1. اس فورم پر جواب بھیجنے کے لیے آپ کا صارف بننا ضروری ہے۔ اگر آپ ہماری اردو کے صارف ہیں تو لاگ ان کریں۔

اصلاحِ زبان

'فروغِ علم و فن' میں موضوعات آغاز کردہ از صدیقی, ‏16 فروری 2012۔

  1. صدیقی
    آف لائن

    صدیقی مدیر جریدہ سٹاف ممبر

    شمولیت:
    ‏29 جولائی 2011
    پیغامات:
    3,476
    موصول پسندیدگیاں:
    190
    ملک کا جھنڈا:
    اصلاحِ زبان​

    پروفیسرآسی ضیائی​


    رُجحان بھی بالکل جدید ہے اور اہلِ ذوق پر سخت گرا ںگزرتا ہے۔ غالباً یہ انگریزی کے لفظی ترجمے کی کوشش کا نتیجہ ہے۔ ان جملوں میں سے پہلے میں ’’دی گئی دعوت‘‘ کے بجائے ’’دی جانے والی دعوت‘‘ اور دوسرے میں ’’دیا گیا‘‘ کے بجائے ’’دیا ہوا‘‘ لکھنا چاہیے۔٭ برائے مہربانی:اس کا صحیح املا ’’براہِ مہربانی‘‘ ہے۔٭گالیاں نکالنا:اُردُو کا محاورہ ’’گالیاں نکالنا‘‘ نہیں۔ اس کی جگہ ’’گالیاں دینا‘‘ یا ’’گالیاں بکنا‘‘ بولا جاتا ہے۔

    ٭ اھالیان:’’اہل‘‘ خود جمع کے لیے آتا ہے۔ اس کی جمع ’’اہالیان‘‘ درست نہیں۔ مثلاً ’’اہالیانِ لاہور‘‘ کے بجائے ’’اہلِ لاہور‘‘ درست ہے۔٭ نئی جدّت:مثال: تم تو ہر بات میں ایک نئی جدّت پیدا کرتے ہو۔’’جدت‘‘ کے معنی نئی چیز یا بات کے ہیں۔ لہٰذا ’’جدّت‘‘ کے ساتھ ’’نئی‘‘ لگانا بالکل زائد اور غلط ہے۔٭ استفادہ حاصل کرنا:مثال: طلبہ کو اپنے اُستادوں سے پورا پورا استفادہ حاصل کرنا چاہیے۔’’استفادہ‘‘ کے معنی خود ہی فائدہ حاصل کرنا ہیں۔ لہٰذا ’’حاصل‘‘ بڑھانا غلط ہے۔ ’’استفادہ کرنا‘‘ کافی اور صحیح ہے۔٭ تقرّری، تنزّلی:دونوں غلط ہیں۔ صحیح لفظ ’’تقّرر‘‘ اور ’’تنزّل‘‘ ہیں۔٭ سطح سمندر، وغیرہ:۔ (ہندی الفاظ کے ساتھ فارسی تراکیب)مثالیں:(۱) یہ پہاڑ سطحِ سمندر سے ہزار فٹ بلند ہے۔(۲) مظلوم کی چیخ و پُکار کا جلّاد پر کوئی اثر نہ ہوا۔(۳) کس سوچ و بچار میں پڑے ہو۔

