1. اس فورم پر جواب بھیجنے کے لیے آپ کا صارف بننا ضروری ہے۔ اگر آپ ہماری اردو کے صارف ہیں تو لاگ ان کریں۔

اسلام کا آئینِ امن و سلامتی ۔اور۔ دیگر عالمی آئین

'تعلیماتِ قرآن و حدیث' میں موضوعات آغاز کردہ از برادر, ‏18 دسمبر 2008۔

  1. برادر
    آف لائن

    برادر ممبر

    شمولیت:
    ‏21 اپریل 2007
    پیغامات:
    1,227
    موصول پسندیدگیاں:
    78
    اسلام کا تصور امن و سلامتی​


    سب سے پہلے اسلام کے تصورِ امن و سلامتی پر گفتگو کریں گے۔ عرب معاشرہ تشدد، ظلم و وحشت اور سفاکی سے بھرپور معاشرہ تھا، لیکن حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے لوگوں کو امن و سلامتی عام کرنے پر زور دیا :

    1. عن البراء بن عازب رضی الله عنه قال : قال رسول اﷲ صلی الله عليه وآله وسلم : أفشوا السلام تسلموا. (مسند احمد بن حنبل، 4 : 286)
    " تم سلامتی کو عام کرو (اس عمل سے) تم بھی سلامتی میں ہوگے۔"
    اِس حدیث مبارکہ میں حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے امن و سلامتی عام کرنے پر زور دیا اور انہیں یہ نوید دی کہ اس طرح تم بھی دائرۂ امن میں آجاؤ گے۔

    2۔ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا :

    وَالَّذِي نَفْسِي بِيَدِهِ لَا تَدْخُلُوا الْجَنَّةَ حَتَّی تُؤْمِنُوا، وَلَا تُؤْمِنُوا حَتَّی تَحَابُّوا، أَفَلَا أَدُلُّکُمْ عَلَی أَمْرٍ إِذَا فَعَلْتُمُوهُ تَحَابَبْتُمْ؟ أَفْشُوا السَّلَامَ بَيْنَکُمْ.

    ’’قسم ہے اُس ذات کی جس کے قبضے میں میری جان ہے، تم جنت میں داخل نہیں ہوگے جب تک ایمان نہ لاؤ اور تمہارا ایمان کامل نہیں ہوگا جب تک تم ایک دوسرے سے محبت نہ کرو۔ کیا میں تمہیں ایسا کام نہ بتاؤں کہ اسے کرو تو ایک دوسرے سے محبت کرنے لگو گے؟ آپس میں سلام کو پھیلاؤ۔‘‘(سنن ابی داو، کتاب الادب، رقم : 5193)

    3۔ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے ہی ایک دوسرے مقام پر مروی ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا :

    لا تدخلوا الجنة حتی تسلموا، ولا تسلموا حتی تحابوا وأفشوا السلام تحابوا، وإياکم والبغضة فإنها هی الحالقة. لا أقول لکم تحلق الشعر ولکن تحلق الدين. (الادب المفرد)
    ’’تم اس وقت جنت میں داخل نہیں ہوگے جب تک اسلام نہ لاؤ اور تم اس وقت اسلام نہ لاؤ گے جب تک آپس میں ایک دوسرے سے محبت نہ کرو۔ (لوگو!) سلام عام کرو تم باہم محبت کرنے لگو گے۔ اور بغض سے بچو کیونکہ یہ کاٹنے والا ہے۔ میں یہ نہیں کہتا کہ یہ تمہاری گردنیں کاٹے گا بلکہ یہ تمہارا دین کاٹے گا۔‘‘

    ان احادیث میں اور دیگر کئی مواقع پر حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اُس معاشرے کو امن و سلامتی عام کرنے کا حکم فرمایا جہاں جنگ و جدل انسانی گھٹی میں رچی بسی تھی۔ گویا آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کلی طور پر ایک پُراَمن اور محفوظ معاشرے کا قیام چاہتے تھے جہاں کسی کی جان، مال، آبرو غیر محفوظ نہ ہو۔ ان احادیث مبارکہ سے مسلمانوں کو باہمی تعلق کا ایک واضح اور صاف راستہ بتایا گیا۔

