1. اس فورم پر جواب بھیجنے کے لیے آپ کا صارف بننا ضروری ہے۔ اگر آپ ہماری اردو کے صارف ہیں تو لاگ ان کریں۔

ء۵ عظیم اساتذہ

'فروغِ علم و فن' میں موضوعات آغاز کردہ از صدیقی, ‏1 نومبر 2012۔

  1. صدیقی
    آف لائن

    صدیقی مدیر جریدہ سٹاف ممبر

    شمولیت:
    ‏29 جولائی 2011
    پیغامات:
    3,476
    موصول پسندیدگیاں:
    190
    ملک کا جھنڈا:
    5عظیم اساتذہ
    ماہ نور فیصل


    حکیم الامت علامہ اقبالؒ​
    علامہ اقبالؒ ایک کثیر الجہات شخصیت تھے۔ ان کی معروف ترین حیثیت ایک شاعر کی ہے مگر اس حیثیت میں بھی وہ روایتی شاعروں سے مختلف اور منفرد مقام رکھتے ہیں۔ اگر آپ اقبال کی سب حیثیتوں کو دیکھیں تو معلوم ہوگا کہ اپنی ان سب حیثیتوں میں اقبال نے ہمیں کسی نہ کسی شکل میں ایک نیا راستہ دکھایا۔کچھ نئے تصورات عطا کیے اور ایک نئے سرمدی نغمہ کے ذریعہ سے ہمارے ساز دل کو چھیڑا…غور فرمائیے تو ان سب حیثیتوں میں ایک معلم کی قدر مشترک نظر آتی ہے…شاعری ہو یا ان کے فلسفیانہ خطبات، دینی فکر کی تجدیدہو یا سیاسی جدوجہد کا مرحلہ… ہر قدم پر وہ ہمیں کچھ بتاتے، کچھ سکھاتے اور کسی نہ کسی نکتہ کی تعلیم دیتے نظر آتے ہیں۔

    ایک معلم کا کام یہ ہوتا ہے کہ وہ افکار کا تجزیہ و تنقیح کرے، کھرے اور کھوٹے کو الگ کر دکھائے، متعلمین کے اندر حق و باطل کا امتیاز پیدا کرے، نیکی اور بدی کا فرق بتائے۔ یہی علم ہے اور متعلمین کے قلوب و اذہان کو شعور علم کے اسی نور سے روشن کرنا، معلم کے منصب کا تقاضا ہے اور اس کا فریضہ بھی۔ علامہ اقبالؒ کی پوری شاعری اس اجمال کی تفصیل ہے۔ ان کی شاعری کو کہیں سے بھی پڑھیے ہر جگہ ایک معلم کی حیثیت نمایاں نظر آتی ہے۔

    علامہ اقبال: بطور معلم​
    یہ تو مختصر سا ذکر تھا ایک شاعر کی معلمانہ حیثیت کا …مگر اہم بات یہ ہے کہ اس شاعر نے اپنی زندگی کا ایک حصہ لفظی اور لغوی معنوں میں بھی ایک ’’معلم‘‘ کی حیثیت سے بسر کیا۔آپ کی معلمانہ زندگی کا آغاز یونیورسٹی اورینٹل کالج لاہور سے ہوا۔ ایم اے کرنے کے بعد ۱۳ مئی ۱۸۹۹ء کو وہ اورینٹل کالج میں ’’میکلوڈ عریبک‘‘ ریڈر مقرر ہوئے۔ ان کے منصبی فرائض میں تاریخ اور پولیٹیکل اکانومی کی تدریس کے علاوہ انگریزی اور عربی تصانیف کا اردو ترجمہ بھی شامل تھا۔

    ۱۹۰۵ء کی تعطیلات گرما تک مختلف اوقات میں ۳ بار وہ اورینٹل کالج سے رخصت لے کر گورنمنٹ کالج لاہور میں بھی درس دیتے رہے۔ ۱۹۰۵ء میں ۳ سال کی رخصت(بلا تنخواہ)لے کر اعلیٰ تعلیم کے لیے وہ انگلستان چلے گئے…قیام انگلستان کے دوران انہوں نے لندن یونیورسٹی میں ۶ ماہ تک عربی زبان کی تدریس کا فریضہ انجام دیا۔ انگلستان میں قیام کے زمانے ہی میں انھوں نے معلمی کے بجائے وکالت کا پیشہ اپنانے کا فیصلہ کرلیا اور وہیں سے ۲۲ جنوری ۱۹۰۸ء کو ملازمت سے استعفا لکھ بھیجا۔ بعد ازاں ہائی کورٹ میں قانونی پریکٹس کے زمانے میں پروفیسر جیمز کی اچانک وفات پر علامہ اقبال سے درخواست کی گئی کہ وہ ایم اے فلسفہ کی جماعتوں کو درس دیا کریں۔

    یکم جنوری ۱۹۱۱ء کو انھوں نے گورنمنٹ کالج سے تدریسی تعلق منقطع کر لیا۔ کئی سال بعد علامہ اقبال نے ۲ ماہ تک اسلامیہ کالج لاہور کے فلسفہ کے طالب علموں کو درس دیا مگر یہ باقاعدہ ملازمت نہ تھی۔ طلبہ علامہ کے گھر آکر درس لیتے رہے۔علامہ اقبال نے معلمی کا پیشہ مستقل طور پر نہیں اپنایا کیونکہ ملازمت کی پابندیاں ان کی افتاد طبع کے خلاف تھیں اور وہ ایک آزاد منش انسان تھے ۔ایک بار پرنسپل نے ان سے قدرے تحکمانہ لہجہ میں بات کی تو ملازمت سے ان کا دل کھٹا ہوگیا۔

    علامہ اقبال: اپنے طلبہ کی نظر میں​
    جن لوگوں نے علامہ اقبال سے براہِ راست درس لیا ان کے مطابق وہ ایک کامیاب معلم تھے۔ اقبال کے ایک شاگرد اور معروف ناول نگار ایم اسلم لکھتے ہیں:’’ان کے پڑھانے کا طریقہ اتنا دلکش تھا کہ غالباً ان کے پیریڈ میں تمام اساتذہ کے مقابلہ میں زیادہ حاضری ہوتی جو ان کی مقبولیت اور لیاقت کا منہ بولتا ثبوت تھا۔ وہ پنجابی طلبہ کی کمزوریوں سے پوری طرح واقف تھے اس لیے انگریزی الفاظ کی ادائی میں بہت احتیاط برتتے تھے جس سے ایک ایک لفظ آسانی سے سمجھ آجاتا۔ان کے پڑھانے کا طریقہ اتنا موثر ہوتا کہ سبق کلاس ہی میں یاد ہوجاتا۔‘‘

