1. اس فورم پر جواب بھیجنے کے لیے آپ کا صارف بننا ضروری ہے۔ اگر آپ ہماری اردو کے صارف ہیں تو لاگ ان کریں۔

اعتراضات کا ازالہ

'تعلیماتِ قرآن و حدیث' میں موضوعات آغاز کردہ از آبی ٹوکول, ‏10 اپریل 2008۔

  1. آبی ٹوکول
    آف لائن

    آبی ٹوکول ممبر

    شمولیت:
    ‏15 دسمبر 2007
    پیغامات:
    4,163
    موصول پسندیدگیاں:
    50
    ملک کا جھنڈا:
    اسلام علیکم محترم قارئین کرام کچھ عرصہ قبل ہم نے حقیقت بدعت کے نام سے ایک مقالہ ترتیب دیا جس پر محترم باذوق صاحب نے چند اعتراضات وارد کیے تھے گو کہ ابھی انھوں نے اپنے اعتراضات مکمل نہیں کیے لیکن بہت عرصہ بیت چکا اب ہمارے صبر کا پیمانہ لبریز ہوچکا ہے لہذا جتنے اعتراضات اب تک وہ کر چکے ہیں ہم نے فیصلہ کیا ہے کہ ان کا جواب دے دیا جائے اور جو بعد میں کریں گے ان کا جواب بعد میں دے دیا جائے گا۔

    محترم جناب باذوق صاحب آپ کا پوری حدیث نقل کرنا بھی ہمارے مدعا کے معارض نہیں ہے کیونکہ ہمارا دعوٰی ہے اشیاء میں اصل اباحت ہے اور ہم نے اسی دعوٰی کو بدعت کی وضاحت کے لیے بنیاد بنایا ہے اور اس حدیث میں وماسكت عنہ فہو مما عفا عنہ کے جو الفاظ ہیں ان میں ما اپنے عموم پر ہے اور اس میں ہر چیز داخل ہے لہذا آپکو چاہیے کہ اس ما کی عمومیت سے کسی بھی چیز کی تخصیص کے لیے اپنے دعوے کے ثبوت کے بطور کوئی دلیل نقل کریں وگرنہ آپکی بات میں کسی صاحب علم کے لیے کوئی وزن نہیں ہے ۔

    ہمیں انتہائی افسوس ہوا کہ آپ جیسا صاحب علم شخص اتنا بھی نہیں جانتا کہ مباح کیا ہوتا ہے اور اس کے احکام کیا ہوتے ہیں ۔آیئے ہم سب سے پہلے آپکی خدمت میں مباح کی تعریف پیش کریں ۔
    مباح کی لغوی تعریف :مباح کا لفظ اباحت سے مشتق ہے ۔ عربی لغت میں اباحت کا اطلاق درج زیل معنوں میں ہوتا ہے ۔
    ظاہر ہونا ، جائز آزاد اور غیر ممنوع ، گھر کا صحن ۔
    (ابن منظور ، زبیدی، فیروز آبادی، فیومی، جوہری۔ بحوالہ الحکم الشرعی ڈاکٹر طاہر القادری ص 214)
    مباح کی اصطلاحی تعریف:
    ھو ما خیر الشارع المکلف فعلہ وترکہ
    شارع کا مکلف کو کسی کام کے کرنے یا نہ کرنے دونوں کا اختیار دینا مباح کہلاتا ہے۔
    مالا یمدح علی فعلہ ولا علی ترکہ۔
    جس کے کرنے اور چھوڑنے پر کوئی مدح نہ کی گئی ہو
    مالا یتعلق بفعلہ ولا ترکہ مدح و لازم
    جس کے کرنے اور چھوڑنے پر مدح یا سزا کا کوئی تعلق نہ ہو
    (آمدی ،غزالی،، السنوی، عبدالوھاب ،الشوکانی، بیضاوی،بحوالہ الحکم الشرعی ص215)
    مباح کا حکم :مباح کا حکم یہ ہے کہ اس کے فعل پر یا ترک پر نہ ثواب ہوتا ہے اور نہ عتاب
    (الزحیلی بحوالہ الحکم الشرعی ص 215)
    اب ہم اس طرف آتے ہیں کہ مباح کا حکم بیان کرنے کے باوجود آپ کو اس عبارت سے جو دھوکا ہوا ہے وہ کیا ہے؟

    میرے بھائی پہلی بات تو یہ ہے کہ مباح وہ شئے کہ جس کے کرنے اور نہ کرنے پر شرع نے کوئی پابندی نہیں لگائی بلکہ اس کو مطلق بندوں کی صوابدید پر چھوڑ دیا گیا ہے اور اسی لیے اس کو مباح بھی کہتے ہیں کہ اس کرنے یا نہ کرنے میں اختیار ہر بندے کے پاس ذاتی ہوتا ہے۔ رہا یہ سوال کہ میلاد النبی کو بطور خوشی منانا اور عرس کرنا وغیرہ کیا یہ سب افعال و اعمال ہیں یا محض اشیاء تو اس کے لیے عرض ہے کہ اعمال و افعال اور اشیاء میں جو فرق ہے اس کو واضح کرنا اب آپ ہی کی ذمہ داری ہے نہ کے ہماری ۔ اب آپ ہی بتایئے کہ اشیاء اور افعال و اعمال کے درمیان کیا فرق ہے؟ جبکہ ہمارے نزدیک تو لفظ شیاء مطلق ہے اور اعمال و افعال وغیرہ یہ سب اسی کے اطلاقات ہیں اور دلیل ہماری قرآن پاک کی مشھور آیت ہے کہ جس میں رب قادر کریم فرماتا ہے کہ : اذا اراداللہ شیاء کن فیکون
    یہان بھی اللہ پاک مطلق لفظ شیاء فرمایا ہے اور اسی مطلق شیاء سے مراد اسکی ہر ہر مخلوق بھی ہے کہ جس میں انسان کی ذات سے لیکر اس کے اعمال تک سبھی آجاتے ہیں اللہ پاک ان سب کا خالق ہے جیسا کہ اللہ پاک ایک اور جگہ قرآن پاک میں فرماتا ہے ۔ ۔ ۔ واللہ خالقکم بما کنتم تفعلون ۔ ترجمہ اللہ تمہارا بھی خالق ہے اور جو کچھ کرتے ہو ہو (یعنی تمہارے افعال) ان کا بھی خالق ہے ۔ آپ دیکھ سکتے ہیں کہ جب اللہ پاک نے اپنی قدرت خلق کا مطلق ذکر کیا یعنی جب اپنی صفت قدرت کو مطلق رکھا تو لفظ شیاء کا استعمال کیا ۔ یہاں پر لفظ شیاء ہمارے مدعا کی بین دلیل ہے کہ شیاء سے تمام اشیاء مراد ہیں چاہے وہ کسی کی زات ہو یا اعمال و افعال ۔

    اب رہا آپکا یہ شبہ کہ میلاد النبی اور عرس وغیرہ کو ثواب سمجھ کر منایا جاتا ہے اس لیے یہ مباح کی تعریف میں نہیں آتے یہ بھی محض آپ کو دھوکا ہوا ہے اور اصل میں آپ بات کی حقیقت کو سمجھ نہیں پا رہے دیکھیئے میلاد منانا اپنے حکم کی اصل کے اعتبار سے مباح ہی ہے لیکن میلاد منانے کے پیچھے جو نظریہ کارفرما ہے وہ ہے تعظیم رسول صلی اللہ علیہ وسلم اور تعظیم رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے قرآن پاک حکم بھی ہے اور قرآن پاک کے اس حکم کا یہ تقاضا بھی ہے کہ جو بھی مسلمان تعظیم مصطفٰی صلی اللہ علیہ وسلم بجا لائے اس کو اس کا اجر و ثواب ضرور ملنا چاہیے ۔ کہنا یہ چاہتا ہوں کہ کسی بھی کام کہ کرنے یا نہ کرنے کا اختیار ہونا ایک الگ امر ہے اور اسی اختیار کو یہاں مباح کہہ دیا گیا ہے اب ظاہر ہے انسان کوئی بھی کام کرئے گا یا تو وہ شریعت کے مزاج کے خلاف ہوگا یا پھر شریعت کے مزاج کے عین مطابق ۔ اب یہی مطابقت فاعل کو یا تو جزا کی طرف لے جائے گی یا پھر سزا کی طرف ۔ اوپر اعتراض میں جتنی بھی اشیاء کا آپ نے ذکر کیا وہ سب اپنے حکم اصلی کے اعتبار سے مباح ہی کہلائیں گی کیونکہ شارع کا ان پر کوئی واضح حکم موجود نہیں اسی لیے وہ مباح ٹھریں گی ۔کیونکہ اگر شارع نے ان کو کرنے کا حکم دیا ہوتا تو وہ یا تو فرض یا پھر واجب یا پھر سنت شمار ہوتیں اور اگر شارع نے ان سے منع کیا ہوتا تو وہ پھر حرام یا مکروہ تحریمی یا پھر تنزیہی قرار پاتیں لیکن شارع خاموش ہے اس لیے وہ اپنے کرنے یا نہ کرنے کے اعتبار سے تو مباح ہیں لیکن اگر ان میں کوئی علت ایسی پائی جائے جو کہ شریعت کے خلاف ہوتو پھر ایسی اشیاء کبھی ناجائز اور کبھی مکروہ (تحریمی یا تنزیہی) بھی قرار پائیں گی اور اگر ان میں کوئی ایسی علت نہ پائی جائے جوکہ شریعت کے خلاف ہو بلکہ اس کے برعکس ان میں کوئی ایسی بات پائی جائے جو کہ عین منشاء شریعت ہو تو ایسی تمام اشیاء اپنی اصل کے اعتبار سے مباح اور اپنے وقوع میں شریعت کے منشاء کےا عتبار سے کبھی مستحب اور کبھی سنت اور کبھی کبھی واجب بھی قرار پاتیں ہیں ۔ اسی لیے فقہاء اور محدثین نے اباحت کے اس اصول کو مد نظر رکھتے ہوئے اور اسی کو بنیاد بناتے ہوئے بدعت کی بھی پانچ اقسام بیان کی ہیں جو کہ آگے چل کر ہم نقل کریں گے مستند حوالہ جات سے سر دست تو مباح کی وضاحت پیش نظر تھی اور میں امید کرتا ہوں کہ میں اپنے قارئین سمیت باذوق صاحب کی ا لجھن بھی دور کرنے میں کامیاب ہوچکا ہوں گا۔

    سب سے پہلے تو ہمارا اس عبارت پر یہ سوال ہے کہ یہاں عبادت سے کیا مراد ہے ؟
    علامہ غلام رسول سعیدی اسی بات کی وضاحت میں جناب سرفراز خاں صفدر صاحب سے اپنی کتاب توضیح البیان میں پوچھتے ہیں کہ اگر امور دینیہ سے زکر اذکار اور خالص عبادات مثلا نماز روزہ مراد ہیں تو ظاہر ہے کوئی بھی مسلمان عید میلاد پر اظہار خوشی کو اس قسم سے نہیں جانتا پس اس کا بدعت اور حرام ہونا کیسے ٹھرے گا۔
    (توضیح البیان ص267)
    علامہ غلام رسول سعیدی کی یہ عبارت عبادات منصوصہ کے بارے میں ہے یعنی پنج وقت نماز ،روزہ اور اسی طرح وہ تمام عبادات کہ جن کے بارے میں شارع نے واضح احکام اُنکی ترتیب ، ترکیب ،اور اوقات وغیرہ مقرر فرمادیئے ہیں اب شارع کی عائد کردہ پابندی کے بعد کوئی شخص اگر کسی ایک فرض نماز کو کسی دوسری فرض نماز کے وقت میں یا پھر پانچ کی جگہ چھٹی فرض نماز ایجاد کرئے گا تو وہ اس عبارت کا مستحق ٹھرے گا نہ کہ کوئی ایسا شخص جو کہ کوئی بھی نفل نماز اپنی مرضی سے ان تمام اوقات میں کہ جن میں نفل پڑھنا منع نہیں ہے جتنے چاہے نفل پڑھے اور ثواب کی نیت سے پڑھے تو اس میں کوئی حرج نہ ہوگا کیونکہ نفل نماز تو ہے ہی وہ نماز کہ جس کو جس قدر بھی پڑھنے پر شارع نے بندے کو اختیار دیا ہے اب متنفل یہ نہیں دیکھے گا کہ آیا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فلاں وقت میں فلاں جگہ اتنی اتنی تعداد میں نفل پڑھے ہیں کہ نہیں؟ امید کرتا ہوں بات آپ کی سمجھ میں آگئی ہوگی۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ جاری ہے
     