    اُردو میں فارسی عربی الفاط کے ساتھ ہندی یا انگریزی الفاظ لا کر ترکیب بنانا ایک بڑی غلطی ہے، جو آج کل بہت عام ہوگئی ہے۔ اسی طرح۲ ہندی الفاظ کو بھی فارسی ترکیب کے ذریعے باہم ملانا غلط ہے۔ اُوپر کے جملوں میں یہی غلطیاں ہیں۔ پہلے جملے میں ’’سمندر‘‘ ہندی لفظ ہے، اس لیے ’’سطحِ سمندر‘‘ کی ترکیب غلط ہے۔ اس کی جگہ ’’سطحِ بحر‘‘ یا ’’سمندر کی سطح‘‘ لکھنا چاہیے۔ دوسرے جملے میں ’’چیخ‘‘ اور ’’پکار‘‘ ہندی الفاظ ہیں اور تیسرے جملے میں ’’سوچ‘‘ اور ’’بچار‘‘ بھی ہندی ہیں۔ ان کے درمیان فارسی وائو لانا درست نہیں۔ ان کی جگہ ’’چیخ پکار‘‘ اور ’’سوچ بچار‘‘ درست ہیں اور یہی اُردو کا روزمرّہ بھی ہے۔تنبیہہ:بعض ایسی تراکیب بھی اُردُو میں رائج ہوچکی ہیں جو اِس اصُول کی رُو سے غلط ہونی چاہئیں، مگر انھیں یا تو اہلِ زبان نے استعمال کیا ہے ،یا وہ پولیس، کچہری اور عدالت وغیرہ کی اصطلاحیں بن گئی ہیں، مثلاً لبِ سڑک، آلۂ دھاردار، قانونِ لگان، رکنِ اسمبلی وغیرہ۔ انھیں غلط نہیں کہا جا سکتا۔ لیکن ان پر قیاس کرکے اپنی طرف سے کچھ تراکیب بنا ڈالی جائیں تو یہ درست نہ ہوگا۔٭نقصِ امن:مثال: پولیس نے اندیشۂ نقصِ امن کے تحت ۴ افراد کو گرفتار کرلیا۔’’نقص‘‘ کے معنی کمی کے ہیں اور ’’نقض‘‘ کے معنی توڑنا یا درہم برہم کرنا۔ لہٰذا ظاہر ہے کہ ’’نقصِ امن‘‘ یہاں درست نہیں، صحیح ’’نقضِ امن‘‘ ہے۔ ایک نقطے کے فرق سے معنی کچھ کے کچھ ہوگئے۔

    ٭تشہیر:مثال: ہماری کمپنی کے مال کی تشہیر کے لیے ہوشیار اور محنتی ایجنٹوں کی ضرورت ہے۔’’تشہیر‘‘ قدیم زمانے سے ذلیل اور رُسوا کرنے کے معنوں میں آتا ہے۔ مثلاً ’’چور کا منہ کالا کرکے گدھے پر سوار کیا گیا اور سارے شہر میں پھرا کر تشہیر کی گئی۔‘‘ لیکن آج کل غلطی سے یہ اشتہار یا پبلسٹی (Publicity) کے معنوں میں استعمال ہونے لگا ہے۔ اس کے بجائے ‘‘اشتہار‘‘ یا ’’مشتری‘‘ جیسا لفظ ہونا چاہیے۔٭ کاروائی، قائمقام:ان دونوں لفظوں میں ایک ایک حرف کم ہے۔ صحیح لفظ ’’کارروائی‘‘ اور ’’قائم مقام‘‘ ہیں۔٭ اعلانیہ، پرواہ :صحیح لفظ ’’علانیہ‘‘ ہے۔ اس میں خواہ مخواہ ایک ’’الف‘‘ زائد بڑھانا غلط ہے۔ اسی طرح ’’پروا‘‘ صحیح لفظ ہے نہ کہ ’’پرواہ‘‘۔٭ سمجھ نہ آنا:مثالیں:(۱) مجھے تمھاری بات کی سمجھ نہ آئی۔(۲) سمجھ نہیں آتی کہ ہمارا کیا حشر ہونا ہے۔ان مواقع پر ’’سمجھ نہ آنا‘‘ خلافِ روزمرّہ ہے۔ یہ جملے اس طرح صحیح ہوں گے:۔۱۔ میری سمجھ میں تمھاری بات نہ آئی۔ یا، میں تمھاری بات نہ سمجھا۔۲۔ سمجھ میں نہیں آتا کہ ہمارا کیا حشر ہونا ہے۔’’سمجھ نہ آنا‘‘ عقلاً بھی غلط ہے۔ سمجھ وہ ذہنی قوت ہے جس کے ذریعے کسی بات کا علم حاصل ہو، اور ظاہر ہے کہ یہ قوت دماغ میں پہلے ہی سے موجود رہتی ہے۔ اس کے آنے کا سوال پیدا نہیں ہوتا۔البتہ اگر یہ کہنا مقصود ہو کہ دماغ ابھی بالکل کسی بات کو بھی سمجھنے کی اہلیت نہیں رکھتا، تب ’’سمجھ نہ آنا‘‘ کا استعمال درست ہوسکتا ہے۔ مثلاً:’’تم اتنے بڑے ہوگئے، ابھی تک تمھیں سمجھ نہ آئی، جو بالکل بچوں کی سی باتیں کرتے ہو۔‘‘

