1. اس فورم پر جواب بھیجنے کے لیے آپ کا صارف بننا ضروری ہے۔ اگر آپ ہماری اردو کے صارف ہیں تو لاگ ان کریں۔

امريکہ – دوست يا دشمن ؟ کچھ حقائق

'کالم اور تبصرے' میں موضوعات آغاز کردہ از فواد -, ‏22 جون 2012۔

  1. فواد -
    آف لائن

    فواد - ممبر

    شمولیت:
    ‏16 فروری 2008
    پیغامات:
    613
    موصول پسندیدگیاں:
    14
    فواد – ڈيجيٹل آؤٹ ريچ ٹيم – يو ايس اسٹيٹ ڈيپارٹمينٹ



    6 دہائيوں سے امريکہ کا ايک مضبوط پاکستان کے ليے پرعزم ساتھ







    فواد – ڈيجيٹل آؤٹ ريچ ٹيم – يو ايس اسٹيٹ ڈيپارٹمينٹ
    digitaloutreach@state.gov
    www.state.gov
    http://www.facebook.com/USDOTUrdu
     
  2. فواد -
    آف لائن

    فواد - ممبر

    شمولیت:
    ‏16 فروری 2008
    پیغامات:
    613
    موصول پسندیدگیاں:
    14
    جواب: امريکہ – دوست يا دشمن ؟ کچھ حقائق

    فواد – ڈيجيٹل آؤٹ ريچ ٹيم – يو ايس اسٹيٹ ڈيپارٹمينٹ


    کچھ راۓ دہندگان نے فورمز پر يہ بالکل درست کہا ہے کہ امريکی حکومت اپنے شہريوں کے مفادات کو مقدم سمجھتی ہے اور يہی ان کے نزديک سب سے اہم مقصد ہے۔ دنيا ميں کسی بھی ملک کی طرح امريکی حکومتی عہديداروں کو بھی بحثيت مجموعی اس بات کا مينڈيٹ ديا جاتا ہے کہ وہ اپنے شہريوں کے مفادات کا تحفظ کريں، ان کی زندگيوں کو محفوظ بنائيں اور عالمی سطح پر ترقی کے مواقع فراہم کريں۔ يہ نا تو کوئ خفيہ ايجنڈا ہے اور نا ہی کو پيچيدہ سازش۔

    يہ عالمی سطح پر ايک تسليم شدہ حقيقت ہے کہ منتخب حکومتيں اپنے لوگوں کے مفادات کا تحفظ کرتی ہیں۔

    ليکن اس ضمن ميں ميرا ايک سوال ہے۔ امريکی عوام کے مفادات کے ليے بہتر کيا ہے؟ زيادہ سے سے زيادہ دوست بنانا جو مختلف سطحوں پر رائج خليج کو پار کر کے ايسے مواقع پيدا کريں جس سے باہم مفادات کے معاملات کو حل کيا جا سکے يا دانستہ امريکہ سے نفرت کو پروان چڑھا کر زيادہ سے زيادہ دشمن تيار کرنا بہتر لائحہ عمل ہے؟

    کونسا طريقہ کار دانش کے اصولوں سے ميل کھاتا ہے اور امريکی مفادات کے تحفظ کے ہمارے تسليم شدہ مقصد کے قريب تر لے کے جا سکتا ہے؟

    دنيا ميں آپ کے جتنے دوست ہوں گے، عوام کے معيار زندگی کو بہتر کرنے کے اتنے ہی زيادہ مواقع آپ کے پاس ہوں گے۔ اس اصول کو مد نظر رکھتے ہوۓ امداد کے عالمی پروگرامز دو ممالک کے عوام کے مفاد اور بہتر زندگی کے مواقع فراہم کرنے کے ليے ايک دوسرے کی مشاورت سے تشکيل ديے جاتے ہيں۔

    يہ کيسی منطق ہے کہ مقامی آبادی کے لیے شروع کيےجانے والے ترقياتی منصوبے جس ميں ان کی اپنی ذمہ داری بھی شامل ہو وہ پاکستان کی رياست کو کمزور کرنے کا سبب بن سکتے ہيں؟

    اس ميں کوئ شک نہيں کہ افغانستان ميں اپنے مقاصد کے حصول کے ليے امريکہ ايک فعال، مستحکم اور مضبوط پاکستان کی ضرورت کو اچھی طرح سے سمجھتا ہے۔ يہ بھی واضح رہے کہ ان مقاصد کا حصول پاکستان کے بھی بہترين مفاد ميں ہے۔ اس کے علاوہ امريکی حکومت اس خطے اور دنيا ميں پاکستان کی ايک قد آور اور اہم مسلم ملک کی حيثيت کو بھی تسليم کرتی ہے۔ پاکستان کا استحکام اور اس کا دفاع نا صرف پاکستان بلکہ خطے اور دنيا کے بہترين مفاد ميں ہے۔ امريکہ اور عالمی برادری يہ توقع رکھتی ہے کہ حکومت پاکستان اپنی سرحدوں کو محفوظ بنا کر پورے ملک پر اپنی رٹ قائم کرے۔