  2. آبی ٹوکول
    آف لائن

    آبی ٹوکول ممبر

    شمولیت:
    ‏15 دسمبر 2007
    پیغامات:
    4,163
    موصول پسندیدگیاں:
    50
    ملک کا جھنڈا:
    آپکے اس عجیب و غریب مقولے کی مضحکہ خیزی پر کوئی بھی صاحب فھم آدمی آپ کو داد دیئے بغیر نہ رہ سکے گا کہ عجب مضحکہ خیزی ہے کہ ایک چیز جو کہ دین ہو اور اس کو حاصل کرنے کے لیے یا اس تک پہنچنے کے لیے جو زریعہ استعمال کیا جائے وہ دین نہ ہو بلکہ اس کا غیر ہو پہلی بات تو یہ ہے کہ دینی اور دنیاوی کی یہ تفریق بذات خود تعریف کی محتاج ہے کہ کن کن امور کو دینی اور کن کن امور کو دنیاوی کہا گیا ہے اور اگر کہا بھی گیا ہے تو کن معنوں میں کہا گیا ہے ۔ عجیب بات ہے کہ ایک طرف تو جب ہم دین اسلام کی تبلیغ کرتے ہیں تو یہ کہتے ہوئے نہیں تھکتے کہ دین اسلام ایک عالمگیر اور ہمہ جہت دین ہے کہ جس میں قیامت تک کہ ‌آنے والے تمام مسائل کا حل ہے چاہے وہ کسی بھی عنوان کے تحت ہوں اور یہ ایک مکمل ضابطہ حیات ہے اور دوسری طرف جب ہمیں آپس کے مسائل میں کہیں ایک دوسرے سے اختلاف ہوجائے تو ہم دین اور دنیا کو الگ الگ گرداننے لگتے ہیں ایں چہ بوالعجبی است؟
    مجھے آپ یہ بتائیں کہ آخر وہ کون سے امور ہیں کہ جن کے بارے میں دین ہماری رہنمائی نہیں کرتا یہاں تو سوئی سے لیکر کپڑا کی تیاری تک جوتا پہننے سے لیکر مرنے تک بلکہ اس سے بھی بعد قبر میں دفنانے اور پھر خود قبر کے بارے میں بھی آداب و احکامات موجود ہیں آپ کس کس چیز کو دین اور دنیا کی تقسیم قرار دے کر اپنی جان چھڑائیں گے ۔
    آپ کہتے ہیں کہ جو کوئی بھی درس نظامی کو اختیار کرتا ہے تو کیا وہ اسے دین سمجھتا ہے ؟ میں آپ سے پوچھتا ہوں کہ کیا درس نظامی کرنا آپکے نزدیک بے دینی ہے؟ تو گویا آپکے نزدیک مدرسوں میں درس نظامی کی تعلیم حاصل کرنا بھی بے دینی ہے اور اس کے لیے وسائل اختیار کرنا بھی دین نہیں ہے وہ چاہے کہیں سے بھی اختیار کرلیں اور جو مرضی اختیار کرلیں ان کا دین سے کوئی تعلق نہ ہوگا اس طرح تو جس کو جو چیز چاہے گا وہ کرتا پھرے گا اور کہے گا یہ چیز میں دین سمجھ کر تو نہیں کررہا اس لیے مجھ پر کوئی جز ا اور سزا نہیں میں نے تو فلاں کا حق دنیا سمجھ کر مارا ہے اور میں نے فلاں کے ساتھ دنیا سمجھ کر زیادتی کی ہے وغیرہ وغیرہ ارے باذوق صاحب کیا ہوگیا ہے آپ کو ؟
    میرے ساتھ اس مسئلہ میں اختلاف کرنے میں آپ یوں الجھے کہ دین کو دنیا اور دین دو علیحدہ علیحدہ شقوں میں تقسیم کردیا اور اس پر مستزاد یہ کے آپ کا قلم یوں بہکا کہ درس نظامی کو بھی بے دینی سے تعبیر کردیا حالانکہ اس میں خالص قرآن و سنت کی تعلیم دی جاتی ہے ۔
    اور اوپر مسلم شریف کی جس حدیث کو آپ نے دین اور دنیا کی تقسیم وضع کرنے کے لیے تختہ مشق بنایا ہے اس میں دنیا کے لفظ سے مراد دین اور دنیا کی الگ الگ تقسیم نہیں ہے بلکہ وہاں دنیا کا لفظ اپنے عمومی اطلاق کے اعتبار سے آیا ہے نا کہ دین کے مقابلے میں آیا ہے ۔۔ ۔ ۔ ۔ جیسے ہمارے ہاں پنجابی اور اردو میں ایک لفظ دنیا داری بولا جاتا ہے اب سے جاہل لوگ تو دین اور دنیا کا الگ الگ ہونا مراد لے سکتے ہیں لیکن کسی بھی صاحب فھم آدمی پر یہ اچھی طرح روشن ہے ہے کہ دنیا داری کو کوئی بھی ایسا معاملہ نہیں ہے کہ جس کے بارے میں دین ہماری رہنمائی نہ فرماتا ہو ۔
    کائنات میں جتنی چیزیں ہیں انکے استعمال یا عدم استعمال اور جتنے عقیدے ہیں انکے ماننے یا نہ ماننے اور جتنے امور ہیں انکے کرنے یا نہ کرنے کے بارے میں ہمیں کوئی نہ کوئی حکم شرعی ضرور ملتا ہے چاہے وہ دلائل اربعہ کے خصوص سے ثابت ہو یا پھر عموم سے مسلم شریف کی یہ حدیث ہمارے مدعا پر واضح دلیل ہے کہ جس کا مفھوم یہ ہے کہ ۔ ۔
    حضرت سلمان فارسی سے روایت ہے کہ کفار نے آپ سے کہا کہ تمہارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم تمہیں ہر چیز بتاتے ہیں یہاں تک کے رفع حاجت کا طریقہ بھی بتاتے ہیں آپ نے جواب دیا ہاں ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
    (مسلم ‌شریف‌) اس حدیث میں کل شئی کہ لفظ سے پتا چلا کہ دین کل کو محیط ہے کوئی بھی شئے دین سے باہر نہیں اور اگر آپ کو اب بھی اصرار ہے دین اور دنیا کی تقسیم پر اور اسی اصرار کی بنیاد پر آپ درس نظامی کو بھی دنیا سے تعبیر کرنے پر مصر ہیں تو پھر آپ کو آپ کے مدارس کی بے دینی مبارک ہو خدا کا شکر ہے کہ آپکو آپکے مقام کا بذات خود احساس ہوگیا ۔ ا سکے علاوہ بھی آپ نے مساجد میں لاوڈ اسپیکر اور لائٹیں وغیرہ لگوانا اور یوں پنکھوں اور گرمیوں میں اے سی اور سردیوں میں ہیٹر وغیرہ کا ھدیہ کرنا یہ سب بے دینی اور دنیاوی امور لگتے ہیں میرا ان سب پر آپ سے صرف ایک سوال ہے کہ اگر کوئی شخص ان میں سے کسی بھی چیز کا ھدیہ مسجد کو دیتا ہے تو کیا اس کو اس کا ثواب ملے گا یا نہیں اور اگر ملے گا تو یہ آپ کے قاعدے کے مطابق تو دنیاوی امور میں سے ہے پھر کیون ملے گا اور اگر نہیں ملے گا تو کیون نہیں ملے گا جب کے لوگ ثواب کی خاطر ایسا کرتے ہیں؟
    اس کے علاوہ آپ نے جتنے بھی علماء کی عبارات بدعت کو دینی امور میں کسی نئی چیز کے داخل کرنے پر وارد کیں ان میں سے کوئی بھی ہمارے خلاف نہیں کیونکہ ہمارے نزدیک دین اور دنیا کی الگ الگ تقسیم ان معنوں میں جائز نہیں کہ جن معنوں میں آپ فرمارہے ہیں رہا فاضل بریلوی کا حوالہ تو سردست جو حوالہ نمبر آپ نے دیا ہے میں نے انٹر نیٹ پر وہ تلاش کیا ہے جلد نمبر 11 میں صفحہ نمبر 41 پر ایسا کو ئی مسئلہ نہیں ہے فتاوٰی رضویہ میں لہذا آپ سے گذارش ہے کہ آپ اس حوالہ کی یا تو پوری عبارت اسکین کر کے لگائین یا پھر نیٹ سے ہی اس عبارت کا مکمل حوالہ بطور لنک پیش کریں۔
    تب تک ہمارے نزدیک فاضل بریلوی علیہ رحمہ کی اس عبارت سے یہی مقصود ہے کہ تمباکو نوشی ایک ایسا دنیاوی فعل ہے کہ جس پر شریعت نے کوئی ممانعت نہیں فرمائی اور چونکہ اپنی اصل کے اعتبار سے یہ ایک دنیاوی فعل ہے اس لیے اس کو اپنے عموم پر ہی برقرار رکھتے ہوئے فاضل بریلوی نے امور دنیا میں سے ایک امر قرار دیا ہے نہ کہ یہاں پر انکی مراد دین اور دنیا کی تقسیم ہے ۔

    اپنے اس اقتباس میں آپ نے لفظ بدعت کو شرعی بدعت کے ساتھ خاص کیا ہے میں پوچھ سکتا ہوں کہ یہ تخصیص آپ نے کس امر کی بنیاد پر فرمائی ہے ؟
    دیگر آپ کا یہ کہنا کہ یہ کوئی شرعی بدعت نہیں بلکہ اللہ کی مدد ہے تو عرض ہے کہ اللہ کی یہ مدد دین کے مکمل ہوجانے کے بعد کیوں وقوع پذیر ہوئی کیا وجہ تھی کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے دور میں ایسا نہیں کیا گیا حالانکہ صحابہ کرام آپ کے دور میں بھی دور دراز کے علاقوں تک پہنچ گئے تھے اور پھر خلفائے راشدین کے دور میں ایسا کیوں نہیں کیا گیا؟ حالانکہ اس وقت تک دین کا عجم میں پھیل جانا کوئی اختلافی امر نہیں ہے؟ رہا وہ مغالطہ جو کہ آپ کی اس عبارت سے آپکو درپیش ہے تو اس کا جواب خود ہی آپ کی عبارت کے اگلے حصے میں موجود ہے کہ قرآن پاک بلاشبہ مکمل تھا لیکن عجمی کیوں کے قرآن پاک بغیر زیر زبر کے صحیح طریقے سے پڑھ نہیں سکتے تھے ا سلیے قرآن پاک پر اعراب کا اضافہ کیا گیا اور یہ اضافہ بظاہر تو اضافہ ہی تھا مگر اس سے قرآن کی تلاوت جوں کی توں ہی رہی اس کے معنٰی اور مفھوم میں کوئی فرق نہ پڑا اس لیے اس کو قرآن میں اضافہ نہیں کہہ سکتے کہ ان اعراب کی وجہ سے عجمی لوگ بھی بالکل اسی طرح قرآن تلاوت کرنے لگے کہ جیسا قرآن کریم تھا یا جیسے عربی تلاوت کیا کرتے تھے فرق صرف اتنا رہ گیا کہ عرب لوگ آج بھی بغیر اعراب کے قرآن کی تلاوت بالکل ٹھیک ٹھیک اسی طرح کرتے ہیں جیسا کہ ہم لوگ اعراب کے ساتھ تلاوت کرتے ہیں امید کرتا ہوں آپکی الجھن دور ہوگئی ہوگی۔


    آپکے پیش کردہ ان تمام حوالاجات پر ہماری طرف سے عرض ہے کہ اول تو یہ تمام حوالاجات ہماری ہی تائید میں ہیں نہ کہ آپکی تائید میں اور اگر بالفرض محال آپکو ہماری بات منظور نہیں تو آپکو چاہیے تھا کہ ان تمام حوالاجات کی مکمل عبارات نقل فرماتے تاکہ آپ پر عمارا مدعا کھل واضح ہوجاتا اور بات نکھر کر سامنے آجاتی کہ جو ہم کہہ رہیں تمام فقہاء اور محدثین کی بھی وہی رائے ہے لیکن آپ نے نہ جانے کیوں تمام عبارات مکمل نقل نہیں کیں اب اسے ہم کیا کہہ سکتے ہیں کہ علمی میدان اور خاص طور پر استدلالی میدان میں اس قسم کی حرکت کو اچھے نظریے سے نہیں دیکھا جاتا مگر تاہم ہم آپ پر حسن ظن ہی رکھتے ہیں اور ان تمام عبارات کو مکمل نقل نہ کرنے کو آپکی چُوک سے ہی تعبیر کرتے ہیں۔ اب ترتیب وار آپکی نقل کردہ عبارات کا مکمل متن ڈاکٹر طاہر القادری کی کتاب البدعۃ عند الائمہ والمحدثین سے حاضر ہے صرف امام ابن کثیر اور ابن رجب حنبلی کا حوالہ چھوڑ کر کہ اس پر ہم نے آپ سے پہلے ہی سوال کیا ہے کہ بدعت کی تقسیم شرعی اور لغوی کرنے کی کیا دلیل ہے؟نیز یہ کہ ان کی عبارات بھی در اصل ہمارے ہی حق میں ہیں کہ وہ بدعت کو شرعی اور لغوی اعتبار سے تقسیم کرنے کے قائل ہیں اور ہم حسنہ اور سئیہ کے اعتبار سے۔

    اِمام علی بن اَحمد ابن حزم الاندلسی رحمۃ اللہ علیہ (456 ھ)
    اِمام ابن حزم اندلسی اپنی کتاب ’’الاحکام فی اُصول الاحکام‘‘ میں بدعت کی تعریف اور تقسیم بیان کرتے ہوئے رقمطراز ہیں :


    4. والبدعۃ کل ما قيل أو فعل مما ليس لہ أصل فيما نسب إليہ صلي اللہ عليہ وآلہ وسلم و ہو في الدين کل مالم يأت في القرآن ولا عن رسول اﷲ صلي اللہ عليہ وآلہ وسلم إلا أن منہا ما يؤجر عليہ صاحبہ و يعذر بما قصد إليہ من الخير و منہا ما يؤجر عليہ صاحبہ و يکون حسنا و ہو ماکان أصلہ الإباحۃ کما روي عن عمر رضي اللہ عنہ نعمت البدعۃ ہذہ(1) و ہو ما کان فعل خير جاء النص بعموم استحبابہ و إن لم يقرر عملہ في النص و منہا ما يکون مذموما ولا يعذر صاحبہ و ہو ما قامت بہ الحجۃ علي فسادہ فتمادي عليہ القائل بہ. (2)