    ٭ چونکہ، کیونکہ:اگرچہ یہ دونوں الفاظ ہم معنی ہیں، مگر ان کے استعمال میں ذرا سا فرق ہے مثلاً:۱۔ چونکہ یہ تمھاری پہلی خطا ہے اس لیے میں تمھیں چھوڑے دے رہا ہوں۔۲۔ میں تمھیں چھوڑے دے رہا ہوں، کیونکہ یہ تمھاری پہلی خطا ہے۔یعنی اگر جملہ سبب یہ پہلے ہو تو ‘‘چونکہ‘‘ سے شروع ہوگا اور اگر بعد میں ہو تو ‘‘کیونکہ‘‘ سے شروع ہوگا۔ پہلی صورت میں ’’چونکہ‘‘ کا جواب ’’اس لیے‘‘ یا ’’لہٰذا‘‘ سے ظاہر ہوتا ہے، مگر دوسری صورت میں اس کی کوئی ضرورت نہیں ہوتی۔٭ اس لیے کیونکہ، اس لیے تاکہمثالیں:۱۔ میں اس لیے مسلمان ہوں کیونکہ میں نے اسلام ہی کو دینِ حق پایا ہے۔۲۔ میں تمھیں اس لیے نصیحت کرتا ہوں تاکہ تم بُرائیوں سے بچو۔دونوں جملوں میں ’’کیوں کہ‘‘ اور ’’تاکہ‘‘ کے بجائے صرف ’’کہ‘‘ لانا کافی ہے۔ یعنی:۱۔ میں اس لیے مسلمان ہوں کہ میں نے…الخ۲۔ میں تمھیں اس لیے نصیحت کرتا ہوں کہ تم… الخالبتہ اگر ان جملوں میں اس لیے نہ لایا جائے تو ‘‘کیونکہ‘‘ اور ’’تاکہ‘‘ لانا درست ہوگا۔یعنی:۱۔ میں مسلمان ہوں، کیونکہ میں نے … الخ۲۔ میں تمھیں نصیحت کرتا ہوں، تاکہ تم… الخ’’اس لیے‘‘ کے ساتھ ‘‘تاکہ‘‘ قدیم اُردُو میں استعمال ہوتا تھا اور موجودہ زمانے میں علما دین کی تحریروں میں بھی مل جاتا ہے، اس لیے اسے بالکل غلط تو نہیں کہا جاسکتا البتہ خلافِ فصاحت ضرور ہے۔ اس کے برعکس، ’’اس لیے‘‘ کے ساتھ ’’کیونکہ‘‘ کی مثال قدیم و جدید فصحاء دونوں کے یہاں مفقود ہے۔٭ کرنے لگ پڑنا یا لگ جانا:مثالیں:(۱) میرے بُرا بھلا کہنے پر وہ رونے لگ پڑا۔(۲) ماسٹر صاحب ذرا سے قصور پر بچوں کو بے تحاشا مارنے لگ جاتے ہیں۔’’لگ پڑنا‘‘ یا ’’لگ جانا۔‘‘ ان موقعوں پر اُردُو محاورے کے خلاف ہیں۔ پہلے جملے میں ’’رونے لگ پڑا‘‘ کے بجائے صرف ’’رونے لگا‘‘ کافی ہے۔ زیادہ زور دینا ہو تو ’’رونے بیٹھ گیا‘‘ ٹھیک رہے گا۔ ( یہاں ’’بیٹھنا‘‘ اپنے اصلی معنی کے بجائے محاورے کے طور پر استعمال ہوا ہے)۔ دوسرے جملے میں ’’مارنے لگ جاتے ہیں۔‘‘ کی جگہ ’’مارنے لگتے ہیں‘‘ کافی ہے۔ویسے صرف ’’لگ پڑنا‘‘ ایک الگ محاورہ ہے، جس کے معنی پیچھے پڑ جانے کے ہیں۔ مثلاً ؎اُٹھ گیا پردہ، نصیحت گر کے لگ پڑنے سے میرؔپھاڑ ڈالا میں گریباں، رات کو، داماں سمیت(میرؔ تقی )اسی طرح ’’لگ جانا‘‘ بھی اس صورت جائز ہے کہ اس سے پہلے ’’میں‘‘ ضرور آئے۔ مثلاً۱۔ وہ چپ چاپ اپنا کام کرنے میں لگ گیا۔۲۔ تم کیوں باتیں بنانے میں لگ گئے؟ جائو، اپنا کام کرو۔

