1. اس فورم پر جواب بھیجنے کے لیے آپ کا صارف بننا ضروری ہے۔ اگر آپ ہماری اردو کے صارف ہیں تو لاگ ان کریں۔

ª!ª مزہبی افتراق اور احتیاط کا تقاضہ ª!ª

Discussion in 'تاریخِ اسلام : ماضی ، حال اور مستقبل' started by آبی ٹوکول, Jul 20, 2008.

Thread Status:
Not open for further replies.
  1. آبی ٹوکول
    Offline

    آبی ٹوکول ممبر

    Joined:
    Dec 15, 2007
    Messages:
    4,163
    Likes Received:
    50
    ملک کا جھنڈا:
    [highlight=#FFBFFF:3tn49nml]مذہبی افتراق کے اسباب سے پرہیز کی ضرورت
    ڈاکٹر علی اکبر قادری[/highlight:3tn49nml]

    قرآن اور احادیث نبوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تعلیمات اسلام کا وہ منبع و مصدر ہیں جن کی تشریحات اور تعبیرات کا سلسلہ ہر دور میں جاری رہا اور اب بھی جاری ہے۔ ہر کسی نے اپنی علمی وسعت اور تحقیقی صلاحیت کے مطابق خدمت کی تاہم ہر دور میں بعض سطح بین اور سستی شہرت کے حامل لوگ اسلامی اعتقادات میں من پسند خیالات و نظریات داخل کرنے کی کوشش کرتے رہے ہیں جن سے خون آشام فتنوں کا ظہور بھی ہوتا رہا۔ تاریخ اسلام میں سب سے پہلے جس اعتقادی فتنے نے سر اُٹھایا وہ گستاخِ رسول ذوی الخویصرہ تمیمی نامی انتہا پسند شخص کے ہاتھوں اُبھرا جس نے مال غنیمت کی تقسیم میں حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے عدل پر اعتراض کیا تھا اور پھر دیکھتے ہی دیکھتے اس بے باکی کے بطن سے خوارج کا پورا طبقہ پیدا ہوگیا جنہوں نے حضرت علی رضی اللہ عنہ اور حضرت عثمان رضی اللہ عنہ دونوں کے بارے میں کفر کا فتویٰ دے دیا۔ بعد ازاں اسی انتہا پسند فرقے سے تعلق رکھنے والے ایک ملعون شخص ’’عبدالرحمن بن ملجم‘‘ نے سیدنا علی المرتضیٰ رضی اللہ عنہ پر چھپ کر قاتلانہ حملہ کیا اور آپ نے دو دن بعد جام شہادت نوش فرمایا۔ سیدنا علی اور اہل بیت اطہار کے بغض میں حد سے گزرنے والے ان سخت مزاج لوگوں کے ردعمل میں ایک دوسرا گروہ پیدا ہوا جنہوں نے ابتداً سیدنا علی رضی اللہ عنہ اور اہل بیت اطہار کا دفاع کیا لیکن جب یہ بھی انتہا پسندی (غلو) کی حدوں کو عبور کرگیا تو اس گروہ نے ازواج مطہرات اور سیدنا ابوبکر صدیق اور سیدنا عمر جیسے اکابر صحابہ کو برا بھلا کہنا شروع کردیا۔ صاف ظاہر ہے دونوں طرف کی اس انتہا پسندی نے امت کے درمیان نفرت کی دیواریں کھڑی کردیں اور ایک عرصہ تک یہ نفرت جنگ و جدل کا باعث بنی رہی جس کے آثار آج بھی دیکھے جاسکتے ہیں۔