    ’’بدعت ہر اس قول اور فعل کو کہتے ہیں جس کی دین میں کوئی اصل یا دلیل نہ ہو اور اس کی نسبت حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی طرف کی جائے لہٰذا دین میں ہر وہ بات بدعت ہے جس کی بنیاد کتاب و سنت پر نہ ہو مگر جس نئے کام کی بنیاد خیر پر ہو تو اس کے کرنے والے کو اس کے اِرادئہ خیر کی وجہ سے اَجر دیا جاتا ہے اور یہ بدعتِ حسنہ ہوتی ہے اور یہ ایسی بدعت ہے جس کی اصل اباحت ہے۔ جس طرح کہ حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کا نعمت البدعۃ ہذہ قول ہے۔ اور یہ وہی اچھا عمل تھا جس کے مستحب ہونے پر نص وارد ہوئی اگرچہ پہلے اس فعل پر صراحتاً نص نہیں تھی اور ان (بدعات) میں سے بعض افعال مذموم ہوتے ہیں لہٰذا اس کے عامل کو معذور نہیں سمجھا جاتا اور یہ ایسا فعل ہوتا ہے جس کے ناجائز ہونے پر دلیل قائم ہوتی ہے اور اس کا قائل اس پر سختی سے عامل ہوتا ہے۔‘‘

    1. مالک، المؤطا، باب ما جاء في قيام رمضان، 1 / 114، رقم : 250
    2. بيہقي، شعب الايمان، 3 / 177، رقم : 3269
    3. سيوطي، تنوير الحوالک شرح مؤطا مالک، 1 / 105، رقم : 250
    4. ابن رجب حنبلي، جامع العلوم والحکم، 1 / 266


    ابن حزم الاندلسي، الاحکام في اُصول الاحکام، 1 : 47

    آپ نے دیکھا قارئین درج بالا عبارت میں بولڈ کیئے گئے الفاظ کس طرح ہمارا مدعا ثابت کررہے ہیں۔

    (13) اِمام ابو اسحاق ابراہیم بن موسيٰ الشاطبی رحمۃ اللہ علیہ (المتوفی 790ھ)
    علامہ ابو اسحاق شاطبی اپنی معروف کتاب ’’الاعتصام‘‘ میں بدعت کی اقسام بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں :
    16.

    ہذا الباب يُضْطَرُّ إِلي الکلام فيہ عند النظر فيما ہو بدعۃ وما ليس ببدعۃ فإن کثيرًا من الناس عدوا اکثر المصالح المرسلۃ بدعاً و نسبوہا إلي الصحابۃ و التابعين و جعلوہا حجۃ فيما ذہبوا إليہ من اختراع العبادات وقوم جعلوا البدع تنقسم بأقسام أحکام الشرعيۃ، فقالوا : إن منہا ما ہو واجب و مندوب، وعدوا من الواجب کتب المصحف وغيرہ، ومن المندوب الإجتماع في قيام رمضان علي قارئ واحد. و أيضا فإن المصالح المرسلۃ يرجع معناہا إلي إعتبار المناسب الذي لا يشہد لہ أصل معين فليس لہ علي ہذا شاہد شرعيّ علي الخصوص، ولا کونہ قياساً بحيث إذا عرض علي العقول تلقتہ بالقبول. وہذا بعينہ موجود في البدع المستحسنۃ، فإنہا راجعۃ إلي أمور في الدين مصلحيۃ. في زعم واضعيہا. في الشرع علي الخصوص. وإذا ثبت ہذا فإن کان إعتبار المصالح المرسلۃ حقا فإعتبار البدع المستحسنہ حق لأنہما يجريان من واد واحد. وإن لم يکن إعتبار البدع حقا، لم يصح إعتبار المصالح المرسلۃ.

    ’’اس باب ميں یہ بحث کرنا ضروری ہے کہ کیا چیز بدعت ہے اور کیا چیز بدعت نہیں ہے کیونکہ زیادہ تر لوگوں نے بہت سی مصالح مرسلہ کو بدعت قرار دیا ہے اور ان بدعات کو صحابہ کرام اور تابعین عظام کی طرف منسوب کیا ہے اور ان سے اپنی من گھڑت عبادات پر استدلال کیا ہے۔ اور ایک قوم نے بدعات کی احکام شرعیہ کے مطابق تقسیم کی ہے اور انہوں نے کہا کہ بعض بدعات واجب ہیں اور بعض مستحب ہیں، انہوں نے بدعات واجبہ میں قرآن کریم کی کتابت کو شمار کیا ہے اور بدعات مستحبہ میں ایک امام کے ساتھ تراویح کے اجتماع کو شامل کیا ہے۔ مصالح مرسلہ کا رجوع اس اعتبار مناسب کی طرف ہوتا ہے جس پر کوئی اصل معین شاہد نہیں ہوتی اس لحاظ سے اس پر کوئی دلیل شرعی بالخصوص نہیں ہوتی اور نہ وہ کسی ایسے قیاس سے ثابت ہے کہ جب اسے عقل پر پیش کیا جائے تو وہ اسے قبول کرے اور یہ چیز بعینہ بدعات حسنہ میں بھی پائی جاتی ہے کیونکہ بدعات حسنہ کے ایجاد کرنے والوں کے نزدیک ان کی بنیاد دین اور بالخصوص شریعت کی کسی مصلحت پر ہوتی ہے اور جب یہ بات ثابت ہو گئی تو مصالح مرسلہ اور بدعات حسنہ دونوں کا مآل ایک ہے اور دونوں برحق ہیں اور اگر بدعات حسنہ کا اعتبار صحیح نہ ہو تو مصالح مرسلہ کا اعتبار بھی صحیح نہیں ہو گا۔‘‘

    شاطبی، الإعتصام، 2 : 111

    علامہ شاطبی ’’بدعت حسنہ‘‘ کے جواز پر دلائل دیتے ہوئے مزید فرماتے ہیں :

    : فواﷲ لو کلفوني نقل جبل من الجبال ما کان أثقل عليّ من ذلک. فقلت : کيف تفعلون شيئًا لم يفعلہ رسول اﷲ صلي اللہ عليہ وآلہ وسلم ؟ فقال أبوبکر : ہو واﷲ خير، فلم يزل يراجعني في ذلک أبوبک. أن أصحاب رسول اﷲ صلي اللہ عليہ وآلہ وسلم اتفقوا علي جمع المصحف وليس تَمَّ نص علي جمعہ وکتبہ أيضا. . بل قد قال بعضہم : کيف نفعل شيئاً لم يفعلہ رسول اﷲ صلي اللہ عليہ وآلہ وسلم؟ فروي عن زيد بن ثابت رضي اللہ عنہ قال : أرسل إِليّ أبوبکر رضي اللہ عنہ مقتلَ (أہل) اليمامۃ، و إِذا عندہ عمر رضي اللہ عنہ، قال أبوبکر : (إن عمر أتاني فقال) : إِن القتل قد استحرّ بقراءِ القرآن يوم اليمامۃ، و إِني أخشي أن يستحرّ القتل بالقراءِ في المواطن کلہا فيذہب قرآن کثير، و إِني أري أن تأمر بجمع القرآن. (قال) : فقلت لہ : کيف أفعل شيئًا لم يفعلہ رسول اﷲ صلي اللہ عليہ وآلہ وسلم ؟ فقال لي : ہو واﷲ خير. فلم يزل عمر يراجعني في ذلک حتي شرح اﷲ صدري لہ، ورأيت فيہ الذي رأي عمر. قال زيد : فقال أبوبکر : إنک رجل شاب عاقل لا نتہمک، قد کنت تکتب الوحي لرسول اﷲ صلي اللہ عليہ وآلہ وسلم ، فتتبع القرآن فاجمعہ. قال زيد ر حتي شرح اﷲ صدي للذي شرح لہ صدورہما فتتبعت القرآن أجمعہ من الرقاع والعسب واللخاف، ومن صدور الرجال، فہذا عمل لم ينقل فيہ خلاف عن أحد من الصحابۃ. (1). . . . حتي اذا نسخوا الصحف في المصاحف، بعث عثمان في کل افق بمصحف من تلک المصاحف التي نسخوہا، ثم امر بما سوي ذٰلک من القراء ۃ في کل صحيفۃ أو مصحف أن يحرق. . . . ولم يرد نص عن النبي صلي اللہ عليہ وآلہ وسلم بما صنعوا من ذلک، ولکنہم رأوہ مصلحۃ تناسب تصرفات الشرع قطعا فإن ذلک راجع إلي حفظ الشريعۃ، والأمر بحفظہا معلوم، وإلي منع الذريعۃ للاختلاف في أصلہا الذي ہوالقرآن، وقد علم النہي عن الإختلاف في ذلک بما لا مزيد عليہ. واذا استقام ہذا الأصل فاحمل عليہ کتب العلم من السنن و غيرہا إذا خيف عليہا الإندراس، زيادۃ علي ما جاء في الأحاديث من الأمر بکتب العلم. (2) ’’

    رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے صحابہ قرآن کریم کو ایک مصحف میں جمع کرنے پر متفق ہو گئے حالانکہ قرآن کریم کو جمع کرنے اور لکھنے کے بارے میں ان کے پاس کوئی صریح حکم نہیں تھا۔ ۔ ۔ لیکن بعض نے کہا کہ ہم اس کام کو کس طرح کریں جسے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے نہیں کیا حضرت زید بن ثابت رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ نے مجھے بلایا جبکہ یمامہ والوں سے لڑائی ہو رہی تھی اور اس و قت حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ بھی ان کے پاس تھے حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ نے کہا کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ میرے پاس آئے اور کہا کہ جنگ یمامہ میں قرآن کے کتنے ہی قاری شہید ہوگئے ہیں اور مجھے ڈر ہے کہ قراء کے مختلف جگہوں پر شہید ہونے کی وجہ سے قرآن مجید کا اکثر حصہ جاتا رہے گا۔ میری رائے یہ ہے کہ آپ قرآن مجید کے جمع کرنے کا حکم دیں حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے حضرت عمر رضی اللہ عنہ سے کہا کہ میں وہ کام کس طرح کرسکتا ہوں جسے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے نہیں کیا تو انہوں نے مجھے کہا خدا کی قسم یہ اچھا ہے پھر حضرت عمر رضی اللہ عنہ اس بارے میں مجھ سے بحث کرتے رہے یہاں تک کہ اللہ تعاليٰ نے اس معاملے میں میرا سینہ کھول دیا۔ میں نے بھی وہ کچھ دیکھ لیا جو حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے دیکھا تھا حضرت زید کا بیان ہے کہ حضرت ابوبکر نے مجھے فرمایا آپ نوجوان آدمی اور صاحب عقل و دانش ہو اور آپ کی قرآن فہمی پر کسی کو اعتراض بھی نہیں اور آپ آقا علیہ السلام کو وحی بھی لکھ کر دیا کرتے تھے۔ آپ قرآن مجید کو تلاش کرکے جمع کردیں تو حضرت زید رضی اللہ عنہ نے کہا خدا کی قسم اگر آپ مجھے پہاڑوں میں کسی پہاڑ کو منتقل کرنے کا حکم دیں تو وہ میرے لیے اس کام سے زیادہ مشکل نہیں ہے۔ میں نے کہا کہ آپ رضی اللہ عنہ اس کام کو کیوں کر رہے ہو جسے آقا علیہ السلام نے نہیں کیا تو حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ نے کہا خدا کی قسم اس میں بہتری ہے۔ تو میں برابر حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ سے بحث کرتا رہا یہاں تک کہ اللہ تعاليٰ نے میرا سینہ کھول دیا جس طرح اللہ تعاليٰ نے حضرت ابوبکر و عمر رضی اﷲ عنہما کا سینہ کھولا تھا۔ پھر میں نے قرآن مجید کو کھجور کے پتوں، کپڑے کے ٹکڑوں، پتھر کے ٹکڑوں اور لوگوں کے سینوں سے تلاش کرکے جمع کردیا۔ یہ وہ عمل ہے جس پر صحابہ رضی اللہ عنہ میں سے کسی کا اختلاف نقل نہیں کیا گیا۔ ۔ ۔ حتی کہ جب انہوں نے (لغت قریش پر) صحائف لکھ لیے تو حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے تمام شہروں میں ان مصاحف کو بھیجا اور یہ حکم دیا کہ اس لغت کے سوا باقی تمام لغات پر لکھے ہوئے مصاحف کو جلا دیا جائے۔ ۔ ۔ حالانکہ اس معاملہ میں ان کے پاس رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا کوئی حکم نہیں تھا لیکن انہوں نے اس اقدام میں ایسی مصلحت دیکھی جو تصرفات شرعیہ کے بالکل مناسب تھی کیونکہ قرآن کریم کو مصحف واحد میں جمع کرنا شریعت کے تحفظ کی خاطر تھا اور یہ بات مسلّم اور طے شدہ ہے کہ ہمیں شریعت کی حفاظت کا حکم دیا گیا ہے اور ایک لغت پر قرآن کریم کو جمع کرنا اس لیے تھا کہ مسلمان ایک دوسرے کی قرات کی تکذیب نہ کریں اور ان میں اختلاف نہ پیدا ہو اور یہ بات بھی مسلّم ہے کہ ہمیں اختلاف سے منع کیا گیا ہے اور جب یہ قاعدہ معلوم ہو گیا تو جان لو کہ احادیث اور کتب فقہ کو مدون کرنا بھی اسی وجہ سے ہے کہ شریعت محفوظ رہے، علاوہ ازیں احادیث میں علم کی باتوں کو لکھنے کا بھی حکم ثابت ہے۔‘‘
    1. بخاري، الصحيح، 4 : 1720، کتاب التفسير، باب قولہ لقد جاء کم رسول، رقم : 4402
    2. بخاري، الصحيح، 6 : 2629، کتاب الاًحکام، باب يستحب للکاتب أن يکون اميناً عاقلاً، رقم : 6768
    3. ترمذي، الجامع الصحيح، 5 : 283، کتاب التفسير، باب من سورۃ التوبۃ رقم : 3103
    4. نسائي، السنن الکبريٰ، 5 : 7، رقم : 2202
    5. احمد بن حنبل، المسند، 1 : 13، رقم : 76
    6. ابن حبان، الصحيح، 10 : 360، رقم : 4506


