1. اس فورم پر جواب بھیجنے کے لیے آپ کا صارف بننا ضروری ہے۔ اگر آپ ہماری اردو کے صارف ہیں تو لاگ ان کریں۔

اسلام میں اخلاق حسنہ ۔۔۔۔ ڈاکٹر اسرار احمد

'متفرقات' میں موضوعات آغاز کردہ از intelligent086, ‏21 مئی 2021۔

  1. intelligent086
    آف لائن

    intelligent086 ممبر

    شمولیت:
    ‏28 اپریل 2013
    پیغامات:
    7,273
    موصول پسندیدگیاں:
    797
    ملک کا جھنڈا:
    اسلام میں اخلاق حسنہ ۔۔۔۔ ڈاکٹر اسرار احمد

    اسلام میں اخلاق کی اہمیت اس درجہ ہے کہ جب نبی اکرم صلی اللہ علیہ و آلہٖ وسلم سے دریافت کیا گیا’’ اے اللہ کے رسول ﷺ فرمائیے کہ سب سے افضل ‘سب سے اعلیٰ اور سب سے عمدہ ایمان کون سا ہے؟‘‘ توجواب میں آپ ﷺنے فرمایا ’’وہ ایمان جس کے ساتھ اخلاقِ حسنہ موجود ہوں‘‘۔ اسی طرح دوسری حدیث میں یہ قولِ مبارک سامنے آتا ہے کہ’’اہلِ ایمان میں سب سے زیادہ کامل الایمان شخص وہ ہے جو اخلاق میں سب سے عمدہ ہے‘‘۔یعنی جس کے اخلاق سب سے اعلیٰ ہیں۔ ہمارے سامنے وہ آیاتِ قرآنیہ بھی ہیں جن میں نبی اکرمؐ کے اخلاقِ عالیہ سے متصف ہونے کا تذکرہ ہے‘ جیسے سورہ (القلم)کی ابتدائی آیات جو بعض محققین کے نزدیک دوسری وحی ہے جو حضورصلی اللہ علیہ و آلہٖ وسلم پر نازل کی گئی، ترجمہ’’ (اے نبیؐ) قسم ہے قلم کی اور اْس چیز کی جسے (لکھنے والے) لکھ رہے ہیں کہ آپ اپنے ربّ کے فضل سے مجنون نہیں ہیں۔ یقینا آپ کیلئے تو کبھی نہ ختم ہونیوالا اجر ہے۔ اور بے شک آپ اخلاق کے اعلیٰ مرتبے پر ہیں۔‘‘
    ’اے نبی! صلی اللہ علیہ و آلہٖ وسلم اگرکوئی آپ ﷺکو مجنون کہہ رہا ہے توآپ صلی اللہ علیہ و آلہٖ وسلم دل گرفتہ نہ ہوں ان کے کہنے سے آپ ﷺ مجنون نہیں ہوجائیں گے۔آپؐ کے اخلاق تو خود منہ بولتا ثبوت ہیں کہ آپ ﷺکی شخصیت نہایت متوازن ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ و آلہٖ وسلم کے اخلاق توانتہائی اعلیٰ ہیں‘‘۔

    بعض احادیث مبارکہ سے یہ واضح ہوتا ہے کہ ایمان اور اخلاقِ حسنہ لازم و ملزوم ہیں۔ مثلاً حضرت عبداللہ بن مسعودؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہٖ وسلم نے ارشاد فرمایا’’مومن کبھی بھی طعنے دینے والا‘ لعنت ملامت کرنے والا‘ فحش گوئی کرنے والا اور بداخلاق نہیں ہو سکتا۔‘‘

    اور میرے نزدیک اس ضمن میں حرفِ آخر ہے وہ حدیث ِمبارکہ جو متفق علیہ ہے۔ حضرت ابوہریرہ ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا’’خدا کی قسم وہ شخص مومن نہیں ہے!‘‘دوسری مرتبہ پھر یہی فرمایا‘تیسری مرتبہ پھر آپصلی اللہ علیہ و آلہٖ وسلم نے یہی فرمایا کہ’’ خدا کی قسم وہ شخص مومن نہیں ہے‘‘۔صحابہ کرامؓ لرز گئے ہوں گے کہ کون ہے وہ شقی شخص جس کے بارے میں حضورصلی اللہ علیہ و آلہٖ وسلم3مرتبہ اللہ کی قسم کھا کر فرمارہے ہیں کہ ’’وہ شخص مومن نہیں۔ ‘‘ پھر صحابہ کرام ؓ کی جانب سے پوچھا گیا اے اللہ کے رسولصلی اللہ علیہ و آلہٖ وسلم ،کون ہے وہ شخص؟ تو جواب میں یہ ارشاد ہوتا ہے ’’وہ شخص جس کی ایذا رسانی سے اس کا پڑوسی چین یا امن میں نہیں ہے‘‘۔

