1. اس فورم پر جواب بھیجنے کے لیے آپ کا صارف بننا ضروری ہے۔ اگر آپ ہماری اردو کے صارف ہیں تو لاگ ان کریں۔

اصطلاحات و مقاماتِ حج

'تعلیماتِ قرآن و حدیث' میں موضوعات آغاز کردہ از پیاجی, ‏12 دسمبر 2006۔

  1. پیاجی
    آف لائن

    پیاجی ممبر

    شمولیت:
    ‏13 مئی 2006
    پیغامات:
    1,094
    موصول پسندیدگیاں:
    19
    اصطلاحات و مقاماتِ حج


    اصطلاحاتِ حج

    ایامِ حج سے صحیح فائدہ اٹھانے اور تعلیمات حج کو سمجھنے کے لئے اصطلاحات حج کا جاننا بہت ضروری ہے عازمین حج کی سہولت کے لئے ہم انہیں یہاں بیان کررہے ہیں۔

    حج:۔

    مقررہ دنوں میں مخصوص عبادات کے ساتھ اللہ تعالیٰ کے گھرکی زیارت کرنے کو حج کہتے ہیں۔

    عمرہ:۔

    مقررہ دنوں کے علاوہ مخصوص عبادات کے ساتھ اللہ تعالیٰ کے گھر کی زیارت کرنے کو عمرہ کہتے ہیں۔

    میقات:۔

    وہ آخری حد جہاں سے حج یا عمرہ کا ارادہ کرنے والے کا احرام کے بغیر آگے بڑھنا جائز نہیں۔ پاکستانیوں کا میقات یَلَمْلَمْ ہے۔ جو جدہ سے پہلے آتا ہے۔

    حل:۔

    حدود حرم کے باہر جو زمین میقات تک ہے اسے حل کہتے ہیں۔

    حرم کعبہ:۔

    مکہ معظمہ کے اردگرد کئی کوس تک زمین کو حرم کا درجہ دیدیا گیا ہے۔ ہر طرف حدیں بنی ہوئی ہیں ان حدود کے اندر وہاں کے وحشی جانوروں حتیٰ کہ جنگلی کبوتروں کو تکلیف و ایذا دینا بلکہ تر گھاس اکھیڑنا تک حرام ہے۔ تمام مکہ مکرمہ، منٰی، مزدلفہ یہ سب حدود حرم میں ہیں البتہ عرفات داخل حرم نہیں۔

    اہل حل:۔

    وہ لوگ جو حدودِ میقات کے اندر اور حدودِ حرم سے باہر رہتے ہیں انہیں اہل حل کہتے ہیں انہیں اپنے مقام سے احرام باندھنا ہوگا۔

    اہل حرم:۔

    مکہ اور حرم میں بسنے والے لوگوں کو ’’اہل حرم‘‘ کہتے ہیں۔ اہل حرم کے لئے حج کا احرام باندھنے کے لئے حرم کی ساری زمین میقات ہے۔

    آفاقی:۔

    وہ مسلمان جو حج کی نیت سے حدود میقات سے باہر سے آئیں انہیں آفاقی کہتے ہیں۔

    یوم الترویہ:۔

    8 ذی الحجہ کو حج کی عبادات کا آغاز ہوتا ہے اسے ’’یوم الترویہ‘‘ کہتے ہیں۔

    یوم عرفہ:۔

    9 ذی الحجہ کو میدانِ عرفات میں حج ہوتا ہے اسی نسبت سے اس دن کو یومِ عرفہ کہتے ہیں۔

    یوم نحر:۔

    دس ذی الحجہ جس روز قربانی کی جاتی ہے اسے ’’یوم نحر‘‘ کہتے ہیں۔

    ایام تشریق:۔

    9 ذی الحجہ کی فجرسے 13 ذی الحجہ کی عصر تک ایام تشریق کہلاتے ہیں ان دنوں میں ہر فرض نماز کے بعد تکبیر تشریق پڑھی جاتی ہے۔ تکبیر تشریق یہ ہے۔ اَللّٰہُ اَکْبَرُ اللّٰہُ اَکْبَرُ لَا اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ وَاللّٰہُ اَکْبَرُ اَللّٰہُ اَکْبَرُ وَلِلّٰہِ الْحَمْد۔

