1. اس فورم پر جواب بھیجنے کے لیے آپ کا صارف بننا ضروری ہے۔ اگر آپ ہماری اردو کے صارف ہیں تو لاگ ان کریں۔

اسلام امید اور حوصلہ کامذہب ۔۔۔۔۔ مولانا وحید الدین خان

'متفرقات' میں موضوعات آغاز کردہ از intelligent086, ‏24 مئی 2021۔

  1. intelligent086
    آف لائن

    intelligent086 ممبر

    شمولیت:
    ‏28 اپریل 2013
    پیغامات:
    7,273
    موصول پسندیدگیاں:
    797
    ملک کا جھنڈا:
    اسلام امید اور حوصلہ کامذہب ۔۔۔۔۔ مولانا وحید الدین خان


    اسلام امید کا مذہب ہے ۔اسلام کی تمام تعلیمات امید اور حوصلے کا سبق دیتی ہیں۔بظاہر مشکل اور ناکام نظر آنے والے حالات میں بھی اسلام امید کا دامن تھامے رکھنے کا سبق دیتا ہے۔ شام کے اندھیرے میں صبح کی روشنی کی خوشخبری سناتا ہے۔قرآن حکیم کی سورۃ نمبر 4میں اہل ایمان کو مخاطب کرتے ہوئے ارشاد ہوا ہے،’’ اور تم اللہ سے وہ امید رکھتے ہو جو امید وہ (کفار) نہیں رکھتے‘‘۔(سورہ النساء ،104 )

    ’’تم اللہ کی رحمت سے ناامید نہ ہو، اللہ کی رحمت سے صرف منکر ہی ناامید ہوتے ہیں‘‘القرآن
    بہت سے لوگ دوسروں کی دولت کو دیکھتے ہوئے حسرت و یاس بھری زندگی گزارتے ہیں اور اسی حال میں مر جاتے ہیں جبکہ قناعت ا نسان کو اس قابل بناتی ہے کہ جو کچھ نہیں ملا ہے اس کے غم میں خود کو ہلکان نہ کرو