    امريکہ پاکستان ميں ايک منتخب جمہوری حکومت کو کامياب ديکھنے کا خواہ ہے جو نہ صرف ضروريات زندگی کی بنيادی سہولتيں فراہم کرے بلکہ اپنی رٹ بھی قائم کرے۔ اس ضمن میں امريکہ نے ترقياتی منصوبوں کے ضمن ميں کئ سالوں سے مسلسل امداد دی ہے۔ انتہا پسندی کی وہ سوچ اور عفريت جس نے دنيا کے بڑے حصے کو متاثر کيا ہے اس کے خاتمے کے لیے يہ امر انتہائ اہم ہے۔

    ميں پھر اپنے سوال کی جانب واپس آؤں گا کہ جو ميں نے تھريڈ کے آغاز ميں کيا تھا کہ اس حقيقت کو سامنے رکھتے ہوۓ کہ امريکہ اپنے مفادات کا تحفظ چاہتا ہے اور دنيا بھر ميں امريکيوں کی جانوں کو تحفظ دينے کے ليے طويل المدت بنيادوں پر مضبوط اسٹريجک اتحاد تشکيل دينے کا خواہاں ہے اور اسی ضمن ميں کئ دہائيوں سے پاکستان کو امداد بھی فراہم کر رہا ہے تو کيا اس تناظر ميں آپ امريکہ کو دوست گردانتے ہيں يا دشمن؟


    فواد – ڈيجيٹل آؤٹ ريچ ٹيم – يو ايس اسٹيٹ ڈيپارٹمينٹ
    digitaloutreach@state.gov
    www.state.gov
    http://www.facebook.com/USDOTUrdu
     
  3. محبوب خان
    آف لائن

    محبوب خان ناظم سٹاف ممبر

    شمولیت:
    ‏28 جولائی 2008
    پیغامات:
    7,126
    موصول پسندیدگیاں:
    1,499
    ملک کا جھنڈا:
    جواب: امريکہ – دوست يا دشمن ؟ کچھ حقائق

    امریکہ پاکستان حکومتی تعلقات تاریخی نوعیت کے ہیں اور اس میں کوئی شک نہیں۔۔۔۔۔اور ہمیں بھی کوئی شوق نہیں کہ ایک ملک جو پوری دنیا میں سب سے بڑھ کر ہر میدان میں ہماری ضرورتوں کا ۔۔۔۔جہاں وہ اپنے مفادات میں بہتر سمجھتے ہیں۔۔۔۔۔کم از کم عوامی سطح پر یہی نظریہ ہے۔۔۔۔اور مجھے یقین ہے کہ آپ لوگ اس سے بخوبی آگاہ ہونگے۔۔۔۔۔۔۔۔خیال رکھتے رہے ہیں اور کئی موقعوں پر کہ جب آپ سے ہم نے بے جا امیدیں‌رکھیں ۔۔۔۔۔۔۔۔جو کہ ہم کیا کسی کو بھی کسی سے نہیں‌رکھنی چاہیں تو ہمیں مایوس بھی ہونا پڑا۔۔۔۔لیکن اس میں قصور ہمارا اپنا ہی تھا۔۔۔۔کہ مشرق کے لوگ ہر معاملے میں اچھا خاصہ جذباتی ہوتے ہیں۔۔۔۔چین سے آپ کو کس نے ملایا؟۔۔۔۔۔۔۔جواب مجھے اور آپ اور ہم سب کو معلوم ہے۔ چلو آپ بڑے ملک ہیں‌بڑے وسائل رکھتے ہیں۔۔۔۔۔ہمارے پاس اس قدر وسائل نہیں ہیں مگر پھر بھی مثبت انداز میں جو کچھ کرسکتے ہیں بڑھ کر کررہے ہیں۔۔۔مگر یاد رکھیں۔۔۔۔۔۔۔کسی پر احسان یا دوستی کا یہ ہرگز مطلب نہیں‌کہ آپ اس شعور و علم کی صدی میں ہمیں غلام سجھیں۔۔۔۔۔اور یہ الزام کئی موقعوں پر حقیقت نما لگنے لگتا ہے۔۔کئی مثالیں دے سکتا ہوں مگر عرض مکرر کرنے کی چنداں ضرورت نہیں کہ آپ آگاہ ہیں۔

    دوستی ہم بھی چاہتے ہیں۔۔۔۔مگر آپ بھی دوست بنیں۔۔۔۔ناکہ آقا۔

    یاد رکھیں حکومتیں اور پالیسیاں ہر ملک کی بدلتی رہتی ہیں مگر عوام نہیں۔۔۔۔۔اس لیے کوشش کریں کہ پاکستان عوام کا دل جیتیں۔ کہ یہی ایک پائیدار دوستی کا طریقہ ہے اور بہترین اور دیرپا حل ہے۔
     
