1. اس فورم پر جواب بھیجنے کے لیے آپ کا صارف بننا ضروری ہے۔ اگر آپ ہماری اردو کے صارف ہیں تو لاگ ان کریں۔

اسلام میں اقلیتوں کے حقوق اور مذہبی آزادی

'تعلیماتِ قرآن و حدیث' میں موضوعات آغاز کردہ از برادر, ‏18 دسمبر 2008۔

  1. برادر
    آف لائن

    برادر ممبر

    شمولیت:
    ‏21 اپریل 2007
    پیغامات:
    1,227
    موصول پسندیدگیاں:
    78
    اسلام میں مذہبی آزادی​


    اسلام خدائے واحد کی بندگی کی دعوت دیتا ہے لیکن دوسرے مذاہب کے لوگوں پر اپنے عقائد بدلنے اور اسلام قبول کرنے کے لیے دباؤ نہیں ڈالتا، نہ کسی جبر و اکراہ سے کام لیتا ہے۔ دعوتِ حق اور جبر و اکراہ بالکل الگ حقیقتیں ہیں۔ اسلام کے پیغام حق کے ابلاغ کا قرآنِ حکیم نے یوں بیان کیا :

    ادْعُ إِلَى سَبِيلِ رَبِّكَ بِالْحِكْمَةِ وَالْمَوْعِظَةِ الْحَسَنَةِ وَجَادِلْهُم بِالَّتِي هِيَ أَحْسَنُ إِنَّ رَبَّكَ هُوَ أَعْلَمُ بِمَن ضَلَّ عَن سَبِيلِهِ وَهُوَ أَعْلَمُ بِالْمُهْتَدِينَO (النحل، 16 : 125)
    ’’(اے رسولِ معظّم!) آپ اپنے رب کی راہ کی طرف حکمت اور عمدہ نصیحت کے ساتھ بلائیے اور ان سے بحث (بھی) ایسے انداز سے کیجئے جو نہایت حسین ہو، بیشک آپ کا رب اس شخص کو (بھی) خوب جانتا ہے جو اس کی راہ سے بھٹک گیا اور وہ ہدایت یافتہ لوگوں کو (بھی) خوب جانتا ہےo‘‘

    اسلام نے ایسے طریق دعوت سے منع کیا جس سے کسی فریق کی مذہبی آزادی متاثر ہوتی ہو، دوسرے مقام پر ارشاد فرمایا :

    لَآ اِکْرَاهَ فِی الدِّيْنِ قَدْ تَّبَيَّنَ الرُّشْدُ مِنَ الْغَیِّ. (البقرة، 2 : 256)
    ’’دین میں کوئی زبردستی نہیں بے شک ہدایت گمراہی سے واضح طور پر ممتاز ہو چکی ہے۔‘‘

    شریعت کی یہ حکمت عملی ہے کہ غیر مسلموں کو ان کے مذہب و مسلک پر برقرار رہنے کی پوری آزادی ہوگی۔ اسلامی مملکت ان کے عقیدہ و عبادت سے تعرض نہ کرے گی۔ اہلِ نجران کو حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے جو خط لکھا تھا اس میں یہ جملہ بھی درج تھا :

    ولنجران وحاشيتهم جوار اﷲ و ذمة محمد النبی رسول اﷲ علی أنفسهم وملتهم وأرضهم وأموالهم وغائبهم وشاهدهم وبيعهم وصلواتهم، لا يغيروا اسقفا عن اسقفيته ولا راهبا عن رهبانية ولا واقفا عن وقفانيته وکل ما تحت أيديهم من قليل أو کثير. (طبقات ابن سعد، 1 : 228، 358)

