1. اس فورم پر جواب بھیجنے کے لیے آپ کا صارف بننا ضروری ہے۔ اگر آپ ہماری اردو کے صارف ہیں تو لاگ ان کریں۔

آج کے اس انسان کو یہ کیا ہوگیا

Discussion in 'اشعار اور گانوں کے کھیل' started by ساتواں انسان, Jun 17, 2018.

  1. ساتواں انسان
    Offline

    ساتواں انسان ممبر

    Joined:
    Nov 28, 2017
    Messages:
    7,190
    Likes Received:
    2,273
    ملک کا جھنڈا:
    بہت سارے لفظوں کا تلفظ غلط ہوسکتا ہے
    بہت سارے جملوں سے ہمارا متفق ہونا ضروری نہیں
    ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
    آج کے اس انسان کو یہ کیا ہوگیا
    اس کا پرانا پیار کہاں پر کھو گیا
    کیسی یہ منحوس گھڑی ہے
    بھائیوں میں جنگ چھڑی ہے
    کہیں پر خون کہیں پر جوالا
    جانے کیا ہے ہونے والا
    سب کا ماتھا آج جھکا ہے
    آزادی کا جلوس رکا ہے
    چاروں اور دغا ہی دغا ہے
    ہر چھڑے پر خون لگا ہے
    آج دکھی ہے جنتا ساری
    روتے ہیں لاکھوں نر ناری
    روتے ہیں آنگن گلیارے
    روتے ہیں محلے سارے
    روتی سلمی روتی ہے گیتا
    روتے ہیں قرآن اور گیتا
    آج ہمالے چلاتا ہے
    کہاں پرانا وہ ناطہ ہے
    ڈس لیا سارے دیس کو زہری ناگوں نے
    گھر کو لگا دی آگ گھر کے چراغوں نے
    اپنا دیس وہ دیس تھا بھائی
    لاکھوں بار مصیبت آئی
    انسانوں نے جان گنوائی
    پر بہنوں کی لاج بچائی
    لیکن اب وہ بات کہاں ہے
    اب تو کیول گھات یہاں ہے
    چل رہیں ہیں الٹی ہوائیں
    کانپ رہیں تھر تھر ابلائیں
    آج ہر ایک آنچل کو ہے خطرہ
    آج ہر ایک گھونگھٹ کو ہے خطرہ
    خطرے میں ہے لاج بہن کی
    خطرے میں چوڑیاں دلہن کی
    ڈرتی ہے ہر پاؤں کی پائیل
    آج کہیں ہوجائے نہ گھائیل
    آج سلامت کوئی نہ گھر ہے
    سب کو لٹ جانے کا ڈر ہے
    ہم نے اپنے وطن کو دیکھا
    آدمی کے بطن کو دیکھا
    آج تو بہنوں پر بھی حملہ ہوتا ہے
    دور کسی کونے میں مذہب روتا ہے
    کس کے سر الزام دھریں ہم
    آج کہاں فریاد کریں ہم
    کرتے ہیں جو آج لڑائی
    سب کے سب ہیں اپنے ہی بھائی
    سب کے سب ہیں یہاں اپرادھی
    ہائے محبت سب نے بھلادی
    آج بہی جو خون کی دہارا
    دوشی اس کا ساماج ہے سارا
    سنو ذرا او سنے والو
    آسماں پر نظر گھوما لو
    ایک گگن پہ کڑوروں تارے
    رہتے ہیں ہل مل کر سارے
    کبھی نہ وہ آپس میں لڑتے
    کبھی نہ دیکھا ان کو جھگڑتے
    کبھی نہیں وہ چھڑے چلاتے
    نہیں کسی کا خون بہاتے
    لیکن اس انسان کو دیکھو
    دھرتی کی سنتان کو دیکھو
    کتنا ہے یہ ہائے کمینہ
    اسنے لاکھوں کا سکھ چھینا
    کی ہے اس نے جو آج تباہی
    دینگے اس کی مکھڑے گواہی
    آپس کی دشمنی کا یہ انجام ہوا
    دنیا ہنسنے لگی دیس بدنام ہوا
    کیسا یہ خطرے کا پہر ہے
    آج ہوؤاں میں بھی زہر ہے
    کہیں بھی دیکھو بات یہی ہے
    ہائے بھیانک رات یہی ہی
    موت کے سائے میں ہر گھر ہے
    کب کیا ہوگا کسے خبر ہے
    بند ہے کھڑکی بند ہے دوارے
    بیٹھے ہیں سب ڈر کے مارے
    کیا ہوگا ان بےچاروں کا
    کیا ہوگا ان لاچاروں کا
    ان کا سب کچھ کھو سکتا ہے
    ان پہ حملہ ہوسکتا ہے
    کوئی رکھشک نظر نہ آتا
    سویا ہے آکاش پہ داتا
    یہ کیا حال ہوا اپنے سنسار کا
    نکل رہا ہے آج جنازہ پیار کا
     
    زنیرہ عقیل likes this.

Share This Page