  4. فواد -
    آف لائن

    فواد - ممبر

    شمولیت:
    ‏16 فروری 2008
    پیغامات:
    613
    موصول پسندیدگیاں:
    14
    جواب: امريکہ – دوست يا دشمن ؟ کچھ حقائق

     فواد – ڈيجيٹل آؤٹ ريچ ٹيم – يو ايس اسٹيٹ ڈيپارٹمينٹ


    امريکہ پاکستان کو گومل ذام ڈيم کی تکميل کے ليے 40 میلین ڈالر دے رہا ہے اس پراجيکٹ کی وجہ سے بجلی ميں 700 ميگا واٹ  کا اضافہ ہوگا۔

    [​IMG]

    http://www.freeimagehosting.net/qspsy

     فواد – ڈيجيٹل آؤٹ ريچ ٹيم – يو ايس اسٹيٹ ڈيپارٹمينٹ
    digitaloutreach@state.gov
    www.state.gov
    http://www.facebook.com/USDOTUrdu
     
  5. محبوب خان
    آف لائن

    محبوب خان ناظم سٹاف ممبر

    شمولیت:
    ‏28 جولائی 2008
    پیغامات:
    7,126
    موصول پسندیدگیاں:
    1,499
    ملک کا جھنڈا:
    جواب: امريکہ – دوست يا دشمن ؟ کچھ حقائق

    ہم آپ کے اس اقدام کو قابل قدر خیال کرتے ہیں۔ امریکہ دنیا کی ایک اہم قوم ہونے کے ساتھ ساتھ جس طرح اپنے وسائل دوسروں قوموں کے ساتھ بانٹتے ہیں ہم اس کے لیے شکر گزار ہیں۔ جس طرح دہشت گردی کے حوالے سے نہ صرف امریکہ بلکہ تمام مہذب قومیں ہماری ان قربانیوں‌کا قدرداں ہے۔ بس درمیان میں کبھی کبھی مستی میں‌۔۔۔۔بالکل ہی عوامی جملہ استعمال کررہا ہوں‌کہ جو ہماری گلیوں میں‌اور محلوں میں بولی جاتی ہے اور اس پر یقین بھی کرتے ہیں۔۔۔۔۔ایسا کام امریکی کرجاتے ہیں جو بہت سے مثبت کاموں پر پانی پھیر دیتا ہیں۔۔۔۔۔۔۔۔اس لیے گزارش ہے کہ اچھی پالیسیوں کو تسلسل کے ساتھ اور عوامی فلاح کے لیے جاری رکھیں۔
     
  6. فواد -
    آف لائن

    فواد - ممبر

    شمولیت:
    ‏16 فروری 2008
    پیغامات:
    613
    موصول پسندیدگیاں:
    14
    جواب: امريکہ – دوست يا دشمن ؟ کچھ حقائق

    پاکستان کے روشن مستقبل کا انحصار ايک مضبوط تعليمی نظام پر ہے – امريکہ مدارس کے طالبموں کو مائيکرو سکالرشپ فراہم کر رہا ہے۔
    [​IMG]
    http://www.flickr.com/photos/usembpak/5630651495/

    فواد – ڈيجيٹل آؤٹ ريچ ٹيم – يو ايس اسٹيٹ ڈيپارٹمينٹ
    digitaloutreach@state.gov
    www.state.gov
    http://www.facebook.com/USDOTUrdu
     
     
  7. محبوب خان
    آف لائن

    محبوب خان ناظم سٹاف ممبر

    شمولیت:
    ‏28 جولائی 2008
    پیغامات:
    7,126
    موصول پسندیدگیاں:
    1,499
    ملک کا جھنڈا:
    جواب: امريکہ – دوست يا دشمن ؟ کچھ حقائق

    امریکہ فل برائٹ سکالر شپ بھی کافی تاریخی اور مسلسل جاری سکالرشپ ہے جو قابل تعریف ہے۔
     
  8. محبوب خان
    آف لائن

    محبوب خان ناظم سٹاف ممبر

    شمولیت:
    ‏28 جولائی 2008
    پیغامات:
    7,126
    موصول پسندیدگیاں:
    1,499
    ملک کا جھنڈا:
    جواب: امريکہ – دوست يا دشمن ؟ کچھ حقائق


    ہمارے ہاں مدرسوں میں عام طور پر پڑھنے والے انتہائی غریب والدین کی اولاد ہیں جو ان کے تعلیمی اخراجات برداشت نہیں کرسکتے۔ مگر یہ بھی چاہتے ہیں کہ ان کے بچے علم حاصل کرسکیں۔۔۔۔اب تو مدرسوں میں دینی تعلیم کے ساتھ ساتھ عصری تعلیم بھی دی جاتی ہے۔ اور وفاقی مدرسہ بورڈ بھی قائم ہے۔ جس کی وجہ سے نصاب وغیرہ مرکزی ہوگئے ہیں۔۔۔۔۔۔۔اس کے علاوہ یہ بھی بتادوں کہ یہ مدرسے جو صرف اور صرف علم کے لیے بنے ہیں۔۔۔۔اگر ان کا کوئی اور استعمال کررہا ہے تو وہ انتہائی غلط ہے۔۔۔۔۔۔پاکستان کے سب سے بڑے فلاحی ادارے ہیں کہ غریب طالب علم نہ صرف پڑھتے ہیں بلکہ ان کا نان نفقہ مع دیگر ضروریات جیسے کپڑے،رہائش وغیرہ۔۔۔انھیں ایک ہی ادارہ سے ملتا ہے۔۔جو چیرٹی کے حوالے سے قابل تعریف ہے۔
     
