1. اس فورم پر جواب بھیجنے کے لیے آپ کا صارف بننا ضروری ہے۔ اگر آپ ہماری اردو کے صارف ہیں تو لاگ ان کریں۔

اداکارہ میرا کی قسمیں

'حالاتِ حاضرہ' میں موضوعات آغاز کردہ از راشد احمد, ‏11 ستمبر 2009۔

  1. راشد احمد
    آف لائن

    راشد احمد ممبر

    شمولیت:
    ‏5 جنوری 2009
    پیغامات:
    2,457
    موصول پسندیدگیاں:
    15
  2. عرفان پتوکی
    آف لائن

    عرفان پتوکی ممبر

    شمولیت:
    ‏8 اگست 2009
    پیغامات:
    84
    موصول پسندیدگیاں:
    0
    بہت خوب راشد احمد جی
    میرا جذبات میں پاگل پن کی حد تک جا پہنچی ہیں
    ویسے ان کی عتیق صاحب کو برا بھلا کہنے خواہش کا احترام کیا جانا چاہیے:135:
     
  3. نعیم
    آف لائن

    نعیم مشیر

    شمولیت:
    ‏30 اگست 2006
    پیغامات:
    58,107
    موصول پسندیدگیاں:
    11,153
    ملک کا جھنڈا:
    السلام علیکم۔
    مجھے یہ وڈیو دیکھ کر، میرا کی پرائیویٹ گفتگو کو بھی آن ائیر دیکھ کر، اور پھر آخر میں نیوز کاسٹرز کے چبھتے ہوئے طنزیہ جملے اور مسکراہٹ دیکھ کر بہت افسوس ہوا۔

    مغربی میڈیا یا غیر مسلم جب اپنی " میڈیا آزادی " یا "آزادیء رائے" کا استعمال کرتے ہوئے ہمارے اسلامی شعائر یا اسلامی شخصیات پر انگشت درازی کرتے ہیں تو ہم سارے مسلمان چیخ چیخ کر یہ موقف پیش کرتے ہیں کہ
    " ہر آزادی کی ایک حد ہوتی ہے۔ (اور بےشک ہوتی ہے)‌۔ میڈیا یا کسی کو بھی اتنی آزادی نہیں کہ ہر کسی کی عزت کی دھجیاں اڑانا شروع کردے۔ وغیرہ وغیرہ "


    لیکن کتنے افسوس کا مقام ہے کہ اپنے ہی "اسلامی جمہوریہ پاکستان " میں اپنے ہی ملک کی ایک مسلمان خاتون (بھلے وہ کیسی ہی ہو) کی عزت کو یوں سرعام تار تار کیا جارہا ہے۔ قاعدے قانون کے مطابق میڈیا کو صرف اسکا ریکارڈڈ‌ " انٹرویو "آن آئیر" کرنا تھا مگر اسکی پرائیویٹ گفتگو بھی پوری دنیا کو سنائی گئی ۔ اور پھر نیوز کاسٹر صاحب اور صاحبہ نے کمال طنزیہ مسکراہٹ سے رہی سہی کسر نکال کر میرا کو " زیادہ قسمیں کھانے " کی پاداش میں ان بولے انداز میں "جھوٹا" قرار دیا ۔ حالانکہ اگر اپنے گریبان میں‌جھانک لیں تو آج دنیا کے نیوز کاسٹرز جتنے سچے رہ گئے ہیں وہ سب پر عیاں ہے۔

    ہم مسلمان ہیں اور ہم کسی بھی شعبہ ، کسی بھی مقام، کسی بھی پیشہ میں‌ہوں ۔ اسلامی تعلیمات کی پابندی ہم پر لازم ہے۔ آئیے اپنے نبی اکرم :saw: کے فرامین پر غور کریں اور پھر اپنے گریبانوں میں‌جھانکیں۔

    جناب ابوھریرةہ رضی اﷲ عنہ راوی ہیں کہ رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم نے فرمایا
    "کوئی بندہ ایسا نہیں جو کسی اﷲ کے بندہ کی عیب پوشی کرے مگر یہ کہ اﷲ تعالیٰ قیامت کے دن اس کی عیب پوشی فرمائیں گے (یعنی جو کسی کے عیبوں کی پردہ پوشی کرے گا۔ قیامت کے دن اللہ تعالی خود اس بندے کے گناہوں اور عیبوں کی پردہ پوشی ضرور فرمائے گا)۔ ! (صحیح مسلم،2590)
    ایک اور فرمان بھی سن لیں۔

