1. اس فورم پر جواب بھیجنے کے لیے آپ کا صارف بننا ضروری ہے۔ اگر آپ ہماری اردو کے صارف ہیں تو لاگ ان کریں۔

اسلام میں غیر مسلموں کے حقوق

'تعلیماتِ قرآن و حدیث' میں موضوعات آغاز کردہ از برادر, ‏18 دسمبر 2008۔

  1. برادر
    آف لائن

    برادر ممبر

    شمولیت:
    ‏21 اپریل 2007
    پیغامات:
    1,227
    موصول پسندیدگیاں:
    78
    اسلام اور غیر مسلموں کے حقوق

    اپنی گفتگو کے آخری حصے میں ہم اسلامی ریاست میں غیر مسلموں کے حقوق پر روشنی ڈالیں گے۔ یہ اَمر قابل غور ہے کہ اَقلتیوں کامعاملہ صرف اِسلام کے حوالے سے تنقید کی زد میں رہا ہے۔ حالاں کہ تاریخ اسلام اس اَمر کی گواہ ہے کہ اسلام کی تعلیمات کی روشنی میں اسلامی مملکت میں اَقلیتوں کو وہ بلند مقام حاصل رہا کہ بغداد و اسپین اور برصغیر میں اقلیتیں ہر سطح کے ریاستی امور میں بھی شریک رہیں اور مملکت کی اعلٰی ترین ذمہ داریوں پر فائز رہی ہیں۔ یہ سب کچھ ان تعلیمات کااثر تھا جو غیر مسلموں کے حقوق کے بارے میں حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے عطا فرمائیں۔

    ٭ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ مومنوں کے حقوق آپس میں برابر ہیں اور ان کی ادائیگی کے لیے ان میں سے جو اَدنیٰ ہیں وہ بھی کوشش کریں۔ کسی غیر مسلم کے بدلے کسی مسلمان کو قتل نہ کیا جائے اور کسی معاہد کو اس کی مدتِ معاہدہ میں قتل نہیں کیا جائے گا۔

    ٭ غیر مسلموں کے حقوق کی اَہمیت بیان کرتے ہوئے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ جن نے کسی معاہد کو قتل کیا وہ جنت کی خوشبو بھی نہیں سونگھے گا حالاں کہ اس کی خوشبو چالیس برس کی مسافت تک محسوس ہوتی ہے۔

    ٭ سنن ابی داؤد میں مروی حدیث مبارکہ میں ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے غیر مسلموں کو مارنے یا اس کی حق تلفی کرنے والے مسلمان کو زجر و توبیخ کی اور اسے ریاست کی طرف سے سزا دینے کا حکم دیا بلکہ یہاں تک فرمایا کہ روزِ قیامت میں خود اُس غیر مسلم کی طرف سے جھگڑا کروں گا۔ فرمایا :

    أَلاَ! مَنْ ظَلَمَ مُعَاهِدًا أَوِ انْتَقَصَهُ أَوْ کَلَّفَهُ فَوْقَ طَاقَتِهِ أَوْ أَخَذَ مِنْهُ شَيْئًا بِغَيْرِ طِيبِ نَفْسٍ، فَأَنَا حَجِيجُهُ يَوْمَ الْقِيَامَةِ.

    ’’خبردار! جس نے کسی معاہد (ذِمی) پر ظلم کیا یا اس کے حق میں کمی کی یا اسے کسی ایسے کام کی تکلیف دی جو اس کی طاقت سے باہر ہو یا اس کے ولی کی رضامندی کے بغیر کوئی چیز اس سے لی تو قیامت کے روز میں اس کی طرف سے جھگڑوں گا۔‘‘ (سنن ابی داؤد، کتاب الخراج و الامارۃ، رقم : 3052)

    ٭ وہ لوگ جو یہ کہتے نہیں تھکتے کہ اسلام تلوار کے زور سے پھیلا ہے، انہیں یہ حقیقت فراموش نہیں کرنی چاہیے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی تیرہ سالہ مکی زندگی میں ہمیشہ غیر مسلموں نے مسلمانوں پر ظلم و ستم ڈھائے۔ ہجرتِ مدینہ کے بعد بھی کفار ہی ہر سال اہلِ مدینہ پر حملہ کرتے جب کہ مسلمانوں نے ہمیشہ دفاعی پالیسی اپنائی۔ غزوۂ بدر ہو یا غزوۂ احد یا غزوۂ خندق، تینوں بڑی جنگیں مدینہ منورہ کی سرحدوں پر لڑی گئیں۔ یعنی مسلمان ہمیشہ پُر اَمن رہے۔