    اس سے معلوم ہوا کہ جو اسلامی فکر کا حامل ہو وہ ایسا انسان ہوتا ہے جو تاریکی میں بھی روشنی کی کرن دیکھتا ہے۔ وہ وہاں بھی امید کی کرن دیکھتا ہے جہاں دوسرے لوگ ہمت ہار بیٹھتے ہیں۔اس معاملے میں اسلام میں مایوسی کو حرام قرار دیا گیا ہے، قرآن حکیم میں ایک پیغمبر کی زبان سے یہ تعلیم دی گئی ہے کہ’’ تم اللہ کی رحمت سے ناامید نہ ہو، اللہ کی رحمت سے صرف منکر ہی ناامید ہوتے ہیں‘‘(سورہ یوسف ، 87)اس آیت کریمہ کے مطابق مسلمانوں کو کسی بھی حالت میں مایوس نہیں ہونا چاہیے۔ حالات بظاہر کتنے ہی خراب کیوں نہ نظر آئیں مسلمان پر فرض ہے کہ وہ آخری وقت تک اللہ تعالیٰ کی جانب سے خیر کی توقع رکھے ، یہی وجہ ہے کہ اسلام میں خود کشی کو حرام قرار دیا گیا ہے کیونکہ یہ مایوسی کی انتہا ہو سکتی ہے۔
    سچائی کا یقین
    موجودہ دنیا میں کامیابی کے لئے انسان کی سب سے بڑی ضرورت یہ ہے کہ وہ اس یقین پر قائم رہے کہ اس نے ابدی سچائی(اللہ تعالیٰ) کی بڑائی کو پہچان لیا ہے۔ اور وہ اس کے بتائے ہوئے جس راستے پر چل رہا ہے اس کے حق پر ہونے پر یقین کامل ہو۔ اس قسم کا یقین آدمی کی بنیادی ضرورت ہے، یہی یقین آدمی کو دوسروں کے ساتھ معتدل ر ویہ اختیار کرنے کا موجب بنتا ہے ورنہ انسان لالچ میں مبتلا ہوکر ایک دوسرے کا حق مارنے پر تل جاتا ہے۔اسی یقین سے اسے سکون بھی ملتا ہے کہ اس کی تمام تر محنت کے بعد جو کچھ بھی ہو رہا ہے اس میں اسی کا کوئی نہ کوئی فائدہ بھی ضرور ہے،اسلام آدمی کو یہی نعمت عطا کرتا ہے کہ وہ رات کو اطمینان کے ساتھ سوئے اور دن کو اعتدال کے ساتھ کام کرتا رہے ۔کسی جانور کو یہ جاننے کی ضرورت نہیں کہ وہ دنیا میں ا پنے وجود کا جواز تلاش کرتاپھرے۔مگر انسان فطری طور پر یہ جاننا چاہتا ہے کہ وہ اس دنیا میں کیوں بھیجا گیا،اس کو ’’نظریہ حیات ‘‘(آئیڈیالوجی) کہتے ہیں۔
    فلسفہ اسی نظریہ حیات کی تلاش کا علم ہے۔مگر پانچ ہزار سال سے بھی زیادہ مدت کی تلاش کے باوجود ابھی تک فلسفہ اپنی تلاش کا جواب نہ پاسکا۔ فلسفہ اپنے آخری مرحلے میں انسان کو صرف تشکیک اور بے یقینیت دے سکا ہے۔ فلسفہ کے بعد سائنس کا درجہ آتا ہے، مگر سائنس نے پیشگی طور پر یہ مان لیا ہے کہ وہ حقیقت کا صرف جزئی علم دسے سکتی ہے، کلی حقیقت تک پہنچنا سائنس کے لئے ممکن نہیں۔
    گویا سائنس نے خود ہی یہ مان لیا ہے کہ اصل حقیقت تک پہنچنے کے قابل نہیں ہے اب آخری چیز جس سے رجوع کیا جائے وہ ہے مذہب۔ مگر اسلام کے سوا دیگر تمام مذاہب کی کتابوں میں تحریف و ترمیم کے باعث حقیقت پردوں میں چھپ گئی ہے پھر ان کے واقعات بھی تاریخ میں بہت کم درج ہیں۔ افکار کے اس جنگل میں صرف اسلام ہی ایک ایسا مذہب ہے، جو مکمل سچائی کا حامل ہے اس میں کوئی ملاوٹ نہیں۔ اسلام انسان کے لئے نادر تحفہ ہے۔
