1. اس فورم پر جواب بھیجنے کے لیے آپ کا صارف بننا ضروری ہے۔ اگر آپ ہماری اردو کے صارف ہیں تو لاگ ان کریں۔

امام حرمِ کعبہ کے دورہ پاکستان کا ایک جائزہ

'کالم اور تبصرے' میں موضوعات آغاز کردہ از نعیم, ‏6 مئی 2015۔

  1. نعیم
    آف لائن

    نعیم مشیر

    شمولیت:
    ‏30 اگست 2006
    پیغامات:
    58,107
    موصول پسندیدگیاں:
    11,153
    ملک کا جھنڈا:
    امام حرمِ کعبہ کے دورہ پاکستان کا ایک جائزہ

    آج کل امام حرم شریف جناب ڈاکٹر خالد الغامدی پاکستان کے دورے پر آئے ہوئے تھے.انکے دورے کے ایک مثبت پہلو کے سوا باقی سب منفی پہلو نظر آئے.
    مثبت پہلو یہ کہ امام کعبہ (یعنی امام حرمِ کعبہ) نے ایک پرائیویٹ ٹی وی چینل پر آکر کہا کہ طالبان اور داعش والے خوارج ہیں, ان کا اسلام سے کوئی تعلق نہیں ہے. امام کعبہ کے اس موقف کے بعد یہ بات واضع ہوگئی کہ تقریبا نو سال پہلے طالبان کے خلاف جو فتوے مفتی سرفراز نعیمی شہید اور علامہ طاہر القادری نے دئیے تھے وہ بالکل صحیح تھے. مفتی سرفراز نعیمی کو طالبان نے خودکش دھماکے کے ذریعے سے شہید کر دیا تھااور کہاتھا کہ انہوں نے مجاہدین کے خلاف فتوی دیا تھا اس لیے انکو قتل کر دیاگیا جبکہ دوسری طرف شیخ الاسلام محمد طاہر القادری نے طالبان کے خلاف چھے سو صفحات پر مشتمل ایک فتوی دیا جس میں انہوں نے قرآن و احادیث سے ثابت کیاکہ تحریک طالبان پاکستان مجاہدین نہیں بلکہ خوارج ہیں, ان کا قلع قمع کرنا ریاست کا فرض اور باعث ثواب کام ہے. اس فتوے کے بعد طالبان اور انکے حامیوں نے طاہرالقادری صاحب کے خلاف شدید پراپیگنڈا کرنا شروع کردیا تھا کہ انہوں نے یہ فتوی امریکی ایماء پر دیا ہے تاکہ امریکی مفادات کا حصول ممکن ہو لیکن اب امام حرم شیخ خالد الغامدی نے طالبان کو خوارج قرار دیکر انکے فتووں پر حق کی مہر ثبت کر دی. ایک افسوسناک امر یہ ہے کہ مفتی سرفرازنعیمی اور طاہرالقادری صاحب کی تکذیب صرف اس لیے کی گئی کہ انکا تعلق پاکستان کی اکثریتی جماعت اہل سنت والجماعت سے تھا اس جرم پر ایک کو شہید کر دیاگیا اور دوسرے کو غدار قرار دیاگیا لیکن اب وہی لوگ امام حرم کے فتوی خوارج کی تصدیق فرما رہے ہیں.
    ان لوگوں کو اب چلو بھر پانی میں شرم سے ڈوب مرنا چاہیے جو طالبان کو اپنا بھائی کہتے تھے اور انکے خلاف آپریشن کی آج تک مخالفت کرتے رہےہیں اور پاکستان آرمی کے شہداء کو شہید ماننے سے انکار کرتے رہے.
    امام حرم نے کہاکہ شیعہ مسلمان ہیں اور ایران اور سعودی عرب قرآن و سنت پر ایک ہو جائیں یعنی تفرقے کی بنیاد پر جاری جنگ روک دیں. اس بات سے لشکر جھنگوی جیسے تکفیری گروپ کی نفی ہوگئی جو شیعوں کو کافر قرار دیکر آئے روز خودکش دھماکوں میں قتل کر رہے تھے اور پاکستان کو ایک فرقہ وارانہ جنگ میں دھکیل رہے تھے.
    لیکن خوارج اور طالبان کی زبانی مذمت کے علاوہ عملی طور پر امام کعبہ پاکستان میں داعش اور طالبان فکر کی حامی جماعتوں اور خوارج کی پشت پناہی کرنے اور ان دہشت گردوں کو اخلاقی، مالی یا سیاسی سپورٹ دینے والے علماء سے ملاقاتوں اور رابطوں میں مصروف رہے۔