    ٭ کئی، بہت، چند، بعض وغیرہ:یہ الفاظ اسمائے عدد کے طور پر آتے ہیں، مگر ان کے استعمال کا فرق بہت کم لوگوں کو معلوم ہے۔ جہاں تک ہمیں معلوم ہے، یہ فرق اس سے قبل کسی قواعد یا لغت میں وضاحت سے نہیں بتایا گیا۔یہ اسماء چونکہ اصل میں صفات ہیں، اس لیے آیندہ انھیں اسماء عدد کے بجائے صفاتِ عددی لکھا جائے گا۔یہ صفات ۳؍ قسم کی ہیں:۱۔ قلّت ظاہر کرنے والی۲۔ کثرت ظاہر کرنے والی۳۔ کُلّیت ظاہر کرنے والی قلّت ظاہر کرنے والی صفاتیعنی جن چیزوں کا تعداد میں تھوڑا ہونا ظاہرہوتا ہے، یہ ہیں:۔٭چند، بعض، کچھ:(ان کے علاوہ کم، کم تر، تھوڑے وغیرہ بھی ہیں، مگر ان کے استعمال کا فرق بالعموم معلوم ہے، اس لیے ان کی تشریح کی ضرورت نہیں۔)(۱لف) چند: چند کی تعداد معیّن ہے۔ یہ دو سے لے کر نو یا دس تک کے لیے بولا جاتا ہے۔ اس سے مراد کم تعداد لی جاتی ہے۔ مثلاً:’’میں نے چند آدمیوں کی زبانی یہ خبر سُنی۔‘‘یعنی، یہ خبر مجھے بہت سے آدمیوں نے نہیں سنائی، بلکہ بہت تھوڑے آدمیوں نے سُنائی، جن کی تعداد نو دس سے زیادہ نہیں (بعض لوگ چند کی جگہ چند ایک لکھتے ہیں، مگر یہ غیر فصیح ہے۔)(ب) بعض: بعض کی تعداد معین نہیں، مگر اس میں کثیر تعداد سے نسبت پائی جاتی ہے۔ مثلاً’’بعض لوگوں کا خیال ہے کہ تیسری عالمگیر جنگ نہیں ہوگی۔‘‘یعنی، ایک کثیر تعداد کے مقابلے میں نسبتاً تھوڑے سے (مثلاً دس یا پندرہ فیصدی، غرض آدھے سے کم) لوگوں کا خیال ہے کہ جنگ نہ ہوگی۔(ج) کچھ: اس کی تعداد بھی معین نہیں اور اس میں کثیر تعداد سے نسبت بھی نہیں پائی جاتی۔ مثلاً:۔’’کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ تیسری عالمگیر جنگ نہیں ہوگی۔‘‘یعنی، یہ خیال ایک غیر واضح تھوڑی تعداد کا ہے۔ یہ تھوڑی تعداد دس سے بھی کم ہوسکتی ہے اور لاکھ دو لاکھ بھی۔ جس موقع پر عقل فیصلہ کرے کہ اتنی تعداد کو تھوڑا کہا جائے گا، وہی تعداد اُس موقع کے لیے تھوڑی ہوگی اور اس کے لیے کچھ کا استعمال درست ہوگا۔
    کثرت ظاہر کرنے والی صفاتیعنی جن چیزوں کا تعداد میں زیادہ ہونا ظاہر ہوتا ہے، یہ ہیں:

    ٭کئی، اکثر، بہت(ان کے علاوہ زیادہ، زیادہ تر، بیشتر، لاتعداد وغیرہ بھی ہیں، مگر ان کا فرق عموماً معلوم ہے۔)(۱لف) کئی: یہ لفظ چند کی ضد ہے اور اس کی تعداد بھی دو سے لے کر نو دس تک معین ہے۔ مگر جیسا اُوپر مذکور ہوا، چند کا استعمال زیادہ کے مقابلے میں کمی ظاہر کرنے کے لیے ہوتا ہے اور کئی، اس کے برعکس، ایک کے مقابلے میں زیادتی ظاہر کرنے کے لیے آتا ہے۔ مثلاً:’’میں نے کئی آدمیوں کی زبانی یہ خبر سنی۔‘‘یعنی، میں نے ایک آدمی سے نہیں، ایک سے زیادہ آدمیوں سے سنی، جن کی تعداد نو دس تک ہو سکتی ہے۔(ب) اکثر: یہ بعض کی ضد ہے یعنی جس طرح بعض میں بڑی تعداد سے نسبت اور مقابلہ پایا جاتا ہے، اسی طرح اکثر میں تھوڑی تعداد سے۔ مثلاً:۔’’اکثر لوگوں کا خیال ہے کہ جنگ نہیں ہوگی۔‘‘یہاں اکثر سے مراد زیادہ تعداد ہے۔ مگر واضح رہے کہ اکثر ہمیشہ آدھی سے زیادہ تعداد کے لیے نہیں آتا۔ اس جملے میں اکثر کا مطلب ’’آدھے سے زیادہ‘‘ نہیں، بلکہ صرف مبالغہ اور زیادتی دکھانے کے لیے بولا گیا ہے۔ آدھی سے زیادہ تعداد کے لیے مخصوص لفظ بیشتر ہے۔ اس جملے میں اکثر کی جگہ بیشتر لگا دینے سے لازماً ’’آدھے سے زیادہ لوگ‘‘ مراد ہوں گے۔بعض اوقات یہ دونوں لفظ ملا کر بھی استعمال کیے جاتے ہیں۔ مثلاً:۱۔ اکثروبیشتر لوگ اس خیال کے حامی ہیں۔۲۔ مجھے اکثروبیشتر وہاں جانے کا اتفاق ہوا۔پہلے جملے میں ’’اکثروبیشتر‘‘ کا موصوف ’’لوگ‘‘ موجود ہے اور دوسرے میں (مرتبہ یا دفعہ) محذوف ہے۔ اگر موصوف جملے میں موجود ہوتو ’’اکثروبیشتر‘‘ کا مطلب آدھی سے زیادہ تعداد ہوگا اور اگر محذوف ہو تو فقط کثرتِ تعداد۔ چنانچہ پہلے جملے کا مطلب ہے کہ آدھے سے زیادہ لوگ اس خیال کے حامی ہیں اور دوسرے کا مطلب ہے کہ مجھے وہاں بہت سی مرتبہ جانے کا اتفاق ہوا۔(ج) بہت: بہت یا بہت سے ضد ہے کچھ کی۔ یعنی جس طرح کچھ کی تعداد معیّن نہیں، اسی طرح بہت کی بھی معین نہیں۔ مثلاً:۱۔ میں نے بہت سے آدمیوں کی زبانی یہ خبر سنی۔۲۔ ؎بہت لوگ، بن کر ہوا خواہِ اُمتپڑے پھرتے ہیں، کرتے تحصیلِ دولت(حالیؔ)دونوں مثالوں میں ’’بہت سے‘‘ اور’’ بہت‘‘ کثرتِ تعداد کے لیے آئے ہیں۔ یہ کثرت بالعموم دس سے زیادہ مانی جاتی ہے۔ اس سے بھی زیادہ تعداد کے لیے کثیر، لاتعداد، بے شمار، ان گنت بولے جاتے ہیں۔اس تمام تفصیل سے اندازہ ہوا ہوگا کہ اس قسم کے جملے:۔۱۔ اس سال کئی لوگوں نے حج کیا۔۲۔ کئی دفعہ مجھے اپنی قوم کی حالت دیکھ کر دُکھ ہوتا ہے۔کئی کے غلط استعمال کی مثالیں ہیں۔ پہلے جملے میں کئی کی جگہ بہت سے آنا چاہیے، کیونکہ کہنے والے کا مقصد حج کرنے والوں کی کثیر تعداد بتانا ہے۔ مگر کئی اس تعداد کو دس تک محدود کردیتا ہے۔ دوسرے جملے میں کئی کی جگہ اکثر آنا چاہیے جس کے ساتھ دفعہ کی ضرورت نہیں رہتی، یعنی یہ جملہ یوں صحیح ہوگا:۔’’اکثر مجھے اپنی قوم… الخورنہ کئی دفعہ سے مطلب یہ ہوگا کہ ایک متعین تعداد میں (مثلاً پانچ مرتبہ) مجھے قوم کی حالت دیکھ کر دُکھ ہوتا ہے او رظاہر ہے کہ یہاں یہ مطلب ہرگز مراد نہیں۔ کلیّت ظاہر کرنے والی صفاتیعنی جو کسی پوری تعداد کے لیے آتی ہیں۔ یہ صفات یہ ہیں:۔

