1. اس فورم پر جواب بھیجنے کے لیے آپ کا صارف بننا ضروری ہے۔ اگر آپ ہماری اردو کے صارف ہیں تو لاگ ان کریں۔

اسرائیل کے فلسطینیوں‌ پر بڑھتے مظالم کا ذمہ دار کون ؟ از سائرہ نسیم

Discussion in 'کالم اور تبصرے' started by intelligent086, May 14, 2021.

  1. intelligent086
    Offline

    intelligent086 ممبر

    Joined:
    Apr 28, 2013
    Messages:
    7,273
    Likes Received:
    797
    ملک کا جھنڈا:

    اسرائیل کے فلسطینیوں‌ پر بڑھتے مظالم کا ذمہ دار کون ؟ از سائرہ نسیم

    جدید سہولتوں سے آراستہ شہر، کشادہ و ہموار سڑکیں جن کے دونوں جانب جا بجا لگے درخت، رنگ برنگے پھولوں سے مزین نخلستان اور سرسبز و شاداب میدان ، بلند و بالا عمارتیں، ٹیکنالوجی کی شاہکار ٹرانسپورٹ اور دیگر آسائشیں اس ملک کو دنیا سے منفرد بناتے ہیں۔ جزیرہ نما عرب کے عین وسط میں پھن پھیلائے خوبصورت زہریلے ناگ کی مانند یہ ملک “اسرائیل” کے نام سے جانا جاتا ہے۔ حیرت انگیز طور پر اسرائیل کو کوویِڈ 19 کی وبا سے بچاؤ کے لئے ویکسی نیشن کے عمل سے کامیابی سے گزرنے والا دنیا کا پہلا ملک قرار دیا گیا ہے۔

    19 دسمبر 2020 کو اسرائیل کے وزیراعظم بنجمن نیتن یاہو نے ٹی وی کے ایک پروگرام میں فائزر بائیوٹیک کوویِڈ 19 ویکسین وصول کی اور اس کے ساتھ ہی اسرائیل میں قومی ویکسی نیشن پروگرام کا آغاز ہوگیا۔ دو ہفتوں میں دس لاکھ سے زیادہ آبادی کور کر لی گئی۔

    ایک طرف دھوم ہے کہ اسرائیل نے بڑی تیزی سے اپنے عوام کو اس عالمی وبا کے خلاف مزاحمت حاصل کرنے کے لئے ویکسی نیشن پروگرام مکمل کیا ہے، دوسری طرف اسی حکومت نے ان لاکھوں فلسطینیوں کو باقاعدہ منصوبے کے تحت اس پروگرام سے قطعی محروم رکھا ہے۔ یہ وہ فلسطینی ہیں جو سال ہا سال سے اس کے قبضے میں آئی اپنی سرزمین پر کسمپرسی کی زندگی گزارنے پر مجبور کر دئیے گئے ہیں۔ کوویِڈ ویکسین کی بہت بڑی مقدار مبینہ طور پر محض اس لئے ضائع کردی گئی کہ یہ فلسطینی عوام کی رسائی میں نہ چلی جائے۔ اس مقدار کو استعمال کی مدت گزر جانے تک بند کئے رکھا تاکہ مبینہ طور پر ضائع کی جا سکے۔

    کسی ایک بھی فلسطینی مسلمان کو یہ ویکسین نہیں لگائی گئی، حتیٰ کہ اسرائیل کے طبی مراکز پر جانے والے فلسطینیوں کو یہ ویکسین لگانے یا فراہم کرنے سے صاف انکار کردیا گیا جو کہ صریحاً ظلم اور نسل پرستی ہے۔

    غزہ اور مغربی کنارے کی دو بستیاں 1968 سے ایسے ہی تعصب کا نشانہ بن رہی ہیں۔ چھوٹے چھوٹے پرانے طرز تعمیر پر مشتمل یہ بستیاں اور ان کے مکین زندگی کی بنیادی سہولتوں سے یکسر محروم ہیں جہاں ہفتے، دو ہفتے میں پانی کا ٹینکر آتا ہے تو یہ غریب اس پر ٹوٹ پڑتے ہیں، جب ان کے بچے سیاحوں کو دیکھ کر بھیک مانگنے کے لئے لپکتے ہیں تو یہ قابض نفیس لوگ مسرت سے انہیں ایسا کرتے دیکھتے ہیں۔ غزہ کی پٹی 2006 سے مسلسل اسرائیلی ناکہ بندی سے دو چار ہے، ان کے پاس بنیادی ضروریات کی شدید کمی، طبی سازوسامان اور ادویات کی شدید قلت ہے۔