    احرام:۔

    وہ بغیر سلا لباس جس کے بغیر آدمی میقات سے نہیں گزر سکتا یعنی ایک چادر نئی یا دھلی ہوئی اوڑھنے کے لئے اور ایسا ہی ایک تہہ بند کمر پر لپیٹنے کے لئے۔ یہ کپڑے سفید اور نئے بہتر ہیں۔ یہ گویا رب العالمین جل جلالہ کی بارگاہ میں حاضری کی ایک وردی ہے جو صاف ستھری، سادہ، تکلف اور زیبائش سے خالی ہو۔

    تلبیہ:۔

    یعنی لبیک کہنا۔ تلبیہ ہے۔

    لَبَّیْکَ، اَللّٰھُمَّ لَبَّیْکَ، لَبَّیْکَ لَا شَرِیْکَ لَکَ لَبَّیْکَ، اِنَّ الْحَمْدَ وَالنِّعْمَۃَ لَکَ وَالْمُلْکَ، لَا شَرِیْکَ لَکَ۔

    احرام کے لئے ایک مرتبہ زبان سے تلبیہ کہنا ضروری ہے اور نیت شرط۔

    اضطباع:۔

    طواف شروع کرنے سے پہلے چادر کو دا ہنی بغل کے نیچے سے نکال کر دونوں کنارے بائیں مونڈھے پر اس طرح ڈال دینا کہ دایاں شانہ کھلا رہے۔

    استلام:۔

    دونوں ہتھیلیاں اور ان کے بیچ میں منہ رکھ کر حجر اسود کو بوسہ دینا یا ہاتھ یا لکڑی سے چھو کر چوم لینے کا اشارہ کرکے ہاتھوں کو بوسہ دینا۔

    رَمل:۔

    طواف کے پہلے تین پھیروں میں جلدی سے چھوٹے قدم اٹھانا اور شانے ہلانا جیسے کہ قوی اور بہادر لوگ چلتے ہیں۔

    طواف:۔

    مسجدالحرام میں خانہ کعبہ کے اردگرد بطریق خاص چکر لگانے کا نام طواف ہے۔

    طوافِ قدُوم:۔

    مکۃ المکرمہ میں داخل ہونے کے بعد جو پہلا طواف کیا جاتا ہے اسے طوافِ قدوم کہتے ہیں یہ طواف ہر اس آفاقی کے لئے مسنون ہے جو حج اِفراد یا قِران کی نیت سے مکہ معظمہ میں داخل ہو۔

    طوافِ زیارت:۔

    طواف زیارت حج کا رکن ہے۔ یہ 10 ذی الحجہ کی صبح صادق سے لے کر 12 ذی الحجہ غروبِ آفتاب سے پہلے تک ہوسکتا ہے البتہ 10 ذی الحجہ کو کرنا احسن ہے۔

    طواف وداع:۔

    بیت اللہ شریف سے واپسی کے وقت طواف کرنا، طواف وداع کہلاتا ہے یہ آفاقی پر واجب ہے۔

    طواف عمرہ:۔

    یہ طواف عمرہ کرنے والوں پر فرض ہے۔

    سعی:۔

    صفا سے مروہ اور پھر مروہ سے صفا کی طرف جانا آنا اور مِیْلَیْنِ اَخْضَرَیْنِ کے درمیان دوڑنا سعی کہلاتا ہے۔

    وقوف عرفہ:۔

    نویں ذی الحجہ کو عرفات میں ٹھہرنا، خشیتِ الہٰی اور خالص نیت سے ذکر، لبیک، دعا، درود، استغفار اور کلمہ توحید میں مشغول رہنا اور نماز ظہر و عصر ادا کرنا اور نماز سے فراغت کے بعد بالخصوص غروبِ آفتاب تک دعا میں اپنا وقت گزارنا۔

    رمی:۔

    منٰی میں واقع تین جمروں (یعنی شیاطین) پر کنکریاں مارنے کو کہتے ہیں۔

    ھدی:

    وہ جانور جسے قربانی کیلئے وقف کیا جائے۔

    حلق:۔

    سارا سر منڈانا، یہ افضل ہے۔

    تقصیر:۔

    بال چھوٹے کرانا، اس کی بھی اجازت ہے۔

    مقاماتِ حج

    کعبہ:۔

    کعبہ یا بیت اللہ مقامات حج میں سے سب سے عظیم مقام ہے۔ اسی کا حج اور طواف کیا جاتا ہے اور وہ مسجد جس میں اللہ کا یہ گھر واقع ہے اسے مسجد حرام کہتے ہیں۔

    رکن:۔

    خانہ کعبہ کا گوشہ جہاں اس کی دو دیواریں ملتی ہیں جسے زاویہ کہتے ہیں۔ کعبہ معظمہ کے چار رکن ہیں۔

    1۔ رکن اسود:۔

    جنوب و مشرق کا گوشہ جہاں حجر اسود نصب ہے۔

    2۔ رکن عراقی:۔

    شمال و مشرق کا گوشہ جہاں دروازہ کعبہ ہے، جو انہی دو رکنوں کے بیچ کی شرقی دیوار میں زمین سے بہت بلند ہے۔

    3۔ رکن شامی:۔

    شمال و مغرب کے گوشہ میں سنگِ اسود کی طرف منہ کرکے کھڑے ہوں تو بیت المقدس سامنے ہوگا۔

    4۔ رکن یمانی:۔

    مغرب اور جنوب کے گوشہ میں واقع ہے۔

    حجر اسود:۔

    یہ کالے رنگ کا ایک پتھر ہے۔ حدیث پاک میں ہے کہ حجر اسود جب جنت سے نازل ہوا تو دودھ سے زیادہ سفید تھا، بنی آدم کے گناہوں نے اسے سیاہ کر دیا۔ (جامع ترمذی)
    خانہ کعبہ کے طواف کے شروع اور ختم کرنے کے لئے وہ ایک نشان کا کام دیتا ہے۔

    ملتزم:۔

    مشرقی دیوار کا وہ ٹکڑا جو رکن اسود سے دروازہ کعبہ تک ہے۔ طواف کے بعد مقام ابراہیم پر نماز و دعا سے فارغ ہو کر حاجی یہاں آتے اور اس سے لپٹتے اور اپنا سینہ و پیٹ اور رخسار اس پر رکھتے اور ہاتھ اونچے کرکے دیوار پر پھیلاتے ہیں۔

    میزاب رحمت:۔

    سونے کا پرنالہ جو رکن عراقی اور رکن شامی کی بیچ کی دیوار پر چھت پر نصب ہے۔

    حطیم:۔

    بیت اللہ کی شمالی دیوار کی طرف زمین کا ایک حصہ جس کے اردگرد ایک قوسی کمان کے انداز کی چھوٹی سی دیوار بنا دی گئی ہے اور دونوں طرف آمد و رفت کا دروازہ ہے۔ اس حصہ زمین کو طواف میں شامل کرنا واجب ہے۔

    مستجار:۔

    رکن یمانی و شامی کے بیچ میں غربی دیوار کا وہ ٹکڑا جو ملتزم کے مقابل ہے۔

    مستجاب:۔

    رکن یمانی اور رکن اسود کے بیچ میں جنوبی دیوار یہاں ستر ہزار فرشتے دعا پر آمین کہنے کے لئے مقرر ہیں اس لئے اس کا نام مستجاب رکھا گیا ہے۔

    مقام ابراہیم:۔

    دروازہ کعبہ کے سامنے ایک قبہ میں وہ پتھر ہے جس پر کھڑے ہوکر سیدنا ابراہیم خلیل اللہ نے کعبہ بنایا تھا، ان کے قدم مبارک کا اس پر نشان پڑ گیا جو اب تک موجود ہے جسے اللہ تعالیٰ نے آیات بینات میں شمار فرمایا ہے۔

    قبہ زمزم شریف:۔

    یہ قبہ مقام ابراہیم سے جنوب کی طرف مسجد ہی میں واقع ہے اور اس قبہ کے اندر زمزم کا چشمہ ہے۔ اب یہ قبہ ختم کردیا گیا ہے۔