    شاطبي، الاعتصام، 2 : 115
    آپ نمے دیکھا قارئین کرام کے علامہ شاطبی کی مکمل عبارت کس طرح ہماری ایک ایک بات کی مضبوط دلیل ہے ۔اور یہی کچھ ہم نے بھی اپنی بات کے آغاز میں فرمایا تھا ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ جاری ہے
     
  3. آبی ٹوکول
    آف لائن

    آبی ٹوکول ممبر

    شمولیت:
    ‏15 دسمبر 2007
    پیغامات:
    4,163
    موصول پسندیدگیاں:
    50
    ملک کا جھنڈا:
    اِمام مبارک بن محمد ابن اثیر الجزری رحمۃ اللہ علیہ (المتوفی 606ھ)

    علامہ ابن اثیر جزری حدیثِ عمر ’’نعمت البدعۃ ھذہ‘‘
    (بخاری، رقم : 1906) کے تحت بدعت کی اقسام اور ان کا شرعی مفہوم بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں :

    . البدعۃ بدعتان : بدعۃ ہدًي، و بدعۃ ضلال، فما کان في خلاف ما أمر اﷲ بہ و رسولہ صلي اللہ عليہ وآلہ وسلم فہو في حيز الذّم والإنکار، وما کان واقعا تحت عموم ما ندب اﷲ إليہ و حضَّ عليہ اﷲ أو رسولہ فہو في حيز المدح، وما لم يکن لہ مثال موجود کنوع من الجود والسخاء و فعل المعروف فہو من الأفعال المحمودۃ، ولا يجوز أن يکون ذلک في خلاف ما ورد الشرع بہ؛ لأن النبي صلي اللہ عليہ وآلہ وسلم قد جعل لہ في ذلک ثوابا فقال من سنّ سُنۃ حسنۃ کان لہ أجرہا و أجر من عمل بہا وقال في ضِدّہ ومن سنّ سنۃ سيّئۃ کان عليہ وزرُہا ووِزرُ من عمل بہا(1) وذلک إذا کان في خلاف ما أمر اﷲ بہ ورسولہ صلي اللہ عليہ وآلہ وسلم ومن ہذا النوع قول عمر رضی اللہ عنہ : نِعمت البدعۃ ہذہ(2). لمَّا کانت من أفعال الخير وداخلۃ في حيز المدح سماہا بدعۃ ومدحہا؛ لأن النبي صلي اللہ عليہ وآلہ وسلم لم يسُنَّہا لہم، و إنما صلّاہا ليالي ثم ترکہا ولم يحافظ عليہا، ولا جمع الناس لہا، ولا کانت في زمن أبي بکر، وإنما عمر رضی اللہ عنہ جمع الناس عليہا و ندبہم إليہا، فبہذا سمّاہا بدعۃ، وہي علي الحقيقۃ سُنَّۃ، لقولہ صلي اللہ عليہ وآلہ وسلم (عليکم بِسُنَّتي و سنَّۃ الخلفاء الراشدين من بعدي)(3) وقولہ (اقتدوا باللذين من بعدي أبي بکر و عمر)(4) و علي ہذا التأويل يحمل الحديث الآخر (کل مُحْدَثۃ بدعۃ) إنما يريد ما خالف أصول الشريعۃ ولم يوافق السُّنَّۃ(5).

    ’’
    بدعت کی دو قسمیں ہیں، بدعت حسنہ اور بدعت سیئہ. جو کام اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے احکام کے خلاف ہو وہ مذموم اور ممنوع ہے، اور جو کام کسی ایسے عام حکم کا فرد ہو جس کو اللہ تعاليٰ نے مستحب قرار دیا ہو یا اللہ تعاليٰ اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس حکم پر برانگیختہ کیا ہو اس کام کا کرنا محمود ہے اور جن کاموں کی مثال پہلے موجود نہ ہو جیسے سخاوت کی اقسام اور دوسرے نیک کام، وہ اچھے کام ہیں بشرطیکہ وہ خلاف شرع نہ ہوں کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ایسے کاموں پر ثواب کی بشارت دی ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : ’’جس شخص نے اچھے کام کی ابتداء کی اس کو اپنا اجر بھی ملے گا اور جو لوگ اس کام کو کریں گے ان کے عمل کا اجر بھی ملے گا اور اس کے برعکس جو برے کام کی ابتداء کرے گا اس کے بارے میں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : جس شخص نے برے کام کی ابتداء کی اس پر اپنی برائی کا وبال بھی ہو گا اور جو اس برائی کو کریں گے ان کا وبال بھی اس پر ہو گا اور یہ اس صورت میں ہے جب وہ کام اللہ تعاليٰ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے احکام کے خلاف ہو اور اِسی قسم یعنی بدعتِ حسنہ کے بارے میں سیدنا عمر فاروق رضی اللہ عنہ کا یہ قول ’’نعمت البدعۃ ھذہ‘‘ ہے پس جب کوئی کام افعالِ خیر میں سے ہو اور مقام مدح میں داخل ہو تو اسے لغوی اعتبار سے بدعت کہا جائے گا مگر اس کی تحسین کی جائے گی کیونکہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے باجماعت نماز تراویح کو ان کے لئے مسنون قرار نہیں دیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے چند راتیں اس کو پڑھا پھر باجماعت پڑھنا ترک کر دیا اور اس پر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے نہ محافظت فرمائی اور نہ ہی لوگوں کو اس کے لئے جمع کیا، بعد میں نہ ہی یہ صدیق اکبر رضی اللہ عنہ کے دور میں باجماعت پڑھی گئی پھر سیدنا عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے لوگوں کو اس پر جمع کیا اور ان کو اس کی طرف متوجہ کیا پس اس وجہ سے اس کو بدعت کہا گیا درآں حالیکہ یہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اس قول ’’علیکم بسنّتی و سنۃ الخلفاء الراشدین من بعدی‘‘ اور اس قول’’اقتدوا باللذین من بعدی ابی بکر و عمر‘‘ کی وجہ سے حقیقت میں سنت ہے پس اس تاویل کی وجہ سے حدیث ’’کل محدثۃ بدعۃ‘‘ کو اصول شریعت کی مخالفت اور سنت کی عدم موافقت پر محمول کیا جائے گا۔

    1. مسلم، الصحيح، 2 : 705، کتاب الزکوٰۃ، باب الحث علي الصدقہ، رقم : 1017
    2. نسائي، السنن، 5 : 55، 56، کتاب الزکاۃ، باب التحريض علي الصدقہ، رقم : 2554
    3. ابن ماجہ، السنن، 1 : 74، مقدمۃ، باب سن سنۃ حسنۃ أو سيئۃ، رقم : 203
    4. احمد بن حنبل، المسند، 4 : 357. 359
    5. دارمي، السنن، 1 : 141، رقم : 514


    1. مالک، المؤطا، باب ما جاء في قيام رمضان، 1 / 114، رقم : 250
    2. بيہقي، شعب الايمان، 3 / 177، رقم : 3269
    3. سيوطي، تنوير الحوالک شرح مؤطا مالک، 1 / 105، رقم : 250


    1. ابوداؤد، السنن، 4 : 200، کتاب السنۃ، باب في لزوم السنۃ، رقم : 4607
    2. ترمذي، الجامع الصحيح، 5 : 44، کتاب العلم، باب ما جاء في الأخذ بالسنۃ، رقم : 2676
    3. ابن ماجہ، السنن، مقدمہ، باب اتباع السنۃ الخلفاء الراشدين، 1 : 15، رقم : 42
    4. احمد بن حنبل، المسند، 4 : 126


    1. ترمذي، الجامع الصحيح، کتاب المناقب عن الرسول صلي اللہ عليہ وآلہ وسلم ، باب مناقب ابي بکر و عمر، 5 / 609، رقم : 3662
    2. ابن ماجہ، السنن، باب في فضل اصحاب رسول اﷲ صلي اللہ عليہ وآلہ وسلم ، 1 / 37، رقم : 97
    3. حاکم، المستدرک، 3 / 79، رقم : 4451


    ابن أثير جزري، النہايۃ في غريب الحديث والأثر1 : 106
    آپ نے دیکھا قارئین کرام کے امام ابن اثیر کی مکمل عبارت کا ایک ایک لفظ کس طرح ہمارے مؤقف کو واضح کرکے بیان کررہا ہے ۔ ۔ ۔ ۔

    علامہ جمال الدین محمد بن مکرم ابن منظور الافریقی رحمۃ اللہ علیہ (المتوفی 711ھ)[/
    علامہ جمال الدین ابن منظور افریقی اپنی معروف کتاب ’’لسان العرب‘‘ میں علامہ ابن اثیر جزری کے حوالے سے بیان کرتے ہیں کہ حدیث پاک ’’کل محدثۃ بدعۃ‘‘ سے مراد صرف وہ کام ہے جو شریعت مطہرہ کے خلاف ہو اور وہ بدعت جو شریعت سے متعارض نہ ہو وہ جائز ہے۔ لکھتے ہیں :
    . البدعۃ : الحدث وما ابتدع من الدين بعد الإکمال. ابن السّکيت : البدعۃ کل محدثۃ و في حديث عمر رضي اللہ عنہ في قيام رمضان ’’نعمتِ البدعۃ ہذہ‘‘(1) ابن الأثير : البدعۃ بدعتان : بدعۃ ہدًي، و بدعۃ ضلال، فما کان في خلاف ما أمر اﷲ بہ و رسولہ صلي اللہ عليہ وآلہ وسلم فہو في حيز الذّم والإنکار، وما کان واقعا تحت عموم ما ندب اﷲ إليہ و حضَّ عليہ اﷲ أو رسولہ فہو في حيّز المدح، وما لم يکن لہ مثال موجود کنوع من الجود والسّخاء و فعل المعروف فہو من الأفعال المحمودۃ، ولا يجوز أن يکون ذلک في خلاف ما ورد الشرع بہ؛ لأن النبي صلي اللہ عليہ وآلہ وسلم قد جعل لہ في ذلک ثوابا فقال : (من سنّ سُنۃ حسنۃ کان لہ أجرہا و أجر من عمل بہا) وقال في ضِدّہ : (من سنّ سنۃ سيّئۃ کان عليہ وزرُہا ووِزرُ من عمل بہا)(2) وذلک إذا کان في خلاف ما أمر اﷲ بہ ورسولہ صلي اللہ عليہ وآلہ وسلم ، قَالَ : ومن ہذا النوع قول عمر رضی اللہ عنہ : نِعمت البدعۃ ہذہ، لمَّا کانت من أفعال الخير وداخلۃ في حيز المدح سماہا بدعۃ ومدحہا لأن النبي صلي اللہ عليہ وآلہ وسلم ، لم يسُنَّہا لہم، و إنما صلَّاہا ليالي ثم ترکہا ولم يحافظ عليہا ولا جمع الناس لہا ولا کانت في زمن أبي بکر رضی اللہ عنہ، وإنما عمر رضی اللہ عنہ جمع الناس عليہا و ندبہم إليہا، فبہذا سمّاہا بدعۃ، وہي علي الحقيقۃ سنَّۃ، لقولہ صلي اللہ عليہ وآلہ وسلم (عليکم بسنَّتي و سنَّۃ الخلفاء الراشدين من بعدي)(3) وقولہ صلي اللہ عليہ وآلہ وسلم : (اقتدوا باللذين من بعدي أبي بکر و عمر)(4) و علي ہذا التأويل يحمل الحديث الآخر (کل محدثۃ بدعۃ) إنما يريد ما خالف أصول الشريعۃ ولم يوافق السُّنَّۃ. (5)
    ’’
    بدعت سے مراد احداث ہے یا ہر وہ کام جو اکمالِ دین کے بعد کسی دینی مصلحت کے پیش نظر شروع کیا گیا ہو۔ ابن سکیت کہتے ہیں کہ ہر نئی چیز بدعت ہے جیسا کہ قیام رمضان کے حوالے سے حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی حدیث میں ہے نعمت البدعۃ ہذہ. ابن اثیر کہتے ہیں بدعت کی دو قسمیں ہیں، بدعت حسنہ اور بدعت سیئہ. جو کام اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے احکام کے خلاف ہو وہ مذموم اور ممنوع ہے، اور جو کام کسی ایسے عام حکم کا فرد ہو جس کو اللہ تعاليٰ نے مستحب قرار دیا ہو یا اللہ تعاليٰ اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس حکم پر برانگیختہ کیا ہو تو یہ اَمرِمحمود ہے اور جن کاموں کی مثال پہلے موجود نہ ہو جیسے سخاوت کی اقسام اور دوسرے نیک کام، وہ اچھے کام ہیں بشرطیکہ وہ خلاف شرع نہ ہوں کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ایسے کاموں پر ثواب کی بشارت دی ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : ’’جس شخص نے اچھے کام کی ابتداء کی اس کو اپنا اجر بھی ملے گا اور جو لوگ اس کام کو کریں گے ان کے عمل کا اجر بھی ملے گا اور اس کے برعکس یہ بھی فرمایا : جس شخص نے برے کام کی ابتداء کی اس پر اپنی برائی کا وبال بھی ہو گا اور جو اس برائی کو کریں گے ان کا وبال بھی اس پر ہو گا اور یہ اس وقت ہے جب وہ کام اللہ تعاليٰ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے احکام کے خلاف ہو۔ اور اِسی قسم یعنی بدعتِ حسنہ میں سے سیدنا عمر فاروق رضی اللہ عنہ کا یہ قول ’’نعمت البدعۃ ھذہ‘‘ ہے پس جب کوئی کام افعالِ خیر میں سے ہو اور مقام مدح میں داخل ہو تو اسے لغوی اعتبار سے تو بدعت کہاجائے گا مگر اس کی تحسین کی جائے گی کیونکہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اس (باجماعت نماز تراویح کے) عمل کو ان کے لئے مسنون قرار نہیں دیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے چند راتیں اس کو پڑھا پھر (باجماعت پڑھنا) ترک کردیا اور (بعد میں) اس پر محافظت نہ فرمائی اور نہ ہی لوگوں کو اس کے لئے جمع کیا بعد ازاں نہ ہی یہ صدیق اکبر رضی اللہ عنہ کے دور میں (باجماعت) پڑھی گئی پھر سیدنا عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے لوگوں کو اس پر جمع کیا اور ان کو اس کی طرف متوجہ کیا پس اس وجہ سے اس کو بدعت کہا گیا درآں حالیکہ یہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اس قول ’’علیکم بسنّتی و سنۃ الخلفاء الراشدین من بعدی‘‘ اور اس قول’’اقتدوا باللذین من بعدی ابی بکر و عمر‘‘ کی وجہ سے حقیقت میں سنت ہے پس اس تاویل کی وجہ سے حدیث ’’کل محدثۃ بدعۃ‘‘ کو اصول شریعت کی مخالفت اور سنت کی عدم موافقت پر محمول کیا جائے گا۔‘‘
    1. مالک، المؤطا، باب ما جاء في قيام رمضان، 1 / 114، رقم : 250
    2. بيہقي، شعب الايمان، 3 / 177، رقم : 3269
    3. سيوطي، تنوير الحوالک شرح مؤطا مالک، 1 / 105، رقم : 250