    امام کعبہ کا رحجان زیادہ تر دیوبند اور اہل حدیث کی طرف رہا اور انہی سے ملاقاتوں کا سلسلہ جاری رہا. ظاہر سی بات ہے کہ جن کو کروڑوں ریال سالانہ دئیے جاتے ہیں انہی سے کام بھی نکلوائے بھی جاتے ہیں
    ان سے سعودیہ کے معاملے میں تعاون کی یقین دہانیاں حاصل کیں جس کا ایک واضع ثبوت فضل الرحمان صاھب کیی تحفظ حرمین ریلی ہے جو اس دورے کے اصل مقاصد واضع کرتی ہے.۔
    شیعہ کو مسلمان قرار دینے کے ساتھ ساتھ دوسری طرف یمنی حوثیوں کو ابراہہ کافر کے مشابہہ قرار دینا امام صاحب کے قول و فعل میں تضاد پیدا کرتا ہے.
    پاکستان کی اکثریت اہل سنت والجماعت سوادِ اعظم پر مشتمل ہے(یاد رہے یہاں اہلسنت سے مراد دہشت گردی لشکرجھنگوی کی جماعت کا نیا نام ہرگز نہیں ) جو سعودی عرب کے حکمرانوں کی طرف سے گرائے جانے والے مزارات مقدسہ اور جنت البقیع کے انہدام پر پہلے ہی سعودی حکمرانوں سے خفا ہیں اس موقع پر امام حرم نے انکی دلجوئی کرنے کی بجائے انکو بالکل نظر انداز کردیا اور انکی حمایت کھو دی ہے اور ثابت کر دیا کہ سعودی حکومت کی نگاہ میں پاکستانی مسلمانوں کے ایمانی جذبات کی کوئی قدروقیمت نہیں۔
    امام حرم ایک طرف امت مسلمہ کے اتحاد کی باتیں کر رہے ہیں جبکہ دوسری طرف پاکستان میں یکطرفہ مخصوص فرقوں کے ہاں گئے جس سے اہل پاکستان میں خاصی بےچینی پائی جاتی ہے.
    اہل تشیع اور اہل سنت والجماعت کو جس طرح امام کعبہ نے نظرانداز کیا وہ امام کعبہ کی امت کو متحد کرنے کی کوششوں کی نفی کر رہی ہے.
    اہل پاکستان کو امام کعبہ کے قول و فعل میں بہت تضاد نظر آ رہا ہے.
    اہلسنت والجماعت نے امام کعبہ کو اپنے ہاں مراکز یا مساجد میں آنے کا باقاعدہ دعوت نامہ اور کتابیں بھی بھیجیں لیکن امام کعبہ نے کوئی ردعمل ظاہر نہیں کیا. جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ وہ امام کعبہ بن کر نہیں آئے تھے بلکہ سعودی حکومت کے ایلچی کی حیثیت سے آئےتھے. جن کو خصوصی ہدف دیاگیا تھا سو وہ اپنے مشن کے مطابق کام کر کے چلے گئے.
    امام کعبہ شیخ خالد الغامدی نے یہ بھی کہا تھاکہ یمن کے حوثی باغیوں کی طرف سے مکۃ المکرمہ اور مدینۃ المنورہ پر حملے کی مصدقہ اطلاعات تھیں. مزید کہاکہ یہ ایک تاریخی حقیقت ہے کہ سعودی عرب نے کبھی کسی پڑوسی ملک یا اس کی خودمختاری کو للکارنے والے کسی بھی دوسرے ملک کیساتھ جارحیت کا ارتکاب نہیں کیا ،چاہے اس کا کسی بھی مذہب یا مسلک سے تعلق ہو.
    امام حرم کے اس قول میں صداقت کم اور سیاست زیادہ نظر آتی ہے. مکہ و مدینہ پر حملے کے خطرے کا صرف ڈھنڈورا پیٹا جا رہا ہے تاکہ عالم اسلام کی ہمدردیاں سمیٹی جاسکیں حالانکہ حقیقت اسکے برعکس ہے. ایک ویڈیو یوٹیوب پر چلی جس میں کسی اہل تشیع لیڈر نے کعبہ میں نماز پڑھنے کا ضرور کہا ہے. لیکن یہ کبھی کسی نے نہیں کہاکہ وہ حرمین شریفین کو تباہ کر دیں گے.