    یہ حدیث بہت سے افراد نے پہلے بھی سنی ہوگی لیکن اس اعتبار سے توجہ کریں کہ یہاں کسی گناہِ کبیرہ کا تذکرہ نہیں کیا گیا، یہاں شرک کا تذکرہ نہیں ہے ‘ بدکارکا تذکرہ نہیں ہے‘ چوری ‘ڈاکے یا قتل کا تذکرہ نہیں ہے‘ صرف وہ شے بیان فرمائی جس کو ہم کج خلقی کہتے ہیں۔

    میں یہاں متکلمانہ بحثیں نہیں چھیڑنا چاہتا‘ ظاہر ہے یہاں یہ بات مراد نہیں ہے کہ جس شخص کی یہ کیفیت ہے وہ اسلام کے دائرے سے نکل گیا‘ وہ کافر ہوگیا -----بلکہ کوئی اور حقیقت ہے جس کی نفی محمدرسول اللہﷺ اس شدت سے فرمارہے ہیں۔ یہ قانونی ایمان نہیں ہے جس کی بنیاد پر کسی کودنیا میں مسلمان سمجھا جاتا ہے ‘لیکن اسے حقیقت ایمان کہہ لیں یا ایمان کا تکمیلی درجہ کہہ لیں کہ اُس شخص کی محرومی پر رسول اللہﷺ نے 3 مرتبہ اللہ کی قسم کھائی ہے، جس کی ایذا رسانی سے اْس کا پڑوسی چین میں نہیں ہے ۔ اس موضوع پر آیات اور احادیث نبویہؐ کا بہت سا ذخیرہ سامنے لایا جاسکتا ہے مگر میں اسی پر اکتفا کرتے ہوئے اب دوسری بات کی طرف آرہا ہوں۔

    علم ِاخلاق یا اخلاقیات کے ذیل میں قرآن حکیم کی اہم ترین تعلیم جو اخلاقیات کی فلسفیانہ اساس بنتی ہے وہ یہ ہے کہ انسان کے نفس میں اللہ تعالیٰ نے نیکی و بدی کا شعور الہامی طور پر ودیعت کیا ہے۔ الہامی طور پر اس میں ودیعت کردیا فجور اور تقویٰ کا علم‘ نیکی اور بدی کا شعور ‘ خیر اور شر کا امتیاز ‘ اِثم وبرّکے مابین تمیز۔ اور یہی وجہ ہے کہ قرآنِ حکیم میں نیکی اور بدی کے لیے خیر اور شر کے الفاظ بھی استعمال ہوئے ہیں‘ اِثم وبر ّکے الفاظ بھی آئے ہیں، قرآن مجید نیکی اور بدی کے بارے میں بنیادی تصور سامنے لاتا ہے۔ نفس ِانسانی میں جو بھی ارتقائی عمل ہوا ہے اس کے نتیجے میں حیوانات کے مقابلے میں ایک بالکل نئی استعداد اور صلاحیت پیدا ہوئی ہے اور وہ ہے خیر اور شر میں امتیاز کی صلاحیت۔ انسان اپنی اس فطرت کے اعتبار سے جانتا ہے کہ کیا خیر ہے اور کیا شر ہے؟ کیا نیکی ہے اور کیا بدی ؟

    ’’خیر‘‘ اس کیلئے معروف کے درجے میں ہے جبکہ شر‘ برائی ‘بدی اور اِثم کو وہ منکر سمجھتا ہے۔ یہ درحقیقت خیر اور شر کے بنیادی تصورات ہیں،جو پوری نوعِ انسانی کا مشترک اثاثہ ہیں‘ ان میں آپ کو کہیں کوئی فرق معلوم نہیں ہوگا۔ سچ بولنا ہر معاشرے میں ‘ ہر دور میں خیر قرار دیا گیا اور جھوٹ بولنا ہر معاشرے میں ‘ ہر دور میں بدی قرار پایا۔ ایفائے عہد ہر دور میں ہر معاشرے میں نیکی قرار پائی اور وعدہ خلافی ہر دور میں ہر معاشرے میں ایک برائی سمجھی گئی۔