  9. فواد -
    آف لائن

    فواد - ممبر

    شمولیت:
    ‏16 فروری 2008
    پیغامات:
    613
    موصول پسندیدگیاں:
    14
  10. محبوب خان
    آف لائن

    محبوب خان ناظم سٹاف ممبر

    شمولیت:
    ‏28 جولائی 2008
    پیغامات:
    7,126
    موصول پسندیدگیاں:
    1,499
    ملک کا جھنڈا:
    جواب: امريکہ – دوست يا دشمن ؟ کچھ حقائق

    تعلیمی حوالے سے یہ اور دوسرے تمام کام جو صرف اور صرف تعلیم کے حوالے سے ہیں بہت ہی قابل تعریف کام ہیں۔
     
  11. نعیم
    آف لائن

    نعیم مشیر

    شمولیت:
    ‏30 اگست 2006
    پیغامات:
    58,107
    موصول پسندیدگیاں:
    11,153
    ملک کا جھنڈا:
    جواب: امريکہ – دوست يا دشمن ؟ کچھ حقائق

    تم ہوئے دوست جس کے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ :208:
     
  12. آصف حسین
    آف لائن

    آصف حسین ممبر

    شمولیت:
    ‏23 اکتوبر 2006
    پیغامات:
    1,739
    موصول پسندیدگیاں:
    786
    ملک کا جھنڈا:
    جواب: امريکہ – دوست يا دشمن ؟ کچھ حقائق

    اگر آپ امریکہ کے دشمن ہیں تو ممکن ہے کہ آپ امریکہ سے بچ جائیں لیکن اگر آپ امریکہ کے دوست ہیں تو امریکہ سے بچنا آپ کے لیے ممکن نہیں ------------- ہنری کسنجر
     
  13. فواد -
    آف لائن

    فواد - ممبر

    شمولیت:
    ‏16 فروری 2008
    پیغامات:
    613
    موصول پسندیدگیاں:
    14
    جواب: امريکہ – دوست يا دشمن ؟ کچھ حقائق

    "توانائ کے اس بحران ميں امريکہ آپ کے ساتھ ہے"

    امريکہ نے پاکستان کے توانائ کے شعبے کی ترقی کے ليے 280 ملين ڈالر کی نئ امداد جاری کردی ہے۔ يہ رقم منگلا ڈیم کے بنيادی ڈھانچے ميں بہتری لانے اور تنگی ڈيم پر ضروری کام کروانے پر خرچ ہوگی۔ يہ پاکستان ميں توانائ کے شعبے اور پاکستانی عوام کيےليے امريکہ کی طويل مدتی اور ديرپا اعانت کی تازہ ترين مثال ہے

    [​IMG]

    http://www.freeimagehosting.net/es99s
     

    فواد – ڈيجيٹل آؤٹ ريچ ٹيم – يو ايس اسٹيٹ ڈيپارٹمينٹ
    digitaloutreach@state.gov
    www.state.gov
    http://www.facebook.com/USDOTUrdu
     
  14. فواد -
    آف لائن

    فواد - ممبر

    شمولیت:
    ‏16 فروری 2008
    پیغامات:
    613
    موصول پسندیدگیاں:
    14
    جواب: امريکہ – دوست يا دشمن ؟ کچھ حقائق

    فواد – ڈيجيٹل آؤٹ ريچ ٹيم – يو ايس اسٹيٹ ڈيپارٹمينٹ


    امريکہ کی جانب سے پشاور – طورخم شاہراہ کی تعمير نو کے ليے اعانت

    http://s16.postimage.org/bwuixkbv9/Pesh_Toor.jpg

    امريکہ اپنے بين الاقوامی ترقياتی ادارہ يو ايس ايڈ کے ذريعہ پشاور طورخم شاہراہ کی تعمير نو کے ليے 70 ملين ڈالر تک کی امداد فراہم کرے گا۔ يہ منصوبہ فاٹا سيکريٹريٹ کے زير انتظام اور نيشنل ہائ وے اتھارٹی کی زير نگرانی مکمل کيا جاۓ گا۔

