1. اس فورم پر جواب بھیجنے کے لیے آپ کا صارف بننا ضروری ہے۔ اگر آپ ہماری اردو کے صارف ہیں تو لاگ ان کریں۔

ادائیگی قرض کی فکر

'تعلیماتِ قرآن و حدیث' میں موضوعات آغاز کردہ از ذوالقرنین کاش, ‏24 جولائی 2008۔

  1. ذوالقرنین کاش
    آف لائن

    ذوالقرنین کاش ممبر

    شمولیت:
    ‏25 اپریل 2008
    پیغامات:
    383
    موصول پسندیدگیاں:
    3
    [thumbnail:gzb48cys]ادائیگی قرض کی فکر[/thumbnail:gzb48cys]
    صحیح بخاری میں حضرت ابوہریرہ ؓ سے مروی ہے کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے بنی اسرائیل کے ایک آدمی کے متعلق بتایا کہ اس نے بنی اسرائیل ہی کے کسی آدمی سے ایک ہزار دینار بطور قرض مانگے۔ اس نے کہا:
    ”دو تین آدمی لے کر آﺅ جنہیں گواہ رکھ کر تجھے قرض دوں۔“
    قرض طلب کرنے والے نے کہا:
    ”اللہ تعالیٰ بطور گواہ کافی ہے۔“
    دوسرے آدمی نے (جس سے قرض طلب کیا جارہا تھا) کہا:
    کسی ذمہ دار کی ضمانت ہی دے دو۔
    قرض طلب کرنے والے نے کہا:
    ”اللہ تعالیٰ ہی کی ضمانت کافی ہے۔“
    دوسرے نے کہا: تم نے سچ کہا۔
    پھر اس نے قرض طلب کرنے والے آدمی کو ایک معینہ مدت تک کے لئے قرض دے دیا۔
    مقروض نے سمندری سفر طے کیا اور اپنی ضرورت پوری کرلی۔ پھر واپسی کے لئے اس نے کسی کشتی کی تلاش کی تاکہ وہ مقررہ مدت پر پہنچ کر اپنے قرض کی ادائیگی کرسکے مگر اسے کوئی کشتی نہیں مل سکی، چنانچہ اس نے ایک لکڑی لی اور اسے پھاڑ کر اس کے اندر ایک ہزار دینار رکھ دیئے اور اپنی طرف سے قرض خواہ کے نام ایک خط بھی رکھ دیا، پھر لکڑی کا شگاف بند کر کے ٹھیک کر دیا اور سمندر کے پاس کھڑا ہو کر گویا ہوا:
    اے اللہ! تو خوب جانتا ہے کہ میں نے فلاں شخص سے ایک ہزار دینار بطور قرض لئے تھے۔ اس نے مجھ سے کسی ذمہ دار کی گواہی کا سوال کیا تو میں نے کہا کہ اللہ بطور گواہ کافی ہے، چنانچہ وہ تجھ پر راضی ہوگیا۔ میں نے بڑی کوشش کی کہ کوئی کشتی مل جائے تاکہ میں قرض خواہ کی امانت اسے بھیج دوں مگر مجھے کوئی کشتی نہ مل سکی، اب میں اس کو تیری امانت میں دیتا ہوں (تو اسے اس کے صاحب تک پہنچا دے)۔
    یہ کہہ کر مقروض نے وہ لکڑی سمندر میں ڈال دی اور واپس ہوگیا۔ اس کے بعد بھی وہ کسی کشتی کی تلاش میں رہا تاکہ اپنے شہر کو روانہ ہوسکے۔
    قرض کی معین مدت کے بعد قرض خواہ سمندر کی طرف دیکھنے کے لئے نکلا کہ شاید کوئی کشتی آئے جس میں اس کا مالک بھی ہو ،یکایک اس کی نگاہ مقروض کی بھیجی ہوئی لکڑی پر پڑی جس کے اندر مال رکھا ہوا تھا۔ اس نے وہ لکڑی اٹھالی تاکہ گھر میں جلانے کے کام آسکے۔ گھر لے جاکر جب اس نے لکڑی کو پھاڑا تو اس کے اندر ایک ہزار دینار اور ایک خط تھا۔
    کچھ دنوں کے بعد وہ مقروض بھی قرض خواہ کے پاس ایک ہزار دینار لے کر حاضر ہوگیا۔ مقروض نے قرض خواہ سے کہا:
    اللہ کی قسم! میں مسلسل کسی کشتی کی تلاش میں تھا تاکہ تمہارا مال لاکر تمہیں واپس کر دوں مگر مجھے بروقت کوئی کشتی نہیں مل سکی (اس لئے میں وقت مقررہ پر حاضر نہیں ہوسکا)۔
    قرض خواہ نے پوچھا: کیا تم نے کوئی چیز میرے پاس بھیجی تھی؟
    مقروض نے کہا: میں تجھے بتارہا ہوں کہ مجھے اس سے پہلے کوئی کشتی نہیں مل سکی تھی۔
    قرض خواہ نے کہا:
    اللہ تعالیٰ نے لکڑی کے اندر تمہاری بھیجی ہوئی امانت مجھ تک پہنچا دی ہے، یہ اپنے ہزار دینار لے کر صحیح سلامت بخوشی واپس جاﺅ۔ (صحیح البخاری، الکفالة، باب الکفالة فی القرض، حدیث: 2291)
     
  2. نعیم
    آف لائن

    نعیم مشیر

    شمولیت:
    ‏30 اگست 2006
    پیغامات:
    58,107
    موصول پسندیدگیاں:
    11,153
    ملک کا جھنڈا:
    سبحان اللہ ۔ جزاک اللہ ذوالقرنین بھائی !
    بہت ہی خوبصورت اور سبق آموز حدیث پاک ہے۔
    اللہ تعالی ہم سب کو نیک نیتی اور توکل علی اللہ کی حقیقی دولت سے نوازے۔ آمین
     

اس صفحے کو مشتہر کریں