    زندگی ایک قیمتی موقع
    زندگی اگر صرف وہی ہے جو دنیا میں موجود ہر آدمی کو ملتی ہے تو بلاشبہ وہ اتنی بے معنی ہے ، بلکہ اس سے بے معنی چیز کوئی اور ہے ہی نہیں۔ انسان لامحدود صلاحیتوں کے ساتھ جنم لیتا ہے، مگر دنیا میں (ماہرین کے مطابق ) وہ ا پنی صلاحیتوں کا پانچ فیصد حصہ بھی استعمال نہیں کر پاتا کہ مرجاتا ہے۔ انسان کے اندر تمنائوں اور خواہشوں کی ایک کائنات بسی ہے ۔مگر کوئی بھی ان آزوئوں کی تکمیل نہیں کر پاتا ۔تمام موجودات اور مخلوقات میں انسان ہی وہ واحد مخلوق ہے جومستقبل کاتصور رکھتا ہے، مگر تمام انسان اپنے حال میں ہی ہوتے ہیں کہ ان کی دینوی زندگی کا خاتمہ ہو جاتا ہے۔ہر انسان اپنی فطرت کے اعتبار سے کامیابی کا حریص ہے وہ ناکامی کو سننا ہی نہیں چاہتا مگر اس دنیا میں کوئی ایک انسان بھی اپنی صحیح کامیابی کو حاصل نہیں کرپاتا۔ یہ المناک انجام اس کا مقدر ہے کہ وہ دنیا کو اپنی کامیابی کی داستان سنانے سے پہلے ہی دنیا سے چلا جائے ۔
    اسلام اندھیرے میں روشنی کی کرن ہے۔ جنت کا تصور انسان کو یہ بتاتا ہے کہ وہ کس طرح اپنی ناکامی کو کامیابی میں بدل دے دے۔جنت کا تصور ہی اسے بتاتا ہے کہ وہ اپنی زندگی کو کس قسم کے سانچے میں ڈھال کر کامیاب ترین انسان بن سکتا ہے۔جنت کا تصور انسان کی زندگی کو قیمتی شے اور بامقصد بنا دیتا ہے۔ کیونکہ ہر آدمی ایک مطلوب منزل کو سمجھ لیتا ہے، مقصد کو سامنے پاتا ہے، اور اسی کو وہ اپنی تمام تر کوششوں کا مرکز بنا لیتا ہے۔
    ہر حالت میں صبر
    حدیث شریف میں آیا ہے کہ آپ ﷺ نے فرمایا،’’مومن کے معاملے میں اللہ تعالیٰ کا فیصلہ کتنا عجیب ہے، اگر اس کو بھلائی پہنچتی ہے تو وہ حمد کرتا ہے، اور شکر کرتا ہے اور اگر اس پر کوئی مصیبت پڑتی ہے تو وہ حمد کرتا ہے اور صبر کرتا ہے۔اس طرح مومن کو ہر چیز میں اجر ملتا رہتا ہے‘‘۔(مسند احمد، امام احمد بن حنبل)
    مومن سے مراد وہ شخص ہے جس کا شعور بیدار ہو چکا ہو، جس کی سوچ اس حد تک ترقی کر چکی ہو، کہ وہ ہر پیش آنے والی صورتحال میں مثبت جواب دے سکے۔وہ قریبی حالات سے بالا تر ہو کر حقائق کو دیکھنے والا بن چکا ہو،یہی وہ ا نسان ہے جس کا اوپر ذکر کیا گیا ہے۔ایسے انسان کا حال یہ ہوتا ہے کہ اگر اسے کوئی پسندیدہ چیز حاصل ہوتی ہے تو وہ اس پر غرور نہیں کرتا کہ یہ اسے اپنی کوششوں سے مل گئی ہے بلکہ وہ یہ سمجھتا ہے کہ خدا کے قائم کردہ نظام کے باعث یہ ممکن ہوا ہے۔عصر حاضر میں یہ مزاج انسان کے لئے ایک قیمتی سرمایہ ہے جو اسے ہر طرح کے اتار چڑھائو میں اعتدال پر قائم رکھتا ہے۔ ایسے شخص کی امید کا چراغ کبھی بجھنے نہیں پاتا۔
    دشمن میں دوست