    یمن کے حوثی (زیدی) باغیوں کا عقیدہ شافعی مذہب کے قریب تر ہے. اور مولانا فضل الرحمان کے مطابق ایران کے آئین میں زیدیوں کو سنی لکھا گیا ہے. کیا یہ ممکن ہے کہ کوئی سنی یا شیعہ تنظیم حرمین شریفین پر حملہ کرکے اسے نقصان پہنچا کر کروڑوں مسلمانوں کو اپنا دشمن بنالے؟
    نہیں ایسا کبھی نہیں ہوسکتا. تحفظ حرمین شریفین کے نام پر مسلمانوں کو بیوقوف بنایا جا رہا ہے.
    اگر حرمین شریفین کو صحیح معنوں میں خطرہ ہے تو وہ خود سعودی حکمرانوں سے ہے کیونکہ تاریخی اعتبار سے وہ یزید کو اپنا امیرالمؤمنین مانتے ہیں اور یزید وہ پہلا لعین شخص تھا جس کے لشکر نے مدینہ پاک کی حرمت کو پامال کیا, ایک ہزار عورتوں کی عزتیں لوٹیں اور مدینہ پاک کو مقتل گاہ بنایا اور پھر اسکی فوجوں نے کعبہ شریف پر سنگ باری کی اور آگ بھی لگائی.
    اگر ماضی قریب میں جھانکا جائے تو سعودی عرب کے حمایت یافتہ عالم معراج ربانی جو سعودی علماء کے ایک خاص گروپ میں کام کرتے ہیں ,کا کہنا تھا کہ اگر ضروری ہوا تو (روضہ رسول پر بنائے گئے) گنبد خضراء کو بھی مسمار کردیں گے. انکی ویڈیو یوٹیوب پر موجود ہے,
    فرقہ وہابیہ کے ایک اور عالم علی بن عبدالعزیز شبل نے مسجد نبوی کی توسیع کےلیے یہ تجویز پیش کی کہ گنبد خضراء کو منہدم کر دیا جائے اور روضہ رسول کو اکھاڑ کر کسی اور جگہ منتقل کر دیا جائے,
    فرقہ وہابیہ کے بانی محمد بن عبدالوہاب اپنی کتاب اوضح البراہین صفحہ 10، نواب صدیق حسن خان بھوپالی اپنی کتاب عرف الجاوی صفحہ 60 اور شاھد محمد شفیق اپنی کتاب زیارت مسجد مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم (فضائل و احکام) صفحہ 146 پر اسی قسم کے گندے جذبات کا اظہار کرچکے ہیں.
    اگر انکو امت مسلمہ کا ڈر نہ ہوتا تو یہ کب کے گنبد خضراء کو گراچکے ہوتے اور روضہ مبارک بھی کسی جگہ منتقل کرچکے ہوتے.
    یاد رکھیے کہ حضور پاک صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے جسد مبارک کو پہلی بار نکالنے کی کوشش یہود نے کی تھی جسے سلطان نور الدین زنگی نے حکم رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے ناکام بنا دیا تھا. ان بدبخت یہودیوں کے بعد اگر کسی نے کھلے عام ایسے گندے جذبات کا اظہار کیا ہے تو وہ سعودی حکمران اور انکے ماتحت کام کرنے والی تنخواہ دار علماء کی جماعت ہے.
    رہی بات سعودی عرب کی دوسرے ممالک میں مداخلت کی تو یہ بات ڈھکی چھپی نہیں کہ لیبیا, عراق, شام سعودی عرب کی وجہ سے تباہ ہوئے.
    لیبیا مسلم دنیا کا ایک خوشحال ملک تھا, جہاں امن و سکون تھا پھر لیبیا کے سنی حکمرانوں کے خلاف سعودی عرب اور قطر وغیرہ نے فرانس اور امریکہ کے ساتھ مل کر مسلح بغاوت کرا دی. اس بغاوت کے نتیجے میں لیبیا کے صدر کرنل قذافی شہید ہوگئے. جس دن کرنل قذافی شہید ہوئے اس دن قطر اور سعودی عرب میں خوشیاں منائی گئیں نعرہ تکبیر کی صدائیں بلند کی گئیں جیسے کسی کافر ملک پر فتح حاصل کی گئی ہو. آج وہی لیبیا تین حصوں میں تقسیم ہو چکا ہے. وہاں اب کوئی حکومتی عملداری نظر نہیں آتی ہے.