    يو ايس ايڈ کے مشن ڈائريکٹر جاک کانلی نے کہا ہے کہ پشاور سے طورخم کا راستہ صديوں سے پاکستان اور افغانستان کے درميان مشہور ترين تجارتی راستہ رہا ہے۔ شاہراہ کی تعمير نو سے نہ صرف ان ممالک کے مابين تجارت کو فروغ ملے گا بلکہ اس سے ان ملکوں کو اس شاہراہ کو وسط ايشيائ رياستوں کی تجارتی گزرگاہ کے طور پر استعمال کرنے سے اپنی معيشتيں بہتر بنانے ميں مدد ملے گی۔
    پشاور – طورخم کی 46 کلوميٹر طويل شاہراہ پاکستان کی اين – 5 (نيشنل ہائ وے اتھارٹی کے مطابق جی ٹی روڈ کا نام) کا حصہ ہے۔ اس کی اولين تعمير سولہويں صدی کے بادشاہ شير شاہ سوری نے کی تھی اور يہ افغانستان اور وسط ايشيائ رياستوں کا مختصر ترين راستہ ہے۔

    موجودہ شاہراہ کا فرسودہ ڈيزائن خاصی ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہو چکا ہے۔ نۓ ڈيزائن ميں بہتر خصوصيات ہيں جن سے سڑک کھلی ہو جاۓ گی، خطرناک موڑ سيدھے ہو جائيں گے اور انتہائ ڈھلانيں کم ہو جائيں گی۔ منصوبہ ميں پلوں کی تعمير نو اور نکاسی آب کے نالوں کی تعمير بھی شامل ہے جس سے يہ شاہراہ ہر موسم میں قابل استعمال رہے گی۔

    يہ شاہراہ سڑکوں کے اس جال کا حصہ ہے جو امريکی حکومت پاکستان کی حکومت کی اعانت کے ليے تعمير کر رہی ہے۔ اکتوبر 2009 سے اب تک امريکہ فاٹا اور خيبر پختونخواہ ميں 226 کلوميٹر سے زيادہ طويل سڑکيں تعمير کرنے ميں مدد دے چکا ہے جن ميں جنوبی وزيرستان ميں حال ہی ميں تعمير ہونے والی ٹانک – مکين اور کور – وانا سڑکيں بھی شامل ہيں۔ آنے والے برسوں ميں پشاور – طورخم شاہراہ اور امريکی امداد سے چلنے والے سڑکوں کی تعمير کے ديگر منصوبوں سے چار سو کلوميٹر سڑکوں کا اضافہ ہو گا۔

    فواد – ڈيجيٹل آؤٹ ريچ ٹيم – يو ايس اسٹيٹ ڈيپارٹمينٹ
    digitaloutreach@state.gov
    www.state.gov
    http://www.facebook.com/USDOTUrdu
     
  15. فیصل سادات
    آف لائن

    فیصل سادات ممبر

    شمولیت:
    ‏20 نومبر 2006
    پیغامات:
    1,721
    موصول پسندیدگیاں:
    165
    ملک کا جھنڈا:
    جواب: امريکہ – دوست يا دشمن ؟ کچھ حقائق

    مسٹر فواد، اس فورم کے ممبر مہذب ہیں، اسی لیے آپکو بار بار آکر حقائق سے آنکھیں بند کر کے چھوٹی باتیں بیان کرنے کی جرات ہوتی ہے۔ مسلمانوں کے خلاف جنگ جسے "فری میسنز" کے سرکردہ بش سینئر اور جونئر اپنی گندی زبان سے کھلے عام crusade کہہ چکے ہیں۔
    اگر امریکہ پاکستان پر کوئی خرچہ کر رہا ہے تو یہ ان فوائد کے مقابلے میں کچھ نہیں جو اسے مل رہے ہیں۔ اور یہ سب یہاں کے ضمیر فروش حکمرانوں کی بدولت ہے۔
    پاکستان کی ساری معیشت امریکہ کی جنگ کی وجہ سے تباہ و برباد ہو گئی، بے گناہوں معصوموں پر ڈرون سے بم برسائے جاتے ہیں، انہیں برملا دہشت گرد کہا جاتا ہے۔ امریکی عوام سب سے اعلی انسان ہیں، ان کے ہاں کتوں تک کے حقوق کے تحفظ کی تنظیمیں موجود ہیں۔

    مسلمان کی زنگی کیا اتنی ارزاں ہے کہ کتوں کی جان کی قدر ہے، مسلمان کو جب چاہے سوتے میں ہی بم برسا کر مار دیا جائے اور پھر دہشتگرد کی تختی لگا دی جائے؟؟

    مجھے یقین نہیں آتا کی تم جیسا ضمیر فروش شخص مسلمان ہو سکتا ہے۔
    تم ضرور کوئی شنکر لال یا مائیکل ہو جو اردو سیکھ کر ایک مسلمان کے نام سے آ کر لوگوں کو گمراہ کرنے کی ناکام کوشش کر رہا ہے !
     