    چنانچہ اسلامی تاریخ کے چمکتے دمکتے چہرے پر بادشاہت کی قباحتوں کے ساتھ ساتھ اگر کوئی بدنما داغ ہے تو وہ یہی خوارج اور روافض کی طویل اور خون آشام کشمکش ہے۔ اسی دور میں چونکہ تفسیر اور حدیث کی تدوین ہو رہی تھی۔ تاریخ اور دیگر علوم عقلیہ و نقلیہ خصوصاً علم الکلام وجود میں آرہا تھا۔ اس لئے اس دور کے علماء کی طرف سے وجو د میں آنے والا قابل قدر علمی ذخیرہ بھی ایسی روایات سے محفوظ نہ رہ سکا جن میں فریقین نے ایک دوسرے کے نظریات کو غلط ثابت کرنے کی کوششیں کی تھیں۔ بہت کم لوگوں پر یہ حقیقت منکشف ہوسکی ہے کہ اس خطرے کے سبب روایت حدیث کے مقدس سلسلے کو فلٹر کرنے کے لیے ائمہ نے جتنی کڑی شرائط متعین کیں ان کی مثال انسانی تاریخ کے کسی شعبے میں موجود نہیں۔ قبولیت و اخذِ حدیث کے باب میں اس قدر کڑے معیارات مقرر کیے گئے کہ کذب و افتراء کے سرچشمے خاصی حد تک خود بخود خشک ہوگئے۔ اسی احتیاط کے باعث امام بخاری نے پوری زندگی لگا کر حاصل کیے گئے 3 لاکھ احادیث کے ذخیرے میں سے صرف چند ہزار احادیث مبارکہ صحیح بخاری میں درج کیں اور یہی حالت دوسرے ائمہ حدیث کی بھی ہے۔ اسی احتیاط کی بناء پر علم جرح و تعدیل اور اسماء الرجال کی درجنوں ضخیم کتب معرض وجود میں آئیں۔ مدعائے کلام یہ ہے کہ اس اعتقادی تعصب نے علمی میدان اور تاریخی ادوار میں بھی مضر اثرات مرتب کیے اور باہمی قوت کو بھی منتشر کیے رکھا۔ یہ افتراق و انتشار مسلمانوں کی ایسی کمزوری رہا جس کے ذریعے عالم کفر کوجارحیت اور مداخلت کیلئے ہمیشہ آسانی اور سہولت میسر رہی۔

    تیرھویں صدی عیسوی میں جب چین کے شمالی علاقوں سے خانہ بدوش تاتاری قبیلہ دنیا کی ہیبت ناک قوت کی شکل میں چین، روس، ہنگری پولینڈ اور جرمن قوم کو روندتا ہوا آگے بڑھ رہا تھا مگر اسلامی سلطنت پر چڑھائی کی ہمت اسے بھی نہیں ہو رہی تھی لیکن یہ ایک تلخ تاریخی حقیقت ہے کہ تاتاری سردار ہلاکو خان کو بغداد پر حملہ کرنے کی ترغیب اور ترکیب بھی ایک معروف مذہبی فرقہ کی طرف سے دی گئی اور دیکھتے ہی دیکھتے 7 سو سالہ اسلامی سلطنت شاندار علمی تہذیبی اور انسانی امتیازات کے باوجود تاخت و تاراج ہو گئی۔ دارالخلافہ بغداد کی اینٹ سے اینٹ بجا دی گئی، گلیاں مسلمانوں کے خون سے نہا گئیں اور دجلہ و فرات کے دریا مایہ ناز علمی ذخائر کی سیاہی سے بھرگئے۔ سقوط غرناطہ کی طرح خلافت عثمانیہ کا خاتمہ بھی اگرچہ سیاسی اور عسکری کمزوریوں کے باعث ممکن ہوا مگر اس سیاسی کمزوری کے پیچھے بھی مسلمانوں کا افتراق اصل سبب تھا جس سے دشمنان اسلام نے بھرپور فائدہ اٹھایا۔

    گذشتہ دو اڑھائی سو سالہ دور زوال میں جہاں جہاں بھی اسلامی تحریکیں اور شخصیات ابھریں تمام تر قربانیوں اور صلاحیتوں کے باوجود مسلمانوں کا اتحاد و احیاء ایک خواب ہی رہا۔ کیونکہ ہر دور میں ان علمی فکری اور احیائی تحریکوں کو اندر سے ہی نقصانات پہنچتے رہے۔ اب جبکہ پوری دنیا دو بڑی عالمی قوتوں کی باہمی سرد جنگ کے خاتمے کے بعد ایک ’’سپر طاقت‘‘ کے زیر اثر آچکی ہے تو ان مذہبی کاوشوں اور اسلامی قوتوں کو ایک مرتبہ پھر نشانے پر رکھ لیا گیا ہے۔