    ’’نجران اور ان کے حلیفوں کو اللہ اور اُس کے رسول محمد ( صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ) کی پناہ حاصل ہے۔ ان کی جانیں، ان کی شریعت، زمین، اموال، حاضر و غائب اشخاص، ان کی عبادت گاہوں اور ان کے گرجا گھروں کی حفاظت کی جائے گی۔ کسی پادری کو اس کے مذہبی مرتبے، کسی راہب کو اس کی رہبانیت اور کسی صاحب منصب کو اس کے منصب سے ہٹایا نہیں جائے گا اور ان کی زیر ملکیت ہر چیز کی حفاظت کی جائے گی۔‘‘

    مختلف ادوارمیں گرجا گھر اور کلیسے اسلامی حکومت میں موجود رہے ہیں۔ کبھی بھی انہیں ادنیٰ گزندتک نہیں پہنچائی گئی بلکہ حکومت نے ان کی حفاظت کی ہے اور غیر مسلموں کو ان میں عبادات کی انجام دہی کے لیے سہولیات فراہم کی ہیں۔

    غیر مسلموں کی کفالت

    جس طرح اسلامی بیت المال کسی مسلمان کے معذور ہو جانے یا بوجہ عمر رسیدگی اور غربت کے محتاج ہو جانے پر کفالت کی ذمہ داری لیتا ہے اسی طرح اسلامی بیت المال پر ایک غیر مسلم کے معذور ہونے یا عاجز ہونے کی صورت میں اس کی کفالت لازم ہے۔ کتاب الاموال میں ابوعبید نے حضرت سعید بن مسیب رضی اللہ عنہ سے ایک روایت نقل کی ہے :

    أن رسول اﷲ صلی الله عليه وآله وسلم تصدق صدقه علی اهل بيت من اليهود فهی تجری عليهم.
    ’’رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے یہودیوں کے ایک گھرانہ کو صدقہ دیا اور (حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے وصال کے بعد بھی) وہ انہیں دیا جارہا ہے۔‘‘

    ٭ حضرت زید بن ہاد رضی اللہ عنہ سے روایت ہے :

    ’’بے شک ام المومنین نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی زوجہ مطہرۃ حضرت صفیہ رضی اﷲ عنہا نے اپنے رشتہ داروں کو صدقہ دیا حالانکہ وہ دونوں یہودی تھے جو تیس ہزار (درہم) کے عوض فروخت کیا گیا۔‘‘

    ٭ عمرو بن میمون، عمرو بن شرجیل اور مرۃ ہمذانی سے روایت کیا گیا ہے کہ وہ راہبوں کو صدقہ فطر میں سے دیتے تھے۔

    ٭ اسی طرح امام ابو یوسف کی کتاب الخراج میں ہے :

    وجعلت لهم ايما شيخ ضعف عن العمل او اصابته افة من الافات او کان غنيا فافتقر وصار اهل دينه يتصدقون عليه طرحت جزيته و عيل من بيت مال المسلمين و عياله ما اقام بدار الهجرة و دارالاسلام.

    ’’اگر ان کے ضعیف العمر اور ناکارہ لوگوں یا آفت رسیدہ یا بعد ازغنی فقیر ہو جانے والوں کو ان کے مذہب کے لوگ ان کو خیرات دینے لگیں تو ان سے جزیہ ہٹا لیا جائے گا اور مسلمانوں کے بیت المال سے ان کے نان و نفقہ کا بندوبست کیا جائے گا جب تک وہ اسلامی ملک میں رہیں۔‘‘

    اِسی طرح جو ذِمی محتاج اور فقیر ہو جائیں انہیں صرف جزیہ ہی معاف نہیں کیا جائے گا بلکہ ان کے لیے اسلامی خزانہ سے وظائف بھی مقرر کیے جائیں گے۔ حضرت خالد بن ولید رضی اللہ عنہ نے اہل حیرہ کوجو امان نامہ لکھ کر دیا تھا اس میں لکھتے ہیں : ’’میں نے ان کے لیے یہ حق بھی رکھا ہے کہ جو کوئی شخص بڑھاپے کے سبب ازکار رفتہ ہو جائے یا اس پر کوئی آفت نازل ہو جائے، یا وہ پہلے مال دار تھا پھر فقیر ہو گیا یہاں تک کہ اس کے ہم مذہب لوگ اس کو صدقہ و خیرات دینے لگے، تو اس کاجزیہ معاف کر دیا جائیگا اور اسے اور اس کے بال بچوں کو ریاست کے بیت المال سے خرچ دیا جائے گا۔‘‘