  16. آصف حسین
    آف لائن

    آصف حسین ممبر

    شمولیت:
    ‏23 اکتوبر 2006
    پیغامات:
    1,739
    موصول پسندیدگیاں:
    786
    ملک کا جھنڈا:
    جس کے امریکہ جیسے دوست ہوں اسے دشمنوں کی کیا ضرورت
     
  17. فواد -
    آف لائن

    فواد - ممبر

    شمولیت:
    ‏16 فروری 2008
    پیغامات:
    613
    موصول پسندیدگیاں:
    14

    فواد – ڈيجيٹل آؤٹ ريچ ٹيم – يو ايس اسٹيٹ ڈيپارٹمينٹ


    اگر آپ انگلش زبان کی لغت ميں لفظ "کروسيڈ" کا مطلب ديکھيں تو آپ کو معلوم ہو گا کہ اس کے جو معنی درج ہيں وہ "ايک مقصد کے حصول کے ليے منظم کوشش" ہے۔ آپ کسی لفظ کا تجزيہ اس ثقافت اور تناظر سے الگ کر کے نہيں کر سکتے جس ميں وہ استعمال کيا گيا ہے۔ امريکی معاشرے ميں منشيات کے خلاف جنگ يا کسی نشے کے خلاف کی جانے والی کوشش اور شديد ردعمل اور ايسے ہی کئ موقعوں پر اس لفظ کا استعمال عام بات ہے۔ جب صدر بش نے اس لفظ کا استعمال کيا تھا تو اس کا مطلب دہشت گردی کے خلاف ايک مضبوط و مربوط اور منظم عالمی کوشش کے حوالے سے تھا۔ انھوں نے اسلام يا کسی مذہبی تصادم کا ذکر تک نہيں کيا تھا۔ يہ جنگ براہراست ان دہشت گردوں کے خلاف تھی جنھوں نے امريکہ پر حملہ کيا تھا۔

    امريکہ اسلام کا دشمن نہيں ہے۔ عالمی تعلقات عامہ کی بنياد اور اس کی کاميابی کا انحصار مذہبی وابستگی پر نہيں ہوتا۔ اس اصول کا اطلاق امريکہ سميت تمام مسلم ممالک پر ہوتا ہے۔

    يہ الزام کہ امريکہ اسلام کے خلاف حالت جنگ ميں ہے اور اس دليل پر مبنی سوچ جس کا ذکر اس تھريڈ ميں کيا جا رہا ہے اس کی بنياد قريب 10 برس قبل سابق صدر بش کی جانب سے استعمال ہونے والے ايک لفظ "کروسيڈ" کی ايک مخصوص انداز میں اختراح کی گئ تشريح ہے۔ ميں پہلے ہی اس تناظر اور حالات کی وضاحت کر چکا ہوں جن ميں سابق صدر نے ان عناصر کے خلاف اجتماعی سطح پر مشترکہ جدوجہد کی اہميت کو اجاگر کرنے کی کوشش کی تھی جنھوں نے 911 کو امريکہ پر حملے کيے تھے۔

    ليکن چونکہ امريکی صدر کی جانب سے ادا کيے جانے والے الفاظ کو راۓ دہندگان "ناقابل ترديد" ثبوت کی حيثيت سے قابل قبول معيار اور پيمانہ تسليم کرتے ہيں تو پھر اسی صدر کے يہ واضح الفاظ اس غلط سوچ کو رد کرنے کے لیے کافی ہونے چاہیے کہ امريکی حکومت اسلام پر جنگ مسلط کرنے کے درپے ہے۔



    اسی ضمن میں چاہوں گا کہ صدر اوبامہ کے نقطہ نظر کو بھی سنيں جنھوں نے متعدد بار بيانات اور تقارير ميں موجودہ امريکی انتظاميہ کی سرکاری پوزيشن واضح کی ہے۔



    اگر آپ کی مکمل دليل اور سوچ ايک سابق امريکی صدر کے غلط تناظر ميں شائع شدہ بيان کی مسخ شدہ تشريح پر مبنی ہے تو پھر اسی اصول اور قاعدے کے مطابق آپ کو موجودہ امريکی صدر کے بيان کو بھی اہميت اور فوقيت دينی چاہيے۔ ان کا يہ بيان بالکل واضح، مکمل اور ابہام سے عاری ہے جسے نہ صرف خود امريکی صدر نے بلکہ تمام اہم امريکی سفارت کاروں اور عہديداروں نے بارہا دہرايا ہے۔

    "ميں يہ واضح کرتا ہوں کہ امريکہ نہ تو اسلام کے ساتھ حالت جنگ ميں ہے اور نہ ہی کبھی ايسا ہو گا۔ ليکن ہم ان دہشت گردوں کا پيچھا ضرور کريں گے جو ہماری سيکورٹی کے لیے شديد خطرہ ہيں۔ کيونکہ ہم بھی اسی بات کی مذمت کرتے ہيں جس کی مذمت تمام مذاہب کے لوگ کرتے ہيں يعنی کہ بے گناہ مردوں، عورتوں اور بچوں کی ہلاکت"۔

    افغانستان اور پاکستان سے متعلق امريکہ کے مقاصد اور پاليسياں مذہب کی بنياد پر نہيں ہيں۔ صدر اوبامہ نے اس بات کا اعادہ قاہرہ ميں اپنے تاريخی خطاب ميں کيا تھا۔