    1. مسلم، الصحيح، 2 : 705، کتاب الزکوٰۃ، باب الحث علي الصدقہ، رقم : 1017
    2. نسائي، السنن، 5 : 55، 56، کتاب الزکاۃ، باب التحريض علي الصدقہ، رقم : 2554
    3. ابن ماجہ، السنن، 1 : 74، مقدمۃ، باب سن سنۃ حسنۃ أو سيئۃ، رقم : 203
    4. احمد بن حنبل، المسند، 4 : 357. 359


    1. ابوداؤد، السنن، 4 : 200، کتاب السنۃ، باب في لزوم السنۃ، رقم : 4607
    2. ترمذي، الجامع الصحيح، 5 : 44، کتاب العلم، باب ما جاء في الأخذ بالسنۃ، رقم : 2676
    3. ابن ماجہ، السنن، مقدمہ، باب اتباع السنۃ الخلفاء الراشدين، 1 : 15، رقم : 42
    4. احمد بن حنبل، المسند، 4 : 126


    1. ترمذي، الجامع الصحيح، کتاب المناقب عن الرسول صلي اللہ عليہ وآلہ وسلم ، باب مناقب ابي بکر و عمر، 5 / 609، رقم : 3662
    2. ابن ماجہ، السنن، باب في فضل اصحاب رسول اﷲ صلي اللہ عليہ وآلہ وسلم ، 1 / 37، رقم : 97
    3. حاکم، المستدرک، 3 / 79، رقم : 4451
    4. بيہقي، السنن الکبريٰ، 5 / 212، رقم : 9836


    ابن منظور افريقي، لسان العرب، 8 : 6

    آپ نے دیکھا قارئین کرام ان تمام محدثین اور فقہاء نے ہمارے بیان کردہ بدعت کے مفھوم کی بعینہ تصریح کردی جو کہ ہم نے حقیقت بدعت کے عنوان کے تحت ترتیب دیا تھا تمام فقہاء اور محدثین کی مکمل عبارات پڑھنے کے بعد آپ اسی نتیجے پر پہنچیں گے کہ بالکل ہمارے مقالے کی طرح ان تمام عبارات میں بھی اسی طرح اسدلال و استشھاد کیا گیا ہے اور انھی احادیث سے کیا گیا ہیے کہ جن سے ہم نے بیان کیا تھا یہ ائمہ کرام کا اہل سنت والجماعت پر بالخصوص اور عالم اسلام پر بالعموم احسان ہے کہ انھوں نے اتنی وضاحت اور عمدگی کے ساتھ بدعت کے مفھوم کو اس باریک بینی سے واضح فرمادیا ہے کہ اب اس میں رتی بھر بھی شک کی کوئی گنجائش نہیں ۔ اب
    ‌آخر میں ہم امام شافعی کا بدعت کے حوالے مؤقف لکھ کر اصل کتاب کا ربط بھی مہیا کردیتے ہیں تاکہ نیٹ پر اس کتاب سے آپ سب لوگ بھی مستفید ہوسکیں ۔ ۔ ۔ ۔

    امام محمد بن اِدریس بن عباس الشافعی رحمۃ اللہ علیہ (المتوفی 204ھ)[/color]​
    امام بیہقی (المتوفی 458 ھ) نے اپنی سند کے ساتھ ’’مناقبِ شافعی‘‘ میں روایت کیا ہے کہ امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ بدعت کی تقسیم ان الفاظ میں بیان کرتے ہیں :

    . المحدثات من الأمور ضربان : أحدہما ما أحدث مما يخالف کتاباً أوسنۃ أو اثرًا أو إجماعاً فہذہ البدعۃ ضلالۃ، و الثانيۃ ما أحدث من الخير لا خلاف فيہ لواحد من ہذا فہذہ محدثۃ غير مذمومۃ، قد قال عمر رضي اللہ عنہ في قيام رمضان نعمت البدعۃ ہذہ(1) يعني إِنَّہا محدثۃ لم تکن و إِذا کانت ليس فيہا ردُّ لما مضي. (2)
    ’’محدثات میں دو قسم کے امور شامل ہیں : پہلی قسم میں تو وہ نئے امور ہیں جو قرآن و سنت یا اثر صحابہ یا اجماع امت کے خلاف ہوں وہ بدعت ضلالہ ہے، اور دوسری قسم میں وہ نئے امور ہیں جن کو بھلائی کے لیے انجام دیا جائے اور کوئی ان میں سے کسی (امرِ شریعت) کی مخالفت نہ کرتا ہو پس یہ امور یعنی نئے کام محدثہ غیر مذمومۃ ہیں۔ اسی لیے حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے رمضان میں تراویح کے قیام کے موقع پر فرمایا تھا کہ ’’یہ کتنی اچھی بدعت ہے یعنی یہ ایک ایسا محدثہ ہے جو پہلے نہ تھا اور اگر یہ پہلے ہوتا تو پھر مردود نہ ہوتا۔‘‘

    1. مالک، المؤطا، باب ما جاء في قيام رمضان، 1 / 114، رقم : 250
    2. بيہقي، شعب الايمان، 3 / 177، رقم : 3269
    3. سيوطي، تنوير الحوالک شرح مؤطا مالک، 1 / 105، رقم : 250
    4. ابن رجب حنبلي، جامع العلوم والحکم، 1 / 266
    5. زرقاني، شرح الزرقاني علي موطا الامام مالک، 1 / 340


    1. بيہقي، المدخل الي السنن الکبريٰ، 1 : 206
    2. ذہبي، سير أعلام النبلاء، 8 : 408
    3. نووي، تہذيب الاسماء واللغات، 3 : 21

    علامہ ابن رجب حنبلی (795ھ) اپنی کتاب ’’جامع العلوم والحکم‘‘ میں تقسیمِ بدعت کے تناظر میں اِمام شافعی کے حوالے سے مزید لکھتے ہیں :

    . وقد روي الحافظ أبو نعيم بإسناد عن إبراہيم ابن الجنيد قال : سمعت الشافعي يقول : البدعۃ بدعتان : بدعۃ محمودۃ و بدعۃ مذمومۃ، فما وافق السنۃ فہو محمود، وما خالف السنۃ فہو مذموم. واحتجّ بقول عمر رضي اللہ عنہ : نعمت البدعۃ ہي. (1) و مراد الشافعي رضي اللہ عنہ ما ذکرناہ من قبل أن أصل البدعۃ المذمومۃ ما ليس لہا أصل في الشريعۃ ترجع إليہ و ہي البدعۃ في إطلاق الشرع. وأما البدعۃ المحمودۃ فما وافق السنۃ : يعني ما کان لہا أصل من السنۃ ترجع إليہ، و إنما ہي بدعۃ لغۃ لا شرعا لموافقتہا السنۃ. وقد روي عن الشافعي کلام آخر يفسر ہذا و أنہ قال : المحدثات ضربان : ما أحدث مما يخالف کتابا أو سنۃ أو أثرا أو إجماعا فہذہ البدعۃ الضلالۃ، وما أحدث فيہ من الخير لا خلاف فيہ لواحد من ہذا و ہذہ محدثۃ غير مذمومۃ، و کثير من الأمور التي أحدثت ولم يکن قد اختلف العلماء في أنہا بدعۃ حسنۃ حتي ترجع إلي السنۃ أم لا. فمنہا کتابۃ الحديث نہي عنہ عمر وطائفۃ من الصحابۃ و رخص فيہا الأکثرون واستدلوا لہ بأحاديث من السنۃ. ومنہا کتابۃ تفسير الحديث والقرآن کرہہ قوم من العلماء و رخص فيہ کثير منہم. وکذلک اختلافہم في کتابۃ الرأي في الحلال والحرام و نحوہ. و في توسعۃ الکلام في المعاملات و أعمال القلوب التي لم تنقل عن الصحابۃ والتابعين. (2)

    1. مالک، المؤطا، باب ما جاء في قيام رمضان، 1 / 114، رقم : 250
    2. بيہقي، شعب الايمان، 3 / 177، رقم : 3269
    3. سيوطي، تنوير الحوالک شرح موطا مالک، 1 / 105، رقم : 250
    4. ابن رجب حنبلي، جامع العلوم والحکم، 1 / 266
    5. زرقاني، شرح الزرقاني علي موطا الامام مالک، 1 / 340


    ابن رجب حنبلي، جامع العلوم والحکم : 4 - 253

    ’’حافظ ابو نعیم نے ابراہیم بن جنید کی سند سے روایت کرتے ہوئے کہا ہے کہ میں نے امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ کو یہ کہتے ہوئے سنا کہ بدعت کی دو قسمیں ہیں۔

    1۔ بدعت محمودہ
    2۔ بدعت مذمومۃ

    جو بدعت سنت کے مطابق و موافق ہو وہ محمودہ ہے اور جو سنت کے مخالف و متناقض ہو وہ مذموم ہے اور انہوں نے حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کے قول (نعمت البدعۃ ھذہ) کو دلیل بنایا ہے اور امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ کی مراد بھی یہی ہے جو ہم نے اس سے پہلے بیان کی ہے بے شک بدعت مذمومہ وہ ہے جس کی کوئی اصل اور دلیل شریعت میں نہ ہو جس کی طرف یہ لوٹتی ہے اور اسی پر بدعت شرعی کا اطلاق ہوتا ہے اور بدعت محمودہ وہ بدعت ہے جو سنت کے موافق ہے یعنی اس کی شریعت میں اصل ہو جس کی طرف یہ لوٹتی ہو اور یہی بدعت لغوی ہے شرعی نہیں ہے اور امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ سے دوسری دلیل اس کی وضاحت پر یہ ہے کہ امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا کہ محدثات کی دو اقسام ہیں پہلی وہ بدعت جو کتاب و سنت، اثر صحابہ اور اجماع اُمت کے خلاف ہو یہ بدعت ضلالہ ہے اور ایسی ایجاد جس میں خیر ہو اور وہ ان چیزوں (یعنی قرآن و سنت، اثر اور اجماع) میں سے کسی کے خلاف نہ ہو تو یہ بدعتِ غیر مذمومہ ہے اور بہت سارے امور ایسے ہیں جو ایجاد ہوئے جو کہ پہلے نہ تھے جن میں علماء نے اختلاف کیا کہ کیا یہ بدعت حسنہ ہے۔ یہاں تک کہ وہ سنت کی طرف لوٹے یا نہ لوٹے اور ان میں سے کتابت حدیث ہے جس سے حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ اور صحابہ کے ایک گروہ نے منع کیا ہے اور اکثر نے اس کی اجازت دی اور استدلال کے لیے انہوں نے کچھ احادیث سنت سے پیش کی ہیں اور اسی میں سے قرآن اور حدیث کی تفسیر کرنا جس کو قوم کے کچھ علماء نے ناپسند کیا ہے اور ان میں سے کثیر علماء نے اس کی اجازت دی ہے۔ اور اسی طرح حلال و حرام اور اس جیسے معاملات میں اپنی رائے سے لکھنے میں علماء کا اختلاف ہے اور اسی طرح معاملات اور دل کی باتیں جو کہ صحابہ اور تابعین سے صادر نہ ہوئی ہوں ان کے بارے میں گفتگو کرنے میں بھی علماء کا اختلاف ہے۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اصل کتاب کا ربط درج زیل ہے جس میں بیسیوں دیگر ائمہ محدثین اور فقہائ کے حوالہ سے بدعت کی وضاحت کی گئی ہے ۔
    ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ جاری ہے
     