    قرآن حکیم کی سورہ نمبر 41میں ارشاد ہوا ہے کہ’’ اور اس سے بہتر کس کی بات ہے جس نے لوگوں کو اللہ کی طرف بلایا اور خود بھی اچھے کام کیے اور کہا بے شک میں بھی فرمانبرداروں میں سے ہوں۔اور نیکی اور بدی برابر نہیں ہوتی، (برائی کا) دفعیہ اس بات سے کیجیے جو اچھی ہو پھر ناگہاں وہ شخص جو تیرے اور اس کے درمیان دشمنی تھی ایسا ہوگا گویا کہ وہ مخلص دوست ہے‘‘۔ )آیت 33،34 (
    اس میں بڑی حکمت ہے کیونکہ جب انسان کسی کو اپنا دشمن سمجھ بیٹھتا ہے تو اسے برباد کرنے پر تل جاتا ہے۔مگرا سلام اس میں بھی امید کا پہلو دکھاتا ہے۔ وہ کہتا ہے کہ دشمنی میں بھی انسانیت ہو سکتی ہے وہ بتاتا ہے کہ دشمن کے اندر بھی ایک دوست چھپا ہوتا ہے۔ اسے دریافت کرو پھر وہ دشمن تمہارا بہترین دوست بن جائے گا۔ اس سے دنیا بھر میں تنازعات ختم ہو سکتے ہیں۔یہ انسانیت کا اتنا بڑا سبق ہے کہ اس کی دنیاکے کسی مذہب یا فلسفے میں مثال ملنا مشکل ہے۔دوستی یا دشمنی کوئی پیدائشی صفت نہیں ہے۔ اگر کوئی دشمن بھی نظر آئے تو سمجھ لیجئے کہ یہ اس کی مصنوعی حالت ہے، آپ اپنے میٹھے بول اور حسن سلوک سے اسے ختم کر سکتے ہیں۔اس طرح اسلام میں ہر انسان کے لئے ایک عظیم خوش خبری ہی خوش خبری ہے۔
    موت زندگی کا خاتمہ نہیں ہوتی !
    دنیا میں کسی بھی انسان کوجو سب سے بڑا حادثہ پیش آ سکتا ہے وہ موت ہے ۔کوئی بھی تدبیر اتنی طاقت ور نہیں جو اسے ٹال سکے۔یہی وجہ ہے کہ ہر دور کا انسان موت کے بارے میں سنجیدگی سے سوچتا رہا ہے۔ موت کو قریب دیکھتے ہی بعض لوگوں کی زندگی کی تمام خوشیاں ماند پڑ جاتی ہیں۔پھر کئی لوگ سوچتے ہیں کی اگر اتنی جلدی مر جانا تھا تو مجھے پیدا ہی کیوں کیا تھا؟مگر موت کے معاملے میں بھی ہر انسان کے لئے امید کا چراغ روشن ہے۔اسلام کی صورت میں اللہ تعالیٰ نے ہمیں بتایاہے کہ موت زندگی کا خاتمہ نہیں ہے بلکہ یہ درمیانی وقفہ ہے ایک حیات سے دوسری حیات کی جانب سفر کا۔ اس کے بعد آدمی اگلے مرحلہ حیات میں داخل ہوجاتا ہے۔موجودہ دنیا کی کمتر اور مختصر زندگی کے برعکس دوسرے مرحلہ حیات میں انسان زیادہ کامل اور وسیع دنیا میں جیے گا۔ اسلام انسا ن کو یہ پیغام دیتا ہے کہ وہ اگلی دنیا کے قوانین کو جانے اور ان کے مطابق زندگی گزارے جونہی انسان اس نئی دنیا کو جان لیتا ہے تو اپنی اس مختصر زندگی سے مایوسی ختم ہوجاتی ہے۔
    ایک اہم خوشخبری
    قرآن حکیم کی سورہ 39 میں اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے کہ’’ (تم )کہہ دو اے میرے بندو جنہوں نے اپنی جانوں پر ظلم کیا ہے ،اللہ کی رحمت سے مایوس نہ ہوں، بے شک اللہ سب گناہ بخش دے گا، بے شک وہ بخشنے والا رحم والا ہے‘‘۔ (الزمر، 53)
