1. اس فورم پر جواب بھیجنے کے لیے آپ کا صارف بننا ضروری ہے۔ اگر آپ ہماری اردو کے صارف ہیں تو لاگ ان کریں۔

اللہ تعالی ہمیں سچی گواہی دینے کی توفیق بخشے

'تاریخِ اسلام : ماضی ، حال اور مستقبل' میں موضوعات آغاز کردہ از حنا شیخ, ‏16 اپریل 2017۔

  1. حنا شیخ
    آف لائن

    حنا شیخ ممبر

    شمولیت:
    ‏21 جولائی 2016
    پیغامات:
    2,709
    موصول پسندیدگیاں:
    1,573
    ملک کا جھنڈا:
    آصف تنوير تیمی، مدنی
    استاد جامعہ امام ابن تیمیہ
    گواہی کو عربی میں”شھادة”کہتے ہیں۔جو”مشاھدة”سے مشتق ہے۔اس لیے کہ گواہی دینے والا اسی چیز کی گواہی دیتا ہے جس کا وہ مشاہدہ کرتا اور علم رکھتا ہے۔
    حقوق اللہ کے علاوہ حقوق العباد میں شہادت دینا فرض کفایہ ہے۔اگر واقعے اور معاملے کا چشم دید صرف ایک ہی شخص ہو تو ایسی صورت میں گواہی فرض عین کا درجہ حاصل کرلیتی ہے۔اللہ تعالی نے فرمایا:”ولا یاب الشھداء اذا ما دعوا”(البقرہ:283) اور گواہوں کو چاہئے کہ وہ جب بلائے جائیں تو انکار نہ کریں۔
    اور فرمایا:”اور گواہی کو نہ چھپاو،اور جو اسے چھپا لے وہ گنہگار دل والا ہے،اور جو کچھ تم کرتے ہو اسے اللہ تعالی خوب جانتا ہے”۔(البقرہ:283)امام ابن قیم جوزیہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں”التحمل والاداء حق یاثم بترکہ”(الطرق الحکمیہ،ص217) گواہ بننا اور گواہی دینا(آدمی کا)حق ہے،ترک کی صورت میں(گواہ نہ بننے والا اور گواہی نہ دینے) والا گنہگار ہوگا۔لیکن یاد رہے کہ اگر گواہ بننے اور گواہی دینے کی صورت میں شاہد کی جان ومال کو خطرہ لاحق ہو تو اس پر شہادت واجب نہیں ہے۔اللہ تعالی نے فرمایا:”ولا یضار کاتب ولا شھید”(البقرہ:282) اور نہ تو لکھنے والے کو نقصان پہنچایا جائے نہ گواہ کو۔
    گواہ کے لئے ضروری ہے کہ وہ اسی اسی واقعہ کی گواہی دے جس کے تئیں اسے مکمل آگاہی اور معرفت ہو۔ایسے امور سے متعلق گواہی نہ دے جس کے بابت اسے خبر ہی نہ ہو۔اللہ تعالی نے فرمایا:”ولا تقف مالیس لک بہ علم”(الاسراء:36) جس بات کی تجھے خبر ہی نہیں اس کے پیچھے مت پڑ۔ابن عباس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے شہادت سے متعلق پوچھا گیا تو آپ(صلی اللہ علیہ وسلم)نے فرمایا:(تم سورج دیکھ رہے ہو،اسی کے مانند گواہی دو یا چھوڑ دو)۔مطلب یہ کہ جس واقعہ سے متعلق درست معلومات یا عینی رویت ہو اسی واقعہ سے متعلق گواہی پیش کی جائے ورنہ خاموش رہا جائے۔
    شہادت کی قبولیت کے لئے علماء وفقہاء نے چند شروط وضع کئے ہیں:
    1- بلوغت: چنانچہ بچوں کی گواہی سوائے بچوں کے معاملات کے قابل قبول نہ سمجھی جائے گی۔
    1- عقلمندی: دیوانہ اور پاگل وغیرہ کی گواہی غیر مقبول ہوگی۔اگر ایسا شخص ہو جس کو کبھی پاگلپنی کا دورہ پڑتا ہو اور کبھی افاقہ ہوجاتا ہو تو ایسی صورت میں صرف افاقہ کی گواہی کا اعتبار ہوگا۔
    3- اسلام: گواہی قبول ہونے کے لئے گواہ کا مسلمان ہونا ضروری ہے۔اللہ تعالی نے فرمایا:”واشھدوا ذوی عدل منکم”(الطلاق:2) اور آپس میں سے دو عادل شخصوں کو گواہ کرلو۔ دوسری جگہ فرمایا:”یایھا الذین آمنوا شھادة بینکم اذا حضر احدکم الموت حین الوصیة اثنان ذوا عدل منکم او آخران من غیرکم ان انتم ضربتم فی الارض فاصابتکم مصیبة الموت”(المائدہ:106)اے ایمان والو!تمہارے آپس میں دو شخص کا گواہ ہونا مناسب ہے جب کہ تم میں سے کسی کو موت آنے لگے اور وصیت کرنے کا وقت ہو،وہ دو شخص ایسے ہوں کہ دیندار ہوں خواہ تم میں سے ہوں یا غیر لوگوں میں سے دو شخص ہوں اگر تم کہیں سفر میں گئے ہو اور اور تمہیں موت آجائے۔