  4. آبی ٹوکول
    آف لائن

    آبی ٹوکول ممبر

    شمولیت:
    ‏15 دسمبر 2007
    پیغامات:
    4,163
    موصول پسندیدگیاں:
    50
    ملک کا جھنڈا:
    سب سے پہلے تو اتنا عرض ہے کہ جو تراجم آپ نے پیش کیے ہیں اور جو ترجمہ ہم نے پیش کیا ہے ان سب میں اس خاص جملے کے ترجمے کو ہم نے نیلے رنگ سے نمایاں کردیا ہے اب آپ ہی بتایئے کہ ان سب تراجم میں باہم کیا فرق ہے صرف الفاظ کے چناؤ کا ہی توفرق ہے ۔نا کہ معنوی لحاظ سے کوئی فرق ہے پھر نہ جانے کیوں ‌آپ اتنا سیخ پا ہورہے ہیں اور فاضل مترجم کو نعوذباللہ تحریف معنوی کا مرتکب ٹھرا رہے ہیں ۔ اب آپ ہی مجھے بتائیے کہ ۔ ۔
    پھر نا نبھاہا اس کو ایسا کہ جیسا اس کے نباہنے کا حق تھا اس جملے میں اور طاہر القادری صاحب کے اس جملے میں کیا معنوی فرق ہے کہ ۔ ۔ ۔ ۔ پھر وہ اس کے جملہ تقاضوں کا خیال نہ رکھ سکے
    متنازعہ جملہ عربی کی اس عبارت کا ترجمہ ہے ۔ ۔
    فَمَا رَعَوْهَا حَقَّ رِعَايَتِهَا
    پھر اسی فَمَا رَعَوْهَا حَقَّ رِعَايَتِهَا کا ترجمہ فاضل بریلوی علیہ رحمہ نے یوں فرمایا ہے کہ نہ نباہا جیسا اس کے نباہنے کا حق تھا
    پھر اسی فَمَا رَعَوْهَا حَقَّ رِعَايَتِهَا کا ترجمہ محمود الحسن دیو بندی نے یوں فرمایا ہے کہ ۔ ۔ پھر نہ نباہا اس کو جیسا چاہئے تھا نباہنا
    پھر اسی فَمَا رَعَوْهَا حَقَّ رِعَايَتِهَا کا ترجمہ سید مودودی نے یون فرمایا ہے کہ۔اور پھر اس کی پابندی کرنے کا جو حق تھا اسے ادا نہ کیا۔
    اب کوئی آپ جیسا صاحب علم آدمی صرف اس وجہ سے سید مودودی پر تحریف معنوی کا رکیک الزام لگا دے کہ انھون نے اپنے اس ترجمہ لفظ پابندی کہان سے استعمال کرلیا جب کہ اوپر والے دونوں ترجموں میں نہیں ہے۔ تو اب ایسے شخص کے فھم پر سوائے انا للہ وانا علیہ راجعون پڑھنے کہ اور انسان کر بھی کیا سکتا ہے اور میرے لیے تو آپ کا اس ترجمہ پر اعتراض کرنا ہی باعث حیرت و استعجاب ہی ہے اور اس سے زیادہ کیا کہوں ۔ ۔ ۔ ۔اب آپ ہی بتایئے کہ ۔ ۔ ۔ ۔
    کیا جملہ تقاضوں کےا لفاظ سے خود قرآن ہی کے الفاظ
    حَقَّ رِعَايَتِهَا کا مفھوم بعینہ ادا نہیں ہورہا جو اسے آپ تحریف معنوی قرار دے رہے ہیں۔
    امید ہے بات آپکی سمجھ میں آگئی ہوگی ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ جاری ہے
     
  5. آبی ٹوکول
    آف لائن

    آبی ٹوکول ممبر

    شمولیت:
    ‏15 دسمبر 2007
    پیغامات:
    4,163
    موصول پسندیدگیاں:
    50
    ملک کا جھنڈا:
    محترم باذوق صاحب آپ کو حیرت کے سمندر میں زیادہ غوطہ زن ہونے کی ضرورت نہیں ہے ہم ابھی آپ کو حیرت کے اس سمندر سے باہر نکال دیتے ہیں اسی آیت پر مختلف مفسرین کی آراء پیش کرکے ۔ ۔ ۔ ۔
    سب سے پہلے سورہ حدید کی آیت نمبر 27 کی تفسیر کو ہم ام التفسیر الدر المنثور کے حوالہ سے نقل کریں گے ۔۔امام جلال الدین سیوطی علیہ رحمہ اسی آیت کی تفسیر کے تحت رقم طراز ہیں ۔ ۔ ۔ امام سعید بن منصور ،عبد بن حمید ،ابن جریر ،ابن مردویہ اور ابن نصر سے ابو امامہ رضی اللہ عنہ کا یہ قول نقل کرتے ہیں کہ بے شک اللہ پاک نے تم پر رمضان کے روزے فرض کیے ہیں اور اس کا قیام تم پر فرض نہیں کیا بے شک قیام وہ شئے ہے کہ جس کا آغاز تم لوگوں نے خود کیا پس اب اس پر ہمیشگی اختیار کرو اور اسے مت چھوڑو کیونکہ بنی اسرائیل میں سے کچھ لوگ تھے جنھوں نے
    ایک بدعت یعنی نئے کام کا آغاز کیا ۔ پھر اسے چھوڑنے کے سبب اللہ پاک نے انھیں عیب دار قرار دیا اس کے بعد آپ نے یہی آیت تلاوت کی۔۔

    (الدر المنثور سورہ حدید آیت نمبر 27)
    آپ دیکھ سکتے ہیں قارئین کرام کہ یہ تفسیر کس طرح کھل کر ہمارے مدعا کی دلیل بن رہی ہے ۔ کہ جس طرح بنی اسرائل نے رھبانیت کی بدعت خود ایجاد کی تھی اللہ پاک نے اس کا حکم نہیں دیا تھا بالکل اسی طرح اس آیت کی تفسیر میں یہ بتایا جارہا ہے کہ مومنون قیام رمضان اللہ پاک نے تم پر فرض نہیں کیا بلکہ تم نے خود اس کو اپنے اوپر لازم کیا ہوا ہے اب اس کو نہ چھوڑنا کیونکہ تم سے پہلے قوم بنی اسرائل بھی یہ کرچکی ہے کہ رھبانیت اپنا کر پھر اس کے تقاضوں کو بھول گئی جس پر اللہ پاک کی ناراضگی ہوئی ان لوگوں پر اور پھر تفسیر کرنے والے سورہ حدید کی مزکورہ آیت لوگوں پر تلاوت کی۔ قارئین کرام اب تو آپ پر کھل کر واضح ہوگیا ہوگا کہ ہم اس تفسیر کے بیان کرنے میں منفرد نہیں ہیں بلکہ امام جلال الدین سیوطی بھی ہمارے ساتھ ہیں لیکن اگر باذوق صاحب کی اب بھی تسلی نہ ہوئی ہو تو ہم تفسیر تبیان القرآن کے حوالہ سے چاروں مسالک کی نمائندہ تفاسیر کا حوالہ اپنی بات کی مزید تائید میں پیش کریں گے ۔ ۔ ۔



    علامہ سمرقندی حنفی کی تفسیر​
    علامہ ابواللیث نصر بن محمد سمر قندی متوفی ۳۷۵ اپنی تفسیر بحر العلوم میں فرماتے ہیں کہ اس آیت میں یہ دلیل ہے اور مومنوں کو یہ تنبیہ ہے کہ جس شخص نے اپنے نفس پر کسی ایسے کام کو واجب کیا جو اس پر پہلے واجب نہ تھا تو اس پر لازم ہے کہ وہ اس کام کو کرے اور ترک نہ کرے ورنہ فاسق کہلائے گا اور بعض صحابہ نے یہ کہا کہ تم پر تراویح کا پورا کرن الازم ہے کیونکہ یہ پہلے تم پر واجب نہ تھی تم نے خود اس کو اپنے اوپر واجب کیا اگر تم نےاس کو ترک کیا تو تم فاسق ہوجاو گے پھر انھون نےا س آیت کی تلاوت کی۔
    علامہ قرطبی مالکی متوفی ۶۶۸ کی تفسیر​
    علامہ قرطبی مالکی اپنی تفسیر الجامع الاحکام القرآن میں فرماتے ہیں کہ یہ آیت اس بات پر دلالت کرتی ہے کہ ہر نیا کام بدعت ہے اور جو شخص کسی بدعت حسنہ کو نکالے اس پر لازم ہے کہ وہ اس پر ہمیشہ برقرار رہے اور اس بدعت کی ضد کی طرف عدول نہ کرے ورنہ وہ اس آیت کی وعید میں داخل ہوجاے گا۔۔ اس کے بعد علامہ نے وہی سارا واقعہ جو کہ ہم نے اوپر تفسیر الدرالمنثور کے حوالے سے نقل کردیا ہے اسے ہی بیان کیا ہے طوالت کے خوف سے ہم اسے یہاں حذف کرتے ہیں ۔
    علامہ رومی حنفی متوفی ۸۸۰​
    اسی آیت کی تفسیر کرتے ہوئے رقم طراز ہیں کہ مخلوق جو بدعت کا ارتکاب کرتی ہے اگر وہ اللہ اور اس کے رسول کے احکام کے خلاف ہو تو وہ مذموم اور منکر ہے اور اگر وہ ان احکامات کے تحت ہو جنھیں اللہ اور اسکے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے مستحب قرار دیا ہے تو بدعت مستحبہ ہے خواہ اسکی مثال پہلے موجود نہ ہو اور یہ افعال محمودہ میں سے ہے کیونکہ رسول پاک نے فرمایا جس نے نیک طریقہ ایجا د کیا ا سکو اپنے طریقہ کا بھی اجر ملے گا اور اس پر عمل کرنے والوں کا بھی اجر ملے گا

    علامہ سید محمود آلوسی حنفی متوفی ۱۲۷۰​
    اپنی تفسیر روح المعانی میں اسی آیت کے تحت رقم طراز ہیں کہ اس آیت میں یہ مذکور نہیں کہ مطلقا بدعت مذموم ہے بلکہ مذمت اس بات کی فر مائی گئی ہے کہ انھوں نے اللہ کی رضا کی طلب میں ایک بدعت کو اخیار کیا پھر اسکی رعایت نہیں کی ۔
    علامہ ابن جوزی حنبلی متوفی​
    ۵۹۷
    لکھتے ہیں کہ اللہ پاک نے جو یہ فرمایا کہ ہم نے رہبانیت کو ان پر فرض نہ کیا اس کے دومعنی ہیں
    ایک یہ کہ جب لوگ نفلی طور پر رھبانیت میں داخل ہوئے تو ہم نے ان پر اس کو فرض نہ کیا مگر اللہ کی رضا کو طلب کرنے کے لیے حسن بصری نے کہا کہ انھوں نے نفلی طور پر اس بدعت کو اختیار کیا پھر اللہ پاک نے ان پر اس بدعت کو فرض کردیا الزجاج نے کہا کہ جب انھون نے نفلی طور پر اس بدعت کو اختیار کیا تو اللہ نے ان پر اس کو لازم کردیا جیسے کوئی شخص نفلی روزہ رکھے تو تو اس پر لازم ہے کہ وہ اس کو پورا کرے ۔ قاضی ابو یعلٰی نے کہا کہ کسی بدعت کو قول سے بھی اختیار کیا جاتا ہے جیسے کسی کا کسی نفلی عبادت کی نذر ماننا اور فعل سے بھی بدعت کو اختیار کیا جاتا ہے اور اس آیت کا عموم دونوں قسموں کو شامل ہے اس کا تقاضا یہ ہے کہ ہر وہ شخص جو کسی عبادت کی اپنے قول یا فعل سے بدعت نکالے اس پر اسکی رعایت کرنا اور اس کو پورا کرنا لازم ہے ۔
    دوسرا قول یہ ہے کہ ہم نے ان کو صرف اس کا م کا مکلف کیا تھا کہ جس سے اللہ پاک راضی ہو۔۔۔۔۔

    (بحوالہ تفسیر تبیان القرآن از علامہ غلام رسول سعیدی)
     
  6. آبی ٹوکول
    آف لائن

    آبی ٹوکول ممبر

    شمولیت:
    ‏15 دسمبر 2007
    پیغامات:
    4,163
    موصول پسندیدگیاں:
    50
    ملک کا جھنڈا:
    یہ تھے محترم باذوق صاحب کے پیش کردہ اب تک کے اعتراضات ان میں سے ہم نے بعض کا تفصیلی اور بعض کا جزوی طور پر جواب دیا اور محترم باذوق صاحب کے اکثر اعتراضات کا جواب چونکہ ہمارے پیش کردہ دلائل کے عموم میں آگیا ہے اس لیے ہم نے بعض جگہوں کو صرف اس لیے نظر انداز کیا طوالت کی وجہ سے قارئین کہیں اُکتا نہ جائیں اس کے بعد بھی جو اعتراضات باذوق صاحب مزید فرمائیں گے ہم انکے جوابات کے لیے ہمہ وقت حاضر ہیں ۔۔ ۔ ۔ ۔ ۔ والسلام آپ سب کا خیر اندیش عابد عنائت
     