    علامہ اقبال: نئی نسل کی تربیت کا خیال​
    علامہ اقبال کو ایک استاد کی حیثیت سے بخوبی احساس تھا کہ غلامی کے ماحول میں جدید علوم کی تدریس کے ساتھ طلبہ کی اخلاقی ،مذہبی اور ذہنی تربیت کی اشد ضرورت ہے۔ اسی احساس کے پیش نظر وہ طلبہ کے ذہنوں کی تعمیری خطوط پر تشکیل میں ہمیشہ کوشاں رہے۔ جن دنوں اسلامیہ کالج لاہور کے طلبہ کو فلسفہ پڑھا رہے تھے اکبر الٰہ آبادی کے نام ایک خط میں لکھا’’ ان لیکچروں کے بہانے ان لڑکوں کے کان میں کوئی نہ کوئی مذہبی نکتہ ڈالنے کا موقع مل جاتا ہے ۔‘‘

    علامہ اقبال: کتابوں کے مرتب اور ممتحن​
    تعلیم و تعلم اور درس و تدریس سے علامہ اقبال کی وابستگی کا ایک پہلو یہ بھی ہے کہ انہوں نے مختلف جماعتوں کے لیے اردو اور فارسی کی متعدد کتابیں مرتب کیں۔ مڈل کی چاروں جماعتوں کے لیے اردو کورس کی ۴ کتابیں اور میٹرک کے لیے فارسی کی ایک کتاب’’ آئینہ عجم‘‘ ٹیکسٹ بک کے طور پر عرصہ دراز تک رائج رہیں۔ تعلیم و تعلم سے علامہ اقبال کی وابستگی کا ایک اور پہلو یہ کہ وہ عرصۂ دراز تک جامعہ پنجاب اور برصغیر کی دیگر جامعات کے مختلف امتحانوں کے ممتحن کے فرائض انجام دیتے رہے ۔بحیثیت مجموعی یہ کہنا غلط نہ ہوگا کہ علامہ اقبال ایک معیاری اور مثالی معلم تھے۔ یہ درست ہے کہ معلمی کے پیشہ سے ان کی باقاعدہ وابستگی کچھ زیادہ طویل نہیں مگر تعلیم و تعلم سے ان کا واسطہ عمر بھر رہا۔ وہ علم کے منصب اس کے تقاضوں اور نزاکتوں سے بخوبی آگاہ تھے۔

    علامہ اقبال کی نظر میں استاد کا مقام​
    مناسب ہوگا کہ اگر اس تحریر کا خاتمہ علامہ اقبال کے ایک ایسے مضمون کی اختتامی سطور پر کیا جائے جو انھوں نے اپنے زمانۂ معلمی کے ابتدائی ایام میں لکھا تھا۔ معلم کے منصب و فرائض کے بارے میں علامہ اقبال کی یہ تحریر آج بھی ہمارے لیے راہ نما کی حیثیت رکھتی ہے۔ لکھتے ہیں : ’’ معلم حقیقت میں قوم کے محافظ ہیں کیونکہ آئندہ نسلوں کو سنوارنا اور ان کو ملک کی خدمت کے قابل بنانا انہی کی قدرت میں ہے۔ سب محنتوں سے اعلی درجہ کی محنت اور سب کار گزاریوں سے زیادہ بیش قیمت کار گزاری ملک کے معلموں کی کارگزاری ہے۔ اگرچہ بدقسمتی سے اس ملک میں اس مبارک پیشہ کی وہ قدر نہیں جو ہونی چاہیے۔

    معلم کا فرض تمام فرائض سے زیادہ مشکل اور اہم ہے کیونکہ تمام قسم کی اخلاقی،تمدنی اور مذہبی نیکیوں کی کلید اسی کے ہاتھ میں ہے اور تمام قسم کی ملکی ترقی کا سرچشمہ اسی کی محنت ہے۔ پس تعلیم پیشہ اصحاب کے لیے ضروری ہے کہ وہ اپنے پیشہ کے تقدس اور بزرگی کے لحاظ سے اپنے طریق تعلیم کو اعلیٰ درجے کے علمی اصولوں پر قائم کریں جس کا نتیجہ یقینا یہ ہوگا کہ ان کے دم قدم کی بدولت علم کا ایک سچا عشق پیدا ہوجائے گا جس کی گرمی میں وہ تمدنی اور سیاسی سرسبزی مخفی ہے جس سے قومیں معراج کمال تک پہنچ سکتی ہیں۔‘‘



    (فیض احمد فیض (ایک ذمہ دار اُستاد​
    فیض صاحب کے بارے میں انگریزی اور اردو میں بہت کچھ لکھا گیا اور لکھا جاتا رہے گا لیکن میں نے محسوس کیا کہ ان کی شروع کی زندگی جو ایم اے او کالج سے وابستہ تھی اس کے بارے میں شاید ہی کچھ لکھا گیا ہو حالانکہ ان کے شاگردوں میں اچھے خاصے لکھنے والے لوگ موجود تھے، جیسے ظہیر کاشمیری، عارف عبدالمتین، سیف الدین سیف، ذکی الدین پال وغیرہ ، اُن میں سے کوئی بھی یہ کام بڑے احسن طریقے سے کرسکتا تھا کیونکہ یہ سب لوگ ادبی شغف رکھنے کی وجہ سے ان کے کافی قریب رہے اور اس لیے ان کے بارے میں مجھ سے کہیں زیادہ جانتے ہوں گے۔ خود میرا تو پڑھنے لکھنے کا معاملہ ذرا ایسا ویسا ہی تھا اور ہے۔

    امرتسر ۴۰-۱۹۳۹ء
    اس زمانے میں امرتسر میں ۳ کالج تھے۔ خالصہ کالج، ہندو سبھا کالج اور ایم اے او کالج۔ تقریباً سبھی مسلمان لڑکے میٹرک پاس کرنے کے بعد ایم اے او کالج میں داخلہ لیتے تھے۔ چنانچہ میں اور میرے بہت سے ہم جماعت ۱۹۳۹ء میں اسی کالج میں داخل ہوگئے۔ ایم اے او کالج کے اس وقت کے سبھی اساتذہ بڑے اعلیٰ تعلیم یافتہ تھے۔ کالج کے پرنسپل ڈاکٹر ایم ڈی تاثیر تھے۔ اساتذہ میں سید کرامت حسین جعفری،پروفیسر عظیم، پروفیسر شیر محمد اور دیگر کئی صاحبان تھے جنھوں نے قیام پاکستان کے بعد تعلیم کے شعبہ میں بڑا نام پایا اور پھر فیض صاحب بھی تھے ۔

    امرتسر میں مشاعرہ​
    اُنہی دنوں انجمن ترقی پسند مصنفین کے زیر اہتمام امرتسر کے ٹاؤن ہال میں ایک مشاعرہ ہوا۔ہمارے ہم جماعت عارف عبد المتین (جنھوں نے بعد میں ایک ادیب اور شاعر کے طور پر بڑا نام پایا ) بطور سٹیج سیکر ٹری خدمات انجام دے رہے تھے۔ ہم سب طالب علم بھی اس مشاعرے میں شامل تھے۔بہت سے دیگر شعرا کے علاوہ فیض صاحب بھی تشریف لائے اور آکر پر نیچے بیٹھ گئے۔ طلبا اور منتظمین انہیں سٹیج پر بیٹھنے کا کہتے رہے لیکن وہ وہیں دیر تک بیٹھے رہے۔ انھوں نے سفید رنگ کی شیروانی پہن رکھی تھی جو ان پر بڑی سج رہی تھی۔ باری پر اپنا کلام سنایا اور خوب داد وصول کی۔کون سی نظم سنائی، یہ تو اب یاد نہیں ۔