    اسی طرح شام میں ایک عرصے سے شیعہ سنی اکٹھے رہ رہے تھے لیکن یکدم شیعہ سنی جنگ شروع ہوگئی, وہاں باغی اتنے طاقتور ہوگئے کہ شام کے آدھے حصے پر قابض ہوگئے. پرنس بندر بن سلطان نے بشار الاسد کے خلاف امریکہ اور نیٹو کی کاروائی کو قانونی جواز فراہم کرنے کے لیے اپنے حمایت یافتہ باغیوں کے ذریعے کیمیکل ہتھیار تک استعمال کروائے, پرنس بندر بن سلطان کی بدقسمتی کہ انکی سازش بےنقاب ہوگئی اور امریکہ کو کاروائی کا قانونی جواز نہ مل سکا ورنہ سعودی عرب نے تو شام کی اینٹ سے اینٹ بجانے کی پوری تیاری کی ہوئی تھی امریکہ کے ساتھ مل کر.
    عراق پر اٹھائیس ممالک کے ساتھ مل کر حملہ کرنے والا پہلا ملک سعودی عرب تھا, دوسری بار جب عراق پر حملہ ہوا تو سعودی سرزمین پر موجود ائیربیس عراق کے خلاف استعمال ہوئے.
    مصر میں محمد مرسی کی منتخب جمہوری حکومت کے خلاف شب خون مارنے والے جنرل فتح السیسی کو سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات نے درہموں اور ریالوں میں تول دیا. اور السیسی کی حکومت کی مکمل حمایت کی لیکن پھر بھی امام کعبہ الشیخ خالد الغامدی فرماتے ہیں کہ سعودی عرب نے کسی ملک میں مداخلت نہیں کی.
    مر نہ جائیں ایسی سادگی پر
    کہ سب جاننے کے باوجود انجان ہیں
    امام حرم شریف کے دورے سے یہ بھی شکوک پیدا ہو رہے ہیں کہ رائے عامہ کو سعودی عرب کے حق میں بدلنے کی کوشش کی جا رہی ہے تاکہ پاکستان آرمی کو یمن کے خلاف بھیجنے میں جو عوامی مذاحمت کارفرما ہے وہ ختم ہو جائے.
    یہ بھی خدشہ ظاہر کیا جا رہا ہے کہ امام کعبہ نے جو صرف تکفیری اور مخصوص سوچ رکھنے والی قوتوں سے ملاقاتیں کیں ان کا یہ بھی مقصد ہوسکتا ہے کہ نام نہاد مجاہدین کو پاکستان میں لڑنے کی بجائے یمن میں لڑنے کے لیے آمادہ کیا جاسکے.
    اب دورے کے خاتمے پر اندازہ ہوا کہ انہوں نے پاکستان میں نواز شریف کیساتھ مل کر وہابیت کو پروان چڑھانے اور اسکی بالادستی قائم کرنے کی بنیاد رکھی ہے.
    اس مقصد کے لیے سب سے پہلے اسلام آباد میں ایک آذان کا فارمولا پیش کیاگیا جو یقینا وہابیت کے مطابق قابل عمل بنایا جائیگا. اسکے بعد وہابیت کو ملک بھر میں پروان چڑھایا جائیگا.
    اس کے علاوہ امام حرم نے اہک طرف اہل تشیعیوں کو مسلمان قرار دیا تو دوسری طرف یمنیوں کو ابراہہ کے مترادف قرار دیکر انہیں کافروں سے تشبیع دی جس کا مقصد صرف یہ تھا کہ پاکستانیوں کے مذہبی جذبات بھڑکا کر انہیں یمنی کے خلاف کیا جاسکے
    اور ہھر پاکستان آرمی کو سعودی عرب میں منگوایا جاسکے یمن میں امدادی کاروائیوں کے نام پر کیونکہ انہیں اب بھی پتہ ہے کہ پاکستانی عوام کی اکثریت یمن کے خلاف فوج بھیجنے کی مخالف ہے.
    امام حرم شریف کے دورے کے اثرات تو چند ماہ بعد ظاہر ہونا شروع ہونگے.
    لیکن اللہ سے بس یہی دعا ہے کہ امام حرم کے دورے کے اچھے اثرات مرتب ہوں اور مسلم امہ بہتری کی طرف راغب ہو جائے اور ملک پاکستان امن و امان کا گہوارہ بن جائے.