    امريکہ حکومت پاکستان اور پاکستانی فوج کی جانب سے عوام کی حفاظت اور سيکورٹی اور دہشت گردوں کا قلع قمع کرنے کے لیے کی جانے کوششوں کی مکمل حمايت کرتا ہے، جو ہمارے مشترکہ دشمن ہيں۔

    فواد – ڈيجيٹل آؤٹ ريچ ٹيم – يو ايس اسٹيٹ ڈيپارٹمينٹ
    digitaloutreach@state.gov
    www.state.gov
    http://www.facebook.com/USDOTUrdu

     
  18. فواد -
    آف لائن

    فواد - ممبر

    شمولیت:
    ‏16 فروری 2008
    پیغامات:
    613
    موصول پسندیدگیاں:
    14

    فواد – ڈيجيٹل آؤٹ ريچ ٹيم – يو ايس اسٹيٹ ڈيپارٹمينٹ


    اگر آپ انگلش زبان کی لغت ميں لفظ "کروسيڈ" کا مطلب ديکھيں تو آپ کو معلوم ہو گا کہ اس کے جو معنی درج ہيں وہ "ايک مقصد کے حصول کے ليے منظم کوشش" ہے۔ آپ کسی لفظ کا تجزيہ اس ثقافت اور تناظر سے الگ کر کے نہيں کر سکتے جس ميں وہ استعمال کيا گيا ہے۔ امريکی معاشرے ميں منشيات کے خلاف جنگ يا کسی نشے کے خلاف کی جانے والی کوشش اور شديد ردعمل اور ايسے ہی کئ موقعوں پر اس لفظ کا استعمال عام بات ہے۔ جب صدر بش نے اس لفظ کا استعمال کيا تھا تو اس کا مطلب دہشت گردی کے خلاف ايک مضبوط و مربوط اور منظم عالمی کوشش کے حوالے سے تھا۔ انھوں نے اسلام يا کسی مذہبی تصادم کا ذکر تک نہيں کيا تھا۔ يہ جنگ براہراست ان دہشت گردوں کے خلاف تھی جنھوں نے امريکہ پر حملہ کيا تھا۔

    امريکہ اسلام کا دشمن نہيں ہے۔ عالمی تعلقات عامہ کی بنياد اور اس کی کاميابی کا انحصار مذہبی وابستگی پر نہيں ہوتا۔ اس اصول کا اطلاق امريکہ سميت تمام مسلم ممالک پر ہوتا ہے۔

    يہ الزام کہ امريکہ اسلام کے خلاف حالت جنگ ميں ہے اور اس دليل پر مبنی سوچ جس کا ذکر اس تھريڈ ميں کيا جا رہا ہے اس کی بنياد قريب 10 برس قبل سابق صدر بش کی جانب سے استعمال ہونے والے ايک لفظ "کروسيڈ" کی ايک مخصوص انداز میں اختراح کی گئ تشريح ہے۔ ميں پہلے ہی اس تناظر اور حالات کی وضاحت کر چکا ہوں جن ميں سابق صدر نے ان عناصر کے خلاف اجتماعی سطح پر مشترکہ جدوجہد کی اہميت کو اجاگر کرنے کی کوشش کی تھی جنھوں نے 911 کو امريکہ پر حملے کيے تھے۔

    ليکن چونکہ امريکی صدر کی جانب سے ادا کيے جانے والے الفاظ کو راۓ دہندگان "ناقابل ترديد" ثبوت کی حيثيت سے قابل قبول معيار اور پيمانہ تسليم کرتے ہيں تو پھر اسی صدر کے يہ واضح الفاظ اس غلط سوچ کو رد کرنے کے لیے کافی ہونے چاہیے کہ امريکی حکومت اسلام پر جنگ مسلط کرنے کے درپے ہے۔



    اسی ضمن میں چاہوں گا کہ صدر اوبامہ کے نقطہ نظر کو بھی سنيں جنھوں نے متعدد بار بيانات اور تقارير ميں موجودہ امريکی انتظاميہ کی سرکاری پوزيشن واضح کی ہے۔



    اگر آپ کی مکمل دليل اور سوچ ايک سابق امريکی صدر کے غلط تناظر ميں شائع شدہ بيان کی مسخ شدہ تشريح پر مبنی ہے تو پھر اسی اصول اور قاعدے کے مطابق آپ کو موجودہ امريکی صدر کے بيان کو بھی اہميت اور فوقيت دينی چاہيے۔ ان کا يہ بيان بالکل واضح، مکمل اور ابہام سے عاری ہے جسے نہ صرف خود امريکی صدر نے بلکہ تمام اہم امريکی سفارت کاروں اور عہديداروں نے بارہا دہرايا ہے۔

    "ميں يہ واضح کرتا ہوں کہ امريکہ نہ تو اسلام کے ساتھ حالت جنگ ميں ہے اور نہ ہی کبھی ايسا ہو گا۔ ليکن ہم ان دہشت گردوں کا پيچھا ضرور کريں گے جو ہماری سيکورٹی کے لیے شديد خطرہ ہيں۔ کيونکہ ہم بھی اسی بات کی مذمت کرتے ہيں جس کی مذمت تمام مذاہب کے لوگ کرتے ہيں يعنی کہ بے گناہ مردوں، عورتوں اور بچوں کی ہلاکت"۔

