اتنی مدت بعد ملے ہو کن سوچوں میں گم پھرتے ہو اتنے خائف کیوں رہتے ہو؟ ہر آہٹ سے ڈر جاتے ہو تیز ہوا نے مجھ سے پوچھا ریت پہ کیا لکھتے رہتے ہو؟ کاش کوئی ہم سے بھی پوچھے رات گئے تک کیوں جاگے ہو؟ میں دریا سے بھی ڈرتا ہوں تم دریا سے بھی گہرے ہو کون سی بات ہے تم میں ایسی اتنے اچھے کیوں لگتے ہو؟ پیچھے مڑ کر کیوں دیکھتا تھا پتھر بن کر کیا تکتے ہو؟ جاؤ جیت کا جشن مناؤ میں جھوٹا تم سچے ہو اپنے شہر کے سب لوگوں سے میری خاطر کیوں الجھے ہو؟ کہنے کو رہتے ہو دل میں پھر بھی کتنے دور کھڑے ہو ہم سے نہ پوچھو ہجر کے قصے اپنی کہو اب تم کیسے ہو؟ محسن تم بدنام بہت ہو جیسے ہو، پھر بھی اچھے ہو (محسن نقوی)
آوارگی یہ دل یہ پاگل دل میرا کہاں بجھ گیا! آوارگی اس دشت میں اک شہر تھا، وہ کیا ہوا؟ آواگی کل سب مجھے بے شکل کی آواز نے چونکا دیا میں نے کہا تو کون ہے؟ اس نے کہا! آوارگی اک اجنبی جھونکے نے جب پوچھا میرے غم کا سبب صحرا کی بھیگی ریت پر میں نے لکھا! آوارگی یہ درد کی تنہائیاں، یہ دشت کا ویراں سفر ہم لوگ تو اکتا گئے، اپنی سنا! آوارگی کل رات تنہا چاند کو دیکھا تھا میں نے خواب میں محسن مجھے راس آئے گی شاید سدا! آوارگی (محسن نقوی)
غم کے سنجوگ اچھے لگتے ہیں مستقل روگ اچھے لگتے ہیں کوئی وعدۂ وفا نہ کر، کہ مجھے بے وفا لوگ اچھے لگتے ہیں (محسن نقوی)
نگارِ وقت اب اسے لہو سے کیا چمن کریں؟ یہ دشتِ جاں کہ ہانپتا رہا سراب اوڑھ کر لَبُو کے حرفِ نرم کی تپش سے مَت جگا اِسے یہ دل تو کب کا سو چُکا رادئے خواب اوڑھ کر محسن نقوی لاھور 21 ستمبر 1985
واہ ۔۔ مجھے اس سے محبت ہے کہ اس نے دار کے ماتھے پہ زخمی انگلیوں سے زندگی کا نام لکھ کر اپنے ہونے کا بھرم رکھا کہ اس نے عہد کے سارے اندھیرے چیر کر سچ کے سویرے میں قدم رکھا محسن نقوی
ہوا کا لمس جو اپنے کواڑ کھولتا ہے تو دير تک مرے گھر کا سکوت بولتا ہے ہم ايسے خاک نشيں کب لبھا سکيں گے اسے وہ اپنا عکس بھي ميزان زر ميں تولتا ہے جو ہو سکے تو يہي رات اوڑھ لے تن پر بجھا چراغ اندھرے ميں کيوں ٹٹولتا ہے؟ اسي سے مانگ لو خيرات اس کے خوابوں کي وہ جاگتي ہوئی آنکھوں ميں نيند کھولتا ہے سنا ہے زلزلہ آتا ہے عرش پر محسن کہ بے گناہ لہو جب سناں پہ بولتا ہے
دل جلا کر بھی دلرُبا نکلے میرے احباب کیا سے کیا نکلے آپ کی جستجو میں دیوانے چاند کی رہ گزر پہ جا نکلے سوزِ ہستی ہی جب نہیں باقی سازِ ہستی سے کیا صدا نکلے دیکھئے کارواں کی خوش بختی چند رہزن بھی رہنما نکلے ہوں تو پتھر ہزار تھے لیکن چند گوہر ہی ہے بہا نکلے دل بھی گستاخ ہو چلا تھا بہت شکر ہے آپ بھی بے وفا نکلے کس کی دہلیز پہ جھکیں محسن جتنے انسان تھے سب خدا نکلے کسی غلط لفظ کی معافی چاہتا ہوں