    اس کا ذرا تقابل کریں دوسرے الفاظ کے ساتھ۔ ایک ہے شریعت کے احکام اور اوامرونواہی کہ یہ فرض ہے‘ یہ واجب ہے اور یہ حرام ہے ‘ اس کے قریب نہ پھٹکو۔ واضح رہے کہ یہ دوسری منزل ہے۔ یہ وہ چیزیں ہیں جن کے لیے انسان کو وحی اور نبوت کی تعلیم کی ضرورت ہے۔ مثلاً شراب حرام ہے‘ اس کا معاملہ ایسا نہیں ہے کہ انسان طبعاً اس کا فیصلہ کرسکے‘ سور کا گوشت حرام ہے ،یہ وہ چیزیں ہیں جو درحقیقت شریعت کے نقل پر مبنی ہیں۔ جو اللہ نے فرمایا اور جو اللہ کے رسول ؐنے ہم تک پہنچایا ہے ان احکام کی اطاعت ہمارے ذمے ہے‘ ان کی خلاف ورزی کو ہم معصیت قرار دیتے ہیں۔جبکہ منکر کی اصطلاح اس سے وسیع تر مفہوم کی حامل ہے۔ یہ وہ پہلی منزل ہے جواخلاقی اقدار پر مشتمل ہے۔ یہ اخلاقی اقدار پوری نوعِ انسانی کی مشترک متاع ہیں۔ ہر دور میں ‘تمام اقوام میں اور ہر علاقے میں ان کو مانا گیا ہے کہ یہ اچھائیاں ہیں‘ بھلائیاں ہیں‘ نیکیاں ہیں اور یہ برائیاں ہیں‘ یہ شر ہے اور یہ خیر ہے۔

    ضمیر ایک زندہ حقیقت ہے اور یہ علامت ہے اس بات کی کہ فطرتِ انسانی اپنی صحت پر برقرار ہے۔ آپ کے اندر یہ احساس پیدا ہوا کہ میں یہ کام کر تو بیٹھا ہوں لیکن کسی کے علم میں نہیں آنا چاہیے۔ اس لیے کہ لوگ ملامت کریں گے ‘ میرے بارے میں بری رائے قائم کریں گے۔ اسی طرح نوعِ انسانی کا ایک اجتماعی ضمیر بھی ہے جس کا اثبات کیا جا رہا ہے۔جہاں تک انسانی اخلاقیا ت کا تعلق ہے تو ان چیزوں کے لیے انسان کسی تلقین یا تعلیم کا حاجت مند نہیں ہے۔یہ تو اللہ کی عطا ہے‘ یہ دولت اس کے پاس ہے یہ پہچان ‘ یہ فہم‘ یہ شعور ‘ یہ امتیاز اس کے اندر ودیعت شدہ ہیں۔ لہٰذا صداقت وامانت ہو‘ ایفائے عہد ہو‘ صلہ رحمی ہو‘ خدمتِ خلق ہو‘ یہ وہ بنیادی اوصاف ہیں جو مجمع علیہ ہیں۔

    خدمت ِخلق کے بارے میں نبی اکرمؐ کا یہ قول یاد کیجیے ’’لوگوں میں بہترین وہی ہیں جو لوگوں کو فائدہ پہنچائیں۔‘‘

    یہ جوبنیادی اخلاقیات ہیں‘ مثلاًصداقت ‘ امانت‘ ایفائے عہد ‘ صلہ رحمی‘ خدمت ِخلق ‘ کمزوروں پر رحم‘ غریبوں کی امداد ‘ یتیموں اور مسکینوں کی سرپرستی ‘ یہ بڑی اہمیت کے حامل ہیں۔ قرآن پاک میں سورۃ الماعون میں ہے کہ’’کیا دیکھا آپ نے اُس شخص کو جو جھٹلاتا ہے بدلے کو؟ پس وہی ہے جو دھکے دیتا ہے یتیم کو‘ اور نہیں ترغیب دیتا مسکین کو کھانا کھلانے کی۔ ‘‘یہ وہ چیزیں ہیں جو فطرتِ انسانی کی جانی پہچانی ہیں‘ معروفات ہیں۔ ہر انسان جانتا ہے یہ نیکی ہے اور اس کی ضد شر ہے۔

    ایک شخص جانتا ہے کہ سچ بولنا خیر ہے‘ مگر سچ بولنے سے نقصان ہورہا ہے۔ وہ جانتا ہے کہ جھوٹ بولنا شر ہے‘ لیکن جھوٹ بول کر لاکھوں کا نفع حاصل ہورہا ہے۔ اب وہ کون سی قوتِ محرکہ ہو گی اور وہ کون سا جذبہ محرکہ ہو گا جو اسے آمادہ کرے گا کہ سچ بولناہے‘چاہے جان بھی جانے کا اندیشہ ہو‘ چاہے اس کی وجہ سے نقصان ہوجائے۔ یہ ہے اصل مسئلہ علم الاخلاق کا‘ ورنہ جہاں تک بنیادی نیکی کا تصور ہے‘ انسان اندھا بہرا نہیں ہے۔


     

اس صفحے کو مشتہر کریں