1. اس فورم پر جواب بھیجنے کے لیے آپ کا صارف بننا ضروری ہے۔ اگر آپ ہماری اردو کے صارف ہیں تو لاگ ان کریں۔

آنسوؤں کو سیلاب بنانا ہوگا

'حالاتِ حاضرہ' میں موضوعات آغاز کردہ از راشد احمد, ‏5 اگست 2009۔

  1. راشد احمد
    آف لائن

    راشد احمد ممبر

    شمولیت:
    ‏5 جنوری 2009
    پیغامات:
    2,457
    موصول پسندیدگیاں:
    15
    ایمرسن نے کہاتھا…”کسی ملک کی تہذیب کا صحیح معیار نہ مردم شماری کے اعداد میں ہے نہ اس ملک کے بڑے شہروں کی تعداد میں نہ اس کی جنگی استعداد میں نہ اس کی معیشت کے حجم میں بلکہ معیار صرف یہ ہے کہ وہ ملک کس قسم کے انسان پیدا کر رہا ہے۔“
    قدیم عرب کہاکرتے تھے … ”نَوم العالم افْضَلُ مِن عِبَادَةِ الجَاہِل“ یعنی ”علم والے کی نیند جاہل کی عبادت سے بہتر ہے۔ “
    چینی محاور ہ ہے… ”کتابیں ایسے بزرگو ں کے مدفن ہیں جو مرنے کے بعد بھی نہیں مرتے۔“
    سکندر سے کسی نے پوچھا کہ تم استاد کو باپ پر بھی ترجیح دیتے ہو تو کیوں؟ فاتح عالم نے جواب دیا ”اس لئے کہ باپ مجھے آسمان سے زمین پرلانے کا وسیلہ بنا، استاد مجھے زمین سے آسمان پر لے گیا۔ باپ نے میرے جسم کی پرورش کی، استاد نے میرے ذہن کی۔“
    اطالوی کہتے ہیں:”نالائق اولاد چھٹی انگلی کی مانند ہے۔ اسے کاٹا جائے تو درد ہو اور اگر رکھا جائے تو عیب دار ہو۔“
    لارڈ میکالے کی مشہور دعا ہے کہ … ”میں مروں تو اپنے کتب خانہ میں۔“
    مردہ پراکرت زبان کا ایک زندہ جملہ ہے… ”علم خودداری اور خودداری بیداری کی حالت کا سبب بنتی ہے۔“
    اور سب سے بڑھ کر ہمارے آقا کا یہ فرمان کہ… ”علم تو نور ہے جوگناہگاروں اور بدبختوں کو نہیں عطا ہوتا۔“
    قارئین!
    آپ بھی سوچ رہے ہوں گے کہ مجھے یہ ”علم کا دورہ“ کیوں پڑ گیا لیکن شاید آپ بھول رہے ہیں کہ یہ میرا محبوب ترین موضوع ہے۔
    میں جب علم، ایجادات و اختراعات کے حوالے سے مغرب کو گلوری فائی اور گلیمرائز کرتا ہوں تو کچھ احمق اسے ”مرعوبیت“ قرار دیتے ہیں حالانکہ میں اپنے حکمرانوں اور عوام کو اکسا رہا ہوتا ہوں، انہیں ”پروووک“ کر رہا ہوتا ہوں کہ خرافات، فروعات، لغویات اور جذباتیات چھوڑ کر حصول علم کی طرف آؤ کہ یہ تمہاری کھوئی ہوئی میراث ہے، اس سے منہ موڑو گے تو ایسے ہی منہ کے بل گرے رہو گے… میں جب اپنی بانجھ اشرافیہ کو غیرتخلیقی ہونے کاطعنہ دیتے ہوئے کہتا ہوں کہ ہماری گزشتہ تاریخ کا ہر قابل ذکر آدمی محروم یامتوسط طبقہ سے نکلا ہے اوریہ کہ ہماری بانجھ ایلیٹ نے شاید ہی کبھی کوئی بڑا شاعر، ادیب، دانشور، سائنسدان، آرکیٹیکٹ، انجینئر، ڈاکٹر، وکیل، مصور، کھلاڑی، گلوکار، موسیقار، سفارتکار، جرنیل، ہدایتکار، ماہر تعلیم یا کوئی اور ڈھنگ کاآدمی پیدا کیاہو کہ یہ ناکارہ لوگ صرف ”ممبران اسمبلی“ ہی کونٹری بیوٹ کرتے ہیں … تو دراصل میں اس بات کا ماتم کر رہا ہوتا ہوں کہ اس قوم کے ہر بچے کی تعلیم یقینی بناؤ… اور جب میں یہ لکھتا ہوں کہ ہمار ا کوئی نیوٹن اینٹوں کے بھٹے میں مر رہا ہے، کوئی آئین سٹائن کسی ورکشاپ میں ”چھوٹے“ کاکردار ادا کرنے پر مجبور ہے، ہمارا کوئی ایڈیسن پھولوں کے ہار یا چپس کے لفافے بیچ رہا ہے تو میں دراصل اسی بے حسی اور بے غیرتی کا ماتم کررہا ہوتا ہوں جس کا پنجاب کے وزیراعلیٰ نے سرعام اعتراف کیا ہے۔ لاہوربورڈ میں میٹر ک کے سالانہ امتحان کے پوزیشن ہولڈر یتیم بچے کے لئے 30لاکھ روپے کااعلان کرتے اور اسے اپنی کرسی پربٹھاتے وقت شہباز شریف کی آنکھوں میں جو آنسو دکھائی دیئے… ملکی حوالہ سے یہ باسٹھ سال دیر سے دکھائی دیئے اور اب ان آنسوؤں کو سیلاب بن کر جہالت کی غلاظت کوبہا لے جانا چاہئے۔ اس تقریب کی ٹی وی رپورٹ کا میں صرف ایک جملہ سن سکا جسے ادا کرتے ہوئے وزیراعلیٰ پر وحشت طاری تھی… ”اگر اس بچے کو حالات کے تھپیڑوں کے سپرد کردیا گیا تو پھر یہ معاشرہ زندہ رہنے کے قابل نہیں۔“ لفظوں کاتھوڑا آگا پیچھا ہوسکتا ہے لیکن مفہوم یہی تھا جس میں ایک ”خامی“ ہے۔ میں وزیراعلیٰ سے پوچھنا چاہتا ہوں… کیا یہ معاشرہ واقعی زندہ ہے؟ ہماری پوری 62 سالہ تاریخ ، پالیسیوں اور پالیسی سازوں کے پھولے ہوئے گالوں پر اس سے شدید تھپڑ اور کیا ہوسکتا ہے کہ راولپنڈی میں دوسری پوزیشن ایک قیدی بچے نے حاصل کی(وہ قیدی کیسے بنا یہ اک اورتھپڑ ہے) اور گوجرانوالہ کاپوزیشن ہولڈر یتیم بچہ ٹافیاں بیچ بیچ کرہم سب کی کھوئی ہوئی میراث تلاش کرتا رہا…ٹافیاں کھانے کی عمر میں ٹافیاں بیچ بیچ کر ٹرافیاں جیتنے والے بچے ہی شاید ہمارے بیڑے کو مکمل غرقابی سے بچاسکیں ورنہ بچنے والی بظاہر تو کوئی بات نہیں یا کم از کم مجھ جیسے شخص کودکھائی نہیں دیتی کہ جنہوں نے پے در پے اپنی نسلوں کا قتل عام کیا ہو۔ ان کے انجام پر کنفیوژن کیسا؟یہاں ”نظریہ ٴ ضرورت“ ہوسکتا ہے۔ یہاں ”این آر او“ ہوسکتاہے۔ یہاں ہر ڈکٹیٹر بچ سکتا ہے، مر جائے تو پورے اعزاز کے ساتھ دفن ہوسکتا ہے۔ لیکن … یہاں یکساں نظام تعلیم اور یکساں نصاب تعلیم نہیں ہوسکتا۔ میں نے کسی گزشتہ کالم میں لکھا تھاکہ اس ملک کی اشرافیہ اپنے بچوں کو سٹیمر دے کر اور عوام کے بچوں کو ہاتھ پاؤں باندھ کر دریا میں پھینک کر کہتی ہے۔ ”پار اُتر کر دکھاؤ“… کیابے حیا اشرافیہ ہے۔یہ تو معجزہ ہے کہ اس ننگے ترین ظلم کے باوجود ہمارے محروم اور متوسط طبقے نے ہی ملک کو ڈاکٹر عبدالسلام (اکلوتا نوبل پرائز)،وسیم اکرم، نصرت فتح علی خان و مہدی حسن، نیر علی دادا، اے کے بروہی، جہانگیر خان، جان شیر خان، صادقین، استاد اللہ بخش، چغتائی، راجہ عزیز بھٹی و دیگرنشان حیدر، شوکت حسین رضوی، ڈاکٹر نذیر، ڈاکٹر اجمل، فیض احمد فیض#، منیر نیازی، منٹو، ناصر کاظمی، فراز#، احمد ندیم قاسمی، بھٹی ڈیزائنر، خورشید انور، وجاہت عطرے، ہدایتکار نذیر، ریاض شاہد، سنتوش کمار، ضمیر نیازی، ثمرمبارک مند، عبدالستار ایدھی، نورجہاں، روشن آرا بیگم، حسن ناصر اورایسے ہی بہت سے دوسرے لعل و جواہر عطا کئے… نالائق اشرافیہ نے کیا دیا؟ انتہا یہ کہ بابائے قوم محمد علی جناح سے لے کر علامہ اقبال تک بھی ”اشرافیہ“ نہیں… عوم کی عطا تھے اور اگر کوئی بھٹوکی بات کرے تو ماں کی طرف سے وہ بھی 50 فیصد عوام تھا۔ شہبازشریف صاحب! ہر 12اکتوبر سے بے نیاز اوربے پرواہ ہو کر ان آنسوؤں کو سیلاب بنانا ہوگا۔ آبدیدہ نہیں بے دید ہو کر یکساں نصاب اورنظام تعلیم ، استاد کو کمّی سے باعزت بنانا اورسکولوں میں مویشی باندھنے والوں کو پٹے ڈال کر انہی سکولوں میں باندھنے کے علاوہ اس ذہنیت کا زنگ بھی اتارنا ہوگا جس نے علوم کو دینی اور غیردینی علم میں تقسیم کیا اور اس طرح مسلمانوں پر ایسی کاری ضرب لگائی کہ ان کی ریڑھ کی ہڈی کے مہرے ہل گئے اور رینگنا ان کا مقدر ٹھہرا۔ جن ہاتھوں میں کتاب نہ ہو، کشکول اور کاسے ان کامقدر بن جاتے ہیں خواہ ”پیٹرو ڈالر“ کے ڈھیروں پربیٹھے ہوں کہ پچھلے دنوں ایک امیر مسلمان ملک نے کہا کہ وہ سوائن فلو ختم کرنے کے لئے یورپ سے طبی ماہرین بلا رہے ہیں۔ڈالر مانگو یا ٹیکنالوجی… مانگنے والا منگتا ہی ہوتا ہے کہ علم سے محرومی عزت سے محرومی ہے، ساورینٹی کی حفاظت صرف سائنس اورٹیکنالوجی کی فصیلوں سے ممکن ہے اور جن ہاتھوں میں کتاب نہیں، ان ہاتھوں میں کشکول اور کاسے ہی ہوں گے۔

    حوالہ روزنامہ جنگ
     

اس صفحے کو مشتہر کریں