    فیض صاحب کی شاعری کے بارے میں ہم طالب علموں نے پہلے ہی سے سن رکھاتھا، اس لیے کالج میں داخلہ کے وقت جہاں اور بہت سی باتوں کا اشتیاق تھا، وہاں فیض صاحب کو دیکھنے اور ملنے کی بھی بڑی خواہش تھی۔ شاعروں کے بارے میں عام تاثر تو یہ ہے کہ یہ مجذوب سے لوگ ہوتے ہیں لیکن فیض صاحب کو جب دیکھا تو بڑی حیرت ہوئی۔ وہ نہ صرف ویری ویل ڈریسڈ تھے بلکہ ان کا لوک بڑا صاف ستھرا تھا۔ وہ عام طور پر پتلون اور شرٹ پہنتے تھے اور سردیوں میںپتلون کوٹ اور ٹائی اور میں یہ بات بڑے وثوق سے کہہ سکتا ہوں کہ وہ نہایت خوبصورت تھے پتلے،دْبلے،گھنگھریالے بال، کشادہ پیشانی اور قدرے ویران آنکھیں جو ان کے حسن میں بڑا اضافہ کرتی تھیں۔

    ان دنوں امرتسر میں موٹر گاڑیاں چند ہی ہوں گی۔ پروفیسر صاحبان اکثر کالج سائیکلوں پر آتے تھے۔ فیض صاحب کو بھی کئی بار سائیکل پر ہی کالج آتے دیکھا۔ ہاں البتہ ڈاکٹر تاثیر کے پاس ایک بگھی تھی اور وہ کالج اسی بگھی میں آیا کرتے تھے۔ پائپ بہت پیتے تھے۔بگھی سے اترتے وقت اکثر ان کے منہ میں پائپ ہوتا تھا۔ فیض صاحب انگریزی نظم پڑھاتے تھے۔ ان کی کلاس کا ہم سب کو بڑا شوق ہوتا تھا اور وقت سے پہلے ہی ہال لڑکوں سے بھر جاتا تھا۔ ہم میں ایک لڑکا شہباز ہوتا تھا، جو پڑھائی میں تو ایسا ہی تھا مگر ہوشیار بہت تھا۔ جب تک فیض صاحب نہ آتے،پروفیسر والی کرسی کے پاس کھڑا ہوکر ان کی نقل کرتا،کبھی ہماری رول کال کرتا اور کبھی ان کی آواز میں ہم سے مخاطب ہوتا۔

    فیض صاحب کھیل کے میدان میں
    فیض صاحب کو کرکٹ کا بہت شوق تھا۔ ایک میچ جو اساتذہ اور ایم اے او کالج کی کرکٹ ٹیم کے مابین الیگزینڈر گرائونڈ میں کھیلا گیا۔ ان دنوں ایم اے او کالج کی ٹیم بہت اچھی تھی۔ مروت حسین شاہ کپتان تھے۔ اساتذہ میں فیض صاحب، کے ایم اصغر اورر دوسرے کئی پروفیسر تھے۔ ڈاکٹر تاثیر بھی گراؤنڈ میں موجود تھے، مگر صرف تماشائی کے طور پر۔ طالب علم بھی کافی تعداد میں بیٹھے تھے۔کھیل شروع ہوا تو مروت حسین کو کہا گیا کہ وہ پوری سپیڈ سے گیند نہیں کریں گے۔ فیض صاحب کھیلنے کے علاوہ امپائر کی خدمات بھی انجام دے رہے تھے۔ ان کی ایمپائری میں ایک پروفیسر صاحب کو ان سے گلہ رہا کہ انہیں صفر پر کیوں آؤٹ دے دیا، کہہ رہے تھے کچھ تو رعایت کی ہوتی۔ فیض صاحب کہنے لگے کہ بھائی میں کیا کرتا پہلے ہی گیند پر آپ کیچ ہوگئے۔میں نے اس گیند کو ’نو بال‘ دے دیا۔ اگلے ہی بال پر آپ کی وکٹ گر گئی میں نے پھر رعایت کی اور کہا کہ آپ ابھی تیار نہ تھے۔ پھر آپ ایل بی ڈبلیو ہوگئے۔ میں کیا کرتا۔ آخر امپائر کی بھی کوئی ذمہ داری ہوتی ہے۔

    دوسرا واقعہ ایم اے اوکالج اور خالصہ کالج کے درمیان کرکٹ میچ جو یونیورسٹی ٹورنامنٹ کے سلسلہ میں کھیلا جارہا تھا، اس کے بارے میں ہے۔ یہ میچ بھی الیگزینڈر گراؤنڈ میں تھا۔ ہم سب سٹوڈنٹس تو سٹیڈیم کی سیڑھیوں پر بیٹھے تھے۔ خالصہ کالج کے سٹاف کے ساتھ کچھ خواتین بھی تھیں۔ فیض صاحب سے ایک سردارنی صاحبہ بار بار مخاطب ہورہی تھیں۔ فیض صاحب نے غالباً اس کا کوئی جواب دینے کے لیے یا نہ جانے کیوں اپنی کرسی اٹھائی اور ان سردارنی صاحبہ اور ان کے ہمراہ جو سردار صاحب تھے، کے درمیان جگہ بنائی اور وہاں بیٹھ گئے۔ہم سٹوڈنٹ جو خواہ مخواہ بڑے رومینٹک ہو رہے تھے بڑے خوش ہوئے اور پتا نہیں کیا کیا سوچتے رہے۔

    فیض صاحب ایک ذمہ دار استاد​
    فیض صاحب ایک ذمہ دار استاد بھی تھے۔ ۱۹۴۰ء کے آخر میں جب ہمارے ایف اے کے امتحان کے چندماہ باقی تھے پتا چلا کہ آپ ایم اے او کالج چھوڑ رہے اور ہیلی کالج آف کامرس جا رہے ہیں۔ ہماری پوئٹری کا ابھی کچھ کورس باقی تھا اور ہم فکر مند تھے کہ یہ کیسے پورا ہوگا کہ ایک دن انھوں نے خود ہی کہا کہ باقی کورس کے لیے وہ اگلے چند روز گھر پر شام کو کلاسز لیا کریں گے اور جانے سے پہلے کورس مکمل کر جائیں گے۔ چنانچہ ہم تقریباً ایک ہفتہ ان کے گھر جاتے رہے۔ ان کا سول لائنز میں ایک چھوٹا سا بنگلہ تھا جس میں وہ غالباً اکیلے رہتے تھے۔

    شام کی کلاسز کا سلسلہ جس دن ختم ہوا تو ہم سب نے ان سے اپنا کلام سنانے پر اصرار کیا جو وہ عین شفقت سے مان گئے اور دو تین نظمیں سنائیں۔اس کے بعد ایم اے او کالج کی پڑھائی کے زمانے میں ان سے کبھی ملاقات نہیں ہوئی۔بی اے پاس کرنے کے بعد ہم سب لوگ بکھر گئے لیکن نصف صدی سے زیادہ عرصہ گزر جانے کے باوجود فیض صاحب کی یاد ہمارے دلوں میں بسی ہوئی ہے۔
    ٭٭٭


