1. اس فورم پر جواب بھیجنے کے لیے آپ کا صارف بننا ضروری ہے۔ اگر آپ ہماری اردو کے صارف ہیں تو لاگ ان کریں۔

افروز سعیدہ

Discussion in 'اردو ادب' started by زنیرہ عقیل, Dec 21, 2018.

  1. زنیرہ عقیل
    Offline

    زنیرہ عقیل ممبر

    Joined:
    Sep 27, 2017
    Messages:
    21,126
    Likes Received:
    9,750
    ملک کا جھنڈا:
    افروز سعیدہ حیدرآباد کی نئی اور ابھرتی ہوئی افسانہ نگار خاتون ہیں۔ ۱۹۴۴ء اپریل میں حیدرآباد کے معزز خاندان میں پیدا ہوئیں۔ ان کے دادا نواب سخاوت جنگ بہادر اول تعلقہ دار تھے۔ ان کے پانچ میں سے ایک سپوت جناب شرافت حسین کسٹم آفیسر مرحوم کی پہلی اولاد ہے۔ والد محترم ادبی ذوق سے معمور شخصیت کے مالک تھے۔ افروز سعیدہ کو اعلیٰ تعلیم دلانا چاہتے تھے۔ انہوں نے ۱۹۶۲ء میں ریڈی کالج سے بی ایس سی اور ۱۹۶۴ء میں بی اے کیا، لیکن والدہ محترمہ کے کہنے پر گریجویشن کے بعد ۱۹۶۲ء میں مرتضیٰ قاسمی ایجوکیشن آفیسر اور نگ آباد (مہاراشٹرا) سے شادی ہوئی۔ انہوں نے شادی کے بعد بھی اپنی تعلیمی کاوشیں جاری رکھیں اور پھر ۱۹۹۱ء میں ایم اے درجہ اول میں پاس کیا۔

    افروز سعیدہ کو ادبی ذوق ورثہ میں ملا تھا۔ ان کے دونوں بھائی شعری ذوق رکھتے ہیں۔ شباہت حسین افسر جو میکانیکل انجینئر ہیں اور دوسرے وجاہت حسین انور بی کام مقیم سعودی عربیہ، ایک بہن حمیدہ تسکین جو انعام یافتہ خوشنویس ہے جو حسینی پاشاہ چشتی قادری نقشبندی کی زوجہ ہیں۔

    افروز سعیدہ کو دو لڑکے ہیں۔ مصطفیٰ قاسمی اور مجتبیٰ قاسمی۔ افروز سعیدہ کو کالج کے زمانے سے ہی لکھنے کا شوق تھا۔ اس زمانے میں ریڈی کالج میں محترمہ جہاں بانو نقوی ان کی لکچرار تھیں۔ انہوں نے ہی ان کی ہمت افزائی کی اور ذوق کو سراہا۔ افسانے اور مضامین لکھنا اور سنانا ڈراموں میں کام کرنا اور بیت بازی میں حصہ لینا ان کے محبوب مشغلے رہے ہیں۔ ان کے اس شوق نے جِلا بخشی انیس(19) افسانوں کا یہ پہلا مجموعہ ’’نایاب‘‘ اردو ادب میں اضافہ کا حصہ ہے۔

    افروز سعیدہ کی کہانیاں ’’خاتونِ مشرق ‘‘ ’’مریم‘‘ ’’پونم‘‘ اور ماہنامہ ’’پیام اردو ‘‘ کے پرانے پڑھنے والے ان کی محاورانہ تحریروں سے واقف ہیں۔ ان کے افساے ان کی دکھ بھری زندگی کی پیداوار ہیں۔

    ڈاکٹر حبیب ضیاء افروز سعیدہ کے بارے میں لکھتی ہیں۔

    ’’اچھے مکالمے لکھنا ہر ادیب کے بس کی بات نہیں۔ افروز سعیدہ مکالمہ نگاری کے فن سے خوب واقف ہیں۔ کئی افسانوں میں انہوں نے اردو زبان سے تھوڑی سی واقفیت رکھنے والا بھی ان کے افسانے نہ صرف پڑھ سکتا ہے بلکہ افسانے کے مرکزی خیال پر غور و فکر بھی کر سکتا ہے۔ ‘‘(افروز سعیدہ مجموعہ ’’نایاب‘‘ پیش لفظ ص نمبر ۵)

    افروز سعیدہ محفل خواتین سے ۱۹۸۰ء سے آج تک وابستہ ہیں۔ یہ محفل ہر ماہ کے دوسرے ہفتہ کو منعقد ہوتی ہے۔ انہوں نے یہاں پر کئی افسانے سنا کر داد حاصل کی۔

    افروز سعیدہ کو کہانیاں لکھنے اور ڈراموں میں کام کرنے کا شروع ہی سے شوق رہا ہے۔ اپنے کالج میں بھی انہوں نے ڈرامے میں کام کیا۔