    تہذیبوں کے درمیان تصادم کا نظریہ اور چرچا صرف اسلام کے خلاف عام کیا جا رہا ہے کیونکہ اس وقت روئے زمین پر کوئی دوسری تہذیب ایسی نہیں جو اتنے مضبوط اور مربوط نظام الوہیت کے تحت مزاحمتوں اور مخالفتوں کو چیرتی ہوئی آگے بڑھ رہی ہو۔ یہی وجہ ہے کہ ہزاروں سالہ اختلافات کے باوجود دنیا کی بیشتر اقوام اور مذاہب اسلام کے مقابلے میں متحد اور یکجا دکھائی دے رہے ہیں۔ اس کے برعکس یہ کتنی عجیب اور حیران کن حقیقت ہے کہ اپنی آنکھوں کے سامنے آگ اور خون کے بہتے دریا دیکھ کر بھی اسلامی دنیا سبق سیکھنے کے لئے تیار نہیں۔ آپ غور کریں تو اس گہری خاموشی اور تاریخی سرد مزاجی کے کئی اسباب ہیں۔ کچھ سیاسی و معاشی ہیں کچھ سماجی و ثقافتی ہیں کچھ فکری و علمی ہیں اور کچھ مذہبی مسلکی ہیں۔ یہ مسائل صرف مسلمانوں کا ورثہ نہیں بلکہ تقریباً ہر قوم کو ہر دور میں درپیش رہتے ہیں۔ وقت گزرنے کے ساتھ ان میں سے بعض کے اثرات ختم بھی ہوجاتے ہیں لیکن مسلمانوں کے درمیان موجود مذہبی و مسلکی مسائل اس لیے مسلسل اور طویل تاریخ کے حامل ہیں کہ اسے اچھالنے والا طبقہ مذہبی پیشوائیت کے منصب پر فائز رہا۔ اس کو حاصل تقدس اور احترام ان کے نظریات کو تقویت دیتا رہا جس کی وجہ سے ان نظریات کو ماننے اور اپنانے والوں کا کوئی نہ کوئی حلقہ بھی موجود رہا۔ یہ الگ بات ہے کہ ان گروہوں اور حلقہ ہائے اثر میں سے بعض دائرہ اسلام سے بھی خارج ہوگئے۔ اس سارے پس منظر کو بیان کرنے کا مقصد یہ ہے کہ دین و مذہب کی دعوت دینے والوں پر سب سے زیادہ نازک اور حساس ذمہ داری عائد ہوتی ہے۔ وہ چاہیں توسادہ لوح عوام کو متحد رکھ سکتے ہیں اور چاہیں تو پورا ماحول آپس میں دست و گریباں ہوسکتا ہے۔

    علماء و مصلحین کے لئے یہ ذمہ داری اس دور میں اور زیادہ اہم اور حساس ہوگئی ہے کیونکہ اب ذرائع ابلاغ خصوصاً الیکٹرانکس میڈیا نے زمان و مکاں کے فاصلوں کو سمیٹ دیا ہے۔ بیسیوں ٹی وی چینلز پردن رات براہ راست افکار و خیالات کا اظہار ہو رہا ہے۔ بڑے بڑے نازک موضوعات پر قرآن و حدیث کے حوالہ جات پیش کیے جا رہے ہیں۔ ان سے جہاں لوگوں کو علم و عرفان میں وسعتیں حاصل ہو رہی ہیں وہاں بعض اوقات غلط فہمیاں اور انتشارات کا امکان بھی رہتا ہے۔ میڈیا پر گفتگو کرنے والے سب حضرات ایک جیسی علمی اور استدلالی قوت کے حامل نہیں اور نہ سب کو حکمتِ دعوت کا پیغمبرانہ وصف حاصل ہے۔