    شیخ امتیاز علی​
    (ء۹۰ سال کی عمر میں بھی سحر طاری کرنے والے)
    ملک کے تعلیمی اور ثقافتی مرکز لاہور کے لیے یہ بات یقینا باعثِ افتخار ہے کہ شیخ امتیاز علی جیسی شخصیت یہاں رہایش پذیر ہے۔ ایک عظیم استاد، اعلیٰ منتظم ،سچا پاکستانی اور انتہائی با اصول انسان، اس طرح کا لیونگ لیجنڈ یورپ کے کسی ملک میں ہوتا تو اس کی شخصیت پر تھیسز لکھے جاتے ۔اس کے نام پر چوکوں اور شاہراؤں کے نام رکھے جاتے اور ٹی وی اینکر ز انٹرویو کے لیے اس کے گھر کے باہر منڈلاتے رہتے۔ مگر ہمارے ہاں کے معیار بے ہودہ اور ترجیحات فرسودہ ہیں۔ ذہنی پستی کا اس سے بڑا ثبوت کیا ہو سکتا ہے کہ ہمارے معاشرہ میں ٹیچر غیر اہم ہے اور تحصیلدار اور تھانیدار وی آئی پیز ہیں۔

    ء۹۰ برس کا پر عزم پروفیسر
    چند ہفتے قبل ڈی ایم جی کے زیر تربیت افسروں کو لیکچر دینے کے لیے میں اکیڈمی پہنچا تو شیخ امتیاز علی صاحب لیکچر دے کر نکل رہے تھے۔میں نے حیران ہوکر پوچھا شیخ صاحب اب بھی لیکچر دینے آتے ہیں۔ معلوم ہوا کہ ۹۰ سال کی عمر میں بھی یہ عظیم استاد جوانوں کے سے جوش و جذبے کے ساتھ علم کا نور بانٹ رہا ہے۔ شیخ صاحب خود کار چلا کر لیکچر دینے کے لیے نہ صرف باقاعدگی سے آتے ہیں بلکہ اپنے مضمون پر ان کی گرفت حیرت انگیز حد تک قائم ہے اور تربیت گاہ میں ہر سال شیخ صاحب کو ہی مقبول ترین سپیکر/لیکچرر قرار دیا جاتا ہے۔

    پنجاب یونیورسٹی لاء کالج کا عظیم پرنسپل
    برسوں پہلے علی گڑھ یونیورسٹی سے اوّل آنے والے نوجوان کو دہلی یونیورسٹی میں لیکچرر تعینات کردیا گیا۔ آزاد ملک بننے کے بعد وہ پنجاب یونیورسٹی لاء کالج سے وابستہ ہوگئے اور صرف ۳۳ سال کی عمر میں ان کے سر پر برصغیر میں قانون کی سب سے بڑی درس گاہ کی سربراہی کا تاج رکھ دیا گیا۔ اسی درس گاہ میں مَیں نے بھی دوسرے ہزاروں طالب علموں کی طرح شیخ صاحب سے بہت کچھ پڑھا اور سیکھا۔قانون کے ضابطے بھی اور زندگی کے اصول بھی۔کالج کی مختلف تقریبات میں مجھ سمیت اکثر مقررین نہ صرف کہا کرتے بلکہ دل سے مانتے تھے کہ یونیورسٹی لاء کالج کی امتیازی حیثیت شیخ امتیاز علی کی مرہون منت ہے۔

    اُصولوں پر سمجھوتا نہ کرنے والا شخص
    شیخ صاحب لاء کالج کے پرنسپل،پنجاب یونیورسٹی لاہور اور قائد اعظم یونیورسٹی اسلام آباد کے وائس چانسلر رہے،تعلیم کے مشیر اور وزیر بھی رہے۔وہ جہاں بھی رہے ان کے ایک ہاتھ میں قانون کی کتاب اور دوسرے میں اصولوں کا پرچم نظر آیا۔ نہ کتاب بند ہوئی اور نہ کبھی اصولوں کا پرچم سرنگوں ہوا۔ جب بھی حکمرانوں کی خواہشات اصولوں سے متصادم ہوئیں ہمیشہ اُصول فتح یاب رہے۔شیخ صاحب پنجاب یونیورسٹی کے وائس چانسلر تھے کہ وقت کے حکمران نے بلا کر کہا’’ یونیورسٹی انتخابات میں ہمارے امیدوار جیتنے چاہئیں۔‘‘ شیخ الجامعہ نے دو ٹوک جواب دیا’’ طلباء کی سیاست سے وائس چانسلر کا کیا سروکار؟‘‘ اُدھر سے اصرار بڑھا ،اِدھر سے انکار ہوا۔بالآخر وائس چانسلر کا چوغہ گورنر ہاؤس میں ہی اتار کر واپس آگئے۔

    ء۷۰ کی دہائی میں جب کہ عوامی حکومت کا زور شور گلیوں اور بازاروں میں بھی تھا اور قومی اداروں میں بھی ایک مرکزی وزیر سینٹ ہال میں جلسہ کرنا چاہتے تھے۔ جامعہ پنجاب کے سربراہ نے سیاسی جلسہ کی اجازت نہ دی…اُدھر حکومت اور اقتدار کی آن بان…ادھر اصول اور کردارکی شان۔ ضد بڑھی تو وائس چانسلر نے سینٹ ہال کو تالے لگوا دیے۔ اصولوں نے حاکمانہ ضد کو شکست دے دی ۔ حاکموں کو اصول صرف تقریروں میں اچھے لگتے ہیں، اصول عملی طور پر نافذ بھی ہوجائیں…یہ کسی طور گوارا نہیں۔ ۸۰ کی دہائی میں فوجی حکمران نے قائد اعظم یونیورسٹی میں داخلہ کے لیے کسی کی سفارش کی۔ وائس چانسلر کی حیثیت سے شیخ صاحب نے انکار کر دیا کہ داخلہ قواعد و ضوابط کے منافی تھا… آمر نے اصرار کیا تو شیخ الجامعہ کو کہنا پڑا کہ مسٹر پریذیڈنٹ ’’ آپ کی خواہش مان لی گئی تو یونیورسٹی تباہ ہوجائے گی‘‘ مقتدر حاکم کو بااصول منتظم کے آگے سرجھکانا پڑا۔