    افروز سعیدہ کے بیشتر افسانے نفسیاتی حقائق پر مبنی ہیں قاری کے ذہن کو متاثر کئے بغیر نہیں رہ سکتے۔ ان کے افسانے آل انڈیا ریڈیو سے ۱۹۷۶ء تا ۱۹۸۰ء میں نشر ہوتے رہے۔ اس کے علاوہ عرب ٹائمز، کویت میں افسانہ ’’یادیں ‘‘ کے عنوان سے ۲؍ جولائی ۱۹۸۰ء کو چھپا تھا۔

    ’’نایاب‘‘ ان کے انیس (۱۹) دلچسپ و اصلاحی افسانوں کا مجموعہ ہے۔ جس میں ۱۔ تکمیل آرزو۔ ۲۔ نادان۔ ۳۔ نایاب۔ ۴۔ مجرم کون؟۔ ۵۔ پشیمان۔ ۶۔ شام غم کی قسم۔ ۷۔ فیصلے کی رات۔ ۸۔ انتقام۔ ۹۔ ادھورے خواب۔ ۱۰۔ خواب یا حقیقت۔ ۱۱۔ منزل بہاروں کی۔ ۱۲۔ پھولوں کی چھن۔ ۱۳۔ تہی دامن۔ ۱۴۔ خزاں رسیدہ۔ ۱۵۔ دائرے۔ ۱۶۔ بکھرے موتی۔ ۱۷۔ کرن۔ ۱۸۔ فیصلہ۔ ۱۹۔ فریب آرزو۔

    افروز سعیدہ کی ’’فیصلے کی رات ‘‘ ایک اچھی کہانی ہے۔ سفینہ اس کا مرکزی کردار ہے اور کہانی اسی کے اطراف گھومتی ہے۔ سفینہ بیوہ تھی۔ اس کی ایک لڑکی اسماء تھی۔ اسماء کی سالگرہ ہے اور اسی سال اسماء نے میٹرک درجہ اول میں پاس کیا تھا۔

    اس کہانی کا پلاٹ تین مرد حضرات پر منحصر ہیں۔ ایک سفینہ کا شوہر جو زمیندار تھا انتقال ہو چکا ہے۔ دوسرے شخص رفیق سے ملاقات ملازمت کے دوران ہوتی ہے اور عشق کی آگ پہلے ہی دن سے بڑھتی چلی جاتی ہے اور سفینہ سوچنے لگتی ہے کہ میں ایک تیس سالہ بیوہ ہوں اور ایک جوان لڑکی کی ماں ہوں ذرا سی لغزش بدنامی و رسوائی کے گہری کھائی میں ڈھکیل سکتی ہے۔ سفینہ نے کئی بار سوچا کہ نوکری سے استعفیٰ دے دوں مگر جذبات کے بہاؤ میں فیصلہ نہیں کر پا رہی تھی۔ سفینہ کے جذبات کا حال ملاحظہ فرمایئے۔

    ’’تمہاری قربت کے خیال ہی سے میرے دل کی دھڑکن بے قابو سی ہو رہی تھیں۔ میرے اندر سلگتی آگ کی حرارت کو اگر تم نے محسوس کر لیا تو کیا ہو گا۔ اپنے احساساتو خیالات میں سے تمہیں آگاہ کرنا نہیں چاہتی تھی۔ مجھے تم سے محبت تھی بس، روحانی محبت، جسے میں ایک طرفہ ہی رکھنا چاہتی تھی۔ اکیلی فنا ہو جانا چاہتی تھی کیونکہ اس فنا میں مجھے اپنی بقا نظر آتی تھی … (مجموعہ ’’نایاب‘‘ افروز سعیدہ۔ مشمولہ ’’فیصلے کی رات ‘‘ ص نمبر ۶۱)

    ایک دن اچانک رفیق نے جذبات سے بے قابو ہو کر سفینہ کا ہاتھ اپنے تپتے ہاتھوں میں لے لیا اور دونوں تپش محسوس کرنے لگے پھر سفینہ سوچنے پر مجبور ہو گئی کہ ایک شادی شدہ مرد جو ایک کنبہ کا سرپرست ہے اور سماج میں ایک اعلیٰ مقام پر ہے میں ایک بیوہ ہوں جو معاشرے کے چہرے پر بدنما داغ ہیں۔ دوسرے دن سفینہ نے اپنا استعفیٰ بھیج دیا۔

    کچھ دن بعد اپنے آپ کو سنبھال کر ایک اسکول میں ملازمت ڈھونڈ لی۔ یہاں بھی اس اسکول کے ڈائرکٹر حسن جاوید بھی سفینہ پر کچھ زیادہ ہی مہربان تھے اور سفینہ کی بیٹی اسماء کو باپ کا پیار دینا چاہتے تھے۔ سفینہ کو اپنے فیصلہ کا اعلان اسماء کی سالگرہ پارٹی میں کرنا تھا۔ اسی پارٹی میں اسماء کی سہیلی رعنا کے باپ رفیق بھی چلے آتے ہیں۔ سفینہ کی نظر جب رفیق پر پڑتی ہے ماضی کی یادیں آنے لگتی ہے۔ اب سفینہ کے لیے ’’فیصلہ کی رات‘‘ تھی۔ اسکولی ڈائرکٹر مس حسن جاوید یا پھر رفیق اسی کشمکش میں سفینہ بے ہوش ہو کر گر جاتی ہے پھر ہوش آنے پر دیکھتی ہے اسماء رو رہی ہے اور رفیق قریب بیٹھی ہے پھر رفیق سفینہ سے مخاطب ہو کر کہنے لگے :