    ہم کسی مبلغ، مصلح اور داعی کی نیت اور اس کے اخلاص پر شک نہیں کرتے البتہ بعض حضرات کی افتادِ طبع سے ضرور شکوہ ہوتا ہے۔ حال ہی میں ایک معروف دانشور اور عالم دین نے بڑی سادگی اور روا روی میں جمہور صحابہ کرام سمیت پروردئہ نبوت اور جانشین رسالت سیدنا علی المرتضیٰ کرم اللہ وجہہ کو شراب نوشی کا رسیا قرار دے دیا۔ کچھ حلقوں کی طرف سے جب ان کی اس لغزش پر گرفت ہوئی تو موصوف نے ایک اور وضاحتی بیان جاری کیا مگر تعجب ہے کہ اس میں بھی انہوں نے سیدنا علی کرم اللہ وجہہ کو نشے کی حالت سے مستثناء نہیں کیا بلکہ مزید حوالوں سے اپنی لغزش پر اصرار کیا حالانکہ انہوں نے حدیث کی جس روایت کا ذکر کیا ہے وہ ایک مطعون راوی کی وجہ سے ضعیف اور متروک ہے خصوصاً تفسیر قرآن کے باب میں اکابر ائمہ نے اس سے احتراز برتا ہے۔ اسی طرح ایک اور بھارتی نژاد معروف نوجوان دینی سکالر نے گذشتہ دنوں یزید کو اس کی ’’شاندار خدمات‘‘ پر ’’خراج تحسین‘‘ پیش کیا۔

    یہ دونوں حضرات متعدد مرتبہ تحریراً اور تقریراً ایک مخصوص اور ناپسندیدہ اعتقادی روش کا اظہار کر چکے ہیں۔ ہم انہیں دیانتدارانہ مشورہ دیتے ہیں کہ یہ دور ایسے اضافی متنازعہ امور کو چھیڑنے کا ہرگز متحمل نہیں۔ جس طرح سیدنا علی رضی اللہ عنہ کی شخصیت اہل ایمان میں نہایت قابل احترام ہے، حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے آپ رضی اللہ عنہ کو خود شہر علم کا دروازہ قراردیا۔ آپ صسلسلہ ہائے ولایت و روحانیت کے امام اور پیشوا ہیں، اسی طرح یزید اکابر ائمہ سمیت جملہ اہل اسلام کے نزدیک بدترین کاموں کے سبب ملعون اور مغضوب ہے۔ متفقہ امور کو چھیڑنا نہ حکمت و تدبر کا تقاضا ہے اور نہ معاصر حالات اس کی اجازت دیتے ہیں۔ حضرت عبد اللہ بن مسعود سے امام مسلم نے ایک روایت صحت کے ساتھ نقل کی ہے جو ان حضرات کے پیش نظر رہنی چاہیے۔ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:

    ما انتَ بمحّدِتٍ قوماً حَديثًا لا تبلغُه عقولهم الا کان لبعضهم فتنة.

    یعنی اگر تم لوگوں کے سامنے ایسی بات بیان کروگے جس کا مطلب ان کے ہاں معروف نہ ہوگا تو یہ چیز ان میں سے بعض لوگوں کے لیے فتنے کا سبب بن جائے گی۔ ‘‘

    اللہ تعالیٰ ہمیں دعوت دین کے لیے کماحقہ حکمت، بصیرت، محبت اور خلوص کی نعمتوں سے بہرہ یاب فرمائے۔
    [highlight=#FFFF00:3tn49nml]اصل مقالے کا لنک درج زیل ہے[/highlight:3tn49nml]

    http://www.minhaj.info/mag/index.php?mo ... xt&lang=ur
     
  2. عرفان
    Offline

    عرفان ممبر

    Joined:
    Oct 16, 2006
    Messages:
    443
    Likes Received:
    0
    جن سطروں کو میں نے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ کیا ہے وہ اس موضوع "مذہبی افتراق کے اسباب سے پرہیز " کے خلاف لکھی گئی ہیں۔
     
  3. آبی ٹوکول
    Offline

    آبی ٹوکول ممبر

    Joined:
    Dec 15, 2007
    Messages:
    4,163
    Likes Received:
    50
    ملک کا جھنڈا:
    آپ سے یہی امید تھی :201:
     
  4. عرفان
    Offline

    عرفان ممبر

    Joined:
    Oct 16, 2006
    Messages:
    443
    Likes Received:
    0
    اللہ نے اپنی کتاب قرآن حکیم میں اپنے نبی :saw: کے ذریعے کہلوایا