    ٭سب، سارے (یا ساری) ، تمام، کُل۔(۱لف) معنی کے لحاظ سے سب اور سارے میں کوئی فرق نہیں۔ بعض علما کا خیال ہے کہ سارا صفتِ عددی نہیں، صفتِ مقداری ہے اور سب صفتِ مقداری نہیں، صفتِ عددی ہے۔ یعنی ان کے خیال میں، ’’سارے لوگ‘‘ غلط ہے، اس کی جگہ ’’سب لوگ‘‘ بولنا چاہیے۔ اور اسی طرح ’’سب پانی‘‘ کے بجائے ’’سارا پانی‘‘ درست ہے۔ مگر میں نے اہلِ زبان کی بول چال کے علاوہ اساتذۂ شعر کے کلام کا مطالعہ کرکے نتیجہ نکالا ہے کہ سب اور سارا دونوں صفاتِ عددی بھی ہیں اور صفاتِ مقداری بھی۔ مثلاً:کہتے ہو تم کو ہوش نہیں اضطراب میںسارے گَلے تمام ہوئے اِک جواب میں(مومنؔ)اس میں ’’سارے گِلے‘‘ کا مطلب ’’سب گِلے‘‘ ہے، اور اس طرح یہاں ’’سارے‘‘ صفتِ عددی ہے۔ اس کے برخلاف ؎گلشن خجل تھے وادیٔ مینو اساس سےجنگل تھا سب بسا ہوا، پھولوں کی باس سے(انیسؔ)یہاں ’’سب جنگل‘‘ کا مطلب ’’سارا جنگل‘‘ ہے۔ یعنی ’’سب‘‘ یہاں صفتِ مقداری ہے۔ اسی طرح روزمرّہ کی بول چال میں بھی ’’سب‘‘ اور ’’سارا‘‘ عدد اور مقدار دونوں کے لیے آتے ہیں۔ البتہ سب بطور صفتِ مقداری بہت کم آتا ہے
     

اس صفحے کو مشتہر کریں