1. اس فورم پر جواب بھیجنے کے لیے آپ کا صارف بننا ضروری ہے۔ اگر آپ ہماری اردو کے صارف ہیں تو لاگ ان کریں۔

اف.. یہ مہنگائی، عوام کی دہائی ۔۔۔۔۔ رانا اعجاز

'حالاتِ حاضرہ' میں موضوعات آغاز کردہ از intelligent086, ‏3 فروری 2021۔

  1. intelligent086
    آف لائن

    intelligent086 ممبر

    شمولیت:
    ‏28 اپریل 2013
    پیغامات:
    7,273
    موصول پسندیدگیاں:
    797
    ملک کا جھنڈا:

    اف.. یہ مہنگائی، عوام کی دہائی ۔۔۔۔۔ رانا اعجاز

    نئے پاکستان میں پریشانی ہر چہرے سے عیاں ہے، تاجر حضرات معاشی بے یقینی کی صورتحال کی وجہ سے فکر مند ہیں۔ روز بروز بڑھتی مہنگائی نے ایک اندازے کے مطابق ملک کے 85 فیصد متوسط طبقے کو تشویش میں مبتلا کررکھا ہے۔ غریب و مزدور طبقے کے لیے دو وقت کی روٹی جوئے شیر لانے کے مترادف ہے ۔ ملک کے بیشتر افراد کے لیے جسم و جان کا رشتہ برقرار رکھنا مشکل ہوچکا ہے۔ لوگ حالات سے مجبور ہوکر خود کشیاں کررہے ہیں، مگر ان حالات میں بھی حکمران طبقہ عملی اقدامات کی بجائے محض اپنی ضد پر قائم ہے۔

    ابھی چند روز قبل بجلی کے نرخوں میں اضافے کی کسک کم نہیں ہوئی تھی کہ اوگرا نے یکم فروری سے پٹرول پونے تین روپے لٹر مزید مہنگا کردیا ہے جبکہ ڈالر کے مقابلے میں روپے کی قیمت اس وقت کسی حد تک مستحکم ہے اور عالمی منڈی میں بھی خام تیل کی قیمت اوسطاً 55 ڈالر فی بیرل پربرقرار ہے۔ اس لئے پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں اس قدر اضافہ کسی طور پر منطقی و معاشی اعتبار سے درست نہیں۔

    دوسری جانب پنجاب، خیبرپختونخوا اور اسلام آباد میں گیس 250 روپے فی ایم ایم بی ٹی یو مہنگی کرنے کی منظوری دے دی گئی ہے۔ اس اضافے کے بعد گیس کی نئی قیمت 881 روپے 40 پیسے فی ایم ایم بی ٹی یو مقرر ہو گئی ہے۔ ایندھن کے مختلف ذرائع کے نرخوں میں اضافہ عوام کو براہ راست اور بالواسطہ، دونوں حوالوں سے متاثر کرتا ہے اور مہنگائی کا پہلے سے بلند گراف مزید بلند ہو جاتا ہے۔ کورونا کے اس دور میں جبکہ آمدنیوں میں اضافہ متوقع نہیں یہ اضافی بوجھ عوام کی مالی مشکلات کو دوچند کرنے کا باعث بنے گا اور اس کے نتیجے میں غربت کی شرح بڑھنے کے اندیشے کو بھی نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔ اقتدار میں آنے سے قبل تحریک انصاف کے رہنما اپنے دھرنوں، جلسوں اور ریلیوں میں بلند و بانگ دعوے کرتے کہ ان سے بڑا عوام کا خیر خواہ اور کوئی نہیں ہوسکتا۔ وہ ملک سے مہنگائی ، بے روزگاری اور کرپشن کا خاتمہ کرنے کی بات کرتے، اور یہ بھی کہتے کہ ان کے دور حکومت میں غریبوں کو ریلیف ملے گا اور عوام خوشحال ہوں گے ۔ ان کے یہ دعوے سن کر عوام پاکستان کو یوں لگا جیسے یہی ان کے مسیحا اور ان کے دکھوں کا مداوا کرنے والے لوگ ہیں۔