    اے اہل کتاب آؤ اس مشترک بات کی طرف کہ ہم کسی کی عبادت نہیں کریں گے سواے اللہ کے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
     
  5. نوید
    Offline

    نوید ممبر

    Joined:
    May 30, 2006
    Messages:
    969
    Likes Received:
    44
    ملک کا جھنڈا:
    السلام علیکم ورحمتہ اللہ وبرکاتہ
    امید ہے کہ سب خیریت سے ہونگے


    جزاک اللہ آبی ٹو کول بھائی :hands:

    خوش رہیں
     
  6. پنل
    Offline

    پنل ممبر

    Joined:
    Jun 24, 2008
    Messages:
    141
    Likes Received:
    6
    جب ھم اﷲ اور اس کے رسول :saw: کی رسی کو مضبوطی سے گرفت میں نہیں لے گے جب تک محبت رسول :saw: گرفتار نہیں ھونگئے جب تک
    اﷲ کے حبیب :saw: کے ساتھ عشق نہیں کرے گئے جب تک سُنت رسول اﷲ :saw: پر پوری طرح عمل پیرا نہیں ھونگئے۔ اُس وقت تک مسلمان تقسیم در تقسیم ھوتے جائے گئے۔اور ظالم حکمران ھم پر مسلت رہ گئے۔
    اور جاہل مُلا ھمیں جہالت کے دور سے نکلنے ھی نہیں دئے گئے۔ ھمیں شخصیت پرستی سے نکلنا ھو گا۔ھمیں سُنت نبوی :saw: پر مکمل عمل پیرا ھونا پڑے گا۔ایک مسلمان کو دوسرے مسلمان کی عزت و حرمت کا
    پاس رکھنا ھو گا۔ہمیں اﷲ کی زات پر مکمل بھروسا اور کامل یقین ھونا چاہے ۔
    ھمیں چاہیے کہ ھم کسی ایسے پروپیگنڈے کا حصہ نہ بنے جو مسلمانوں کو تقسیم در تقسیم کیئے جا رہے ھے۔لیکن ھماری عقل پر تو پردے پڑے ھوے ھے جس کی واجہ سے جس کی وجہ سے مثبت سوچ پروان نہیں چڑھ رہی اور مسلمانوں کو تقسیم در تقسیم کیا جارہا ھے۔اور مسلمانوں کو اقتدار کا جام پلایا جا رہا ھے۔یہ اقتدار اور کرسی کی طلب نے مسلمانوں کو ایک دوسرے دست و گریبان کر دیا ھے۔اس کرسی اور اقتدار کی وجہ سے ھم ایک دوسرے عزت و حرمت کی دھجیا نوچ رہے ھیں۔
    بس اتنا عرض کرونگا کہ آپ لوگ باز آجائے۔آپ لوگ اﷲ اور رسول :saw:
    کی رسی کو مضبوطی سے تھام لیں۔ھم لوگ رسول اﷲ :saw: سے محبت کریں عشق کریں اور صحابہ :rda: کے اصولوں پر چلیں۔اپنی صفوں میں منافقین اور فاسقین کو پہچانیں۔اﷲ ھمیں انکھیں کھلی رکھنے کی توفیق دے۔ اﷲ سچی محبت رسول:saw: عطا کرے آمین ثما آمین۔
     
  7. پنل
    Offline

    پنل ممبر

    Joined:
    Jun 24, 2008
    Messages:
    141
    Likes Received:
    6
    ایک چیز رہ گئی تھی اور وہ ھے
    اہل بیت سے محبت بھی ضروری ھے۔اﷲ ھم سب کو اپنی امان میں رکھے ۔آمین ثما آمین
     
  8. نعیم
    Offline

    نعیم مشیر

    Joined:
    Aug 30, 2006
    Messages:
    58,107
    Likes Received:
    11,153
    ملک کا جھنڈا:
    السلام علیکم۔
    مجھے ڈاکٹر علی اکبر صاحب کا مقالہ بہت پسند آیا۔ کافی فکر انگیز مقالہ ہے۔
    آبی بھائی کا شکریہ کہ انہوں نے اچھی بات ہم سے شئیر کرلی۔ جزاک اللہ