    جناب ابوھریر ہ رضی اﷲ عنہ نے رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا کہ
    "میری امت کے ہر شخص کو معافی مل جائے گی مگر اپنے گناہ فاش کرنے والے کو نہیں ملے گی . گناہ ظاہر کرنے کی صورت یہ ہوتی ہے کہ آدمی نے رات کو کوئی گناہ کیا. اﷲ تعالیٰ نے اس پر پردہ ڈال دیا مگر صبح اٹھ کر وہ خود ہی کہنے لگا کر رات میں نے یہ یہ حرکات کیں.
    اﷲ تعالیٰ نے تو اس کا پردہ رکھ لیا تھا، مگر اب یہ خود ہی اپنے عیب کی پردہ دری کررہا ہے.(صحیح بخاری 5721/صحیح مسلم،2990)

    آئیے ذرا اپنے گریبان میں‌جھانکیں۔ اور دیکھیں کہ ہم اپنی تفنن طبع کے لیے اللہ تعالی کی بارگاہ میں‌رمضان المقدس میں کہیں گنہگار تو نہیں ہورہے۔

    ایک بات واضح کر دوں کہ ۔۔۔ قومی راہنماؤں ۔ سیاستدانوں یا لیڈروں کے وہ عیب واضح کرنا جن سے مخلوق خدا کا بھلا ہو اور عامۃ‌الناس کو انکے شر سے آگہی ہوسکے ۔ وہ اسلامی تعلیمات کے خلاف نہیں بلکہ بعض حالات میں‌ضروری ہوجاتا ہے۔
     
  4. بےباک
    آف لائن

    بےباک ممبر

    شمولیت:
    ‏19 فروری 2009
    پیغامات:
    2,484
    موصول پسندیدگیاں:
    17
    اک لونگ گواچا تو بڑی دھوم ھے ، ملک تباہ ہوا کسی کو پرواہ ہی نہیں ،
     
  5. انجم رشید
    آف لائن

    انجم رشید ممبر

    شمولیت:
    ‏27 فروری 2009
    پیغامات:
    1,681
    موصول پسندیدگیاں:
    1
    اسلام علیکم
    راشد بھای میں یہ ویڈیو تو کھولی ہی نہیں کیا فایدہ اس کا آپ کو ایک اور بات بتا تا ہوں مجھے ایک میل ملی ہے جس کا عنوان ہے میرا ہوٹل میں ساتھ میں ویڈیو بھی ہے اللہ معاف کرے پتہ نہیں کیا ہو رہا ہے میل میرے پاس محفوظ ہے
     
  6. نور
    آف لائن

    نور ممبر

    شمولیت:
    ‏21 جون 2007
    پیغامات:
    4,021
    موصول پسندیدگیاں:
    22
    اسلام علیکم۔ نعیم صاحب کی گفتگو اسلامی و اخلاقی نکتہء نظر سے بہت اچھی لگی۔ اسی ضمن میں بی بی سی اردو پر شائع شدہ ایک مضمون پیش نظر ہے۔

    پاکستان کا ہر فن مولا میڈیا
    علی سلمان

    بی بی سی اردو ڈاٹ کام ، لاہور



    کہتےہیں کہ جنگ میں سب سے پہلا خون سچ کا ہوتا ہے لیکن پاکستان میں ٹی وی چینلوں کی مسابقت کی جنگ میں شاید سچ کے ساتھ ساتھ اخلاقیات اور صحافت کو بھی قتل کیا جارہا ہے۔

    پاکستان کے ایک نجی ٹی وی چینل کے مذاکرے کا حال سنیے : اپوزیشن کی خاتون رکن اسمبلی،خاتون وزیر کی گفتگو کےدوران سر پیچھے جھٹک جھٹک کر قہقہے لگا رہی ہیں اورخوشی کے اظہار کے لیے ایک زور دارتالی بجاتی ہیں۔خاتون وزیر چڑ کر دو چار ایسے الفاظ بولتی ہیں کہ ایم این اے صاحبہ کی ہنسی کو بریک لگ جاتی ہے وہ کہتی ہی کہ سوری جی میں تو اس قسم کی گندی باتیں نہیں کرسکتی جس طرح کی میڈیم کررہی ہیں۔

