بہت ڈر کی بات ہے۔ انتہائی ڈر کی۔ کپکپی سی آ رہی ہے۔ کیا ہو کہ جسم کے حصے نٹ بولٹ کی طرح اتار کر دوبارہ لگائے جا سکیں۔ اور جو لگے ہوئے بھی ہیں انہیں یہاں وہاں فکس کیا جا سکے۔ سائنسدان آج کل اس قسم کی باتیں کر رہے ہیں۔ ایک امریکی کنسلٹنٹ ڈاکٹر پال براؤن نے برٹش میڈیکل جرنل میں ’خدا کے نام ایک خط‘ میں یہاں تک لکھا ہے کہ کھڑے رہنے اور سیدھا چلنے سے گھٹنے اور جوڑ کمزور ہوتے ہیں اس لیئے ایسا نہیں ہو سکتا کہ انہیں کسی اور اینگل یا زاویہ سے لگا دیا جائے۔ سائنسدان سمجھتے ہیں کہ قدرتی طریقے سے بننے والا جسم جدید دور کی ضروریات کے مطابق نہیں اور اس میں تبدیلی ہونی چاہیئے۔ انگلیوں کے پوٹوں یا فنگر ٹپس کا سائز ذرا چھوٹا ہو تاکہ پام ٹاپ یا بلو بیری کے چھوٹے کی بورڈ کو آسانی سے استعمال کیا جا سکے۔ بات یہاں تک ہوتی تو ٹھیک تھا۔ لیکن اب یہ ذرا بیلٹ سے نیچے تک چلے گئی ہے۔ ڈاکٹر براؤن کہتے ہیں کہ انسانی جینیٹلز (شرم گاہیں) بغل میں بنا دی جائیں تاکہ یہ ان اعضاء سے دور رہیں جو ’ایکسکریشن‘ یا اخراج کے کام آتے ہیں۔ یہ سب کچھ صحت عامہ کے پیشِ نظر سوچا جا رہا ہے۔ او سائنسدانوں تمہارا بھلا ہو۔ (اگر کسی نے سب کے سامنے ڈیوڈرنٹ لگانا ہو تو وہ کیا کرے)۔ اسی طرح کہا گیا ہے کہ انسان کے دو دل اور دو جگر ہونے چاہیں۔ تاکہ اگر ایک دل کی شریانیں بادام و روغن کھانیں سے بند ہو جائیں تو دوسرا کام کرتا رہے۔ جگر کا بھی یہی حال ہے لیکن دو جگروں کی ضرورت کثرتِ شراب نوشی کی وجہ سے پڑی ہے۔ یعنی اگر ایک پر بوجھ پڑے تو ’سپیئر‘ استعمال کریں۔ اب یہ آپ پر ہے کہ آپ ’تائیوان کا لیں، جاپان کا یا جینیئن‘۔ باتیں یہ بھی ہوئی ہیں کہ بوڑھے ہونے کے عمل کو تیز کیا جائے تاکہ لوگ جلدی جلدی اپنی چھوٹی سی جوانی میں جو کرنا ہے کر لیں۔ نا کہ اپنے خوابوں کو پورا کرنے کے لیئے مستقبل کا انتظار کرتے رہیں۔ یہ بھی مشورہ دیا گیا ہے کہ جسم کے اعضا اتار کر دراز میں رکھیں جا سکیں اور جب چاہے واپس لگائیں جائیں۔ ’آپ اپنی ٹانگ کسی اور کو دے دیں تاکہ وہ بازار جا کہ آپ کے ناپ کی پتلون لے آئے اور آپ مزے سے ٹی وی دیکھتے رہیں‘۔ بارہ انگلیاں بھی باتیں کہی گئیں کیونکہ بارہ دو، تین، چار اور چھ پر تقسیم ہو جاتا ہے اور دس صرف دو اور پانچ پر۔ پتہ نہیں مستقبل میں ہم کیسے ہوں گے۔ ڈر لگ رہا ہے۔ ہو سکتا ہے کہ ہماری آنے والی نسلیں ہماری تصویریں بچوں کو ’ڈریگن‘ بتا کر دکھایا کریں۔ ماخوذ از بی بی سی
نادیہ جی نے لکھا بھئی سیدھا سا جواب ہے کہ اگر بیوقوف لوگ پڑھ لکھ سکتے ہیں تو پڑھے لکھے بیوقوف ہی ہوں گے نا !!!!! لیکن اس پر سموکر صاحب نے ساری ذمہ داری اپنے کندھوں پر اٹھاتے ہوئے انتہائی فراخدلی سے شکریہ یوں ادا کیا ہے