    4۔ جب کہ صحیح بخاری میں حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی حدیث مبارکہ میں حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ان یہود کے ساتھ بھی نرمی اختیار کرنے کا حکم فرمایا جو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو بددعا دے رہے تھے۔

    عَنْ عَائِشَةَ رضی الله عنها أَنَّ يَهُودَ أَتَوْا النَّبِيَّ صلی الله عليه وآله وسلم فَقَالُوا : السَّامُ عَلَيْکُمْ. فَقَالَتْ عَائِشَةُ : عَلَيْکُمْ، وَلَعَنَکُمْ اﷲُ وَغَضِبَ اﷲُ عَلَيْکُمْ. قَالَ : مَهْلًا يَا عَائِشَةُ! عَلَيْکِ بِالرِّفْقِ وَإِيَّاکِ وَالْعُنْفَ وَالْفُحْشَ.
    ’’حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا روایت کرتی ہیں کہ کچھ یہودی آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بارگاہ میں حاضر ہوئے اور انہوں نے کہا : تمہارے اوپر موت ہو۔ حضرت عائشہ نے جواباً کہا : تمہارے اوپر بھی ہو اور اللہ تم پر لعنت کرے اور تم پر اللہ کا غضب ہو۔ اس پر حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : اے عائشہ! جانے دو، نرمی اختیار کرو۔ نیز کج خلقی اور بدگوئی سے بچو۔‘‘ (صحیح بخاری، کتاب الادب، رقم : 5683)

    5۔ بیعت عقبہ اُولی کے موقع پر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے یثرب سے آئے ہوئے بارہ رکنی وفد سے درج ذیل نکات پر حلف لیا :

    اﷲ تعالیٰ اور اس کی وحدانیت پر ایمان لاؤ گے۔
    کبھی چوری نہیں کرو گے۔
    کبھی بدکاری نہیں کرو گے۔
    کبھی اپنی بیٹیوں کو زندہ درگور نہیں کرو گے۔
    کسی پر بہتان نہیں باندھو گے۔
    جو کچھ میں تم سے کہ رہا ہوں اگر وہ اچھا ہے تو اس کی پیروی کرو گے۔
    اہل یثرب سے لیے جانے والے پہلے حلف کے نکات پر غور کریں تو واضح ہوتا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اہل مکہ کی دشمنی کا کوئی ذکر نہیں کیا اور نہ اپنے اوپر ہونے والی زیادتیوں کا بدلہ لینے کا کوئی عندیہ دیا بلکہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ان کی اخلاقی، معاشرتی و سماجی اصلاح پر زور دیا اور انہیں تکریم انسانیت کی تعلیم دی۔ یہ تعلیمات کا پہلا پیکج تھا جو یثرب سے آئے ہوئے پہلے وفد کو دیا گیا۔ بعد ازاں اُس وفد نے یہ تعلیمات پھیلانا شروع کیں۔

    جب آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم مدینہ منورہ ہجرت فرما کر گئے تو اہل مدینہ کے دلوں میں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے لیے محبت کا سمندر موجزن تھا کیونکہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے انہیں ان برائیوں سے نجات دلائی جو صدیوں سے ان کے اندر موجود تھیں۔ یہاں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے درج ذیل نکات پر مشتمل پہلا خطبہ دیا :

