں…نہ دیکھ سکتے ہیں نہ محسوس کر سکتے ہیں۔اندھے نہیں ہو تو عبرت پکڑو۔ بہرے نہیں ہو تو تاریخ اور تقدیر کے فیصلے سنو۔ گونگے نہیں ہو تو …توبہ کی قبولیت تک گڑلڑاؤ۔اور اگر تمہاری کھوپڑیوں میں معمولی سا مغز بھی ہے تو سوچو کہ تم خود اپنی نسلوں کے راستوں میں کیسے خونخوار زہریلے کانٹے بچھا رہے ہو۔

    حوالہ روزنامہ جنگ
     
  2. خوشی
    آف لائن

    خوشی ممبر

    شمولیت:
    ‏21 ستمبر 2008
    پیغامات:
    60,337
    موصول پسندیدگیاں:
    37
    بہت خوبصورت تحریر ھے اس پہ تبصرہ کیسا ، اتنا کہوں گی جیسا بوؤ گے ویسا کاٹو گے
     
  3. نعیم
    آف لائن

    نعیم مشیر

    شمولیت:
    ‏30 اگست 2006
    پیغامات:
    58,107
    موصول پسندیدگیاں:
    11,153
    ملک کا جھنڈا:
    شکریہ راشد بھائی ۔
     

اس صفحے کو مشتہر کریں