    دوسرا واقعہ سنیے نیوز کاسٹر کہہ رہے ہیں' ابھی کچھ دیر پہلے ہم نے آپ کو بریکنگ نیوز دی تھی کہ معروف شاعر احمد فراز انتقال کرگئے ہیں اس خبر میں تازہ ترین اپ ڈیٹ یہ ہے کہ وہ ابھی زندہ ہیں۔'

    حال ہی میں ایک شادی سکینڈل میں ملوث پاکستان کی سب سے بڑی فلمی ہیروئن کا ایک ایسا ویڈیو کلپ نشرہوا جس میں وہ صوفے پر براجمان رپورٹر پر جھکی کبھی اس کےدونوں کندھوں پر ہاتھ رکھ کرتو کبھی اس کے سینے پر ہتھیلی جماکراسے کچھ سمجھارہی ہیں۔اسی کلپ کے آغاز میں اداکارہ کی ویڈیو کیمرہ بند کرنے کی درخواست اور جوابا انہیں دی جانے والی جھوٹی یقین دہانی بھی موجود ہے۔

    آپ کیمرہ اور مائیک اٹھائے کسی کے بھی گھر میں گھس سکتے ہیں، آپ کیمرہ بند ہونے کا جھانسہ دیکرکسی کی بھی نجی زندگی کا تماشہ لگا سکتےہیں کیونکہ آپ ٹی وی کے رپورٹر، اینکر ہیں۔ میڈیا کے ایک سٹار ہیں، گفتار کے غازی ہیں۔صدرمملکت،چیف جسٹس آف پاکستان سے لیکر نتھوقصائی تک کوئی بھی آپ کی ' اعلی پرفارمنس' کا نشانہ بن سکتا ہے۔آپ کسی کے بھی ذاتی کردار پر خود بھی کیچڑ اچھال سکتے اور کسی کے ذریعے بھی یہ کام کروا سکتے ہیں۔

    آپ نہ تو خود صحافتی اصول بناتے ہیں نہ ہی کسی دوسرے کو بنانے دیتے ہیں۔ اگر حکومت اشارتا صحافتی اخلاقیات کے ضابطے بنانے کی بات بھی کرلے تو آزادی صحافت پر بندش لگانے کا الزام ایک خوفناک شور کے ساتھ اٹھ کھڑا ہوتا ہے۔

    آپ ہر فن مولا ہیں آپ کی کسی ایشو پرگرفت نہ بھی ہو تو کوئی مسئلہ نہیں ہے۔ متحارب فریقوں کو آپس میں لڑا کر تماشہ لگا دینا آپ کے بائیں ہاتھ کا کمال ہے۔

    تماشہ بھی ایسا دلچسپ کہ جس نے پاکستان کو غالبا دنیا کا وہ واحد ملک بنا دیا ہے جہاں لوگ انٹرٹینمنٹ کے لیے نیوز ٹاک شو دیکھتے ہیں اور درجہ بندی سب سے بلند مقام ہونے کی وجہ سے انہیں پرائم ٹائم میں چلایا جاتا ہے۔

    روزنامہ پاکستان کے مدیر اعلی مجیب الرحمان شامی نے کہا کہ ’ایک طوفان بدتمزی برپا ہے سیاسی و ذاتی الزام تراشی ہورہی ہے لوگ مرغے لڑانے بیٹھ جاتے ہیں۔جو چاہے جس مرضی کوگالی دے اور اس کا نام آزادی صحافت رکھ دیا گیاہے۔”

    انہوں نے کہا ' لگتا ہے کہ ٹی وی چینلز میں ایڈیٹر(پروڈیوسر) نام کی کوئی چیز باقی نہیں رہی ہے۔اینکر پرسن اور رپورٹر جو چاہتا ہے وہ لائیوکوریج کے نام پر براہ راست عوام تک پہنچ رہا ہے۔'

    عارف نظامی کہتے ہیں 'جب سڑک پر چلتے لوگوں کو اینکر پرسن بنا دیا جائے اور ان کی مناسب تربیت کا بندوبست بھی نہ کیا جائےتو یقینامعیار نیچے آئے گا۔'

    بہرحال ایسا بھی نہیں کہ تمام اینکر پرسن اور رپورٹر صحافت سے نابلد ہیں کچھ ایسے بھی ہیں جو پہلے توپرنٹ میڈیا سے وابستہ تھے اور ان کی ' تخلیقات' ادارتی ڈیسک کی چھلنی سے گذر کر عوام تک پہنچتی تھیں لیکن وہ جب ٹی وی سکرین کی زینت بنے تو ان کی اڑان روکنے والا کوئی نہیں رہا۔ایسے بھی ہیں جو صحافتی اخلاقیات اور اصولوں کو اچھی طرح سمجھتے ہیں لیکن بس رنگ میں رنگے گئے ہیں۔