    عرفان صاحب توڈاکٹر اسرار صاحب کی اندھی عقیدت میں مبتلا ہیں۔وہ ایک کارکن کی حیثیت سے اپنے قائد ڈاکٹر اسرار صاحب کی ہاں میں ہاں ملانے پرمجبور ہیں ایسے کارکنوں کے منہ میں اپنے امام یا مولانا کی زبان ہوتی ہے۔ اس لیے ان کا شکوہ بھی بجا ہے۔

    اور پنل صاحب۔ آپ کا مضمون آپکے دل کی گہرائیوں سے نکلتا نظر آیا ہے۔ مجھے آپ کے ایک ایک لفظ سے اتفاق ہے۔ اور دلی دعا ہے کہ اللہ تعالی سب مسلمانوں کو ایسے جذبات عطا فرمائے۔ اور پنل صاحب آپ کو اس مضمون کے بدلے جزائے خیر عطا فرمائے۔آمین
     
  9. نور
    Offline

    نور ممبر

    Joined:
    Jun 21, 2007
    Messages:
    4,021
    Likes Received:
    22
    جب تک امت مسلمہ کے اندر ایسے "دانشور" موجود ہیں جو میڈیا کو استعمال کرتے ہوئے لاکھوں کروڑوں لوگوں کے ایمانی جذبات کو ٹھیس پہنچاتے رہیں گے اور اختلافی موضوعات کو بجائے علمی مجالس میں بیان کرنے کے عوام الناس کے اندر بیان کرنا شروع کردیں گے ۔ اس وقت تک عالمی اسلامی اتحاد و یگانگت کا خواب شرمندہء تعبیر نہیں ہوسکتا۔

    مھترم آبی صاحب ۔ اتنا اچھا مضمون ارسال کرنے پر شکریہ
     
  10. فرخ
    Offline

    فرخ یک از خاصان

    Joined:
    Jul 12, 2008
    Messages:
    262
    Likes Received:
    0
    حالانکہ ڈاکٹر اسرار احمد کے معاملے میں‌عابد بھائی نے بھی اتفاق کیا تھا کہ اس معاملے میں‌دونوں‌اطراف سے بہت مدلل دلائل فراہم کئے گئے۔
    لیکن
    ایک بڑا پرانا طریقہ ہے فرقہ پرست مولویوں کا کہ پہلے اچھی اچھی باتیں کر کے لوگوں کو راغب کرتے ہیں، پھر ایک دم اپنا کوئی وطیرہ بیچ میں ڈال دیتے ہیں۔

    شروع سے یہ آرٹیکل بہت اچھا لگا، لیکن جب اس اچھا لگنے کے احساس کو لے کر دوسروں کے خلاف معاملات کو اٹھایا گیا، تو سمجھ آیا کہ اتنی لمبی اور پر اثر تمہید باندھنے کے پیچھے اصل مقاصد کیا تھے اور ظاہر ہے کچھ اختلافی مسائل کو بڑھا چڑھا کے بیان کرنا، یہ خاص قسم کے مولویوں کا ایک طریقہ ہوتا ہے

    حالانکہ موصوف قادری صاحب نے جس انداز میں ان دونوں علما پر طنز کیا، انہوں نے وہ باتیں اس حد تک قطعاً نہیں کی تھیں۔ لیکن وہ مولوی ہی کیا جو بات کا بتنگڑ نا بنائے۔

    اور شائید ان قادری صاحب نے اپنے بریلوی مسلک سے تعلق رکھنے والے عامر لیاقت کی بکواس نہیں سنی، یا شائید سن کر اس لیئے نظر انداز کر دی ہو وہ حضرت بریلویوں اور شعیہ کے درمیاں پل کا کردار ادا کرتے ہیں
    ورنہ یہ آرٹیکل لکھنے سے پہلے وہ اس عامر لیاقت کو یاد رکھتے جس کے الفاظ صحابہ اکرام کے خلاف بہت گھٹیا انداز میں نکلے۔

    لیکن ان مولویوں نے اپنے اس فتنہ سے توجہ ہٹانے کے لیئے دوسروں پر مسلسل کیچڑ اچھالنے کا عمل جاری رکھا ہوا ہے۔

