سنگدل کتنے تیرے شہر کے منظر نکلے جن کی مہماں تھی شبِ غم وہی بے گھر نکلے ایسی آنکھوں سے تو بہتر تھا کہ اندھے ہوتے ہم جسے آئینہ سمجھے وہی پتھر نکلے...
تُجھ پر بھی فسوں دہر کا چل جائے گا آخر دُنیا کی طرح تُو بھی بدل جائے گا آخر پھیلی ہے ہر اِک سمت حوادث کی کڑی دھوپ پتھر ہی سہی، وہ بھی پگھل جائے...
میرے خوابوں میں ہی مجھ سے کبهی ملنے چلے آو صلہ میری محبت کا..............ادا تم اس طرح کر دو
دلِ تباہ ، ترے غم کو ٹالنے کے لیے سنا رہا ہے فسانے اِدھر اُدھر کے مجھے
کمااااااااااااااااااااااااال اسسست جناب
وااااااااااااااااااااااااااااااہ جناب بہت خوب