    اے لوگو! اﷲ سے ڈرو اور تقویٰ اختیار کرو تاکہ تمہارے اعمال کی اصلاح ہوسکے۔
    ہمیشہ ذہن نشین رکھو کہ تمہیں روزِ محشر اُس خداے وحدہ لاشریک کے حضور اپنے اعمال پر جواب دہ ہونا ہے۔
    صدقہ و خیرات کی کثرت کرو۔
    اپنے رویہ اور باتوں میں ہمیشہ نرمی اور رحم دلی اختیار کرو اور اپنے دل کو سخت اور ظالم نہ ہونے دیں۔
    نفرت کی بجائے ایک دوسرے سے محبت کریں۔
    اپنے نفس، دل اور ذہن کے شرانگیز پہلو سے پناہ مانگیں۔
    قرآن حکیم سے رہنمائی حاصل کریں۔
    ہمیشہ اپنے وعدوں کی پاس داری کریں۔
    مذکورہ بالا شقیں واضح کرتی ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ایک فلاحی معاشرے کا قیام چاہتے تھے جس کی بنیاد غریب پروری اور احسان پر ہو۔ جہاں لوگ امن و آشتی اور صلح پسندی کے ساتھ رہیں، جہاں ہر ایک کے حقوق محفوظ ہوں، کسی کی حق تلفی نہ ہو۔ یہ نکات آج کے ان رہنماؤں سے سوال کر رہے ہیں جو جہاد کے نام پر امت کے نوجوانوں اور پوری دنیا کو گم راہ کر رہے ہیں۔ نیز یہ نکات مغربی دنیا کے حکمرانوں کے منہ پر طمانچہ ہیں جو اسلام کو تشدد، دہشت گردی اور انتہا پسندی سے تعبیر کرتے ہیں۔

    مدینہ آمد کے بعد اقداماتِ مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم

    حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے مدینہ منورہ آمد کے بعد درج ذیل اقدامات کو تمام امور پر ترجیح دی۔

    1۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اہل مدینہ سے خطاب فرماتے ہوئے باہمی محبت و یگانگت کے فروغ اور لوگوں کو اپنے قول و فعل اور رویے میں نرمی اور رحم دلی اختیار کرنے کا حکم دیا۔
    2۔ اس کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے جو پہلا کام کیا وہ مواخات کا تھا، جس کے ذریعے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم محبت، اخوت اور امن کی بنیاد پر سماجی استحکام چاہتے تھے۔
    3۔ مواخات کے بعد جو کام آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے کیا وہ مدینہ کے یہود اور دوسرے غیر مسلم قبائل کے ساتھ سیاسی معاہدۂ امن تھا، جس کے ذریعے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ریاست مدینہ کو آئین دیا جو کہ دنیا کا پہلا تحریری آئین تھا۔

    آئینی تاریخ عالم

    اگر ہم دنیا کی آئینی تاریخ کا مطالعہ کریں تو اس سے بھی آئینِ ریاستِ مدینہ کی اہمیت و فوقیت دوچند ہو جاتی ہے۔

    ٭ برطانیہ میں آئینی تاریخ کا آغاز 1215ء میں میگنا کارٹا کی صورت میں ہوا جس میں محدود سطح پر حقوق دیئے گئے۔۔۔ بعد ازاں Bill of Rights آیا جس کے بعد 1700ء میں Act of Settlement پاس ہوا۔

    ٭ اسی طرح امریکہ کی آئینی تاریخ پر نظر دوڑائیں تو معلوم ہوتا ہے کہ 1776ء میں Declaration of Independence بنا۔۔۔ پھر ستمبر 1787ء میں Philadelphia Convention میں امریکہ کا پہلا آئین وجود میں آیا، اس دوران آئینی طور پر غلامی برقرار رہی۔۔۔ 1868ء میں تیرھویں اور چودھویں ترمیم کے ذریعے بنیادی انسانی حقوق کو آئین کا حصہ بنایا گیا۔۔۔ 1920ء میں انیسویں ترمیم کے ذریعے عورت کو ووٹ ڈالنے کا حق دیا گیا۔ یہی حالات آسٹریلوی، فرانسیسی اور جرمن سیاسی نظاموں اور آئین کے ہیں۔