    ہزاروں طلبہ کومستفید کرنے والا انسان​
    یونیورسٹی لاء کالج اور پنجاب اور اسلام آباد کی جامعات کے ذرّے ذرّے پر شیخ صاحب کے نقوشِ پا آج بھی موجود ہیں۔ ان کے درو دیوار گواہ ہیں کہ ان درس گاہوںکو پھر نہ شیخ صاحب جیسا اُستاد نصیب ہوا اور نہ ان جیسا منتظم۔ لاء کالج اور یونیورسٹی میں شیخ صاحب کے رعب اور دبدبہ کے آگے ہر چیز دب جاتی تھی۔ وہ بڑے بڑے پھنے خاں قسم کے بدمعاشوں کو گریبان سے پکڑ کر کلاس سے نکال دیتے مگر کسی میں سر اُٹھانے کی جرأت نہیں ہوتی تھی۔ داخلہ ۱۰۰ فیصد میرٹ پر ہوتا تھا۔ اس سلسلہ میں نہ حکمرانوں کی مانتے اور نہ سٹوڈنٹس یونین کے عہدیداروں کو خاطر میں لاتے تھے۔ شیخ صاحب کے ہزاروں شاگرد اعلیٰ ترین مناصب پر فائز رہے اوراب بھی ہیں۔ ان کے شاگردوں میں سے ۵ چیف جسٹس آف پاکستان رہے مگر شیخ صاحب جن شاگردوں کے نام فخر سے لیتے ہیں ان میں یہ پانچوں شامل نہیں ہیں۔

    ٭ نہ غرورِعلم نہ تکبراور شہرت سے بے نیازی​
    اولڈ راوینز ایسوسی ایشن مبارکباد کی مستحق ہے کہ اس نے اپنے سالانہ عشائیے۲۰۱۲ء میں مہمان خصوصی کے طور پر اس عظیم اُستاد کو مدعو کیا۔ دعوت دینے کا فریضہ میرے ذمہ تھا۔ پہلے تو شیخ صاحب نے صاف انکار کردیا ،میں نے بے حد اصرار کیا تو وہ ایک مودّب شاگرد کی ضد بھری درخواست ٹھکرا نہ سکے، شائد اس لیے بھی کہ شاگرد اُستاد کی چوکھٹ سے خالی ہاتھ نہیں لوٹتے ۔ چیف آرگنائزر نے اپنی تقریر میں وضاحت کی کہ مہمانِ خصوصی کے انتخاب میں ہم یہ نہیں دیکھتے کہ کس کی گاڑی پر جھنڈا لگا ہے بلکہ یہ دیکھتے ہیں کہ کس نے ہاتھوں میں اصولوں کا پرچم اٹھا رکھا ہے تو حاضرین نے زور دار تالیوں سے اس اصول کو سراہا۔ کھانے پر ایک سینیٹر صاحب کہہ رہے تھے’’ شیخ صاحب کے خطاب نے حاضرین پر سحر طاری کردیا تھا یوں لگ رہا تھا جیسے ہارورڈ یا کیمبرج یونیورسٹی کا کوئی پروفیسر تقریر کر رہا ہے۔‘‘اللہ تعالیٰ شیخ صاحب کو بہت اچھی صحت عطا فرمائے تاکہ وہ ابلاغِ علم اور کردار سازی کا جہاد اسی جوش و ولولہ سے جاری رکھ سکیں۔



    پروفیسر وقار عظیم: ایک منفرد اور یکتا شخصیت​
    سید وقار عظیم اسم بامسمیٰ استاد تھے ان کی شخصیت نہایت باوقار اور بطور انسان اور ایک استاد کے وہ واقعی عظیم تھے۔آپ دسمبر ۱۹۰۹ء میں الٰہ آباد میں پیدا اور ۱۷ نومبر ۱۹۷۶ء کو لاہور میں پیوندخاک ہوئے۔ پروفیسر وقار عظیم ایک بڑے فیض رساں معلم اور نقاد ادب ہی نہیں ایک بہت بڑے انسان تھے۔ ہر لحاظ سے ہر مفہوم میں ایک بڑے شریف انسان تھے۔ آپ ایک متحمل مزاج انسان،شیریں بیان استاد اور وسیع المطالعہ نقاد تھے۔ان کو افسانوی ادب کا ماہر سمجھا جاتا ہے لیکن حقیقت یہ ہے کہ انھوں نے شعری ادب کے مختلف پہلوؤں پر کم مضامین نہیں لکھے۔ ان کے وسیع المطالعہ ہونے کا سب سے بڑا ثبوت ان کے تنقیدی مضامین ہیں جن کا دائرہ بے حد وسیع ہے ان کی تحریروں میں قدیم وجدید کی تخصیص کے بغیر بڑے مرتب اور غیر مبہم انداز میں اظہار رائے کیا گیا ہے۔ ان کی تنقیدات میں فلسفیانہ موشگافیاں نہیں ہیں۔ایک استاد کا سلجھا ہوا انداز بیان ہے۔ نقاد ادب ہونے کے ساتھ ساتھ وہ ایک عمدہ نصاب ساز بھی تھے۔

    سید وقار عظیم ہمارے ان اساتذہ میں شامل ہیں جنھوں نے ایک سے زائد نسلوں کی تربیت کی۔ آپ اپنے شاگردوں سے روائتی شفقت اور محبت کے سبب طا لب علموں میں ہردلعزیز استاد کے طور پر مقبول تھے ۔ اپنے مخصوص لباس کھڑے پاجامے اور اس پر خوبصورت شیروانی اور گلے میں مفلر اور پھر اپنے دھیمے اور مہذب لہجہ کے سبب پہلی نظر میں ملنے والے کو متاثر کیے بغیر نہ رہتے تھے۔ کلاس روم میں وہ ایک شفیق استاد اور کلاس روم سے باہر وہ اپنے طالب علموں سے اپنے بچوں کی طرح پیش آتے تھے۔ اس زمانہ میں ان کے فرزند انور وقار عظیم، اختروقار عظیم اور اطہر وقار عظیم نہایت تعظیم اور ادب کے ساتھ ان کے ہمراہ ہوتے اور وقار صاحب کے شاگردوں سے اپنے حقیقی بھائیوں کی طرح ملتے تھے۔

    وقار صاحب کے پڑھانے کا انداز تمام اساتذۂ کرام سے مختلف تھا۔ وہ داستان اور افسانہ اس خوبصورتی کے ساتھ پڑھاتے کہ جی چاہتا تھا کہ اُنھیں سنتے ہی چلے جائیں۔ اُنھوں نے یونیورسٹی اوریئنٹیل کالج میں بطور استاد اردو زبان و ادب کی جو اعلیٰ خدمات سر انجام دی ہیں وہ ہمیشہ یاد رکھی جائیں گی۔ یہی نہیں وہ پنجاب یونیورسٹی کے شعبۂ تالیف و ترجمہ کے بانی بھی تھے۔اس ادارے کے توسط سے انہوں نے اُردو زبان و ادب کے فروغ میں اہم کردار ادا کیا۔ تحقیق و تنقید میں ان کے مضامین اور کتابیں تمام اصناف ادب کے حوالے سے نہایت اہمیت کی حامل ہیں۔ ان کی بہت سی کتابوں سے اس زمانے میں نہ صرف ادب کے طالب علموں نے اکتساب فیض کیا بلکہ ادب کے قارئین نے بھی بہت کچھ استفادہ کیا اور آج بھی دنیائے ادب میں ان کے تخلیقی،تحقیقی اور تنقیدی کاموں سے قارئینِ ادب فیض یاب ہو رہے ہیں۔

