1. اس فورم پر جواب بھیجنے کے لیے آپ کا صارف بننا ضروری ہے۔ اگر آپ ہماری اردو کے صارف ہیں تو لاگ ان کریں۔

آبادی پر موثر کنٹرول کے بغیر معاشی استحکام ممکن نہیں

'حالاتِ حاضرہ' میں موضوعات آغاز کردہ از ساتھی, ‏31 مئی 2006۔

  1. ساتھی
    آف لائن

    ساتھی ممبر

    شمولیت:
    ‏27 مئی 2006
    پیغامات:
    245
    موصول پسندیدگیاں:
    0
    آبادی پر موثر کنٹرول کے بغیر معاش

    Date: Wednesday, May 31, 2006 روزنامہ جنگ

    پاکستان جیسے پسماندہ ملکوں میں آبادی اور وسائل کے درمیان فرق ویسے بھی ایک پریشان کن مسئلہ ہوتا ہے اگر قدرتی وسائل کو پوری طرح استعمال نہ کیا جائے تو یہ امر اور زیادہ دشوار ہو جاتا ہے۔ بڑھتی ہوئی آبادی ہمارے معاشرے کے لیے کئی مسائل پیدا کر رہی ہے۔ اس تناظر میں وزیر اعظم کا یہ کہنا انتہائی بروقت ہے کہ معاشی استحکام اور اقتصادی ترقی کے لیے بڑھتی ہوئی آبادی پر کنٹرول ضروری ہے۔ اگر اس مقصد کے لیے ہم نے کوئی موثر حکمت عملی اختیار نہ کی تو حکومت کی طرف سے شہریوں کو زندگی کے مختلف شعبوں میں بہتر سہولتوں کی فراہمی اور پائیدار ترقی کے لیے کی جانے والی تمام کوششیں رائیگاں جائیں گی۔ ترقی کی رفتار اور کامیابی کا تعلق آبادی کو کنٹرول کرنے سے ہے۔ اسلام آباد میں وزارت بہبود آبادی کے زیر اہتمام آبادی اور ترقی کے موضوع پر بین الاقوامی علماء کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ ہم آبادی کے استحکام کے لیے مسلمان ممالک کے تجربات سے استفادہ کریں گے۔ بڑھتی ہوئی آبادی ہمارے وسائل، معیشت اور منصوبہ بندی پر اثر انداز ہوتی ہے اسے کنٹرول کئے بغیر عوام کا معیار زندگی بہتر نہیں ہو سکتا۔ کانفرنس میں ایران، ملائشیا ، انڈونیشیا اور مصر سمیت 15مسلمان ممالک ، متعدد وزراء، ارکان پارلیمنٹ، مختلف ممالک کے سفیروں ، این جی اوز اور سرکاری افسران نے شرکت کی۔ آبادی میں بے ہنگم اور بے لگام اضافہ صرف پاکستان ہی نہیں تمام پسماندہ اور ترقی پذیر ملکوں کا مسئلہ ہے اور ان کی طرف سے تعمیر و ترقی کے لیے کی جانے والے کوششوں کی راہ میں یہ عنصر ایک اہم اور بنیادی رکاوٹ کی حیثیت رکھتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اقوام متحدہ کی طرف سے آبادی کو کنٹرول کرنے کی ٹھوس اور مثبت کوششوں کی حوصلہ افزائی کی جاتی ہے اور اس مقصد کے لیے شروع کئے جانے والے پروگراموں کے لیے متعلقہ ممالک کو فنی اور مالی امداد بھی فراہم کی جاتی ہے۔ امریکہ سمیت دنیا کے ترقی یافتہ ممالک بھی اس مقصد کے لیے حکومتی اور غیر سرکاری اداروں کی سطح پر کی جانے والی کوششوں کی بڑی حوصلہ افزائی کرتے دکھائی دیتے ہیں۔ پاکستان کے سماجی ماحول، معاشرتی رجحانات اور بعض معاشرتی اقدار خاص طور پر دیہی آبادی میں بڑے خاندانوں کی اہمیت کے تصور اور کم عمری میں شادی کے رجحانات نے بھی اضافہ آبادی کی رفتار کو تیز تر کرنے میں اہم کردار ادا کیا۔ اس وقت کسی حکومت نے اس مسئلہ کے نتائج و عواقب کے لحاظ سے اس کی طرف سنجیدگی سے توجہ دینے کی ضرورت اور اہمیت کا احساس تک نہ کیا البتہ ستر کی دہائی میں محکمہ خاندانی منصوبہ بندی کے تحت بعض منظم کوششوں کا آغاز کیا گیا جن کا مقصد عوام میں اضافہ آبادی سے پیدا ہونے والے مسائل کے متعلق شعور پیدا کرنا اور آبادی پر کنٹرول کرنے کے لئے حکومتی پروگراموں میں ان کا تعاون حاصل کرنا تھا۔ یہ وہ دور تھا جب تلاش روزگار کے لیے دیہات سے شہروں کی طرف انتقال آبادی کے عمل میں زبردست تیزی کی وجہ سے شہروں میں رہائش، تعلیم اور علاج معالجہ کے مسائل بڑھ رہے تھے۔ اس وقت آبادی میں اضافہ کی شرح 3.66فیصد تھی۔ آبادی پر کنٹرول کرنے کے لیے حکومتی کاوشوں اور تلاش روزگار کے لیے لاکھوں پاکستانیوں کے بیرونی ملکوں میں چلے جانے کی وجہ سے 80کی دہائی میں اضافہ آبادی کی شرح کم ہو کر صرف 3فیصد رہ گئی۔ اس وقت یہ شرح 1.86فیصد ہے لیکن اگر یہ بھی برقرار رہی تو آئندہ 38سال میں پاکستان کی آبادی دوگنی یعنی 30کروڑ سے تجاوز کر جائے گی تاہم حکومت کی کوشش یہ ہے کہ عوام میں اضافہ آبادی کی موجودہ شرح سے پیدا ہونے والے مسائل اور خاندانی منصوبہ بندی کی اہمیت کے شعور کو فروغ دے کر 2020تک آبادی کو ساڑھے 19کروڑ سے بڑھنے نہ دیا جائے۔ ساڑھے 15کروڑ سے زائد آبادی والا ملک ہونے کے اعتبار سے پاکستان کا شمار اس وقت آبادی کے حوالے سے دنیا کے چھ بڑے ملکوں میں ہوتا ہے۔ شرح پیدائش میں کمی اور آبادی پر کنٹرول کرنے کی کوششوں کی نیم خواندہ، قدامت پسند اور مذہبی تعلیمات کا مکمل علم نہ رکھنے والے طبقوں کی طرف سے ہمیشہ مخالفت کی جاتی رہی ۔ سابقہ حکومتوں کی ایک غلطی یہ رہی کہ انہوں نے اس مقصد کے لیے علمائے کرام اور مذہبی طبقوں کا تعاون حاصل کرنے کی کوئی کوشش نہ کی۔ یہ کریڈٹ بھی موجودہ حکومت کو جاتا ہے کہ اس نے معاشی ترقی، اقتصادی استحکام، غربت و افلاس کے خاتمے، تعلیم اور علاج معالجہ کی سہولتوں کے پروگراموں پر اضافہ آبادی کے ناخوشگوار اثرا ت سے عوام کو آگاہ کرنے کے لیے ٹھوس حکمت عملی وضع کی ہے۔ مسلمان ملکوں کے تجربات سے فائدہ اٹھانے کے ساتھ ساتھ خواتین میں خاندانی منصوبہ بندی کا صحت مند شعور پیدا کرنے کی کوششیں کی جا رہی ہیں اور اس احساس کو ہر سطح پر مثبت انداز میں اجاگر کرنے کی حکمت عملی اختیار کی گئی ہے کہ آبادی کے متوازن حجم کے بغیر عوامی فلاح و بہبود اور تعمیر و ترقی کے پروگرام بار آور اور نتیجہ خیز ثابت نہیں ہو سکتے اور نہ ہی آبادی کی منصوبہ بندی کے بغیر طے شدہ مقاصد حاصل کئے جا سکتے ہیں۔ بہبود آبادی کے پروگراموں میں علماء، مذہبی سکالرز، ترقی پسند اور روشن خیال دانشوروں کا تعاون حاصل کیا جا رہا ہے۔ پاکستان کی تاریخ میں یہ پہلا موقع ہے کہ ان پروگراموں کو زیادہ موثر بنانے اور ان پر عوام کے اعتماد میں اضافہ کرنے کے لیے 13ہزار علمائے کرام کی تربیت کا اہتمام کیا گیا ہے۔ خواتین کو بھی علماء کے اس پروگرام میں شریک کیا جا رہا ہے تاکہ وہ لوگوں بالخصوص خواتین میں صحت مند شعور اور اس پروگرام کی افادیت واضح کر سکیں۔ اگر قومی وسائل تسلسل کے ساتھ آبادی میں ہونے والے اضافے کی زد میں رہیں تو عوام کا معیار زندگی بہتر نہیں ہو سکتا اور یہ بھی حقیقت ہے کہ جب تک حکومت آبادی کی منصوبہ بندی کے لیے طے شدہ مقاصد کے حصول میں کامیاب نہیں ہوتی اس وقت تک معیار زندگی بلند کرنے کے لیے عوام کے ساتھ کیے جانے والے وعدوں کو بھی عملی جامہ پہنانا ممکن نہیں ہو گا۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ حکومت اسلامی تعلیمات کی روشنی میں خاندانی منصوبہ بندی سے متعلق غلط فہمیوں کے ازالے کے لیے مربوط ، منظم اور مدلل کوششوں کو آگے بڑھائے۔ علمائے کرام اور مذہبی سکالرز ان کوششوں کو کامیاب بنانے میں بڑا تعمیری کردار ادا کر سکتے ہیں۔ ان کوششوں میں مثبت پیش رفت حوصلہ افزا تسلسل اور آبادی میں ہونے والے اضافے کے تمام معاملات اور پہلوؤں کا جائزہ لینے کے لیے حکومت نے پاپولیشن کمیشن بھی قائم کیا ہے ۔حکومت کا یہ بھی فرض ہے کہ زیر تربیت 13ہزار علماء، پاپولیشن کمیشن، این جی اوز اور بہبود آبادی کے پروگراموں میں مصروف تمام سرکاری اداروں کے درمیان مکمل ہم آہنگی پیدا کر کے ان کی کوششوں کو آگے بڑھائے اور ان کی موثر مانیٹرنگ کا بھی اہتمام کرے۔ ان کی مانیٹرنگ سے ان پروگراموں پر عوام کے اعتماد میں نہ صرف اضافہ ہو گا بلکہ ان کے اس احساس اور تاثر کو بھی تقویت ملے گی کہ آبادی میں بے ہنگم اضافہ نہ صرف قومی وسائل، معیشت اور حکومتی منصوبہ بندی پر اثر انداز ہوتا ہے بلکہ اس پر قابو پائے بغیر معیار زندگی بلند کرنے کا تصوربھی حقیقت کا روپ اختیار نہیں کر سکتا۔
     