    افغانستان اور پاکستان سے متعلق امريکہ کے مقاصد اور پاليسياں مذہب کی بنياد پر نہيں ہيں۔ صدر اوبامہ نے اس بات کا اعادہ قاہرہ ميں اپنے تاريخی خطاب ميں کيا تھا۔

    امريکہ حکومت پاکستان اور پاکستانی فوج کی جانب سے عوام کی حفاظت اور سيکورٹی اور دہشت گردوں کا قلع قمع کرنے کے لیے کی جانے کوششوں کی مکمل حمايت کرتا ہے، جو ہمارے مشترکہ دشمن ہيں۔

    فواد – ڈيجيٹل آؤٹ ريچ ٹيم – يو ايس اسٹيٹ ڈيپارٹمينٹ
    digitaloutreach@state.gov
    www.state.gov
    http://www.facebook.com/USDOTUrdu

     
  19. نذر حافی
    آف لائن

    نذر حافی ممبر

    شمولیت:
    ‏19 جولائی 2012
    پیغامات:
    403
    موصول پسندیدگیاں:
    321
    ملک کا جھنڈا:
    غیر حقیقی باتوں کو حقائق کہنا کیسا لگتاہے؟
     
    پاکستانی55 نے اسے پسند کیا ہے۔
  20. نذر حافی
    آف لائن

    نذر حافی ممبر

    شمولیت:
    ‏19 جولائی 2012
    پیغامات:
    403
    موصول پسندیدگیاں:
    321
    ملک کا جھنڈا:
    کمزور اقوام کو گدھا بنا کر ان پر سواری کرنا کیسا لگتاہے؟
    لوگوں کو روٹی کپڑے اور مکان کی خاطر بے غیرت بنانا کیسا لگتاہے؟
    امریکی صدر کی تقاریر کو نعوذباللہ قرآن و حدیث کی مانند مقدس سمجھنا اور ان کی تفسیر کرنا کیسا لگتاہے؟
    امریکہ کے سامنے دم ہلانا کیسا لگتاہے؟
     
  21. فواد -
    آف لائن

    فواد - ممبر

    شمولیت:
    ‏16 فروری 2008
    پیغامات:
    613
    موصول پسندیدگیاں:
    14

    فواد – ڈيجيٹل آؤٹ ريچ ٹيم – يو ايس اسٹيٹ ڈيپارٹمينٹ

    آپ نے بالکل درست نشاندہی کی ہے کہ ميں اہم امريکی حکومتی اہلکاروں اور سفارت کاروں کے بيانات اور سرکاری رپورٹس کے ذريعے سوالات کے جوابات دينے کی کوشش کرتا ہوں۔ اس کی وجہ بالکل سادہ ہے۔ يہ بيانات امريکہ کی خارجہ پاليسی کے ايجنڈا اور مقاصد کی عکاسی کرتے ہيں۔ امريکی صدر، سفارتی اہلکار اور عہديدار اپنی سرکاری حيثيت ميں ديے گۓ بيانات اور الفاظ کے ليے مکمل ذمہ دار ہوتے ہيں۔

    ميں اس امر سے بخوبی واقف ہوں کہ پاکستان ميں حکومتی عہديداروں اور مختلف حکومتی اداروں کی طرف سے جاری کردہ بيانات اور سرکاری ٹی وی پر خبروں اور رپورٹوں پر عام طور پر بھروسہ نہيں کيا جاتا۔

    پاليسی بيانات کے حوالے سے عام طور پر شکوک و شبہات اور تحفظات پاۓ جاتے ہيں۔ امريکہ ميں بھی پاليسی بيانات کے حوالے سے تنقيد اور تحفظات کا عنصر موجود ہوتا ہے ليکن اس کے ساتھ ساتھ ہر عہديدار اس امر سے بھی واقف ہوتا ہے کہ احتساب کا عمل موجود ہے اور غلط بيانات کے نتيجے ميں ان کے خلاف کاروائ کی جا سکتی ہے۔ جب وائٹ ہاؤس يا اسٹيٹ ڈيپارٹمنٹ کے ترجمان کی جانب سے کسی معاملے پر کوئ بيان جاری کيا جاتا ہے تو وہ اس معاملے پر براہراست امريکی حکومت کے موقف کی ترجمانی کرتا ہے۔

    اس تناظر ميں ان بيانات اور رپورٹس کو نظرانداز نہيں کيا جا سکتا۔


    فواد – ڈيجيٹل آؤٹ ريچ ٹيم – يو ايس اسٹيٹ ڈيپارٹمينٹ
    digitaloutreach@state.gov
    www.state.gov
    http://www.facebook.com/USDOTUrdu

     
    محبوب خان نے اسے پسند کیا ہے۔

اس صفحے کو مشتہر کریں