    ان معروف دانشور نے جو کچھ بھی کہا، وہ اس حد تک گھٹیا نہیں‌تھا اور انکی وہ وڈیو بار بار دیکھی جا سکتی ہے۔ انکے الفاظ کے غلط انتخاب کو آپکے مصنف نے نہائیت شائیستگی کے ساتھ بڑھا چڑھا کر بتنگڑ بنانے کی کوشش کی۔

    اور جس حدیث کے متعلق یہ کہا جا رہا ہے کہ وہ ضعیف ہے تو یہ بات ابھی تک متنازعہ ہے کیونکہ وہ واقعہ پھر بہت ہی اہم تفاسیر کا حصہ کیونکر بن گیا؟ اور کیا وہ علماٗ کرام جنہوں نے وہ تفاسیر لکھیںاور ان پر تحقیق کی اور علماٗجمہور کی ایک بڑی تعداد ان تفاسیر سے استفادہ بھی کرتی ہے غلطی پر تھے؟ اور جو تقریبآ 28 بڑی بڑی تفاسیر میں استعمال ہوئی۔


    قادری صاحب کی اس طرح بڑھا چڑھا کر الزام تراشی اور وہ بھی ایک ایسے عالم کے بارے میں‌جسے اللہ نے دوسرے مذاہب کا علم بھی بہت خوبی کے ساتھ عطا فرمایا اور جس کے ہاتھوں‌ بہت سے غیر مسلم دینِ اسلام میں‌داخل ہوئے: سے صاف ظاہر ہے، کہ انکو اصل میں علماء کی بے عزتی کرنا مقصود تھی۔

    حالانکہ ڈاکٹر ذاکر نائیک کی وہ وڈیو میں خود دیکھ چکا ہوں اور یہ مسئلہ صرف اتنا سا تھا کہ انہوں نے "یزید" کے ساتھ انگریزی زبان میں ان الفاظ کا استعمال کیا:
    "May ALLAH be Pleased with Him"
    اور جسکو "رحمتہ اللہ" کے مطلب میں لیا گیااور پھر اس بات پر بہت شور اٹھا

    کیا قادری صاحب کے خیال میں کسی کو رحمتہ اللہ کہنے اور اسکی خدمات پر خراج تحسین کہنے میں کوئی فرق نہیں؟

    یزید کا کیا قصہ ہے؟ اور ڈاکٹر اسرار نے کیا الفاظ استعمال کیئے؟ یہ سب کو پتا ہے۔ مگر چند ایک فرقہ پرست مولویوں نے ان معاملات کو بڑھا چڑھا کر اچھالنا اپنی فطرت کا حصہ بنا لیا ہے۔

    حق تو یہ ہے کہ اگر انکے خلاف کچھ لکھنا ہی ہے تو پھر بڑھا چڑھا کے بہتان بازی کرنے کی بجائے ان معاملات کی اصل کی حدود میں رہا جائے، ورنہ یہ زیادتی ہوگی اور ایسی حرکتیں کرنے والے جاہل مولانوں کی کمی نہیں ہے آجکل۔ جو خود تو ڈھول اور ہارمونیم کی تھاپ پر ناچتے نظر آتے ہیں، اور دوسروں کے خلاف زہر اگل کر یہ سمجھتے ہیں، کہ دینِ اسلام کی خدمت ہو رہی ہے۔
     
  11. فرخ
    Offline

    فرخ یک از خاصان

    Joined:
    Jul 12, 2008
    Messages:
    262
    Likes Received:
    0
    ویسے اچھا ہوتا اگر اکبر قادری صاحب کے پیر و مرشد ڈاکٹر طاہر قادری بھی اس بات کو سمجھتے اور پرویز مشرف کی حمائیت اور الیکشن میں‌کھڑے ہونے کی بجائے دین کی خدمت میں‌لگے رہتے.

    انہوں‌نے مشرف کا ساتھ اسوقت دینا چاہا، جب کہ وہ جانتے تھے کہ مشرف اقتدار میں غیر آئینی اور بدمعاشی کے ساتھ آیا۔ اور جب وہ مضبوط ہوا۔
     
Thread Status:
Not open for further replies.

Share This Page