  2. موٹروے پولیس
    آف لائن

    موٹروے پولیس ممبر

    شمولیت:
    ‏26 مئی 2006
    پیغامات:
    1,041
    موصول پسندیدگیاں:
    2
    بہت خوب

    اگر آبادی اسی طرح بڑھتی رہی تو موٹر وے بھی جی ٹی روڈ بن جائے گا موٹر وے کی خوبصورتی برقرار رکھنے کیلئے آبادی پر کنٹرول انتہائی ضروری ہے
     
  3. الف لام میم
    آف لائن

    الف لام میم ممبر

    شمولیت:
    ‏23 مئی 2006
    پیغامات:
    331
    موصول پسندیدگیاں:
    1
    ساتھی کا شکریہ اور موٹروے پولیس کا ساتھی سے بھی زیادہ شکریہ۔ :p
     
  4. ساجد
    آف لائن

    ساجد ممبر

    شمولیت:
    ‏30 مئی 2006
    پیغامات:
    61
    موصول پسندیدگیاں:
    18
    Re: آبادی پر موثر کنٹرول کے بغیر مع

    بالکل ٹھیک کہا مقدار نہیں معیار چاہیے۔
     
  5. پٹھان
    آف لائن

    پٹھان ممبر

    شمولیت:
    ‏27 مئی 2006
    پیغامات:
    514
    موصول پسندیدگیاں:
    2
    آپ کو اپنی پڑی ہے بات پورے ملک ہے پیارے
     

اس صفحے کو مشتہر کریں