    اگرکوئی ذمی مر جائے اور اس کے حساب میں مکمل جزیہ یا جزیہ کا بقایا واجب الادا ہو تو وہ اس کے ترکہ سے وصول نہیں کیا جائے گا اور نہ اس کے ورثا پر اس کا بار ڈالا جائے گا۔کیونکہ یہ اس پر قرض نہیں ہے۔ امام ابو یوسف رحمۃ اللہ لکھتے ہیں : ’’اگر اس پر جذیہ واجب ہو تو اس کی کل یا کچھ ادائیگی سے قبل وہ مرجائے تو اس پر بقیہ واجب الادا جزیہ وارثوں سے وصول نہیں کیا جائیگا کیونکہ یہ اس پر قرض نہیں ہے۔‘‘ (کتاب الخراج : 132)

    عملی طور پر اس کی تاریخ اسلامی میں بہت سی مثالیں ملتی ہیں کہ غیر مسلم اقلیتوں کے معذور افراد کو اسلامی بیت المال سے باقاعدہ الاؤنس ملتا رہا ہے۔

    ٭ حضرت عمر رضی اللہ عنہا نے ایک مرتبہ ایک یہودی کو دیکھا جو اندھا ہو چکا تھا تو آپ نے اس کے لیے ماہانہ وظیفہ مقرر فرما دیا۔ اجتماعی کفالت کے حق اور حقوق عامہ میں اسلامی حکومت کی نگاہ میں مسلم اور غیر مسلم کا کوئی فرق نہیں ہے بلکہ وہ بالکل برابر کے شہری ہیں۔ اسی طرح غیر مسلموں کو وظائف دینے کی کئی مثالیں تاریخِ اسلام میں موجود ہیں۔

    اسلامی قوانین اور اقلیتوں کے حقوق کا تحفظ

    ہر دور میں اقلیتوں کے حقوق کے تحفظ کے لیے اسلام کے قوانین پر عمل کیا جاتا رہا اور جب کبھی سرکش امراء نے اس کے خلاف عمل کیا ہے تو علماء و فقہا نے انہیں اس سے باز رکھنے یا کم از کم ان سے اس کی تلافی کرانے کی کوشش کی ہے۔

    تاریخ کا مشہور واقعہ ہے کہ ولید بن عبدالملک اُموی نے دمشق کے کلیسہ یوحنا کو زبردستی عیسائیوں سے چھین کر مسجد میں شامل کر لیا۔ بلاذری کے مطابق : ’’جب حضرت عمر بن عبدالعزیز تختِ خلافت پر متمکن ہوئے اورعیسائیوں نے ان سے ولید کے کلیسہ پر کیے گئے ظلم کی شکایت کی تو انہوں نے اپنے عامل کو حکم دیا کہ مسجد کا جتنا حصہ گرجا کی زمین پر تعمیر کیا گیا ہے اسے منہدم کرکے عیسائیوں کے حوالہ کر دو۔‘‘ (فتوح البلدان : 150)

    یہ اِسلامی تاریخ کے درخشاں باب سے چند ایک مثالیں تھیں جن میں غیر مسلموں کے حقوق کی پاسداری اور تلقین کا عملی مظاہرہ سامنے آتا ہے۔ اسلام ہمیشہ امن و سلامتی کا داعی رہا ہے اور اس کے پیروکاروں نے اخوت و بھائی چارے کا پرچار کیا ہے۔ حتی کہ غیر مسلموں سے جنگ کے وقت بھی انہیں یہ ہدایت کی جاتی تھی کہ ان کے بوڑھوں، بچوں، عورتوں اور مذہبی پیشواؤں کو گزند نہ پہنچائیں، ان کے درختوں، عبادت گاہوں اور گھروں کو مسمار نہ کریں۔