    باب الصفا:۔

    مسجد حرام کے جنوبی دروازوں میں سے ایک دروازہ ہے۔

    باب السلام:۔

    مسجد حرام کا وہ دروازہ جس سے پہلی مرتبہ داخل ہونا افضل ہے۔

    صفا:۔

    یہ کعبہ معظمہ سے جنوب کی سمت ہے۔ یہاں زمانہ قدیم میں ایک پہاڑی تھی جو زمین میں چھپ گئی ہے اور اب وہاں قبلہ رخ ایک دالان سا بنا ہے اور اوپر چڑھنے کے لئے سیڑھیاں بھی ہیں۔

    مروہ:۔

    دوسری پہاڑی صفا سے جانب شرق تھی۔ یہاں بھی اب قبلہ رخ دالان اور سیڑھیاں ہیں۔ صفا سے مروہ کو جاتے ہوئے بائیں ہاتھ کو مسجد حرام کا احاطہ ہے۔

    مِیْلَیْنِ اَخْضَرَیْنِ :۔

    اس فاصلہ کے وسط میں جو صفا سے مروہ تک ہے، دیوار حرم شریف میں دو سبز میل نصب ہیں جیسے میل کے شروع میں پتھر لگا ہوتا ہے اب تو وہاں سبز رنگ کی ٹیوب لائٹس شب و روز روشن رہتی ہیں۔

    مسعیٰ:۔

    وہ فاصلہ جو ان دونوں نشانوں کے درمیان ہے اس فاصلہ کو دوڑ کر طے کیا جاتا ہے مگر نہ حد سے زائد دوڑیں نہ کسی کو ایذا دیں۔

    تنعیم (مسجد عائشہ):۔

    یہ وہ مقام ہے جہاں سے مکہ مکرمہ میں قیام کے دوران عمرے کے لئے احرام باندھا جاتا ہے۔

    ذوالحلیفہ:۔

    یہ مدینہ سے آنے والوں کے لئے میقات ہے اور مکہ سے تقریباً تین دن کی مسافت پر عراق کی طرف ہے۔

    حجفہ:۔

    یہ اہل شام کا میقات ہے اور مکہ سے شام کی طرف تین منزل پر ہے۔

    قرن المنازل:۔

    نجد کی طرف سے آنے والوں کے لئے میقات ہے۔

    عرفات:۔

    یہ ایک بہت بڑا میدان ہے جو منٰی سے تقریباً 11 کلومیٹر دور ہے۔ یہاں پر حج کا خطبہ دیا جاتا ہے۔

    موقف:۔

    عرفات میں وہ جگہ جہاں نماز کے بعد سے غروب آفتاب تک کھڑے ہو کر ذکر و دعا کا حکم ہے۔

    ٕبطن عرفہ:۔

    یہ عرفات میں حرم کے نالوں میں سے ایک نالہ ہے جو مسجد نمرہ کے مغرب کی طرف یعنی کعبہ معظمہ کی طرف واقع ہے یہاں وقوف جائز نہیں یہاں قیام یا وقوف کیا تو حج ادا نہ ہوگا۔

    مسجد نمرہ:۔

    میدان عرفات کے بالکل کنارے پر ایک عظیم مسجد ہے۔ اس کی مغربی دیوار اگر گرے تو بطن میں گرے گی۔

    جبل رحمت:۔

    عرفات کا ایک پہاڑ ہے، زمین سے تقریباً تین سو فٹ اونچا اور سطح سمندر سے تین ہزار فٹ بلند ہے اسے موقف اعظم بھی کہتے ہیں اسی کے قریب حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا موقف ہے جہاں سیاہ پتھروں کا فرش ہے۔

    مزدلفہ:۔

    عرفات اور منٰی کے درمیان ایک کشادہ میدان ہے جو عرفات سے تقریباً تین میل دور ہے، یہاں سے منٰی کا فاصلہ بھی تقریباً اتنا ہی ہے۔ کہتے ہیں کہ عرفات میں قبول توبہ کے بعد حضرت آدم اور اماں حوا علیھما السلام مزدلفہ ہی میں ملے تھے۔

    مازنین:۔

    عرفات اور مزدلفہ کے پہاڑوں کے درمیان ایک تنگ راستہ ہے حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم عرفات سے مزدلفہ اسی راستے تشریف لائے تھے۔