    قدر دانوں اور شاگردوں کے تاثرات
    اُستاد مکرم سید وقار عظیم آج بھی اپنے بے شمار شاگردوں کے دلوں میں اپنی یادوں کا گلشن آباد کیے ہوئے ہیں۔ آپ نے ادب کے لیے جو کچھ چھوڑا ہے وہ یقینا یادگار رہے گا لیکن دلوں میں جو نقش چھوڑے ہیں وہ بھی محو نہیں ہوسکتے۔انہوں نے ایک طویل عرصہ تک طلبہ کی جو تربیت کی تھی اس نے بہت سے نقاد اور افسانہ نویس پیدا کیے۔ ذیل میں اُن کے کچھ قدر دانوں اور شاگردوں کے تاثرات درج کیے جارہے ہیں۔

    ٭…انتظار حسین کا کہنا ہے’’ وقار عظیم کی شخصیت میں امتیازی حیثیت یہ نظر آتی ہے کہ اُنھوں نے ایسے زمانے میں افسانہ پر لکھا جب شاعری کی تنقید پر زور تھا۔ میرے خیال میں وہ اردو افسانہ کے پہلے باقاعدہ نقاد ہیں۔ اس حیثیت سے مجھے اردو کے نقادوں میں ان کی شخصیت نمایاں نظر آتی ہے۔میں ان کی شخصیت سے بھی بے حد متاثر تھا۔وہ وضع داری اور دھیما پن جو مولانا الطاف حسین حالی سے منسوب چلا آرہا تھا،مجھے اس کا عکس وقار عظیم میں نظر آتا تھا بلکہ مجھے کبھی کبھی یوں محسوس ہوتا تھا کہ وقار عظیم عہد حاضر کے مولانا الطاف حسین حالی تھے۔

    ٭…عطاء الحق قاسمی بتاتے ہیں ’’اگر میرے اساتذہ میں ڈاکٹر عبید اللہ ،سید وقار عظیم اور چند دوسرے اس پائے کے اساتذہ شامل نہ ہوتے تو مجھے انٹرویوز کے دوران یہ بتانے میں بہت مشکل پیش آتی کہ دوران تعلیم مجھے کن اساتذہ نے متاثر کیا۔میں کبھی اچھا طالب علم نہیں رہا لیکن سید وقار عظیم کا انداز تدریس اتنا دلکش اور من موہنے والا تھا کہ غیر حاضر رہنے کو جی نہیں چاہتا تھا۔میں یہاں ایک اور بات کا بڑی خصوصیت کے ساتھ ذکر کرنا چاہوں گا کہ اقبالؒ کے لیے میرے دل میں جو محبت اور ان کی عظمت کا جو نقش ہے وہ سراسر پروفیسر وقار عظیم کی دین ہے۔وہ ہمیں اقبالؒ اور داستانوی ادب پڑھایا کرتے تھے۔ میں نے اپنی زندگی میں ان سے جتنا کچھ سیکھا کاش میں اس پر عمل بھی کرپاتا تاکہ میں یہ دعویٰ کرنے کی پوزیشن میں ہوتا کہ میں سیدوقار عظیم کا شاگرد ہوں۔

    ٭…ڈاکٹر تحسین فراقی لکھتے ہیں’’ سید وقار عظیم کا شمار اوریئنٹل کالج کے قابل ذکر اساتذہ میں ہوتا ہے۔ ان کا اُردو فکشن کا مطالعہ اطمینان بخش تھا۔ داستانی ادب کے نقاد کی حیثیت سے ان کی حیثیت آج بھی قابل توجہ ہے۔ درآں حال کہ داستانی ادب پر جدید تنقید ان کی تنقیدی کاوشوں سے بہت آگے نکل چکی ہے اور اس کی علامتی جہتوں پر قابل قدر کام شائع ہوچکا اور ہورہا ہے۔ وقار عظیم ہمارے داستانی سرمائے کے اوّلین نقادوں میں سے تھے اور اُنھیں اس بات کا کامل شعور تھا کہ داستانیں تہذیب نفس کا ایک اہم ذریعہ ہیں جبکہ قبل ازیں داستانوں کو ہمارے دانشور افسانوں کی چیز سمجھ کر نظر انداز کر دیتے تھے۔ ان کا اسلوبِ بیان سادہ اور سیدھے سبھاؤ کا حامل ہوتا تھا۔ وہ کام کی باتیں کہنے کا فن جانتے تھے۔
    ٭٭٭


    اَن تھک اور بے لوث: ڈاکٹر سٹون​
    دسمبر کی ایک سرد شام ،برف باری کی ہلکی ہلکی پھوار، مَیں کلاس روم کی طرف بھاگا جارہا تھا۔ ایسے میں کوئی اپنے پتلے لمبے جسم کو خوبصورت چیسٹر میں سمیٹے خراماں خراماں عالمانہ وقار سے قدم اٹھارہا تھا۔ میں نے اسے پہلی بار دیکھا۔وہ کون تھا؟ میں نہیں جانتا تھا۔دوسری بار میں نے اسے ڈین کے دفتر سے باہر نکلتے دیکھا۔متانت ،شانِ بے نیازی، چہرے پہ سقراط جیسا تقدس۔یہ کون بزرگ شخصیت ہے؟ میں نے کالی پروفیسر سے پوچھا۔ تم ان کو نہیں جانتے ؟ واقعی! یہ ڈاکٹر سٹون ہیں۔ پروفیسرایمرٹس ۔ان کی عمر جانتے ہو؟ نہیں ، ۹۰ سال… ! ہاں ۹۰ سال میں نے غور سے دیکھا بیتے برسوں نے اس کے چہرے پر لکیروں کا دبیز جال پھیلا دیا تھا، مگر ہلکی نیلگوں آنکھوں سے چھلکتی زندگی کی چمک دوسروں کو متوجہ کرنے کے لیے کافی تھی۔بھئی…! میری پروفیسر بتانے لگی۔

    ’’پروفیسر سٹون یونیورسٹی کے مایہ ناز سکالر ہیں۔ انتظامی امور کے ماہر، کئی اعلیٰ قومی اور بین الاقوامی عہدوں پر کام کرچکے ہیں، کئی کتابوں کے مصنف ،محقق امریکا کی مشہور انتظامی،سماجی، ادبی تنظیموں کے روح رواں،پیٹزبرگ شہر کی معزز اور سرکردہ شخصیت یہ تو یونیورسٹی کا سرمایہ ہیں۔ دیکھو اس سیمسٹر میں پروفیسر اعلیٰ انتظامی امور پر یہ اپنا کورس آفر کر رہے ہیں، یہ کورس مس مت کرنا۔

    ۱۹۸۸ء میں،مَیں پیٹز برگ کی کارنیگی میلن یونیورسٹی میں انتظامی امور کا کورس مکمل کر رہا تھا۔ میرا آخری سیمسٹر تھا، میں مضامین کا انتخاب کر چکا اور آفس کو بھی مطلع کر دیا تھا، مگر پروفیسر سٹون کی علمیت کی کشش مجھے بے چین کیے ہوئے تھی۔ میں نے اپنے کورس ایڈوائزر سے مشورہ کیا۔ ’’مجھے تو کوئی اعتراض نہیں‘‘مگر پروفیسر سٹون بہت سمجھ سوچ کر کورس کے شرکاء کا انتخاب کرتا ہے اور کلاس میں سیٹیں بھی محدود ہوتی ہیں۔’’ ہاں! ملاقات کرنے میں کیا مضائقہ ہے۔ ‘‘ میں نے سوچا کیا ضروری ہے کہ سب کو ملے ایک سا جواب۔دوسرے دن میں پروفیسر سٹون کے دفتر میں موجود تھا۔ مدعا بیان کیا۔ اُنھوں نے میرا سر سے پاؤں تک جائزہ لیا۔