    4- قادر الکلامی: گنگے شخص کی گواہی نہ لی جائے گی اگرچہ اس کا اشارہ سمجھ میں آرہا ہو اس لئے کہ کہ گواہی میں یقین کا پایا جانا ضروری ہے۔اور گنگے کی گفتگو پر یقین کامل نہیں ہوسکتا۔اسی طرح اس مسلمان کی گواہی بھی مردود سمجھی جائے گی جس کے اندر نسیان اور بھول چوک کی بیماری ہو۔
    5- عدالت: شہادت کی قبولیت کے لئے آدمی کا عادل ہونا شرط ہے۔عدالت کی شرط سے متعلق ماضی کے سطور میں آیات ضرر چکی ہیں۔عدالت کا اطلاق اس مسلمان پر ہوتا ہے جو اسلام کے فرائض وواجبات اور مستحبات پر عمل پیرا ہو ساتھ ہی حرام اور مکروہ اعمال سے اجتناب کرتا ہو۔امام ابن تیمیہ کہتے ہیں کہ: فقہاء کا اس آدمی کی گواہی کے مردود ہونے پر اتفاق ہے جو جھوٹ بولتا ہو۔(منھاج السنہ 1/62)
    مذکورہ امور کے علاوہ بعض اشخاص اور بھی ہیں جن کی گواہی کا اسلام میں بعض وجوہات واسبات کی بنا پر اعتبار نہیں ہے:
    1-باپ کی گواہی بیٹے کے حق میں اور بیٹے کی گواہی باپ کے حق میں قبول نہیں کی جاسکتی۔قربت اور نزدیکی کی وجہ سے۔اس کے برعکس بھائی کی گواہی بھائی کے حق میں لی جاسکتی ہے۔اس لئے کہ اس کی نھی کی کوئی دلیل موجود نہیں ہے۔
    2-میاں کی گواہی بیوی کے حق میں اور بیوی کی گواہی میاں کے حق میں قبول نہیں کی جائے گی۔اس لئے کہ ان کی گواہی میں شک وشبہ کی گنجائش ہے۔ایک دوسرے کے مفادات آپس میں جڑے ہوتے ہیں اس لئے جھوٹ بھی بول سکتے ہیں۔
    3-اور گواہی سے کسی کا بالواسطہ یا بلا واسطہ فائدہ ہورہا ہو تو اس کی بھی گواہی رد کی جائے گی۔
    4- ایک دشمن کی گواہی دوسرے دشمن کے معاملہ میں اور متعصب شخص کی گواہی کسی بھی معاملے میں قبول نہیں کی جائے گی۔
    گواہ کی تعداد: مسائل واحکام کے اعتبار سے گواہ کی تعداد الگ الگ ہے۔
    زنا اور لواطت کے لئے چار گواہوں کا،دیوالیہ پن کے ثبوت کے لئے تین گواہوں کا،اور تہمت، شراب نوسی،چوری،ڈکیتی،اور دیگر قصاص وغیرہ کے لئے دو گواہوں کا پایا جانا ضروری ہے۔واضح رہے کہ ان امور میں عورتوں کی گواہی قبول نہ ہوگی۔ایسے معاملات جن کا تعلق مال واسباب سے ہو ان معاملات میں دو مرد یا ایک مرد اور دو عورتوں کی گواہی قابل اعتبار ہوگی۔
    نہایت اختصار کے ساتھ شہادت کے موٹے موٹے مسائل واحکام کو مذکورہ سطور میں بیان کرنے کی کوشش کی گئی ہے تاکہ ہمارے مسلمان بھائی گواہی میں سنجیدگی کا ثبوت دیں۔محض چند سکوں کے عوض اپنی عاقبت ہرگز خراب نہ کریں۔آج شہروں اور دیہاتوں میں گواہی سے متلعق عجیب افراط وتفریط دیکھنے اور سننے کو ملتا ہے۔بعض لوگ بسا اوقات دیکھنے اور سننے کے باوجود گواہی کے لئے تیار نہیں ہوتے تو وہیں بعض لوگ گواہی میں اس قدر جری ہوتے ہیں کہ بلا دیکھے اور سنے کورٹ اور کچہری میں جھوٹی گواہی دیتے پھرتے ہیں جو گناہ کبیرہ ہے۔
    اللہ تعالی ہمیں سچی گواہی دینے کی توفیق بخشے۔(آمین)​
     
    زنیرہ عقیل نے اسے پسند کیا ہے۔

اس صفحے کو مشتہر کریں