    چند پروگرام ایسے بھی ہیں جن میں صحافتی اقدار کا پاس کیا جاتا ہے اور اخلاقیات کی حد پار نہیں کی جاتی لیکن بدقسمتی سے ایسے پروگرام مقبولیت کی درجہ بندی میں بہت نیچے چلے جاتے ہیں۔

    بنیادی وجہ مسابقت ہے اگر کسی چینل پر کسی شخصیت کا تماشا لگ جائےدشنام طرازی ہویا کوئی ایسی نازیبا حرکت ہوجائے جو شہر میں زیربحث آجائے تو اس چینل کے دیکھنے والوں کی تعداد بڑھ جائے گی اور ناظرین کی زیادہ تعداد چینل کو درجہ بندی میں اوپر لے جائے گی۔

    ریٹنگ بہتر ہونے سے اشہتارات کی تعداد اور نرخ بڑھتے ہیں چینل کے کرتا دھرتاؤں کے اثرورسوخ میں اضافہ ہوتا ہے، مالک خوش ہوتا ہے اوراینکرپرسن یارپورٹر کی مارکیٹ ویلیو آسمان پرجالگتی ہے۔

    مجیب الرحمان شامی کہتے ہیں ' اگر کوئی شخص بازار میں ننگا کھڑاہوجائے تویہ تماشہ دیکھنے کے لیے ایک مجمع لگ جائے گا لیکن شہرت حاصل کرنے کا یہ کوئی طریقہ نہیں ہے۔' ان کا خیال ہے پاکستان میں میڈیا جو کچھ کررہا ہے اس کی ذمہ داری سماج اور سرکار پر عائد ہوتی ہے۔

    انہوں نے یورپ اور امریکہ جیسے ترقیاتی یافتہ معاشروں کی مثال دی جہاں ہتک عزت کا قانون ہے جو حرکت میں بھی آتا ہے،سول سوسائیٹی ہے جو اپنا ردعمل ظاہر کرتی ہیں۔

    پاکستان میں آج تک ہتک عزت کا کوئی ایسا مقدمہ نہیں ہوا جس میں میڈیا کو سزاسنائے جانے کے بعد اس پر عملدرآمد بھی ہوا ہو۔ پوری صحافتی تاریخ میں صرف نوائے وقت کے خلاف پیپلز پارٹی کے رہنما شیخ رشید (مرحوم) کا ایک کیس ہواتھا جس میں اخبار کو کرڑوں روپوں میں جرمانہ بھی ہوا لیکن بعد میں سپریم کورٹ سے اخبار کے حق میں فیصلہ ہوگیا تھا۔

    پاکستان میں ہتک عزت کا مقدمہ کرنے کا رواج نہ ہونے کی بہت سی وجوہات ہوسکتی ہیں لیکن مجیب الرحمان شامی کہتے ہیں کہ ’پاکستان میں عدلیہ صرف نام کی آزاد ہے۔'

    وجوہات جو بھی ہوں پاکستان کی صحافتی اخلاقیات پر یہ تبصرہ کیا جاسکتا ہے کہ اس کا حال ایسے جاں بلب بکرے جیسا ہے جسے اناڑی قصائی کند چھری سے ذبح کرنے کی کوشش کررہا ہے۔


    بی بی سی اردو http://www.bbc.co.uk/urdu/pakistan/2009/09/090920_pak_media_np.shtml
     
  7. نعیم
    آف لائن

    نعیم مشیر

    شمولیت:
    ‏30 اگست 2006
    پیغامات:
    58,107
    موصول پسندیدگیاں:
    11,153
    ملک کا جھنڈا:
    علی سلمان کا اپنے ہی پیشے اور طبقے کے لوگوں کو احساس دلانے کی کوشش قابل تعریف ہے۔
    کاش آزادیء صحافت کے نام پر ہر کسی کی عزت کا سرِ عام جنازہ نکالنے والوں کو کچھ حیا آجائے۔

    نور العین بہنا۔ مضمون شئیر کرنے کے لیے بہت شکریہ ۔
     

اس صفحے کو مشتہر کریں