    مشعر حرام:۔

    اس خاص مقام کا نام ہے جو مزدلفہ کی دو پہاڑیوں کے درمیان ہے اور خود سارے مزدلفہ کو بھی مشعر حرام کہتے ہیں۔ مزدلفہ میں حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے وقوف کی جگہ گنبد بنا دیا گیا تھا آج کل یہاں ایک مسجد بھی ہے جسے مسجد مشعر الحرام کہا جاتا ہے۔ مشعر حرام کو قزح بھی کہتے ہیں۔

    وادی محشر:۔

    یہ وہی مقام ہے جہاں اصحاب فیل کے ہاتھی تھک کر رہ گئے اور مکہ معظمہ کی طرف آگے نہ بڑھ سکے اور سب ہلاک ہوگئے۔

    منٰی:۔

    ایک وسیع اور کشادہ میدان جو پہاڑوں کے دامن میں واقع ہے۔ مزدلفہ سے یہاں آ کر رمی جمار اور قربانی جیسے افعال ادا کئے جاتے ہیں۔

    مسجد خیف:۔

    منٰی کی مشہور اور بڑی مسجد کا نام ہے خیف وادی کو کہتے ہیں۔ کہا جاتا ہے کہ اس مسجد میں ستر نبی آرام فرما رہے ہیں مسجد خیف پر ہشت پہلو قبہ ہے، اس قبہ کی جگہ کے متعلق کہا جاتا ہے کہ بہت سے پیغمبروں نے نمازیں یہاں ادا فرمائی ہیں حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا خیمہ بھی یہاں نصب کیا گیا تھا۔

    جمار:۔

    منٰی کے میدان میں پتھر کے تین ستون کھڑے ہیں ان ہی کا نام جمار ہے۔ ان میں سے منٰی سے مکہ کی طرف جائیں تو پہلے کا نام جمرہ اولیٰ، دوسرے کا نام وسطیٰ اور تیسرے کا نام جمرہ عقبہ ہے۔

    شیخ الاسلام پروفیسر ڈاکٹر محمد طاہرالقادری کی تصنیف "فلسفہ و احکامِ حج" سے اقتباس​
     
  2. عبدالجبار
    آف لائن

    عبدالجبار منتظم اعلیٰ سٹاف ممبر

    شمولیت:
    ‏27 مئی 2006
    پیغامات:
    8,595
    موصول پسندیدگیاں:
    71
    جزاک اللہ! پیا جی!

    آپ کی تحریروں سے ہمیں‌بہت کچھ سیکھنے کو ملتا ہے۔ اور مزے کی بات یہ کہ جب کوئی اسلامی تہوار آتا ہے تو اکثر آپ اُسی کی مناسبت سے پیغام ارسال کرتے ہیں۔ جیسا کہ اب بھی ادائیگیِ حج قریب ہے اور آپ نے حج کی اصتلاحات بیان کیں اور مقاماتِ حج سے آگاہ کِیا۔

    بہت سے لوگ اِس سے استفادہ حاصل کر سکیں گے۔ اللہ پاک آپ کو جزائےِ عظیم عطا فرمائے۔ (آمین)
     
  3. زاہرا
    آف لائن

    زاہرا ---------------

    شمولیت:
    ‏17 نومبر 2006
    پیغامات:
    4,208
    موصول پسندیدگیاں:
    11
    جزاک اللہ ۔ بہت پیارا مضمون بھیجا ہے آپ نے۔
     
  4. نعیم
    آف لائن

    نعیم مشیر

    شمولیت:
    ‏30 اگست 2006
    پیغامات:
    58,107
    موصول پسندیدگیاں:
    11,153
    ملک کا جھنڈا:
    پیاجی ! اللہ تعالی آپ کے جزائے خیر عطا فرمائے۔ آمین

    اور اللہ تعالی اس مبارک تحریر کے صدقے ہم سب مسلمانوں کو بالخصوص آپ کو ان مقامات کی اور اپنے پیارے حبیب :saw: کے مبارک روضے کی بار بار زیارت نصیب فرمائے ۔ آمین
     

اس صفحے کو مشتہر کریں