1. اس فورم پر جواب بھیجنے کے لیے آپ کا صارف بننا ضروری ہے۔ اگر آپ ہماری اردو کے صارف ہیں تو لاگ ان کریں۔

المیہ

'کالم اور تبصرے' میں موضوعات آغاز کردہ از عنایت عادل, ‏30 جون 2013۔

  1. عنایت عادل
    آف لائن

    عنایت عادل ممبر

    شمولیت:
    ‏8 اپریل 2013
    پیغامات:
    121
    موصول پسندیدگیاں:
    114
    ملک کا جھنڈا:
    اب نہیں تو کب؟؟ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ بالحق ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ عنایت عادل
    عنوان کو دیکھ کر شاید سوچا جائے کہ یہ مضمون کسی مخصوص جماعت کے سلوگن ، یا اس سلوگن کی حامل جماعت کی ستائش یا اس پر تنقید پر مشتمل ہو گا۔ ایسا ہوتا تو اس سلوگن کے آگے کا فقرہ ''ہم نہیں تو کون '' بھی شامل عنوان ہوتا۔ لیکن، اس مضمون کا مطمع نظر وہی ہے کہ جو ہمیشہ سے ہی راقم کا مطمع نظر رہا ہے اور جو ہر طرف سے گھما پھرا کر راقم کی ہر تحریر کو ایک ہی موضوع پر لے آنے کی وجہ بنتا رہا ہے۔اب نہیں تو کب کا یہ عنوان، ڈیرہ اسماعیل خان ہی کو مرکز نگاہ رکھ کر لکھا جا رہا ہے اور اس کے پیچھے وہی، سالہا سال سے اس شہر کو محروم رکھے جانے کی کہانی ہی ہے۔گزشتہ دنوں ، سرگودھا سے آئے مہمان سے بات چیت ہو رہی تھی ، وہ بنیادی طور پر نواز لیگ کے دلدادہ تھے اور انکی نظر میں میاں برادران سے بڑھ کر کوئی اور لیڈر اس دھرتی پر پیدا ہی نہیں ہوا۔ راقم نے اس کی وجہ پوچھی تو انہوں نے جھٹ سے ایٹمی دھماکوں، موٹر وے، میٹرو بس اور اسی قسم کے دیگر منصوبہ جات کی دلیلیں پھیلا دیں۔جبکہ انہوں نے میاں شہباز شریف کی چابکدستی اور ہمہ وقت ہاتھ میں پکڑی اختیارات کی چابک کو بھی انہی کی قائدانہ صلاحیتوں سے تشبہہ دیتے ہوئے کہا کہ ان جیسا وزیر اعلیٰ ، اس عالم فانی میں نہیں پایا جاتا۔ خیر ، ان تمام پہلوئوں پر پھر کسی روز دل کھول کر روشنی ڈالنے کی کوشش کریں گے۔ فی الحال ، ان مہمان کے ایک فقرے کو قارئین تک پہنچانا مقصود ہے۔ راقم کے منہ سے سہواََ نکل گیا کہ سرگودھا ایک چھوٹا شہر ہے(جو کہ لاہور فیصل آباد کی نسبت سے کہا گیا تھا)۔ یہ فقرہ سنتے ہی ان صاحب کے اند، اپنے شہر کی مٹی سے محبت سے سرشار غیرت کچھ اس طرح ابھر کر سامنے آئی کہ انہوں نے جھٹ سے کہا، ''بھائی جان! آپ کا ڈیرہ اسماعیل خان ، سرگودھا کے آگے کسی گائوں سے زیادہ اہمیت نہیں رکھتا''۔ان صاحب کے اس ایک فقرے نے راقم کے وجود کا حصہ بنی ، سرزمین ڈیرہ کی مٹی کی محبت نے بھی غیرت کا لبادہ اوڑھ لیا اور اور ان سے پوچھ بیٹھا کہ آپ کے سرگودھا میں منتخب ہونے والے ممبران قومی و صوبائی اسمبلی کون سی شخصیات ہیں۔ انہوں نے جواباََ جو نام بتائے، وہ لازمی طور پر اپنے علاقے کی قدآور سیاسی شخصیات ضرور ہونگی، تاہم راقم نے ان میں سے کسی شخصیت کا نام پہلے کبھی نہیں سن رکھا تھا۔جب اپنی اس معذوری کا اظہار کیا تو وہ صاحب اسے میری کم علمی کا شاخسانہ قرار دینے لگے۔ میں نے عرض کی کہ جناب، سرگودھا بلا شبہ ایک بڑا شہر ہے اور اس شہر سے سابقہ وزیر اعظم فیروز خان نون،سابقہ وزیر خزانہ احسان الحق پراچہ،سابقہ ڈی جی آئی ایس آئی حمید گل،جماعت الدعوہ کے امیر حافظ سعید،معروف ادیب اور محقق وزیر آغااور پاکستان کرکٹ ٹیم کے ہونہار کھلاڑی محمد حفیظ جیسی نمایاں شخصیات قومی افق پر ہمیں ملتی ہیں۔ لیکن آپکے شہر سے منتخب ہونے والی سیاسی شخصیات میں واحد تسنیم قریشی ہی ایسا چہرہ ہیں کہ جن سے ٹی وی ٹاک شوز میں دیکھے جانے کی حد تک عوامی شناسائی ہو سکتی ہے اور یا پھر حالیہ انتخابات میں نواز شریف جیسی شخصیت کی جانب سے اس حلقہ سے انتخابی جیت کو سرگودھا کی سیاسی اہمیت کا نام دیا جا سکتا ہے ، غیاث میلہ اور انوار چیمہ (جو کہ ان دوست نے بتائیں) کے متعلق میری معلومات کم ہونا، کم علمی سے زیادہ ان شخصیات کا ملکی سیاسی افق پر کسی اہم عہدے یا وزارت وغیرہ کے نہ ہونے کا عمل دخل زیادہ ہے۔میرے دوست کا اس پر جواب کھٹکتا ہوا ہی نہیں، میرے شہر کے المیے کو بھی لئے ہوئے تھا۔کہنے لگے، ''آپ لیڈر کسی کو مانیں نہ مانیں، آپ ان کا نام جانیں یا نہ جانیں، مگر انہوں نے سرگودھا کی جو تعمیر و ترقی کی ہے، وہی ان کے بڑے لیڈر ہونے کی سب سے بڑی دلیل ہے''۔بات بھی دلیل والی ہی تھی، سو خاموش ہونا پڑا۔ زبان تو خاموش ہو گئی، پر دل و دماغ کا کیا کیجئے کہ دونوں ہی ماضی سے لے کر حال کے سیاسی افق کی گردش سفر میں کھوگئے۔ملک میں پہلی ''حقیقی جمہوریت '' کے چشم و چراغ بھٹو جیسی شخصیت کی حقنواز پارک کی تقریروں کا بزرگوں سے سنا تذکرہ بھی ذہن میں سائیں سائیں کرنے لگا، مفتی محمود و عنایت اللہ خان گنڈہ پور جیسی مرحوم قدآور شخصیات کی وزارت ہائے اعلیٰ کی یاد بھی تازہ ہوئی۔ابھی پچھلے ہی قومی اسمبلی کے ارکان کے مائک کھولتے بند کر دینے کا قانونی حق رکھتی ڈپٹی سپیکر کی کرسی بھی نظروں کے سامنے سے گزر گئی، ماضی میں دو مرتبہ اور اب تیسری مرتبہ صوبائی وزارت مال نے بھی کندھے جھنجوڑے تو اسی قطار میں لگی دیگر کئی صوبائی وزارتیں اور مشیروں کے نام سے شہر کا قد بڑھاتی مسندیں بھی سر اٹھا اٹھا کر اس شہر بد نصیب کی تاریخ میں اپنا نام زریں حروف میں کندہ کرنے کا مطالبہ کرنے لگیں۔جس کو بھی دیکھا توتمام تر احترام کے باوجود''سرگودھی سیاسی شخصیات'' کے مقابلہ میںمیرے شہر کا نام روشن کرتی ، ڈیرہ کی سیاسی شخصیات،ملکی تو کیا بین الاقوامی سطح پر کہیں بلندمقام پر فائز نظر آئیں۔لیکن۔۔ان تمام شخصیات کے باوجود، میرے پاس اپنے اس دوست کی جانب سے سرگودھا کی ترقیوں کے گن گانے کے جواب میں کوئی جواب نہ تھا۔خیر۔۔۔گزر گیا جو زمانہ اسے بھلا ہی دو کے مصداق، حال کی بات کرتے ہوئے گفتگو کا سلسلہ عنوان کے ساتھ جوڑتے ہیں۔ اب۔۔اس شہر کی قومی اسمبلی کے حلقہ پر وہ شخصیت منتخب ہو چکی ہے کہ جسے ہر حکومت میں ایک خاص اہمیت حاصل ہوتی ہے، سٹی کی نشست سے منتخب ہونے والے وزارت مال ، کلاچی کے حصہ میں وزارت قانون ، سٹی ٹو سے ماضی میں وزارت صنعت و حرفت کے حامل رکن اسمبلی سمیت اعلیٰ سیاسی شخصیات اس شہر کا نام ایک بار پھر سے روشن کر رہی ہیں۔ ان تمام شخصیات کی موجودگی میں بھی اگلے چند سال میں ڈیرہ اسماعیل خان کا باسی، کسی دوسرے شہر کی ترقیوں کے جواب میں کوئی جواب نہ دے سکا تو سوال یہی ہو گا۔۔اب نہیں تو کب؟؟؟
    ٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
     
    نذر حافی نے اسے پسند کیا ہے۔

اس صفحے کو مشتہر کریں