    بشکریہ فیس بک یوزر سرفراز خان۔
     
    تانیہ، سید انور محمود، پاکستانی55 اور 2 دوسروں نے اسے پسند کیا ہے۔
  2. سید انور محمود
    آف لائن

    سید انور محمود ممبر

    شمولیت:
    ‏2 اگست 2013
    پیغامات:
    470
    موصول پسندیدگیاں:
    525
    ملک کا جھنڈا:
    امام کعبہ پاکستان تشریف لاۓ، دیدہ و دل چشم راہ۔

    پھول برساۓگئے۔ کبھی اُن کو کبھی اپنے گھر کو دیکھا گیا۔ اپنی بساط سے بڑھ کر مہمان نوازی کی گئی۔ مولانہ طاہر اشرفی اور عزت مآب ساجد میر صاحب نے استقبال کیا۔ وفاق المدارس نے عشائیہ دیا، اہلیان منصورہ نے پر تپاک استقبال کیا، جامعہ اشرفیہ، پاکستان میں دیوبند مکتب فکر کی قابل رشک علمی درسگاہ، میں منوں کے حساب سے گلاب نچھاور کیٔے گئے۔ مولانا احمد لدھیانوی، محترم حافظ سعید، مولانا فضل الرحمن، مولانا سمیع الحق اور دیگر شخصیات نے دل و جان سے خیر مقدم کیا۔ کیا ملک ریاض کیا وزیر اعلٰی پنجاب سب قدموں تلے بچھتے چلے گئے۔ پھر کیا ہوا امام نے خاموشی توڑی اور کمال راست گوئی سے گویا ہوۓ:

    ">’’اۓ علماۓ پاکستان، اۓ برادران اسلام! سنو! طالبان اور داعش خوارج ہیں۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اسلام کے دشمن ہیں ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اسلام کا تشخص بگاڑنے میں پیش پیش ہیں ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ان کا اسلام سے کوئی تعلق نہیں ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یہ سفاک دہشت گرد ہیں‘‘
    امید ہے امام کے ہاتھوں پر بوسے نچھاور کرنے والی اور ان کے قدموں تلے بچھ جانے والی مندرجہ بالا تمام شخصیات ان سے دوٹوک اور واضح انداز میں سچ بولنا بھی سیکھیں گی۔
     
    پاکستانی55 اور تانیہ .نے اسے پسند کیا ہے۔
  3. غوری
    آف لائن

    غوری ممبر

    شمولیت:
    ‏18 جنوری 2012
    پیغامات:
    38,539
    موصول پسندیدگیاں:
    11,602
    ملک کا جھنڈا:
    یہ سب مراعات یافتہ ہیں اور اپنے ایمان کو بہت کم داموں میں فروخت کرنے والے۔
    اللہ تعالی نے ان لوگوں کے لئے ایسا انتظام کررکھا ہے کہ یہ دعائیں مانگتے رہ جائیں گے کہ انھیں اور مہلت مل جائے مگر وقت نہیں رہے گا ان کے حق میں۔
     
    سید انور محمود نے اسے پسند کیا ہے۔
  4. عباس حسینی
    آف لائن

    عباس حسینی ممبر

    شمولیت:
    ‏12 مئی 2009
    پیغامات:
    392
    موصول پسندیدگیاں:
    23
    ملک کا جھنڈا:
    سب سے بڑا تضاد یہ تھا کہ۔۔ قبروں کی زیارت کو شرک سے تعبیر کرنے والے۔۔ پیامبر اکرم کی زیارت کو کفر کہنے والے۔۔۔ سمیع الحق کے والد کی قبر پر فاتحہ خوانی اور دعا کے لیے ضرور پہنچے۔
     

اس صفحے کو مشتہر کریں