1. اس فورم پر جواب بھیجنے کے لیے آپ کا صارف بننا ضروری ہے۔ اگر آپ ہماری اردو کے صارف ہیں تو لاگ ان کریں۔

میرا آخری کالم ۔۔۔ رضی طاہر

'کالم اور تبصرے' میں موضوعات آغاز کردہ از محمد رضی الرحمن طاہر, ‏28 جولائی 2014۔

?

کیا انقلاب پاکستان کیلئے آپ طاہرالقادری کا ساتھ دیں گے ؟

  1. جی ہاں ہم ساتھ ہیں

    7 ووٹ
    77.8%
  2. جی نہیں

    2 ووٹ
    22.2%
  1. محمد رضی الرحمن طاہر
    آف لائن

    محمد رضی الرحمن طاہر ممبر

    شمولیت:
    ‏19 اپریل 2011
    پیغامات:
    465
    موصول پسندیدگیاں:
    40
    ملک کا جھنڈا:
    ( …… میرا آخری کالم …… )
    [​IMG]
    موت سے اسکو ڈرایا جاسکتا ہے جس کے دل میں موت کا خوف ہو۔ جس کے دل میں جذبہ شہادت ہو اسے نہ ڈرایا جاسکتا ہے نہ دھمکایا جاسکتا ہے اور نہ ہی ایسی مذموم حرکات سے مشن سے پیچھے ہٹایا جاسکتا ہے۔
    ”میں ڈاکٹر محمد طاہرالقادری کا کارکن ہوں اور پاکستان کو حقیقی معنوں میں جناح کا پاکستان بنانے کیلئے ان کے شانہ بشانہ کھڑا ہوں“
    جناح۔۔ اتحاداور تنظیم کا درس دیتے رہے اور ہمارے نظام نے قوم کو منتشر اور پارہ پارہ کردیا، ہم ایک قوم نہ رہے بلکہ18کروڑ سروں کا ہجوم بن کر رہ گئے۔۔۔ !!
    جناح۔۔ پارلیمنٹ کے اجلاس میں چائے پینے کے بھی مخالف تھے جبکہ یہاں پارلیمنٹ لارجز میں شراب کھلے عام چلتی ہے۔ بیرون ملک سے لائی گئی لڑکیاں کرپٹ نظام کی پیداوار حرام اشرافیہ کی راتوں کو رنگین بناتی ہیں۔
    جناح۔۔ ایک کرسی سرکاری خرچے میں اپنے گھر کیلئے خریدنے سے منع فرمادیتے مگر آج سرکاری خرچ پر پوری کی پوری فیملیاں عیاشیاں کررہی ہیں۔ شہنشاہ کا بیٹا ہیلی کاپٹر سے نیچے پاؤں نہیں رکھتا۔ بیٹی سرکاری خرچ کو اپنا بینک بیلنس سمجھتی ہے اور رشتہ دار اپنا حق۔۔ بیرون ملک دوروں میں پٹواریوں کی پوری ٹیم کے ہمراہ اربوں ڈالر اڑا دئیے جاتے ہیں۔
    جناح۔۔ انتہاپسندی کو مہلک مرض سمجھتے تھے مگر آج مساجد، امام بارگاہیں، تبلیغی مراکز، بازار، گلی کوچے انتہاپسندی اور دہشت گردی کی آگ میں جل رہے ہیں۔اس آگ میں نہ جانے کتنے بچے اپنے باپ کی شفقت، ماں کی محبت سے محروم ہوئے۔ نہ جانے کتنی بہنیں بھائیوں کے سائے سے محروم ہوئیں اور نہ جانے کتنی مائیں ہیں جن کا کلیجہ اپنے بچے کے بچھڑ جانے کے غم میں چھلنی چھلنی ہے۔
    جناح کے پاکستان میں کرپشن، طبقاتیت، رشوت، سفارش، اقرباء پروری اور خاندانی بادشاہت کی گنجائش نہیں!
    سماج دشمنوں،بھتہ خوروں، لٹیروں، دہشت گردوں اور انتہاپسندوں کیلئے کوئی جگہ نہیں۔۔۔
    جناح کا پاکستان بکے ہوئے صحافیوں، بے ضمیر سیاستدانوں، کرپٹ اشرافیہ، دین فروش ملاؤں اور جعلی پیروں کیلئے بھی تنگ ہے۔