    افسوسناک امر اور دردِ دل

    افسوس! آج اسلام کا چہرہ مسخ کیا جا رہا ہے اور اسے توڑ مروڑ کر پیش کیا جا رہا ہے۔ اس پر انتہا پسند اور دہشت گرد ہونے کا لیبل لگایا جا رہا ہے۔ اس سازش میں اَغیار کے ساتھ ساتھ اپنے سے حصے دار ہیں جو کم علمی کے باعث اسلام کا آفاقی پیغام صحیح طور پر سمجھ نہیں پاتے اور اَغیار کا آلہ کار بنتے ہوئے ان کی سازش کا شکار ہو جاتے ہیں۔ آج مٹھی بھر انتہاء پسند نام نہاد مسلمانوں نے اسلام کی حقیقی روح کو داغ دار کر دیا ہے۔ جہاد اور خلافت کے نام پر فتوے جاری کرنے کی کسی شخص یا گروہ کو انفرادی سطح پر اجازت نہیں دی جا سکتی۔ ہمیں یہ حقیقت فراموش نہیں کرنی چاہیے کہ اس طرح کے انتہاء پسند و دہشت گرد لوگ دنیا میں ہر جگہ پائے جاتے ہیں۔ امریکہ ہو یا برطانیہ، آسٹریلیا ہو کہ یورپ، اسرائیل ہو یا بھارت، چین ہو یا جاپان، دہشت گرد ہر جگہ پائے جاتے ہیں، دہشت گردی کا کوئی مذہب نہیں، دہشت گرد کا کوئی ملک و علاقہ نہیں۔ دہشت گردی ایک سماجی و معاشرتی رویے کا نام ہے، اس کی وجوہات کچھ بھی ہو سکتی ہیں، لہذا مسلمانوں پر دہشت گردی کا لیبل لگانا سراسر نا انصافی ہے۔ یہ بھی ممکن ہے کہ بعض مفاد پرست عناصر اپنے vested interests کی تکمیل کے لیے سادہ لوح انسانوں کو اپنا آلۂ کار بنا رہے ہوں، یا بعض ایجنسیاں ان لوگوں کو استعمال کر رہی ہوں۔ بہر حال اصل حقیقت اﷲ تعالیٰ ہی بہتر جانتا ہے۔ ہمیں اصل چہروں کی شناخت کرنا ہوگی اور اسلام پر لگائے جانے والے انتہاء پسندی و دہشت گردی کے الزامات دور کرنا ہوں گے۔ ہمیں ان چہروں کو ننگا کرنا ہوگا جو ان دہشت گردوں کو پناہ دے رہے ہیں اور انہیں تحفظ فراہم کرتے ہیں۔ اور اگر ہم واقعی دہشت گردی ختم کرنے میں سنجیدہ ہیں تو اس کی اصل وجوہات کو address کرنا ہوگا۔ چاہے وہ سیاسی ہوں یا مذہبی، معاشی ہوں یا معاشرتی۔ اسلام پر الزامات کی بوچھاڑ کرنے کی بجائے نفس مسئلہ کی طرف توجہ دینا ہوگی۔ تمام مذاہب اَصلاً اپنے پیروکاروں کو صلح جوئی اور امن کا درس دیتے ہیں۔ اس لیے ہم کسی مذہب کو موردِ الزام نہیں ٹھہرا سکتے۔ ہمیں دیگر معاشرتی قبائل و مذہبی گروہوں کو شناخت دینا ہوگی اور ان کی feelings of isolation کا ازالہ کرنا ہوگا۔ تمام لوگوں کو بلاامتیاز رنگ و نسل اور مذہبی تفریق کے یکساں مواقع فراہم کرنا ہوں گے۔