    ٭ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا غیر مسلموں کے ساتھ جو برتاؤ رہا اس کی تاریخ میں نظیر نہیں ملتی۔ مشرکین مکہ و طائف نے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر بے شمار مظالم ڈھائے، لیکن جب مکہ مکرمہ فتح ہوا اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم دس ہزار صحابہ کرام رضی اللہ عنھم کا لشکر لے کر مکہ مکرمہ میں داخل ہوئے تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ایک انصاری کمانڈر سعد بن عبادۃ نے ابوسفیان سے کہا : الیوم یوم الملحمۃ (آج لڑائی کا دن ہے) یعنی آج کفار سے جی بھر کر انتقام لیا جائے گا۔ تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ناراض ہو گئے اور ان سے جھنڈا لے کر ان کے بیٹے قیس کے سپرد کر دیا اور ابوسفیان سے فرمایا :

    اليوم يوم المرحمة. (فتح الباری، 8 : 9. الاستيعاب، 2 : 597)
    ’’(آج لڑائی کا نہیں بلکہ) آج رحمت کے عام کرنے (اور معاف کر دینے) کا دن ہے۔‘‘

    پھر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنے مخالفین سے پوچھا کہ بتاؤ میں آج تمہارے ساتھ کیا برتاؤ کروں گا؟ تو اُنہوں نے کہا کہ جیسے حضرت یوسف علیہ السلام نے اپنے خطاکار بھائیوں کے ساتھ برتاؤ کیا تھا آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے بھی وہی توقع ہے۔ اس جواب پر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے وہی جملہ ارشاد فرمایا جو حضرت یوسف علیہ السلام نے اپنے بھائیوں کے لیے فرمایا تھا :

    لا تثريب عليکم اليوم، اذهبوا فانتم الطلقاء
    (تم سے آج کوئی پوچھ گچھ نہیں تم سب آزاد ہو)۔ (الجامع الصغیر : 220، رقم : 368)

    حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا بڑا دُشمن ابوسفیان تھا۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا :
    من دخل دار أبی سفيان فهو آمن (جو ابوسفیان کے گھر میں آج داخل ہوا وہ امن میں ہے)۔
    اللہ تعالٰی نے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اس فرمان کو اس طرح پورا کیا کہ جو بھی اس دن ابوسفیان کے گھر میں داخل ہوا اسے امان مل گئی۔ (صحیح مسلم، کتاب الجہاد، 3 : 1406، رقم : 1780)

    ٭ مکہ مکرمہ میں حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی مخالفت کرنے میں سب سے زیادہ دو اشخاص کا دخل تھا، وہ ابولہب کے بیٹے تھے جنہوں نے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو ایذائیں دیں۔ فتح مکہ کے روز یہ دونوں گستاخ کعبۃ اللہ کے پردوں کے پیچھے جا چھپے۔ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ان دونوں کو خود کعبۃ اللہ کے پردوں کے پیچھے سے نکالا اور معاف فرما دیا۔ (نصب الرایہ، 3 : 336)

    اِس طرح کے بے شمار واقعات و اَحادیث ہیں جن سے اِسلام کی عظمت آشکار ہوتی ہے کہ کس طرح مسلمانوں نے دشمنوں کے ساتھ حسنِ سلوک کیا اور تمام عمر اپنے اوپر ظلم ڈھانے والوں کو چشم زدن میں معاف کر دیا۔

    ٭ سیدنا علی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں :

    إذا قتل المسلم النصرانی قتل به. (شيبانی، الحجه، 4 : 349. شافعی، الام، 7 : 320)
    ’’اگر کسی مسلمان نے عیسائی کو قتل کیا تو مسلمان (عوضاً) قتل کیا جائے گا۔‘‘

    ٭ امام ابوحنیفہ رحمۃ اللہ نے فرمایا :

    دية اليهودی والنصرانی والمجوسی مثل دية الحر المسلم.(شيبانی، الحجه، 4 : 322. مصنف ابن ابی شيبه، 5 : 407)
    ’’یہودی، عیسائی اور مجوسی کی دِیت آزاد مسلمان کی دِیت کے برابر ہے۔‘‘

    اسی قول کی بنا پر فقہانے یہ اصول تشکیل دیا کہ اگر مسلمان کسی ذمی کو بلا ارادہ قتل کر دے تو اس کی دیت بھی وہی ہوگی جو مسلمان کو بلا ارادہ قتل کرنے سے لازم آتی ہے۔ (در المختار، 2 : 223)