  7. نعیم
    آف لائن

    نعیم مشیر

    شمولیت:
    ‏30 اگست 2006
    پیغامات:
    58,107
    موصول پسندیدگیاں:
    11,153
    ملک کا جھنڈا:
    ماشاءاللہ ۔ عابد عنائیت بھائی ۔
    ساری تحریر پڑھ کر ایمان کو تازگی اور قلبی سکون نصیب ہوا -

    آپ کی اس محنت شاقہ پر اللہ تعالی کے حضور سے اجر عظیم اور بارگاہِ مصطفی کریم :saw: سے خصوصی عنایات کی دعا ہی کر سکتا ہوں۔
    اللہ تعالی ہمیں وسعتِ نظری سے حق کو پہچاننے اور اس پر برضا و بخوشی عمل پیرا ہونے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین بجاہ سید المرسلین :saw:
     
  8. الطاف حسین
    آف لائن

    الطاف حسین ممبر

    شمولیت:
    ‏6 فروری 2007
    پیغامات:
    47
    موصول پسندیدگیاں:
    1
    سادہ سی بات

    آلسلام علیکم
    یہ بدعت ہے ،یہ بدعت نہیں عین دین ہے۔ اسی طرح کے مناظرے ہوتے رہتے ہیں۔ میں کوئی عالم دین تو نہیں البتہ ایک سادہ سی بات میری سمجھ میں یہ آئی ہے کہ ،،،ہمیں دیکھنا ہوگا کہ جس عمل کی تبلیغ کی جا رہی ہے اس عمل کی اسلام میں کیا حیثیت ہے اگر وہ عمل فرض ہے یا واجب ہے یا سنت موئکدہ ہے تو یقینی طور پر حضور پر نور :saw: نےان اعمال کی یہی حیثیت بتائی ہوگی اور خود بھی عمل کیا اور اپنے اصحاب کو بھی ایسا کرنے کا کہا۔باقی رہا دوسری حیثیت والے اعمال یعنی سنت غیر موئکدہ ،نفل وغیرہ تو ان اعمال میں آقا :saw: نے امت کو کرنے نہ کرنے کی رعایت عطا فرمائی ہے،
    ہمیں بھی چاہیے کہ ہم ان اعمال کی وہی حیثیت‌جو‌ہمیں حضور کریم :saw: نے عطا فرمائی ہے اس کو قائم رکھیں۔ یعنی اعمال کے بارے میں اپنی طرف سے قید نہ لگائی جائے ،اگر ایک شخص رعایتی اعمال نہیں‌کرتا ہے تو نہ کرے اور کرنے والا کرتا ہے تو بہت خوب۔ نہ تو کرنے والے کو یہ حق حاصل ہے کہ وہ نہ کرنے والوں کے بارے میں فتوی نکالے اور نہ ہی رعایتی اور رخصت دیئے گیے اعمال کو نہ کرنے والے کرنے والے کو ٹوکیں۔ اب جو بھی پہل کرے وہ اپنےاس مخصوص رویے کی وجہ سے حد سے گزرنے والا ہوگا اور اسی طرح
    جو حالا ت و اسباب حضور کریم :saw: کے زمانے میں‌موجود‌تھے‌اور ہمارے زمانے میں بھی موجود ہیں تو یہ دکھنا عین اسلام ہے کہ آب :saw: نے کیا عمل کیا ،،تو ہمیں بھی ایسے حالات میں‌وہی کرنا ہے۔مثال کے طور پر موت آج بھی موجود ہے اور آپ :saw: کے زمانے میں بھی تھی ،دیکھنا یہ ہے ایسے حالات میں آپ :saw: نے جو کچھ کیا وہی دین ہے باقی اپنی طرف سے کچھ دوسرا انداز اپنایا گیا تو یاد رکھو اللہ کو نماز روزہ ذکر تلاوت سب کچھ پسند ہے مگر آپ :saw: کی ادا یعنی سنت کے مطابق کیا جاے تب۔ورنہ ایک شخص اپنی مرضی کچھ بھی کرتا رہے اور اس کو عبادت یا دین سمجھتا رہے تو ایسا سوچنے سے وہ عمل دین نہیں بن جاے گا۔
     
  9. آبی ٹوکول
    آف لائن

    آبی ٹوکول ممبر

    شمولیت:
    ‏15 دسمبر 2007
    پیغامات:
    4,163
    موصول پسندیدگیاں:
    50
    ملک کا جھنڈا:
    Re: سادہ سی بات

    اسلام علیکم محترم جناب الطاف صاحب آپ اگر ہمارا اس سے پہلے والا مقالہ جو ہم نے بدعت کی حقیقت کے عنوان سے ترتیب دیا تھا پڑھ لیتے تو یقینا آپ یہ تبصرہ نہ فرماتے ۔ بحرحال آپ نے بات کے آغاز میں بالکل بجا فرمایا ہے کہ کسی بھی عمل کو اس کی شرعی حیثیت سے بڑھ کر رتبہ دے دینا اور اسی قسم کی دیگر افراط و تفریط کا نام بدعت ہے مگر آخر میں جو آپ نے مثال پیش کی ہے وہ درست نہیں کہ جس بھی عمل کا داعیہ زمانہ نبوت میں موجود ہو اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا اس پر کوئی حکم یا عمل مذکور نہ ہوتو ایسا کام بھی بدعت کہلائے گا ۔ ہمیں اس سےاختلاف ہے اور حقیقت حال یہ ہے کہ کسی بھی عمل کے بدعت ہونے کاضابطہ یہ نہیں ہے کہ وہ عمل بعینہ زمانہ نبوت سے ثابت نہ ہو یا تاریخ حدیث میں مذکور نہ ہو بالکہ سنت اور بدعت کا ایک باقاعدہ معیار اسلام میں مقرر ہے اوراسلام میں ایک مکمل ضابطہ موجود ہے اس کے لیے جو کہ اسلام نے فراہم کیا ہے اور اسی پر ہم نے اپنے ابتدائی مکالمہ میں بحث کی تھی۔ سر دست صر ف آپ کو ایک ہی مثال پیش کرکے بات کی وضاحت کردیں گے کہ زمانہ نبوت میں جب اسلام کی حدیں عرب سے نکل کر عجم تک پھیل چکی تھیں تو قرآن پاک کو ایک ہی مصحف میں جمع کرنے کا اور اس پر اعراب لگانے کا داعیہ بالکل موجود تھا مگر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی حیات مبارکہ میں یہ کام نہ ہوسکا جسے بعد میں بالترتیب خلفائے راشدین کے زمانوں میں انجام دیا گیا اور اعراب حجاج بن یوسف ثقفی نے لگوائے ۔ ۔ ۔ ۔ امید کرتا ہوں میں اپنی بات کی وضاحت میں کامیاب ہوگیا ہوں گا۔والسلام آپکا خیر اندیش عابد عنائت
     
  10. الطاف حسین
    آف لائن

    الطاف حسین ممبر

    شمولیت:
    ‏6 فروری 2007
    پیغامات:
    47
    موصول پسندیدگیاں:
    1
    السلام علیکم
    صحابہ کے عمل کی پیروی تو خود رسول اکرم :saw: نے امت کو تلقین فرمائی ہے۔
    چلو مان بھی لیا جائے کہ اعراب بعد میں لگے ۔۔مگر اگر کوئی عربی سے واقف یا کوئی قرآن کا حافظ ہونے کے بعد بغیر اعراب لگا ہوا قرآن پڑھنا چاہے تو کوئی گناہ تو نہیں ہوگا نہ اور نہ ہی کوئی اسے قرآن پڑھنے سے منع کرنے کا حق رکھتا ہے۔مگر ادھر تو مسئلہ الٹا ہے کہ اس نوعیت کے ایجاد کردہ اعمال کو نہ کرنے والے کو کیسے کیسے فتووں کا سامنا کرنا پڑتا ہے کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں۔
    پیارے بھائی۔۔مسئلہ ہے رویوں‌کا ۔۔رویے سے ہی پتہ چلتا ہے کہ آپ کسی عمل کو کس درجے کا سمجھ رہے ہو۔ اب جب کوئی کسی عمل کی اہمیت کو اپنی مرضی سے طے کرلے گا تو وہی تو جڑ ہے فتنے کی۔۔۔۔۔۔ اگر کسی کے مرنے پر آپ ایصال ثواب کرنا چاہتے ہیں تو یہ بہت ہی افضل عمل ہے کریں‌کون منع کرتا ہے ۔مگر یہ مد نظر رہے کہ نہ کرنے والوں کو لعن طعن نہ کریں اور جب ایسا ہوگا تو نہ کرنے والے بھی کرنے والوں‌کے بارے میں‌اپنی زبان بند رکھیں۔ مزید یہ کہ خیرات کی ادائیگی کے لیے مستحق لوگوں کو خیرا ت دینا ضروری ہے ورنہ وہ دعوت محض ہوگی۔
    جیسے نماز کے لئے وضو شرط ہے چاہے نماز فرض ہو یا نفل وغیرہ ایسے ہی ادئیگی خیرات کے لیے مستحق ضروری ہے۔۔سیدھی سی بات ہے۔
    میں‌ کوئی عالم دین نہیں اور نہ بننے کا شوق ہے صرف چند سیدھی سی باتیں سمجھ رکھی ہیں جو عرض کر دیں۔۔۔ آپ عالم دین ہونگے ۔۔رہنمائی فر ما ئے گا۔
     
  11. آبی ٹوکول
    آف لائن

    آبی ٹوکول ممبر

    شمولیت:
    ‏15 دسمبر 2007
    پیغامات:
    4,163
    موصول پسندیدگیاں:
    50
    ملک کا جھنڈا:
    اسلام علیکم بھائی سب سے پہلے تو یہ بات واضح کردوں کہ عالم دین میں بھی نہیں ہوں اور بہت ہی گناھ گار سا بندہ ہوں بلکہ خود کو بندہ کہنے کا بھی حقدار نہیں ہوں کہ کبھی بھی آداب بندگی بجا لانے کا بھی حق ادا نہیں کیا ۔
    اب آتا ہوں اصل مسئلہ کی طرف میرے بھائی کسی بھی مسئلہ کا اسلام کے کسی وضع کردی کسی اصول سے واضح ہونا ایک الگ چیز ہے اور اس مسئلہ پر عمل کرنا ایک الگ چیز ہے آپ نے پہلے جو اعتراض کیا تھا وہ مسئلہ کہ وضع کرنے پر کیا تھا کہ اگر فلاں عہد میں کوئی کام نہ کیا گیا ہو تو وہ جائز نہیں کہلائے گا اور اس پر آپ نے ایک مثال نقل کی تھی جس پر ہم نے آپ سے اختلاف کرتے ہوئے صرف اتنا عرض کیا تھا کہ اسلام کا یہ مزاج نہیں کہ اس میں کسی بھی مسئلہ کہ جائز یا ناجائز ہونے کا معیار گردش لیل و نھار پر ہو بلکہ اس کے برعکس اسلام ہمیں چند اصول دیتا ہے کہ جن کی روشنی میں ہم کسی بھی مسئلہ کو اُن اصولوں پر پیش کرکے اس کی شرعی حیثیت کا تعین کرسکتے ہیں اور آپکی دلیل کے بطلان کے طور پر ہم نے صرف ایک ہی مثال پیش کرکے اپنی بات کو واضح کردیا تھا لیکن اب آپ نے اسی مثال کو یہ کہہ کر رد کرنے کی کوشش کی ہے کہ۔ ۔۔ آپکئ الفاظ ۔ ۔ ۔ ۔ چلو مان بھی لیا جائے کہ اعراب بعد میں لگے ۔۔مگر اگر کوئی عربی سے واقف یا کوئی قرآن کا حافظ ہونے کے بعد بغیر اعراب لگا ہوا قرآن پڑھنا چاہے تو کوئی گناہ تو نہیں ہوگا نہ اور نہ ہی کوئی اسے قرآن پڑھنے سے منع کرنے کا حق رکھتا ہے۔مگر ادھر تو مسئلہ الٹا ہے کہ اس نوعیت کے ایجاد کردہ اعمال کو نہ کرنے والے کو کیسے کیسے فتووں کا سامنا کرنا پڑتا ہے کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں۔ ۔ ۔
    میرے بھائی بات یہاں یہ نہیں ہورہی کہ کسی مسئلہ پر کس شدت سے عمل کرنے کا حکم دیا جاتا ہے کیونکہ اس بات پر تو ہم پہلے ہی آپ کی تائید کرچکے ہیں کہ جو مسئلہ جس بھی شرعی حکم کے تحت آئے اس کو عمل کے لیے اسی معیار کے تحت لینا چاہیے افراط و تفریط نہیں ہونی چاہیے ۔ آپ ہماری پہلی رپلائی پھر بغور پڑھیے ۔۔ رہی قرآن پر اعراب لگانے والی مثال تو وہ ہم اس ضمن میں نقل کی تھی کہ آپ نے بدعت کا معیار کسی بھی شئے کے زمانہ نبوی صلی اللہ علیہ وسلم میں وجود نہ ہونے کو ٹھرایا تھا تو ہم نے ا سپر صرف ایک مثال نقل کر کہ آپ سے عرض کی تھی کہ اعراب بھی تو زمانہ نبوی صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد ہی لگے ہیں ان اعراب لگائے جانے پر کیا حکم ہوگا سنت یا بدعت؟ اب یہاں بات اعراب لگے قرآن کو پڑھنے کی نہیں ہے بلکہ قرآن پر اعراب لگائے جانے کا اصل حکم کیا ہوگا اس کی ہے؟کوئی اعراب لگا قرآن پڑھے یا نہ پڑھے یہ بعد کی بات ہے پہلے تو یہ بتایا جائے کہ جس نے اعراب لگائے اس کا کیا حکم ہے؟اور خود ان اعراب کا کیا حکم ہے کہ جو قرآن پر زمانہ نبوت اور خلفائے راشدین کے بعد لگے؟
    باقی آپ نے کہا کہ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ بھائی۔۔مسئلہ ہے رویوں‌کا ۔۔رویے سے ہی پتہ چلتا ہے کہ آپ کسی عمل کو کس درجے کا سمجھ رہے ہو۔
    تو آپکی یہ بات بھی کسی حد تک درست ہے لیکن میرے نزدیک اصل مسئلہ لاعلمی اور جہالت کا ہے اور لا علمی اور جہالت ہی اس قسم کے رویوں کا اصل باعث ہے جب تک ہم اپنے دین کو سمجھیں گے نہیں اس کی اصل روح کو عامۃ الناس تک منتقل نہیں کریں گے تب تک اس قسم کے مسائل سر اٹھاتے رہیں گے اور اس قسم کے رویے لوگوں کی آپس کی زندگیوں میں زہر گھولتے رہیں گے اور اسکے نتیجے میں عوام تو عوام علماء کا بھی افراط و تفریط کا شکار ہوتے رہیں گے اور باعث اس کا یہی کم علمی اور جہالت بنتی ہے کہ اگر کوئی مسئلہ اسلام کہ کسی اصول کی روح سے اپنی شرعی حیثیت کے مطابق جائز ثابت ہوجائے اور فقہی اعتبار سے زیادہ سے زیادہ مستحب ہوتو اس پر عمل کرنے والے(اپنی کم علمی اور جہالت کے باعث) افراط سے کام لیکر اس کو فرض یا واجب کے متراف سمجھنے لگتے ہیں اور دوسری طرف مخالفین اسی مسئلہ کو تفریط سے کام لیکر سیدھا سیدھا بدعت قرار دے دیتے ہیں اور یہ سب کار گزاریاں میری نظر میں جہالت کی پیداوار ہیں نہ کہ اصلا رویوں کی ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
     
