1. اس فورم پر جواب بھیجنے کے لیے آپ کا صارف بننا ضروری ہے۔ اگر آپ ہماری اردو کے صارف ہیں تو لاگ ان کریں۔

امریکی شدت پسند پاکستان میں موجود ہے‘ ڈرون‘ فضائی حملہ یا فوجی کارروائی کی جا سکتی ہے: امریکی میڈیا

Discussion in 'خبریں' started by پاکستانی55, Feb 12, 2014.

  1. پاکستانی55
    Offline

    پاکستانی55 ناظم Staff Member

    [​IMG]
    واشنگٹن (آن لائن+ ثناء نیوز+ نوائے وقت رپورٹ) امریکی ذرائع ابلاغ نے دعویٰ کیا ہے کہ افغانستان میں اتحادی افواج کی تنصیبات کو نشانہ بنانیوالا شدت پسند پاکستان کے قبائلی علاقوں میں موجود ہے جس کو مارنے کیلئے اوباما انتظامیہ نے پاکستان میں ڈرون حملے پر غور شروع کردیا ہے۔ حکومت اس حوالے سے سی آئی اے کو باقاعدہ اجازت دینے پر غور کر رہی ہے۔ امریکی شہری کو ممکنہ طور پر فضائی حملے یا فوجی کارروائی بھی زیر بحث ہے۔ اس سے قبل امریکی انتظامیہ نے اس ملک کی نشاندہی نہیں کی تھی جہاں القاعدہ سے تعلق رکھنے والا امریکی شہری موجود ہے۔ امریکی حکام کا کہنا ہے کہ پاکستان میں جاری طالبان اور حکومت کے مابین مذاکرات کی وجہ سے ڈرون پالیسی میں تبدیلی نہیں کی۔ امریکی اخبار نیویارک ٹائمز کی رپورٹ کے مطابق یہ پہلا موقع ہے جب پاکستان میں ڈرون حملہ کرنے کے بارے میں غور کیا جارہا ہے جبکہ اس سے قبل اقوام متحدہ اور عالمی برادری کی تنقید کے بعد اوباما انتظامیہ ڈرون حملے ختم کرنے کا عندیہ دے چکی ہے۔ اوباما انتظامیہ پاکستان میں موجود مبینہ امریکی دہشت گرد کو نشانہ بنانے کے لیے فوجی کارروائی کی تیاری کر رہی ہے رپورٹ کے مطابق امریکی دہشت گرد قبائلی علاقوں میں چھپا ہے اور حکومت ٹارگٹ کو نشانہ بنانے کے لیے سی آئی اے کو باقاعدہ اجازت دینے پر غور کر ہی ہے امریکی شہری کو ممکنہ طور پر ڈرون فضائی حملے یا فوجی کارروائی کے ذریعے نشانہ بنایا جا سکتا ہے امریکی حکام کی جانب سے اس مبینہ ہدایت کی نشاندہی نہیں کی گئی حملہ ہوا تو باراک اوباما کی جانب سے ڈرون حملوں میں کمی کے اعلان کے بعد یہ پہلا حملہ ہو گا دوسری جانب میڈیا میں آنے والی سرکاری ای میل میں انکشاف کیا گیا ہے القاعدہ کے رہنما اسامہ بن لادن پر حملے کے موقع پر لی گئی تصاویر ضائع کر دی گئی ہیں اعلی فوجی اہلکاروں نے اپنے ماتحتوں کو تصاویر ضائع کرنے کا حکم دیا تھا۔ امریکی اخبار وال سٹریٹ جنرل نے اپنی رپورٹ میں کہا وائٹ ہاس نے افغانستان سے فوجی انخلا کو فی الحال ملتوی کر دیا ہے، امریکی فوجی حکام کا کہنا ہے کہ جب تک افغان صدر حامد کرزئی اپنی مدت صدارت مکمل ہونے سے قبل مجوزہ امریکی سیکورٹی معاہدے پر دستخط نہ کر دیں اس وقت امریکہ کو فوجی انخلا کے منصوبے پر عمل نہیں کرنا چاہئے۔ امریکی اخبار لاس اینجلس ٹائمز کی رپو رٹ میں کہا گیا کہ اگر اس مرحلے پر اس طر ح کی کاروائی کی گئی تو حکومت پاکستان اور طالبان کے مابین جاری مذاکرات کا عمل ڈی ریل ہو سکتا ہے جس سے نہ صرف پاکستان میں بدامنی بڑھے گی بلکہ اس سے افغانستان میں اتحادی افواج پر بھی حملوں میں تیزی آئے گی، اس طرح امریکہ میں حملے کی منصوبہ بندی کر نے والے مشتبہ شخص کی پاکستان میں موجودگی کو جواز بنا کر امریکہ نے پاکستان میں ایک اور میزائل حملے کا منصوبہ بنا لیا۔ دوسری جانب اوباما انتظامیہ میں پاکستان میں مشتبہ امریکی شہری کو میزائل حملے سے نشانہ بنانے کی بحث جاری ہے۔ اس حوالے سے سفارتی حلقوں میں سخت تشویش پائی جا رہی ہے۔ سفارتی حلقوں کا کہنا ہے کہ اس مرحلے پر امریکہ کا یہ اقدام امن کیلئے تباہ کن ثابت ہو گا اور باالخصوص ایسے مرحلے پر جب حکومت پاکستان اور طالبان کے درمیان ابتدائی مرحلوں میں رابطے ہوئے ہیں‘ یہ اقدام کسی صورت بھی قابل برداشت نہیں ہو گا اور اس سے امریکہ کیخلاف مزید نفرت بڑھے گی۔ سفارتی حلقوں کا کہنا تھا کہ امریکہ کے پاس اگر امریکی دہشت گرد کی وہاں موجودگی کے کوئی ٹھوس شواہد موجود ہیں تو اس معاملے کو حکومت پاکستان کے سامنے اٹھایا جائے اور کسی بھی طرح کی یکطرفہ کارروائی سے گریز کیا جائے۔ میڈیا رپورٹ کے مطابق سی آئی اے ڈرون حملہ کر نہیں سکتا کیونکہ اس کو امریکی شہری کو ہلاک کرنے کی اجازت نہیں۔ دوسری جانب وزارت دفاع ڈرون حملہ اس لئے نہیں کر سکتا کہ یہ امریکی شہری دوسرے ملک میں پناہ لئے ہوئے ہے۔ اس علاقے میں امریکی یکطرفہ کارروائی خطرے سے خالی نہیں ہے اور سیاسی طور پر میزائل حملے کہیں زیادہ خطرناک۔دریں اثنا ایک امریکی افسر نے کہا ہے کہ پاکستان میں دو مبینہ امریکیوں کو مارنے کا حکم نامہ نہیں دیا گیا۔ سیف اللہ اور ابو ابراہیم پاکستانی قبائلی علاقوں میں ہیں دونوں امریکی جہادی اسلامی جہادی یونین کی ویڈیو میں نظر آئے دونوں جہادیوں کیخلاف ڈرون آپریشن کی اجازت نہیں دی گئی۔
    http://www.nawaiwaqt.com.pk/E-Paper/Lahore/2014-02-12/page-1/detail-8
     

Share This Page