    ’’سفینہ مجھے خوشی ہے کہ برسوں بعد تم سے ملاقات ہوئی میں تم سے بات کرنا چاہتا ہوں تم برا تو نہیں مانو گی۔ سفینہ تم جب پہلی بار میرے آفس آئی تھی اسی دن تمہیں اپنانے کی تمنا نے میرے دل میں گھر کر لیا تھا۔ تمہیں ا پنی سمجھنے لگا تھا تمہارا استعفیٰ سے ایک دن پہلے میں بہک گیا تھا دوسرے دن تم سے معافی مانگنا اور تمہارا ہاتھ تھام لینا چاہتا تھا۔ اسی دن تم نہیں آئیں دوچار دن انتظار کرنے کے بعد تمہارے گھر گیا تو معلوم ہوا تم کہیں اور منتقل ہو چکی ہو اور آج … ‘‘رفیق خاموش ہو گئے۔ مس جاویدحسن دودھ کا گلاس لئے آ گئے تھے اور سفینہ کو سہارادے کر اٹھانے لگے۔ رفیق بھی آگے بڑھے اور اسی وقت سفینہ پھوٹ پھوٹ کر رونے لگی …‘‘( مجموعہ ’’نایاب‘‘ افروز سعیدہ۔ مشمولہ ’’فیصلے کی رات ‘‘ ص نمبر ۶۱)

    اور فیصلہ کیا ہو سکتا ہے ، افروز سعیدہ نے قاری پر چھوڑ دیا۔ انہیں اپنی صنف سے خاصی ہمدردی ہے۔ انھوں نے ہمیشہ عورت کی مظلومیت کو اجاگر کرنے کی کوشش کی ہے۔ ماں، بیوی، بیٹی، بہو ہر حیثیت میں عورت استحصال کا شکار رہی ہے۔ انہوں نے زندگی کو ہمیشہ قریب سے دیکھا ہے۔ بے کسوں اور مظلوموں کی حمایت ان کی تحریروں کا بنیادی مقصد رہا ہے۔

    افسانہ ’’نایاب‘‘ کی شروعات اس شعر سے ہوتی ہے۔

    خدا پوچھے گا محشر میں بتا تفسیر کس کی ہے

    تو کہہ دوں گا میری تقدیر میں تحریر کس کی ہے

    افروز سعیدہ کے افسانے سماجی شعور اور عصری حسیت کی عمدہ مثال ہیں۔ ان کے افسانے متوسط طبقے اور نچلے متوسطہ طبقے کی معاشرتی زندگی کی عکاسی کے ساتھ ساتھ مختلف النوع موضوعات کا احاطہ کرتے ہیں۔ ان کے مسائل ان کے دکھ ان سب کا بغور جائزہ لے کر ان کو اپنے شعور کی مدد سے صفحۂ قرطاس پر بکھیر دیا ہے۔ ان کے ضمن میں یہ خوبیاں بہ درجہ اتم پائی گئی ہیں۔

    افروز سعیدہ کا دوسرا فسانوی مجموعہ ’’بدلتا ہے رنگ آسماں کیسے کیسے ‘‘ طبع ہو چکا ہے۔ جس میں ۱۔ کاغذ کی کشتی۔ ۲۔ جہاں اور بھی ہیں۔ ۳۔ پیاسی شبنم۔ ۴۔ بدلتا ہے رنگ آسماں کیسے کیسے۔ ۵۔ … اور ہم غبار دیکھتے رہے۔ ۶۔ مکافات عمل۔ ۷۔ وقت کی کروٹ۔ ۸۔ رانگ نمبر۔ ۹۔ انتظار تیرا آج بھی ہے۔ ۱۰۔ تاریک راہوں کے مسافر۔ ۱۱۔ کشکول۔

    ان کے افسانے بہترین تہذیبی شعور کے حامل ہیں جن میں تلخی ہوتی ہے نہ طنز بلکہ ان کے افسانے نہایت ہی دھیمے انداز میں قاری کے دل و دماغ پر اثر انداز ہوتے ہیں اور کچھ سوچنے پر مجبور کر دیتے ہیں۔ انہوں نے اپنے کرداروں کی نفسیات کوبڑی چابکدستی اور کامیابی سے پیش کیا ہے۔

    افروزسعیدہ کے تمام افسانے زندگی کے کسی نہ کسی رُخ پر روشنی ڈالتے ہیں اور اس کے اچھے اور بُرے پہلوؤں کو اُجاگر کر کے انسانی زندگی کی بنیادی کمزوریوں کی جانب توجہ مبذول کرواتے ہیں۔

    بہر کیف ان کا فن مقصدیت اور افادی ادب کی زندہ مثال ہے۔

    ٭٭٭٭
     

Share This Page