    تحریک انصاف کے اقتدار میں آنے کے بعد تبدیلی کے دعویداروں نے سب سے زیادہ عوام کو مایوس کیا ہے۔ جس دن سے تحریک انصاف برسر اقتدار آئی ہے عوام کو میسر تمام ریلیف اور سبسڈیاں ختم کردی گئی ہیں، اس کے علاوہ روز بروز بڑھتی مہنگائی کا سلسلہ ہے کہ رکنے کو نہیں آرہا۔ اس وقت صورتحال یہ ہے کہ دکاندار کیلئے دکان کھولنا مشکل، فیکٹری مالکان کیلئے فیکٹری چلانا مشکل، تاجر کیلئے تجارت کرنا مشکل اور کسان کیلئے کاشتکاری مشکل ترین ہوگئی ہے۔ بجلی ، گیس، پٹرولیم مصنوعات، آٹا ، گھی ، چینی سمیت اشیائے خور و نوش کی قیمتوں میں اضافہ کرتے ہوئے مہنگائی کے طوفان کا سامنا کرنے کے لیے عوام کو بے آسرا چھوڑ دیا گیا ہے۔ یوں لگتا ہے جیسے بہ حیثیت قوم ہم اس کشتی کے مسافروں کی طرح ہیں جو موجوں کے رحم و کرم پر ہو۔ ہر آنیوالا حکمران جانے والے کو ملک کی معاشی بدحالی و بربادی کا ذمہ دار ٹھہراتا ہے۔ ملک و قوم پر قرضوں کے بوجھ اور خزانہ خالی کا قصور وار سابقہ حکمرانوں کو قرار دیتا ہے لیکن موجودہ حکمران نئے طریقوں اورانداز سے قوم کو بہلانے کی کوشش کر رہے ہیں۔

    سابق حکمرانوں کو چور کہنے والے موجودہ حکمرانوں کا کہنا ہے کہ وہ جاتے ہوئے سب لوٹ کر لے گئے۔ خزانہ ایسا خالی کیا کہ جب ہم نے اقتدار سنبھال کر دیکھا تو خزانے میں کچھ بھی نہ تھا۔ سرکاری اداروں میں غیر قانونی بھرتیاں تھیں۔ کرپشن کا ایسا بازار لگایا تھا کہ دو اڑھائی سال سے ہم سراغ لگاتے لگاتے تھک گئے لیکن سابق حکمرانوں کی کرپشن کی داستانیں ختم نہیں ہو رہیں۔ الغرض اس طرح کی بے شمار باتیں کی جا رہی ہیں لیکن حسب سابق یا حسب روایت قوم کی حالت کی تبدیلی اور بہتری کے لئے ایک انچ بھی قدم نہیں بڑھایا گیا۔ آج تحریک انصاف کے دور حکومت میں بھی کرپشن ہورہی ہے، بیورو کریٹس اور سرکاری افسران سے لے کر کلرک تک کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ یہ تعاون نہیں کررہے اور وجہ یہ بتائی جاتی ہے کہ یہ سابق حکمرانوں کے منظور نظر ہیں۔ چیف سیکرٹریز ، آئی جیز سمیت اعلیٰ سطح افسران کو آئے روز تبدیل کیا جارہا ہے، مگر کیا وجہ ہے کہ مطلوبہ نتائج پھر بھی حاصل نہیں ہوپارہے۔ بیورو کریسی ہو یا پولیس کے اعلیٰ افسران، یہ حکومت کے احکامات پر قانون کے مطابق عمل کرتے ہیں، اس لئے اپنی کارکردگی بہتر بنانے کے بجائے اداروں اور افراد پر الزام لگانا مناسب نہیں ہے نہ ہی یہ مسائل کا حل ہے۔

    موجودہ حکمران جو کل تک کہتے تھے پٹرول کی قیمت عالمی مارکیٹ سے 45 روپے لٹر زیادہ ہے اور اب وہ عوام پر براہ راست اثر انداز ہونے والے حکومتی ٹیکسوں میں پے در پے اضافہ کررہے ہیں۔ شہری چیخ رہے ہیں کہ اگر غریب پاکستانیوں کے زخموں کا مداوا کرنے کی بجائے مہنگائی و گرانی کا سونامی ہی لانا تھا تو گزشتہ حکومتیں ان سے بہتر تھیں۔ پاکستانی قوم گزشتہ 73 سالوں سے کبھی کسی فوجی ڈکٹیٹر تو کبھی کسی جمہوری حکومت کے دعووں اور وعدوں کے سہارے محض جوتیاں گھساتی چلی آئی ہے مگر نتیجہ یہ نکلا کہ آج قوم کا ہر فرد ڈیڑھ لاکھ روپے سے زائد کا مقروض ہے جبکہ یہاں محنت کش کے دونوں ہاتھ خالی ہیں۔

    پاکستان میں بد سے بدترین حالات میں جمہوری حکومتیں وجود میں آتی رہی ہیں لیکن کسی حکومت کے بارے میں یہ کہنا غلط نہ ہو گاکہ ابھی وہ اپنے پاوں پر چلنے کے قابل بھی نہیں ہوتیں اور جلد ہی عوام اس کی کارکردگی دیکھ کر مایوسی کا اظہار کرنے لگتے ہیں۔ عمران خان کی حکومت بھی جس رفتار سے چل رہی ہے اس میں کردار سے زیادہ گفتار سے کام لیا جا رہا ہے اور کچھ کر دکھانے کی بجائے ہر روز ایک نئی طفل تسلی کا اعلان ہوجاتا ہے، یوں اڑھائی سال کے حکومتی اقدامات محض ہاتھ باندھنے کی حکمت عملی سے زیادہ نہیں۔

     

اس صفحے کو مشتہر کریں