    دوسرے کورسز میں گریڈ کیسے ہیں؟ لہجے کی اپنائیت حوصلہ افزا تھی۔ ’’خاصے مناسب ہیں‘‘ میں نے جواب دیا۔ میرا خیال تھا آفس سے تصدیق کی جائے گی۔ ایڈوائزر سے رپورٹ طلب کرنا ہوگی۔ قانونی تاویلات ہوں گی۔ دفتری تقاضے پورے کرنے ہوں گے۔ پروفیسر نے کچھ تامل کیا، کچھ سوچا ،مختصر بات چیت کا دور چلا، ایک بارپھر میرا جائزہ لیا گیا۔ کافی پیو گے؟ میں نے اثبات میں سر ہلا دیا۔ بات بن گئی۔ سیمسٹر کا آغاز ۱۱ جنوری سے ہوا۔ پروفیسر سٹون کی کلاس ہر سوموار ۵ بجے شام تا رات ۸ بجے ہوتی۔ یہ ۲۰ شرکاء کی مخلوط کلاس تھی۔ کچھ نوجوان طلبہ و طالبات، اور کچھ امریکی اداروں سے آئے ہوئے اعلیٰ عہدیداران، فقط میں ہی ایک غیر ملکی طالب علم تھا، جس کو کلاس میں شامل کیا گیا۔

    پیٹزبرگ میںبلا کی سردی پڑتی ہے۔ جنوری ،فروری کی تیز ہوا میں برف باری رگوں میں رواں جوان خون کو بھی منجمد کر دیتی ہے۔ ایسی سخت شاموں کو اپنے گرم کمروں سے نکلنا بھلا کب اچھا لگتا ہے۔ میں بچوں کی طرح سوچتا آج پروفیسر سٹون کلاس میں نہیں آئے گا۔ گاڑی کا انجن فیل ہوسکتا ہے۔ اس بڑھاپا کے عالم میں چھوٹی موٹی علالت ہوہی جاتی ہے، مگر یوں نہ تھا۔ میں نے فقط چاہا تھا کہ یوں ہوجائے۔ ہر شام پروفیسر سٹون کلاس میں وقت سے پہلے موجود ہوتا،چہکتا مہکتا،مسکراتا وہ پورے سیمسٹر میں ایک بار بھی غیر حاضر نہیں ہوا۔ایک بار بھی اس کی گاڑی کا انجن فیل نہیں ہوا۔ وہ کبھی کلاس میں دیر سے نہیں آیا۔

    پروفیسر کا درس و تدریس کا طریقہ یکسر مختلف تھا۔ امتحانوں سے اسے خاصی چڑتھی۔ ہر ہفتہ دو ڈھائی سو صفحات پر مشتمل ریڈنگ میٹریل دے دیا جاتا۔یہ ریڈنگ میٹریل تازہ ترین کتب رسائل اور جرائد سے لیے گئے مضامین اور آرٹیکلز کا مجموعہ ہوتا۔میں اکثر سوچتاکہ یہ ۹۰ برس کا پروفیسر اس ضعیفی کے عالم میں یہ سب کچھ کیسے اور کس طرح کر پاتا ہے۔ یہ تو سخت تھکا دینے والی مشقت ہے۔ پھر یہ کام ایک روز ایک ہفتہ کا معمول نہ تھا۔یہ تو مسلسل ذہنی تحقیقی عمل ہے وہ نہ جانے کون سے لمحے آرام کرتا ہوگا؟ کیا اس کے پاس کوئی جادو کا چراغ ہے؟ کیا اس کے قبضہ ٔ قدرت میں جنات ہیں جو سب کچھ آناً فاناً کر ڈالتے ہیں۔یہ سب سوالات میرے ذہن میں اٹھتے۔ جن کا جواب میرے پاس نہ تھا اور نہ اب ہے۔اس پر مستزاد یہ ہے کہ ان مضامین و آرٹیکلز پر کلاس میں سیر حاصل بحث ہوتی۔ ایک ایک مسئلہ کا عملی نکتہ نظرسے جائزہ لیا جاتا۔

    امریکی طالب علم خاصے بے رحم ہوتے ہیں۔وہ مشرق کے روایتی طالب علم کی طرح استاد سے عاجزی اور نیاز مندی سے پیش نہیں آتے۔ وہ استاد پر تابڑ توڑ حملے کرتے ہیں۔ سوالوں کی بوچھاڑ کر دی جاتی ہے۔بات سے بات نکلتی ہے۔ امریکی طالب علم چٹکلوں سے بہلائے نہیں جاسکتے۔ مفروضوں سے قائل نہیں ہو پاتے۔ مبہم جوابات انہیں برافروختہ کردیتے ہیں ۔ وہ ہر بات کا واضح، ٹھوس اور تفصیلی جواب چاہتے ہیں۔ میں نے پروفیسر سٹون کو اس براہین و دلائل کی جنگ میں کبھی پسپا ہوتے نہیں دیکھا ۔اس علمی چومکھی لڑائی میں کسی ایک موقع پر بھی اسے مات نہ ہوئی۔

    پروفیسر سٹون نے ہر ایک آرٹیکل کا مطالعہ کیا ہوتا تھا۔سخت سے سخت حالات میں بھی اس کی جبیں پر شکن نہ آتی۔لہجہ میں تھکن،نہ لکنت، جھنجلاہٹ،نہ بوکھلاہٹ،اسے اپنے سبجیکٹ پر عبور حاصل تھا۔اس کے پاس تجربات اور مشاہدات کا انمول خزینہ تھا اور جب کبھی وقت گراں گزرنے لگتا وہ طنزو مزاح کی پھلجھڑیاں بکھیر دیتا۔ پروفیسر ۹۰ سال کا تھا۔ اس کی جرأت، اس کا جذبہ، اس کی محنت مجھے حیران کیے دیتی تھی۔میں ایک خوبصورت تجربہ سے گزر رہا تھا۔ کبھی کبھی تو یوں محسوس ہوتا تھا میں کوئی خواب دیکھ رہا ہوں۔ کبھی سوچتا کہ وہ استا د ہے یا کوئی مافوق الفطرت چیز ہے۔

