1. اس فورم پر جواب بھیجنے کے لیے آپ کا صارف بننا ضروری ہے۔ اگر آپ ہماری اردو کے صارف ہیں تو لاگ ان کریں۔

امراض سرما

'میڈیکل سائنس' میں موضوعات آغاز کردہ از intelligent086, ‏14 اکتوبر 2019۔

  1. intelligent086
    آف لائن

    intelligent086 ممبر

    شمولیت:
    ‏28 اپریل 2013
    پیغامات:
    7,273
    موصول پسندیدگیاں:
    797
    ملک کا جھنڈا:

    امراض سرما
    upload_2019-10-14_3-21-33.jpeg

    ڈاکٹر سید اسلم
    کھانسی، نزلہ، زکام اور فلو کا تعلق امراض کے اس گروہ سے ہے جو سردیوں میں آ پکڑتے ہیں۔ ان سب کی علامات زیادہ تر یکساں ہوتی ہیں، ان سب میں جو قدر مشترک ہے وہ یہ ہے کہ ان کا وار بالائی تنفسی مقامات یعنی ناک، کان، حلق وغیرہ پر پڑتا ہے۔ چونکہ یہ سب ہمیں کبھی نہ کبھی ہوئے ہیں، اس لیے ان کو بآسانی پہچانا جا سکتا ہے، قبل اس کے کہ ان کی صحیح وجہ کا علم ہو، یہ ازخود درست بھی ہو جاتے ہیں۔ ان کی تشخیص کے لیے بلغم، خون، پیشاب وغیرہ کی جانچ کرانے کا بھی عموماً کوئی فائدہ نہیں، حالانکہ یہ رواج بھی ہے۔ یہ بات خوش آئند ہے کہ عموماً ان کے کوئی دور رس عواقب نہیں ہوتے، جب ایک مرتبہ انسان صحت یاب ہو جاتا ہے تو یہ یاد بھی نہیں رہتا کہ یہ کبھی ہوئے بھی تھے۔ ان میں اکثر تکالیف کا باعث وائرس ہے، جو انتہائی چھوٹاہوتا ہے اور عام خوردبین سے نہیں دیکھا جا سکتا۔ ان امراض کی عام شکایات چھینکیں، ناک سے ریزش اور کبھی کبھی ناک کا بند ہونا، سوزش حلق، کھانسی، گرانیٔ طبع، حرارت و بخار اور عام نقاہت ہیں۔ ان علامات کی وجہ اس مخملیں فرش کی سوزش اور ورم ہے، جو بالائی تنفسی اقلیم یعنی ناک کان اور حلق وغیرہ میں بچھا ہوا ہے۔ عام طور پر دیکھا گیا ہے کہ ان بیماریوں کا خواہ علاج ہو یا نہ ہو یہ سات آٹھ دن میں خود ٹھیک ہو جاتی ہیں، بشرطیکہ اندرونی طور پر بنیادی کمزوری یا دیگر ہمراہی بیماریوں کے سبب پیچیدگی پیدا نہ ہو گئی ہو۔ اس لیے وہ لوگ جن کو دل اور پھیپھڑوں کی دائمی تکلیف ہے یا ٹھنڈ کے سبب زیادہ بیمار ہو چکے ہیں، وہ چھوٹے بچے اور سن رسیدہ اشخاص جو ظاہر ہے کہ کمزور ہوتے ہیں، ان امراض میں زیادہ مبتلا ہوتے ہیں۔ چونکہ زیادہ تر لوگوں میں یہ ازخود ٹھیک ہو جاتے ہیں، اس لیے امریکیوں کا یہ قول کسی حد تک درست ہے کہ اگر ٹھنڈ کا علاج کیا جائے تو یہ ایک ہفتے میں ٹھیک ہو جاتی ہے اگر نہ کیا جائے تو سات دن میں مرض جاتا رہتا ہے۔ اس گروہ امراض کا ایک رکن انفلوئنزا بھی ہے، انفلوئنزا انفلوئنس، بمعنی اثر۔ انفلوئنزا اور عام نزلہ و زکام کی علامات میں کوئی بین فرق نہیں ہوتا، یہ ناک و حلق کی نرم جھلی پر اثرانداز ہوتا ہے، انفلوئنزا کا خطرہ اس وقت زیادہ ہوتا ہے جب یہ وبا کی شکل میں آتا ہے، خصوصاً جب یہ عالمی وبا ہو۔ گو اس زمانے میں حالت وبا میں اس قدر اموات نہیں ہوتیں جس قدر ماضی میں ہوتی تھیں، مگر یہ کثیر حصۂ آبادی کو ضرور متاثر کرتی ہے اور ایک ہی وقت میں آبادی کا بڑا حصہ بدحال ہو جاتا ہے، جس کی وجہ سے دوررس طبی، معاشی اور دیگر مسائل پیدا ہو جاتے ہیں۔ انفلوئنزا کی وبائیں ابتدائے تاریخ سے نازل ہوتی رہی ہیں۔ گزشتہ چار سو سال میں تقریباً 30 بڑی عالمی وبائیں انفلوئنزا کے باعث آئی ہیں، معمولی قسم کی وبائیں تو ہر دو تین سال بعد آتی رہتی ہیں اور انسانی جانوں کا اتلاف اور مالی نقصان کرتی رہتی ہیں۔ انفلوئنزا وائرس 1933ء میں دریافت ہوا تھا، اس کی تین قسمیں ہیں، الف، ب، ج۔ ان میں الف سب سے زیادہ بری ہے اور تمام عالمی وباؤں کی ذمے دار ہے۔ ب اور ج بالترتیب اپنی شدت میں کم ہیں۔ جب ایک مرتبہ وبائی فلو ہو جائے تو تمام مقامی آبادی میں فلو کے خلاف قوت مدافعت دو تین سال رہتی ہے۔ ہر شخص میں فلو کے خلاف ایک انفرادی مزاحمت بھی ہوتی ہے کہ بہت سے ایسے لوگ دیکھنے میں آتے ہیں جن کو کبھی فلو نہیں ہوا، اور ایسے بھی جن کو اکثر ہوتا رہتا ہے۔ اس قسم کے امراض کی آمد کا زمانہ ابتدائے موسم سرما ہے، جو پہلے بچوں میں اس کے بعد گھر کے بڑوں میں ہوتے ہیں۔ وبا کے زمانہ کے علاوہ نزلہ اور فلو میں تمیز کرنا طبیب کے لیے بھی مشکل ہے گو بعض اشارے ایسے ہیں کہ انفلوئنزا کا شک ہونا چاہیے، انفلوئنزا اچانک ہوتا ہے اور بعض دفعہ تو وہ ساعت بتائی جا سکتی ہے کہ جب تکلیف شروع ہوئی تھی، انفلوئنزا میں اعضا شکنی، درد کمر، درد سر، قے ہوتی ہے اور آنکھوں کے عقب میں دکھن ہوتی ہے، کھانسی خشک اور بے چین کرنے والی ہوتی ہے گو بعد میں سفید جھاگ دار بلغم آتا ہے۔ پسینہ آ سکتا ہے۔ انفلوئنزا کی خاص بات بعد میں ہونے والی اداسی و افسردگی اور سخت نقاہت ہے۔ بعض دفعہ بظاہر افاقے کے بعد مرض پھر عود کر آتا ہے۔ یہ بیماریاں جو نزلہ، زکام اور فلو کی شکل میں آتی ہیں عموماً بے ضرر اور ایک مقرر عرصے میں ٹھیک ہوجانے والی ہیں۔ اس لیے مشورہ یہ ہے کہ ان کا علاج ہلکی اور معمولی ادویہ سے کیا جائے اور جو وقتی تکالیف ہوتی ہیں ان کا ازالہ مختلف طرح کیا جاسکتا ہے۔ طبی مشورے دافع درد، دافع بخار، کھانسی کے شربت، سونگھنے اور ناک میں ڈالنے والی ادویہ اور نیم گرم مشروبات مفید ہیں۔ ہر گھر میں ٹھنڈ کے علاج کے لیے کچھ دیسی اور خاندانی نسخے مثلاً جوشاندہ وغیرہ ہوتے ہیں۔ ان کو استعمال کرنے میں کوئی مضائقہ نہیں۔ بھاپ بھی لی جا سکتی ہے، اس کا طریقہ یہ ہے کہ پانی ابالنے پر کیتلی سے جو بھاپ اٹھتی ہے اس کو سانس کے ساتھ ناک کے راستے اندر کھینچا جائے، اس سے نرم جھلیوں کی ٹکور ہوتی ہے۔ اس میں ٹنکچر بینزوئن کے قطرے بھی طبی مشورے سے ڈالے جا سکتے ہیں۔ نیم گرم شوربا اور پانی بکثرت پیا جائے کہ پانی عفونتی امراض میں مصفی خون ہے۔ گو ان بیماریوں میں ضد حیات یا اینٹی بائیوٹک ادویہ استعمال کرنے کا رواج ہے، لیکن انہیں ڈاکٹر کے مشورے کے بغیر ہرگز استعمال نہ کیا جائے۔ ان ادویہ کو اس مقصد سے قبل از مرض استعمال کرنا کہ بیماری رک جائے، صحیح نہیں۔ نہایت چھوٹے کمزور بچوں اور دل اور پھیپھڑوں کے مریضوں کو ٹھنڈ جلدی لگتی ہے، ان کو ادویہ ڈاکٹر کے مشورے سے دی جاتی ہیں۔ جن لوگوں میں عفونت، حلق سے اتر کر سینے پر گرے، پھیپھڑے متاثر ہو جائیں، ابتدائی بیماری طویل ہو جائے، پیلا بلغم آتا رہے، طبیعت پر گرانی رہے اور سینے کے ایکس رے کے معائنے پر پھیپھڑوں کی خرابی کا پتا چلے تو ایسے بیماروں میں ضدحیات ادویہ استعمال کی جاسکتی ہیں۔ عام حالات میں بہتر علاج یہ ہے کہ مریض کو حوصلہ اور اطمینان دلایا جائے۔ بیمار کے علم میں یہ بات لائی جائے کہ عرصۂ مرض صرف چند روز ہے، اس دوران میں صبر کرے، آرام کرے، سردی سے بچے، اچھی غذا کھائے، جس میں تلی ہوئی، کھٹی اور ٹھنڈی چیزیں نہ ہوں، مزید احتیاط یہ کہ کپڑے سے جسم کو پوری طرح ڈھکیں، موزے، جوتے مناسب ہوں، گلا بند ہو اور آستینیں پوری ہوں۔​
     

اس صفحے کو مشتہر کریں