    تمام افراد اور نوجوانوں کو بالخصوص یورپ کے اندر اپنا مقام پیدا کرنے، اس ملک اور معاشرے کے لئے مل جل کر کام کرنے اور تمام کمیونٹیز کے ساتھ گھل مل کر رہنا ہوگا کیونکہ یہی اسلام کی تعلیمات ہیں۔ اسلام نے کبھی بھی دوسرے معاشروں سے الگ تھلگ (Isolation) رہنے کی تعلیم نہیں دی۔

    یہ وہ بنیادی اُصول ہیں جن کا درس ہمیں تاجدارِ کائنات صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے خطبہ حجہ الوداع کے موقع پر دیا۔ انسانی مساوات و برابری کی تلقین کرتے ہوئے فرمایا :

    يا أيها الناس! ألا إن ربکم واحد، وإن أباکم واحد، ألا لا فضل لعربی علی أعجمی، ولا لعجمی علی عربی، ولا لأحمر علی أسود، ولا أسود علی أحمر إلا بالتقوی.(مسند احمد بن حنبل، 5 : 411)

    ’’اے لوگو! آگاہ ہوجاؤ! تمہارا رب ایک ہی ہے اور تمہارا باپ ایک ہی ہے۔ آگاہ ہو جاؤ! کسی عربی کو عجمی پر کوئی فضیلت حاصل ہے نہ کسی عجمی کو عربی پر فضیلت حاصل ہے۔ کسی سرخ کو کالے پر برتری حاصل ہے نہ کسی کالے کو سرخ پر برتری حاصل ہے؛ سوائے پرہیزگاری کے۔‘‘

    اللہ رب العزت کی بارگاہ میں دعا ہے کہ وہ ہمیں اس معاشرے کو امن و استحکام کا گہوارہ بنانے اور ایتائے انسانی حقوق کے لئے اپنا کردار ادا کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین بجاہ سیدالمرسلین صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم

    بشکریہ و بحوالہ : ماہنامہ منہاج القرآن
     
  2. نعیم
    آف لائن

    نعیم مشیر

    شمولیت:
    ‏30 اگست 2006
    پیغامات:
    58,107
    موصول پسندیدگیاں:
    11,153
    ملک کا جھنڈا:
    السلام علیکم ۔ جزاک اللہ برادر بھائی ۔
    ایک طویل عرصہ بعد بہت ہی مفید اور عصرِ حاضر کی ضرورت کے عین مطابق پوسٹ ارسال کی ہے آپ نے۔

    اللہ تعالی ڈاکٹر صاحب کو صحت و سلامتی دے جو عالمی سطح پر اسلام کا پیغامِ امن و سلامتی پھیلا کر عظیم خدمت کررہے ہیں ۔ آمین
     
  3. عقرب
    آف لائن

    عقرب ممبر

    شمولیت:
    ‏14 اکتوبر 2006
    پیغامات:
    3,201
    موصول پسندیدگیاں:
    200
    سلام ۔ برادر انکل
    خوبصورت اور ایمان افروز مضمون کا شکریہ
    اللہ آپکی محنت قبول فرمائے۔ آمین
     
  4. نور
    آف لائن

    نور ممبر

    شمولیت:
    ‏21 جون 2007
    پیغامات:
    4,021
    موصول پسندیدگیاں:
    22
    کاش اسلامی ریاست کے یہ بنیادی اصول ۔ طالبانی اسلام کے علمبرداروں کو بھی معلوم ہو جائیں جو دنیا بھر میں اسلام کا نام اپنی جہالت کی وجہ سے بدنام کرتے پھر رہے ہیں۔
     
  5. ھارون رشید
    آف لائن

    ھارون رشید برادر سٹاف ممبر

    شمولیت:
    ‏5 اکتوبر 2006
    پیغامات:
    131,687
    موصول پسندیدگیاں:
    16,918
    ملک کا جھنڈا:
    :salam:
    برادر بھائی انتہائی اہم معلومات دینے کا بہت شکریہ اللہ کریم آپ کو جزائے خیر عطا فرمائیں
     

اس صفحے کو مشتہر کریں