    مـڈسیمسٹر میں کورس کا جا ئزہ لیا گیا اس موقع پر پروفیسر حضرات کلاس سے باہر تشریف لے جاتے ہیں۔ طلبہ کسی رو رعایت کے بغیر ،خوف خطرے سے بے نیاز اپنی رائے کا تحریری طور پر اظہار کرتے ہیں۔ سوالات کافی واضح اور غیر مبہم ہوتے ہیں۔کیا یہ کورس آپ کو پسند ہیں؟ کیا یہ آپ کے تقاضے پورے کرتا ہے؟پروفیسر کی کارکردگی کے بارے میںکیارائے ہے؟ کیا آپ کورس میں تبدیلی کے خواہاں ہیں؟وغیرہ وغیرہ ۲ ہفتہ بعد پردفیسر سٹون کلاس میں تشریف لائے عینک درست کی، آلہ سماعت کو سیٹ کیا اور کہنے لگے : ’’ مجھے آپ کی آرا سے آگاہ کیا گیا ہے آپ لوگوں نے کورس میں کوتاہیوں اور خامیوں کی نشان دہی کی ہے آپ نے میرے طرزِ استدلال کے بارے میں بھی رائے کا اظہار کیاہے۔مجھے خوشی ہے کہ آپ کورس میں گہری دلچسپی رکھتے ہیں۔میں آپ کی آرا ء اور تجاویز کی روشنی میں کورس میں ترمیم کرنا چاہتا ہوں۔آئیے… آپ ہم مل کر اس موضوع پر گفتگو کریں ۔‘‘

    پروفیسر سٹون کی علمیت مسلمہ تھی۔وہ یونیورسٹی کا ایک سرکردہ پروفیسر تھا۔ اس کا اپنی خامیوں کے نقائص کے بارے میں برملا اعتراف حیران کن تھا۔ میرے خیال میں یہ عقلی ایمانداری کی اعلیٰ مثال تھی۔ ہم اکثر اپنی رائے بدلنا، غلطی کو تسلیم کرنا کمزوری گردانتے ہیں۔ پھر اعلیٰ تعلیم یافتہ لوگ تو شاذ ہی اپنی علمی شکست کو تسلیم کرتے ہیں۔ہم سب کو اپنی اَنا بہت عزیز ہوتی ہے۔

    پروفیسر سٹون کون ہے؟ اس کا خمیر کس مٹی سے اٹھا ہے؟ میں اس شخصیت کو قریب سے دیکھنا چاہتا تھا، اسے جاننا چاہتا تھا۔میرا اشتیاق بڑھتا گیا۔ ایک دوپہر ہم دونوں لنچ پر اکٹھے تھے۔میں نے دیکھا وہ خوراک کے بارے میں بے حد محتاط تھا،تھوڑا سا پھل،میوہ، چھوٹا سا پنیر کا ٹکڑا، ہلکا پھلکا سینڈوچ ، وہ غیر معمولی روحانی حس کا مالک تھا، وہ مذہبی تھا مگر جنونی ہرگز نہ تھا۔اس کا ذہن ہر تعصب سے مبرا تھا ۔ ریاکاری، منافقت سے دور، رنگ و نسل اور ذات کے تعصبات سے اسے گھن آتی تھی۔ اسے گھریلو زندگی سے پیار تھا۔ اپنی بیوی نینسی سے اس کی ۵۰ سالہ رفاقت تھی۔ ان کے ۲ بچے دور دراز شہروں میں اپنی اپنی دنیا میں مصروفِ عمل تھے۔

    کورس ختم ہونے کو تھا۔ ایک دن پروفیسر سٹون نے اپنے ملائم لہجہ میں کہا ’’ دوستو! میںآپ کی توجہ چاہتا ہوں۔ میں اگلے ۲ سال کا کورس مرتب کر رہا ہوں۔ مجھے سلیبس کی از سرِ نو منصوبہ بندی کرنی ہے۔مجھے آپ لوگوں کی تجاویز درکار ہیں۔مجھے آپ کا تعاون چاہیے۔‘‘ چہرے حیرت سے تصویر بن گئے۔کئی لبوں پر معنی خیز مسکراہٹیں بکھر گئیں۔ کئی ذہنوں میں سوال اٹھے۔ یہ تو پروفیسر سٹون کے چل چلاؤ کے دن ہیں۔ کسی دن،کسی شام اس کی تجہیزو تکفین کی اطلاع مل سکتی ہے۔ پروفیسرسٹون نے سب کو حیران کردیا تھا۔ اس بوڑھے پروفیسر میں حیران کرنے کی بے پناہ صلاحیت تھی۔میں سمجھتا ہوں اسے طبعی موت پر یقین تھا۔ اس کی قطعیت کا مکمل احساس تھا۔

    اس کے لیے ہر گھڑی ذات کی تسکین کی گھڑی تھی،بے مقصد ،بے مصرف زندگی ذات کی نفی ہے، حیات کی نفی ہے۔وقت سے پہلے موت کی دلیل ۔تبھی تو وہ ہر لحظہ مصروف کار تھا۔ جاوداں ،پیہم رواں ہر دم جواں ہے زندگی۔ سوچتا ہوں ، پروفیسر سٹون کے نہاں خانے میں کہیں یہ یقین پنہاں تھا کہ موت کے بعد ایک نیا در کھلے گا۔نئی بستیاں آباد ہوں گی،اور زندگی تجربات کے وسیع تر سمندر میں موجزن ہوگی۔

    کون کہتا ہے موت آئی تو مر جاؤں گا
    میں تو دریا ہوں سمندر میں اُتر جاؤں گا
    ۱۹۹۲ء میں پروفیسر ڈاکٹر سٹون ۹۴ سال کا تھا۔ اب، اُسی جوش اور جذبہ سے کام کر رہا تھا کیونکہ اس کا جذبہ جوان تھا۔ اس کے خواب زندہ تھے۔ رُتیں آئیں گی، رُتیں جائیں گی، جب تک میں زندہ ہوں پروفیسر سٹون میرے ذہن میں زندہ رہے گا کیونکہ میں نے اس سے زندہ رہنے کا فن سیکھا ہے۔
     
  2. پاکستانی55
    آف لائن

    پاکستانی55 ناظم سٹاف ممبر

    شمولیت:
    ‏6 جولائی 2012
    پیغامات:
    98,397
    موصول پسندیدگیاں:
    24,234
    ملک کا جھنڈا:
    جواب: ء۵ عظیم اساتذہ

    بہت زبردست جناب
     
  3. تانیہ
    آف لائن

    تانیہ ناظم سٹاف ممبر

    شمولیت:
    ‏30 مارچ 2011
    پیغامات:
    6,325
    موصول پسندیدگیاں:
    2,338
    ملک کا جھنڈا:
    جواب: ء۵ عظیم اساتذہ

    دلچسپ و معلوماتی شیئرنگ کے لیے شکریہ:n_smiley_with_rose:
     
  4. خبردار
    آف لائن

    خبردار ممبر

    شمولیت:
    ‏1 فروری 2011
    پیغامات:
    84
    موصول پسندیدگیاں:
    2
    ملک کا جھنڈا:
    جواب: ء۵ عظیم اساتذہ

    شکریہ اچھا مضمون ہے
     
  5. خبردار
    آف لائن

    خبردار ممبر

    شمولیت:
    ‏1 فروری 2011
    پیغامات:
    84
    موصول پسندیدگیاں:
    2
    ملک کا جھنڈا:
    جواب: ء۵ عظیم اساتذہ

    شکریہ اچھا مضمون ہے
     

اس صفحے کو مشتہر کریں