    اوسلو معاہدے کے تحت اسرائیل اس ذمہ داری کی ادائیگی کا پابند تھا لیکن معاہدے کے نتیجے میں کسی نوعیت کی خیر فلسطینی اتھارٹی کے حق میں نہیں مل سکی۔ اسرائیل نے باقاعدہ منصوبے کے تحت فلسطینی اتھارٹی کے صحت کے نظام کو بری طرح مفلوج کر رکھا ہے۔ اس کے فوجی محاصرے اور عشروں پر محیط بمباری سے ہسپتال اور طبی سہولیات تباہ ہوگئی ہیں اور انہیں دوبارہ تعمیر کرنا دنیا کے کسی ادارے کا منصوبہ نہیں ہے۔

    اسرائیل میں ایک زمانے میں پانی اور تیل کا فقدان ہوتا تھا، اب خطے میں عرب ممالک کو پیچھے چھوڑ کر طاقت کا مرکز بننے والا ہے۔ پینے کے پانی کے لئے اردن اسرائیل کا محتاج ہے، مصر کو 85 ملین کیوبک میٹر گیس فراہم ہو رہی ہے جس سے اسرائیل سالانہ 19.5 ارب ڈالر کماتا ہے۔ نیتن یاہو کا فلسطینی علاقوں کو اسرائیل میں ضم کرنے کا ناپاک منصوبہ امریکی پارلیمنٹ نے مسترد کردیا تھا کیونکہ امریکہ نے عرب میں لاکھوں ڈالر کے کئی پراجیکٹ شروع کر رکھے ہیں اور اسرائیل کا یہ قدم اس کے حق میں خطرہ تھا لیکن طاقت کے نشے میں چور بدمست ہاتھی نے جمعرات 25 شب قدر کو عین تراویح کے دوران مسجد الاقصیٰ میں نمازیوں پر آنسو گیس پھینکی اور جمعہ الوداع کی نماز کے دوران فائرنگ کی جس کے نتیجے میں 250 سے زائد نہتے فلسطینی زخمی اور شہید ہوئے، ان میں بچے بھی شامل ہیں۔ ظالم صیہونیوں نے اسی پر بس نہیں کیا، ان کے علاقوں میں گھس کر فلسطینیوں کو زبردستی گھروں سے نکال کرکیمپوں میں جانے پر مجبور کیا تاکہ ان کے ملکیتی گھروں میں یہودیوں کو آباد کیا جائے۔ صدی کے بدترین مظالم کو جانتے بوجھتے نظر انداز کرنا، مجرمانہ خاموشی اختیار کرنا اور اس پر ظالم کی حمایت کرنا کہیں ہماری رمضان المبارک میں محنت سے کی گئی عبادتیں اور ریاضتیں کھوکھلی نہ کردیں اور ہم خالی ہاتھ رہ جائیں۔

    اسرائیل کے پاس زبردست فوجی قوت ہے اور فلسطینیوں پر بے پناہ تسلط حاصل ہے اور یہ دونوں عوامل فلسطینیوں کے لئے مسئلے کو سنگین تر بنا رہے ہیں۔ دنیا اس بڑے مسئلے کو تفہیم، فریقین کی رضامندی اور عوام کی رائے کے مطابق حل کرنے کی جستجو کرلے تو دنیا کے دیگر مسائل کافی حد تک حل ہوجائیں گے۔ افسوس ناک امر یہ ہے کہ ان معاملات میں او آئی سی بالکل خاموش ہے، پاکستان کے سوا چند ممالک نے اسرائیلی مظالم کی مذمت کی لیکن خالی بیانات سے یہ مسئلہ حل ہوتا تو اب تک فلسطینیوں کا خون گلیوں میں نہ بہہ رہا ہوتا۔ متحدہ عرب امارات سمیت خلیجی ریاستیں اسرائیل کےساتھ سفارتی تعلقات تو قائم کر چکی ہیں تاہم سعودی عرب سے امید ہے وہ ایسا نہیں کرے گا۔ کیونکہ اس صورت میں اسرائیل کو فلسطینیوں پر مظالم ڈھانے کی کھلی چھوٹ مل جائے گی جو کسی بھی مسلمان کیلئے قابل قبول نہیں۔ اللہ تعالی سے دعا ہے کہ مسلمان متحد ہو کر فلسطین میں روزانہ کٹنے اور مرنے والے مسلمان بھائیوں کی مدد کریں بقول علامہ اقبال:

    ایک ہوں مسلم حرم کی پاسبانی کیلئے
    نیل کے ساحل سے لے کر تابخاک کاشغر







     

Share This Page