    ٭ عظیم محدث ابن شہاب زہری رحمۃ اللہ فرماتے ہیں :

    أن دية المعاهد فی عهد أبی بکر وعمر وعثمان رضی الله عنهم مثل دية الحر المسلم. (شيبانی، الحجة، 4 : 351)
    ’’بے شک ابوبکر، عمر اور عثمان رضی اللہ عنھم کے دور میں ذِمی کی دیت آزاد مسلمان کی دیت کے برابر تھی۔‘‘

    ٭ ایک دفعہ حضرت عمرو بن عاص والی مصر کے بیٹے نے ایک غیر مسلم کو ناحق سزا دی۔ خلیفۂ وقت امیر المؤمنین حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے پاس جب اس کی شکایت ہوئی تو اُنہوں نے سرعام گورنر مصر کے بیٹے کو اس غیر مسلم مصری سے سزا دلوائی اور ساتھ ہی فرمایا :

    متی استعبدتم الناس وقد ولدتهم امهاتهم احرارا. (کنز العمال، 2 : 455)
    ’’تم نے کب سے لوگوں کو اپنا غلام سمجھ لیا ہے حالانکہ ان کی ماؤں نے انہیں آزاد جنا تھا۔‘‘

    مضمون جاری ہے

    اگلا حصہ ۔۔۔ اسلام میں اقلیتوں کے حقوق اور مذہبی آزادی ۔۔۔ میں ملاحظہ کیجئے
     
  2. نعیم
    آف لائن

    نعیم مشیر

    شمولیت:
    ‏30 اگست 2006
    پیغامات:
    58,107
    موصول پسندیدگیاں:
    11,153
    ملک کا جھنڈا:
    السلام علیکم ۔ جزاک اللہ برادر بھائی ۔
    ایک طویل عرصہ بعد بہت ہی مفید اور عصرِ حاضر کی ضرورت کے عین مطابق پوسٹ ارسال کی ہے آپ نے۔
    اسلام میں اقلیتوں کے حقوق کی اس سے بڑی علامت کیا ہوگی کہ پاکستان سمیت دنیا کے تمام اسلامی ممالک میں غیر مسلموں کو اپنی عبادت گاہیں بنانے اور استعمال کرنے کی سرکاری اجازت ہے۔ جبکہ " جمہوریت و آزادی " کے علمبردار بےشمار یورپی و مغربی ممالک میں مسلمانوں کو آج بھی باقاعدہ مسجد بنانے کی اجازت نہیں۔

    اللہ تعالی ڈاکٹر صاحب کو صحت و سلامتی دے جو عالمی سطح پر اسلام کا پیغامِ امن و سلامتی پھیلا کر عظیم خدمت کررہے ہیں ۔ آمین
     
  3. نعیم
    آف لائن

    نعیم مشیر

    شمولیت:
    ‏30 اگست 2006
    پیغامات:
    58,107
    موصول پسندیدگیاں:
    11,153
    ملک کا جھنڈا:
    السلام علیکم ۔ جزاک اللہ برادر بھائی ۔
    ایک طویل عرصہ بعد بہت ہی مفید اور عصرِ حاضر کی ضرورت کے عین مطابق پوسٹ ارسال کی ہے آپ نے۔
    اسلام میں اقلیتوں کے حقوق کی اس سے بڑی علامت کیا ہوگی کہ پاکستان سمیت دنیا کے تمام اسلامی ممالک میں غیر مسلموں کو اپنی عبادت گاہیں بنانے اور استعمال کرنے کی سرکاری اجازت ہے۔ جبکہ " جمہوریت و آزادی " کے علمبردار بےشمار یورپی و مغربی ممالک میں مسلمانوں کو آج بھی باقاعدہ مسجد بنانے کی اجازت نہیں۔

    اللہ تعالی ڈاکٹر صاحب کو صحت و سلامتی دے جو عالمی سطح پر اسلام کا پیغامِ امن و سلامتی پھیلا کر عظیم خدمت کررہے ہیں ۔ آمین
     
  4. عقرب
    آف لائن

    عقرب ممبر

    شمولیت:
    ‏14 اکتوبر 2006
    پیغامات:
    3,201
    موصول پسندیدگیاں:
    200
    سلام ۔ برادر انکل
    خوبصورت اور ایمان افروز مضمون کا شکریہ
    اللہ آپکی محنت قبول فرمائے۔ آمین
     

اس صفحے کو مشتہر کریں