    قرآن حکیم کی آیت انسان کے لئے کتنی بڑی خوشخبری ہے۔ذرا سوچئے۔ ہر آدمی سے طرح طرح کی کوتاہیاں سرزد ہوتی رہتی ہیں۔ان گناہوں کا انجام اگر لازمی طور پر بھگتنا پڑ جائے تو سمجھیے، زندگی کتنی بڑی مصیبت بن جائے۔مگر خدا کی کتاب مقدس انسانوں پر یہ راز کھولیتی ہے کہ اس کی رحمت سے مایوس نہ ہوں۔ گناہوں سے معافی کا راز یہ ہے کہ گناہوں پر شرمندہ ہو کر اللہ تعالیٰ سے معافی کا طلبگار ہونا اور دوبارہ گناہوں سے بچنا۔ اللہ تعالیٰ نے یہ امکان بھی رکھا ہے کہ وہ کسی گناہ کو نیکی میں بھی بدل سکتا ہے۔ ذراس سورہ الفرقان کو پڑھیے۔ارشاد باری تعالیٰ ہے ’’مگر جس نے توبہ کی اور ایمان لایا اور نیک کام کیے سو انہیں اللہ برائیوں کی جگہ بھلائیاں بدل دے گا، اور اللہ بخشنے والا مہربان ہے‘‘۔(آیت نمبر 70)۔
    قناعت ایک نعمت
    حدیث شریف میںآیا ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ ’’ وہ شخص کامیاب ہوا جس نے اسلام قبول کیا، اور اس کو بقدر ضرورت روزی ملی، اور وہ ا للہ تعالیٰ کی توفیق سے اس پر قانع رہا۔جو اللہ نے اس کو دیا تھا‘‘۔(مسند احمد)
    موجودہ دنیا میں ایک انسا ن کی دوسرے انسان کے ساتھ اونچ نیچ رہتی ہے۔ کوئی امیر تو کوئی غریب، کوئی طاقت ور توکوئی کمزور۔دوسرے کی امارت اور رکھ رکھائو کو دیکھتے ہوئے اکثر افراد کا سکون غارت ہو جاتا ہے ۔ وہ ان لوگوں کو ہی دیکھتے رہتے ہیں جن کو اللہ تعالیٰ نے زیادہ عطا کیا ہے۔اس طرح وہ مسلسل حسرت و یاس بھری زندگی گزارتے ہیں ۔اور اسی حال میں مر جاتے ہیں۔ اس کا حل اسلام میں قناعت بتایا گیا ہے۔ قناعت ا نسان کو اس قابل بناتی ہے کہ جو کچھ ملا ہے وہ اس پر مطمئن رہے اور جو کچھ نہیں ملا، اس کے غم میں خود کو ہلکان نہ کرے ۔یہ عقیدہ آدمی کو ابدی سکون عطا کرتا ہے۔ فرد اس یقین کے ساتھ جینے لگتا ہے کہ جو کچھ اسے مل گیا ہے اسی میں اس کا فائدہ ہے۔
    مشکل میں آسانی
    قرآن حکیم کی سورہ 94،میں بتایا گیا ہے کہ’’ پس بے شک ہر مشکل کے ساتھ آسانی ہے۔بے شک ہر مشکل کے ساتھ آسانی ہے‘‘۔(الانشراح آیت نمبر5،6)
    دنیا اپنے ڈھب پر چلتی ہے یہاں ہر کسی کے لئے کبھی آسانی آتی ہے تو کبھی مشکل پیش آتی ہے۔ کبھی حالات موافق رہتے ہیں تو کبھی ناموافق۔لیکن اللہ تعالیٰ نے ان الفاظ میں فطرت کا ایک قانون بتایا دیا ہے کہ حالات خواہ کچھ بھی ہوں ،مشکل کے بعد آسانی آئے گی۔ یہ قانون خدا نے ابدی طور پر دنیا میں نافذ کر دیا ہے۔ اس سے ہمیں خوشی، راحت ،ہمت اور حوصلہ ملتا ہے۔ یہ حوصلہ بھی اللہ تعالیٰ نے عطا فرمایا ہے۔ مثلاََ جب کسی کا والد کم عمری میں وفات پا جائے تو اللہ تعالیٰ اس کے لئے بھی ناموافق حالات میں بھی امید کی کرنیں پیدا کرتا ہے، راستے دکھاتا ہے ،اور پھر انہیں اللہ کی رحمت سے ایسی ایسی راحتیں ملتی ہیں کہ دنیا حیرت زدہ رہ جاتی ہے۔

     

اس صفحے کو مشتہر کریں