    تاریخ اسلامی آئین سازی

    اس مختصر تجزیے کے بعد ہم اسلامی آئین سازی کی تاریخ کا جائزہ لیتے ہیں تو یہ حقیقت اظہر من الشمس ہو جاتی ہے کہ مغربی دنیا میں تمام حقوق کو آئینی تحفظ پچھلے ڈیڑھ دو سو سال کے عرصے کے دوران حاصل ہوا جب کہ اسلامی تاریخ میں حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے چودہ صدیاں قبل 63 شقوں پر مشتمل دنیا کا پہلا تحریری آئین دیا۔ اس آئین کے ذریعے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے تمام قوموں اور قبائل، چاہے وہ مسلمان ہوں، یہود ہوں یا عیسائی وغیرہ۔ ان تمام کو ایک قوم قرار دیا۔۔۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ریاست مدینہ کا بنیادی ڈھانچہ تشکیل دیا۔۔۔ devolution کے ذریعے حکومت کو وفاقی، صوبائی اور لوکل سطحوں پر قائم کیا۔۔۔ اُس دور میں پہلی آئینی اسمبلی قائم ہوئی اور قوم کا تصور اس زمانے میں دیا جب بادشاہ کی زبان سے نکلا ہوا ہر لفظ قانون کا درجہ رکھتا تھا اور پوری دنیا تہذیب اور انسانی حقوق کے تصور سے ناآشنا تھی۔۔۔ مقامی رسوم و روایات کو آئینی تحفظ دیا گیا۔۔۔ تمام مذاہب کے پیروکاروں کو مذہبی آزادی دی گئی اور دہشت گردی کو قانونی طور پر ban کر دیا گیا۔۔۔ آئین مدینہ کے آرٹیکل نمبر 16 کے ذریعے دہشت گردی اور انتہا پسندی کے خلاف اجتماعی رد عمل کا اظہار فرمایا گیا۔۔۔ مدینہ کو جائے امن قرار دیا گیا اور مدینہ کی حدود کے اندر قتال، دہشت گردی اور ظلم کو جرم قرار دیا گیا۔

    ان تمام تصریحات کے بعد جب ہم اپنے ارد گرد نظر دوڑاتے ہیں تو نہایت کرب ناک منظر دکھائی دیتا ہے جہاں چند لوگوں اور گروہوں نے اسلامی تعلیمات کو توڑ مروڑ کر پیش کیا اور نوجوان نسل کو جہاد کے نام پر گمراہ کر رہے ہیں۔ بدقسمتی سے مغربی لوگوں نے بھی ان چند انتہا پسندوں کے version کو اسلام کی تعلیمات سمجھ لیا ہے جب کہ حقیقت اس کے برعکس ہے۔
    مضمون جاری ہے
    اگلا حصہ لڑی ۔۔ عالم مغرب اور انسانی حقوق اور اسلام۔۔۔ میں ملاحظہ کیجئے
     
  2. نعیم
    آف لائن

    نعیم مشیر

    شمولیت:
    ‏30 اگست 2006
    پیغامات:
    58,107
    موصول پسندیدگیاں:
    11,153
    ملک کا جھنڈا:
    السلام علیکم ۔
    برادر بھائی ۔ اتنی مفید علمی شئیرنگ کے لیے شکریہ ۔ جزاک اللہ ۔

    بلاشبہ دین اسلام ہی دنیا کو امن و محبت کا حقیقی درس دیتا ہے۔
    اللہ تعالی ڈاکٹر قادری صاحب کو صحت و سلامتی عطا کرے جو اسلام کا حقیقی پیغام دنیا میں عام کررہے ہیں۔ آمین
     
  3. عقرب
    آف لائن

    عقرب ممبر

    شمولیت:
    ‏14 اکتوبر 2006
    پیغامات:
    3,201
    موصول پسندیدگیاں:
    200
    سلام ۔ برادر انکل
    خوبصورت اور ایمان افروز مضمون کا شکریہ
    اللہ آپکی محنت قبول فرمائے۔ آمین
     
  4. وسیم
    آف لائن

    وسیم ممبر

    شمولیت:
    ‏30 جنوری 2007
    پیغامات:
    953
    موصول پسندیدگیاں:
    43
    سبحان اللہ ۔ اسلامی نظریاتی کے علوو رفعت کو پڑھ کر سر فخر سے بلند ہوجاتا ہے۔

    مگر عملی طور پر دنیا کے 56 اسلامی ممالک میں ان تعلیمات کا عدمِ نفوذ دیکھ کر سر شرم سے جھک جاتا ہے۔
     
  5. مجیب منصور
    آف لائن

    مجیب منصور ناظم

    شمولیت:
    ‏13 جون 2007
    پیغامات:
    3,149
    موصول پسندیدگیاں:
    70
    ملک کا جھنڈا:
    بھترین اسلامی معلومات شیئر کرنے کا شکریہ۔۔۔جزاک اللہ برادر بھائی
     

اس صفحے کو مشتہر کریں