محسن نقوی نام سے میرا ایک فیس بک پیج بھی اگر کوئی پیج کا حصہ بننا چاہتا ہے تو موسٹ ویلکم اور مجھے بہت زیادہ خوشی بھی ہو گی اس کا لنک کاپی کیا ہوا ہے پر یہاں(paste) نہیں ہو رہا
دشتِ ہجراں میں نہ سایہ نہ صدا تیرے بعد کتنے تنہا ہیں تیرے آبلہ پا تیرے بعد ایک ہم ہیں کہ بے برگ و نوا تیرے بعد ورنہ آباد ہے سب خلقِ خدا تیرے بعد ایک قیامت کی خراشیں میرے چہرے پہ سجیں ایک محشر میرے اندر سے اٹھا تیرے بعد تو کہ سمٹا تو رگِ جاں کی حدوں میں سمٹا میں کہ بکھرا تو سمیٹا نہ گیا تیرے بعد ملنے والے کئی مفہوم پہن کر آئے کوئی چہرہ بھی نہ آنکھوں نے پڑھا تیرے بعد محسن نقوی
ہر گھڑی رائیگاں گزرتی ہے زندگی اب کہاں گزرتی ہے درد کی شام، دشتِ ہجراں سے صُورتِ کارواں گزرتی ہے شب گراتی ہے بجلیاں دل پر صبح آتش بجاں گزرتی ہے زخم پہلے مہکنے لگتے تھے اب ہوا بے نشاں گزرتی ہے تُو خفا ہے تو دل سے یاد تری کس لیے مہرباں گزرتی ہے اپنی گلیوں سے امن کی خواہش تن پہ اوڑھے دھواں گزرتی ہے مسکرایا نہ کر کہ محسن پر یہ سخاوت گراں گزرتی ہے (محسن نقوی)
مری سانسوں کی خوشبو سے تجھے زنجیر ہونا ہے ابھی اس خواب کو شرمندہءِ تعبیر ہونا ہے یہ کہہ کر اپنی محرومی کو بہلاتا ہے دل اپنا اگر وہ چاند ہے تو پھر اُسے تسخیر ہونا ہے مرے لفظوں کی لغزش کہہ رہی تھی آج محفل میں کہ تیری خامشی کو حاصلِ تقریر ہونا ہے محسن نقوی
تُجھ پر بھی فسوں دہر کا چل جائے گا آخر دُنیا کی طرح تُو بھی بدل جائے گا آخر پھیلی ہے ہر اِک سمت حوادث کی کڑی دھوپ پتھر ہی سہی، وہ بھی پگھل جائے گا آخر وہ صبح کا تارہ ہے تو پھر ماند بھی ہو گا چڑھتا ہوا سُورج ہے تو ڈھل جائے گا آخر دِل تُجھ سے بچھڑ کر بھی کہاں جائے گا اے دوست یادوں کے کھلونوں سے بہل جائے گا آخر آوارہ و بدنام ہے محسن تو ہمیں کیا ؟ خود ٹھوکریں کھا کھا کے سنبھل جائے گا آخر محسن نقوی
سنگدل کتنے تیرے شہر کے منظر نکلے جن کی مہماں تھی شبِ غم وہی بے گھر نکلے ایسی آنکھوں سے تو بہتر تھا کہ اندھے ہوتے ہم جسے آئینہ سمجھے وہی پتھر نکلے دن بُرے ہوں تو گُہر پر بھی ہو کنکر کا گماں بن پڑے بات تو صحرا بھی سمندر نکلے آبگینوں کو جو توڑا تو وہ ٹھہرے مٹی سنگیزوں کو جو پرکھا تو وہ "مرمر" نکلے جن کو نفرت سے ہَوا، راہ میں چھوڑ آئی تھی آسماں پر وہی ذرے مہ و اختر نکلے شہر والوں نے جنہیں دار کا مجرم سمجھا وہ گنہگار محبت کے پیمبر نکلے خوف سے موت کی ہچکی بھی اٹک جاتی ہے اس خامشی میں کہاں کوئی سُخنور نکلے؟ میری ہر سانس تھی میزانِ عدالت محسنؔ جتنے محشر تھے میرے جسم کے اندر نکلے !