  12. نعیم
    آف لائن

    نعیم مشیر

    شمولیت:
    ‏30 اگست 2006
    پیغامات:
    58,107
    موصول پسندیدگیاں:
    11,153
    ملک کا جھنڈا:
    السلام علیکم
    ماشاءاللہ ۔ عابد عنائیت (آبی بھائی ) آپ نے ایک بار پھر مسئلہ کو الجھانے کی بجائے بہت سادہ طریقے سے نفس مسئلہ پر توجہ مرکوز کرتے ہوئے وضاحت فرما دی ہے۔
    اب اگر کوئی مزید اعتراض برائے اعتراض کرتا چلا جائے، اور بات سے بات نکال کر لایعنی گفتگو کرتا چلا جائے تو پھر دعائے ہدایت ہی کی جاسکتی ہے۔
     
  13. مون لائیٹ
    آف لائن

    مون لائیٹ ممبر

    شمولیت:
    ‏27 دسمبر 2007
    پیغامات:
    69
    موصول پسندیدگیاں:
    1
    یااللہ جو بھی جس طریقے سے بھی بدعت کی راہ ہموار کرنے کی کوشش کریں اس کو دنیا ہی میں ذلیل ورسوا کریں ۔ آمین ثم آمین۔
     
  14. نعیم
    آف لائن

    نعیم مشیر

    شمولیت:
    ‏30 اگست 2006
    پیغامات:
    58,107
    موصول پسندیدگیاں:
    11,153
    ملک کا جھنڈا:
    :salam: مون لائیٹ بھائی ۔ کیا ہی بہتر ہوتا کہ آپ بددعائیں دینے کی بجائے اگر آپ پہلے پورا مضمون پڑھ لیتے اور جان لیتے کہ سیدنا عمر فاروق :rda: سے لیکر کتنے عظیم آئمہ و علمائے کرام بھی بدعت حسنہ کے حق میں رائے رکھتے ہیں۔
    اور بددعائیں دینے کی بجائے اگر آپ علمی و تحقیقی انداز میں جواب دیں تویہاں علمی ماحول اور اچھی تربیت کا اظہار ہوگا۔
    شکریہ ۔ والسلام علیکم
     
  15. آبی ٹوکول
    آف لائن

    آبی ٹوکول ممبر

    شمولیت:
    ‏15 دسمبر 2007
    پیغامات:
    4,163
    موصول پسندیدگیاں:
    50
    ملک کا جھنڈا:
    اسلام علیکم معزز قارئین کرام آج سے ہم محترم باذوق صاحب کے مزید اعتراضات کا جواب دینا شروع کریں گے اور طریقہ کار وہی سابقہ ہوگا کہ بازوق صاحب کےا عتراضات کو کوٹ کرکے سرخ رنگ سے نمایان کردیا جائے گا اور پھر نیچے جواب دیا جائے گا۔

    تو جی محترم باذوق صاحب صرف در مختار کے ایک قول کی بنا پر آپ کا جمہور فقہاء کی بابت اشیاء میں اصل تؤقف کا قول کرنا کیا امانت و دیانت کا گلہ دبانے کے مترادف نہیں ؟ چلیئے خیر چھوڑیے آئے ہم آپ کو بتاتے ہیں کہ جمہور کا مسلک کیا ہے؟
    اصلا تمام اشیاء میں اباحت ہے۔
    جمہور حنفیہ ، شافعیہ ، ظاہریہ ،بعض حنابلہ اور معتزلہ میں سے ابو ھاشم اور جبائی کے نزدیک اصل تمام اشیاء میں اباحت ہے ۔
    (بخاری کشف الاسرار بحوالہ الحکم الشرعی ڈاکٹر طاہر القادری)
    امام ابن ہمام فرماتے ہیں کہ :المختار الاباحۃ عند جمھور الحنفیۃ والشافعیۃ ۔
    کہ جمہور احناف اور شافعیہ کا مسلک مختار اباحت ہی ہے ۔
    (ابن ہمام ۔ ابن عابدین بحوالہ الحکم الشرعی)
    علامہ محب اللہ بہاری رقم طراز ہیں کہ یہاں افعال میں بھی اباحت اصلیہ کو فقہاء کی اکثریت کا قول اور مذہب مختار قرار دیا گیا ہے احناف اور شوافع کی اکثریت کے ہاں یہی قول مختار ہے ۔
    (بہاری مسلم الثبوت بحوالہ الحکم الشرعی)

    اباحت اصلیہ اور مفسرین​

    امام رازی متوفی 606ھ فرماتے ہیں ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ چاہیے کہ تمام چیزوں کو ہر وقت اور ہر حال میں کھانا جائز ہو مگر جس کو کسی دلیل شرعی نے حرام کردیا ہو اور عقل بھی اسکی مؤید ہو کیونکہ اصل تمام منافع میں حلت و اباحت ہے
    (تفسیر کبیر ج4 ص201)
    علامہ بیضاوی سورہ الاعراف کی آیت نمبر32 کی تفسیر میں فرماتے ہیں کہ اس آیت یعنی ؛؛قل من حرم زینۃاللہ التی ؛؛ میں یہ دلیل ہے کہ کھانے پینے اور پہننے کی اچھی چیزوں میں اباحت اصل ہے ۔
    (تفسیر بیضاوی ج3 ص17)
    امید کرتا ہوں اتنے حوالاجات کافی ہونگے ورنہ متقدمین ، متاخرین اور معاصرین تمام فقہاء کرام نے اس مسئلہ پر بہت کچھ لکھا ہے جس نے دیکھنا ہو متعلقہ موضوع سے متعلق کتابوں سے رجوع کیا جاے ۔

    در مختار کی اس عبارت کو آپ سے پہلے علامہ سرفراز خان صفدر بھی پیش کر چکے ہیں جن کے جواب میں علامہ غلام رسول سعیدی صاحب نے تو ضیح البیان میں جو کچھ فرمایا وہ ہم یہان بھی ہدیہ قارئین کرتے ہیں ۔۔
    در مختار کی یہ عبارت قطعا باطل اور مردود ہے علامہ شامی نے رد المحتار میں اس کا چار وجوہ سے رد کیا ہے اور پٹے ہوئے مہروں کو میدان استدلال میں پیش کرنا گھکھڑ کے غازیوں سے ہی متصور ہوسکتا ہے ہم ذیل میں اس عبارت کے بطلان کی صرف چوتھی وجہ پیش کرتے ہیں ۔
    اباحت کی نسبت معتزلہ کی طرف کرنا کتب اصول کے مخالف ہے کیونکہ امام ابن ہمام تحریر فرماتے ہیں جمہور حنفیہ اور شافعیہ کا مسلک اباحت ہے اور علامہ اکمل نے شرح بزدوری میں فرمایا کہ ہمارے اکثر اصحاب (احناف)اور اکثر شوافع کا مذہب یہ ہے کہ اشیاء میں ورود شرع سے پہلے اباحت تھی ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
    باقی اس عبارت کو نقل کرکے آپ نے جو امام احمد رضا خان صاحب کا تبصرہ پیش کیا ہے وہ بھی سرا سر مغالطہ آفرینی کی ایک کوشش اور نفس مسئلہ سے توجہ ہٹانے کی ایک سازش کہلا سکتی ہے اور خلط مبحث ہے ۔
    اول تو امام صاحب کا کسی کتاب کی تعریف کردینے سے یہ ہر گز نہیں ثابت ہوتا کہ اس فلاں کتاب کی ہر ہر عبارت پر ایمان لانا فرض عین ہوگیا ہے اور ثانیا ہمارے احناف کے ہاں در مختار پر حاشیہ رد المختار کو فوقیت حاصل ہے اور خود امام صاحب کا قول ہے کہ انھوں نے فرمایا تھا کہ در مختار پر کسی کا قول جائز نہیں بجز علامہ شامی کے ۔ ۔ (اصل عبارت فتاوی رضویہ کی جلد 17 صفحہ نمبر253 پر ہے )تو اوپر ہم ثابت کر آئے کہ علام شامی نے در مختار کی متذکرہ عبارت کا چار وجوہ سے رد کیا ہے ۔اور اگر ایسا نہ بھی ہو تو اکیلے در مختار اور ایک آدھ حوالہ سے جمہور کے مسلک کی نفی تو نہیں نا کی جاسکتی ۔۔۔۔

    محترم جناب باذوق صاحب یہ بھی آپ نے خوب کہی کیا آج ہم سچ بولنا صرف اسی وجہ سے چھوڑ دیں کہ فلاں فلاں مشرک قومیں بھی سچ بولنے لگی ہیں کیا ہم اللہ کو ایک ماننا اس لیے چھوڑ دیں کہ معتزلہ بھی اللہ کو ایک مانتے ہیں امید کرتا ہوں آپ کو آپ کے سوال کا جواب مل گیا ہوگا ۔

    محترم آپ سے آپ کے اس قول کی وضاحت مطلوب ہے کہ حلال و حرام میں اصل اباحت ہے سے آپکی کیا مراد ہے ۔ یعنی حلال تو وہ ہے جسے اللہ یا رسول نے حلال قرار دے دیا اور حرام وہ ہے جسے قرآن و سنت حرام قرار دیں باقی رہ گئی ایسی اشیاء کہ کہ جن کے بارے میں کوئی حکم نہیں تو ایسی اشیاء میں اباحت کے تو ہم بھی قائل ہیں تو پھر ہمارا اور آپکا اختلاف کیا رہ گیا لہذا آپ یہ واضح کریں کہ آپ یہاں کیا کہنا چاہ رہے ہیں حلال تو حلال ہوتا ہے اور حرام حرام ہوتا ہے حلال و حرام میں اباحت کیسی اباحت تو غیر منصوص احکامات میں ہوتی ہے بحر حال آپ خود ہی اپنے قول کی وضاحت فرمائیں۔
    معزز قارئین کرام آپ نے دیکھ لیا کہ ہم نے مسئلہ بدعت کو بالکل نکھار کر پیش کردیا اور مخالفین کت قریبا تمام ایسے اعتراضات جو کہ علمی تھے ان کے جوابات بھی دے دیئے اور الٹا ہم نے قرآن و سنت سے استدلا ل کرکے اس مسئلہ کو پہلے خود قرآن سے پھر سنت سے پھر سنت صحابہ سے اور پھر اقوال سلف وصالحین سے مبرہن کردیا جب کے مخالفین سے ہماری کسی دلیل کا مستقل رد نہ ہوسکا۔ ھذا من فضل ربی ۔
     
  16. نعیم
    آف لائن

    نعیم مشیر

    شمولیت:
    ‏30 اگست 2006
    پیغامات:
    58,107
    موصول پسندیدگیاں:
    11,153
    ملک کا جھنڈا:
    ماشاءاللہ محترم آبی ٹوکول بھائی !
    اللہ تعالی کا لاکھ لاکھ شکر ہے کہ جس نے آپ کو احقاق حق اور ابطال باطل کی توفیق مرحمت فرمائی ۔
    اللہ تعالی اپنے پیارے حبیب حضور شفیع العالمین صلی اللہ علیہ وسلم کی رحمت کے صدقے آپ کو علم و عرفان میں مزید برکت عطا فرمائے۔ آمین
     
  17. کارتوس خان
    آف لائن

    کارتوس خان ممبر

    شمولیت:
    ‏9 جنوری 2007
    پیغامات:
    24
    موصول پسندیدگیاں:
    0
    :salam:
    عابی بھائی کیسے ہیں اُمید ہے ان شاء اللہ خیریت سے ہونگے۔۔۔ آج ایسے ہی موڈ بن گیا تو سوچا اس فورم پر بھی کچھ لکھ دیں۔۔۔
    والسلام۔
     

اس صفحے کو مشتہر کریں