1. اس فورم پر جواب بھیجنے کے لیے آپ کا صارف بننا ضروری ہے۔ اگر آپ ہماری اردو کے صارف ہیں تو لاگ ان کریں۔

ادبی چٹکلے ۔۔۔۔ علی رضا احمد

'قہقہے، ہنسی اور مسکراہٹیں' میں موضوعات آغاز کردہ از intelligent086, ‏23 مئی 2021۔

  1. intelligent086
    آف لائن

    intelligent086 ممبر

    شمولیت:
    ‏28 اپریل 2013
    پیغامات:
    7,273
    موصول پسندیدگیاں:
    797
    ملک کا جھنڈا:
    ادبی چٹکلے ۔۔۔۔ علی رضا احمد

    اختر الواسع ہندوستان کے معروف دانشور اور ادیب تھے ۔ جن دنوں اٹل بہاری واجپائی انڈیا کے وزیر اعظم تھے تو انہوں نے چند مسلمان دانشوروں کو مدعو کیا تھا۔ سب نے اپنی اپنی بات کہی ، اختر الواسع آخر تک خاموش رہے۔ میٹنگ ختم ہونے لگی تو واجپائی نے اختر الواسع کی طرف دیکھ کر کہا : ''آپ نے کچھ نہیں کہا؟‘‘
    اختر الواسع نہایت معصومیت سے گویا ہوئے : ''گستاخی معاف، آپ اسلام اور اسلام آباد دونوں کو ایک دوسرے میں گڈمڈ کر دیتے ہیں اور انہیں ایک ہی چیز سمجھتے ہیں، میں کیا عرض کروں‘‘۔
    ٭٭٭
    شاعر قلندر بخش جرات نابینا تھے۔ایک روز فکرِ سخن فرما رہے تھے کہ انشاء اللہ خان تشریف لائے۔انہیں محو پایا تو پوچھا : ''حضرت کس فکر میں ڈوبے ہیں؟‘‘
    جرات کہنے لگے : کچھ نہیں،شعر مکمل کرنے کی فکر میں ہوں،بس ایک مصرع ہوگیا ہے۔
    انشاء نے عرض کیا : ''کچھ ہمیں بھی تو پتہ چلے‘‘۔
    جرات نے کہا: '' میں نہیں بتائوں گا ،تم گرہ لگا کر مصرع چھین لو گے‘‘۔
    بڑے اصرار کے بعد جرات نے بتایا،
    اس زلف پہ پھبتی شبِ دیجور کی سوجھی
    انشاء نے فوراً گرہ لگائی:
    اندھے کو اندھیرے میں بڑی دور کی سوجھی
    جرات لاٹھی اٹھا کر انشا کی طرف لپکے۔دیر تک انشاء آگے پیچھے ٹٹولتے ہوئے بھاگتے رہے۔مگر کچھ نہ بن پڑا۔
    ٭٭٭
    رات کا وقت تھا۔اسرا رالحق مجاز یونیورسٹی روڈ پر ترنگ میں جھومتے ہوئے چلے جا رہے تھے۔اسی اثنا میں اْدھر سے ایک تانگا گزرا۔مجاز نے اسے آواز دی،تانگہ رک گیا۔مجاز اس کے قریب آئے اور لہرا کر بولے: صدر جاؤ گے؟
    تانگے والے نے جواب دیا: ''ہاں ، جاؤں گا‘‘
    ''اچھا تو جاؤ.......‘‘ یہ کہہ کر مجاز لڑھکتے ہوئے آگے بڑھ گئے۔
    ٭٭٭
    اسرارالحق مجاز تنہا کافی ہاؤس میں بیٹھے تھے کہ ایک صاحب جو ان کو جانتے نہیں تھے ،ان کے ساتھ والی کرسی پر آ بیٹھے۔کافی کا آرڈر دے کر انہوں نے اپنی کن سْری آواز میں گنگنانا شروع کیا:
    احمقوں کی کمی نہیں غالب .....ایک ڈھونڈو، ہزار ملتے ہیں۔
    مجاز نے ان کی طرف دیکھتے ہوئے کہا: ''ڈھونڈنے کی نوبت ہی کہاں آتی ہے حضرت! خود بخود تشریف لے آتے ہیں۔‘‘
    ٭٭٭
    کرنل مجید نے ایک دفعہ پطرس بخاری سے کہا: اگر آپ اپنے مضامین کا مجموعہ چھپوائیں تو اس کا نام صحیح بخاری رکھیں۔
    پطرس نے جواب دیا: اور اگر آپ اپنی نظموں کا مجموعہ چھپوائیں تو اس کانام کلام مجیدرکھیں۔
    ٭٭٭
    ایک ناشر نے کتابوں کے نئے گاہک سے شوکت تھانوی کا تعارف کراتے ہوئے کہا: آپ جس شخص کا ناول خرید رہے ہیں وہ یہی ذات شریف ہیں۔لیکن یہ چہرے سے جتنے بے وقوف معلوم ہوتے ہیں اتنے ہیں نہیں۔
    شوکت تھانوی نے فوراً کہا: مجھ میں اور میرے ناشر میں یہی بڑا فرق ہے۔یہ جتنے بے وقوف ہیں،چہرے سے معلوم نہیں ہوتے۔
    ٭٭٭
    اسرار الحق مجاز اور فراق کے درمیان کافی سنجیدگی سے گفتگو ہو رہی تھی۔ایک دم فراق کا لہجہ بدلا اور انہوں نے ہنستے ہوئے پوچھا: ''مجاز! تم نے کباب بیچنے کیوں بند کر دئیے؟‘‘
    مجاز نے اسی سنجیدگی سے فوراً جواب دیا : ''آپ کے ہاں سے گوشت آنا جو بند ہو گیا۔‘‘
    ٭٭٭
    عبدالحمید عدم کو کسی صاحب نے ایک بار جوش سے ملایا اور کہا:یہ عدم ہیں۔عدم کافی جسامت والے آدمی تھے۔
    جوش نے ان کے ڈیل ڈول کو بغور دیکھا اور کہنے لگے: عدم یہ ہے تو وجود کیا ہو گا؟
    ٭٭٭
    فراق گورکھپوری سے کسی نے پوچھا: بحیثیت شاعر آپ اور جوش صاحب میں کیا فرق ہے؟
    فراق بڑی بڑی آنکھیں مٹکاتے ہوئے بولے :جوش موضوع سے متاثر ہوتا ہے اور میں موضوع کو متاثر کرتا ہوں۔
    ٭٭٭
     

اس صفحے کو مشتہر کریں