    میں جناح کے پاکستان کا حامی اور نظام کا دشمن ہوں۔۔اس فرسودہ نظام نے ان تمام برائیوں کو تحفظ فراہم کیا، چونکہ یہ نظام جناح کے پاکستان کی موجودہ مسخ شدہ تصویر کا ذمہ دار ہے اسلئے میں یقینا طاہرالقادری کیساتھ فرسودہ نظام کی تعفن زدہ عمارت کو اکھاڑ پھینکنے کی جدوجہد کررہا ہوں۔ میں جناح کے پاکستان کو جناح کی عظیم فکر کے تابع دیکھنا چاہتا ہوں۔۔۔
    میں وقت کے فرعون صفت حکمرانوں، بے ضمیرمقتدر طبقے اور یزید وں سے مخاطب ہوں۔
    میری شناخت کرلو !! مجھے جی بھر کے دیکھ لو!!
    میں طاہرالقادری کا کارکن ہوں۔
    میں سینہ تانے کھڑا ہوں۔ تم ڈرا نہیں پائے ہو نہ ڈرا پاؤ گے۔
    تم ہمیں مشن سے ہٹا نہیں سکے ہو نہ ہٹا سکو گے۔۔

    یہ وہ کارکن ہیں کہ جہاں طاہرالقادری کا پسینہ گرے وہاں خون بہا دیں، وہ اشارہ کریں تو گردہ کٹا دیں اور اسے کی طرف میلی آنکھ اٹھے تو آنکھیں نکال دیں“ ۔۔۔ جی ہاں یہ وہ کارکن ہیں اور میں ان کارکنوں میں سے ہوں جن پر تمہارے بھیجے ہوئے زر خرید غلاموں اور پالتو کتوں نے رات کی تاریکی میں گولیاں برسائیں، ظلم کیا۔۔۔ میں سلام پیش کرتا ہوں سانحہ ماڈل ٹاؤن میں اپنے خون شہادت سے انقلاب کی بنیاد رکھنے والے14سپوتوں کو جن میں میری دو عفت مآب بہنیں بھی شامل ہیں، وہ یزیدی لشکر کے سامنے جھکے نہیں، پیچھے ہٹے نہیں اور ان کے مذموم مقاصد کو بالاخر ناکام بنایا۔ نہتے رہ کر مقابلہ کیا۔ عقل سے عاری کالے بیلوں نے اپنے مالک کے ہانکنے پرجب گولیاں برسا دیں تو انہوں نے سینے پیش کردیئے۔۔۔ جذبوں اورولولوں، شجاعت و بہادری کی وہ تاریخ لکھ دی کہ ہمیشہ وہ یاد کیے جائیں گے اور شرافت کا لباس پہنے ہوئے فرعونوں پر لعن طعن ہوتا رہے گا۔
    اے تخت لاہور کے بادشاہ !!
    اے 14انقلابیوں کے لہو سے اپنی پیاس بجھانے والے ہلاکو خان !!
    اے غریب کی عزتیں لوٹ کر تماشہ کرنے والے اداکار۔۔۔ !!
    اے جعلی پولیس مقابلوں میں بے گناہ قتل کروانے والے بدمعاش۔۔۔!!
    اے لیڈی ہیلتھ ورکرز اور نرسز پر لاٹھی چارج کروانے والے نامرد۔۔!!
    سنو!! تمہاری تاریک راتوں میں اگر کسی روز میں بھی مارا گیا تو ایسا کرنا کہ
    میرے جسم کے ٹکڑے ٹکڑے کردینا۔۔۔!
    پھر انہوں اپنے اتفاق فاؤنڈری کی بھٹی میں جلا دینا۔۔۔!!
    پھر جلی ہوئی راکھ کو اپنی غرور کی تسکین کیلئے ہوا میں پھینک دینا۔۔۔!!
    مجھے رب ذوالجلال کی عزت کی قسم ۔۔ پھر لاہور کی فضا میں میری راکھ کے ذروں کا انقلابی رنگ دیکھنا۔
    تمہارے دیئے ہوئے لیپ ٹاپ کی رشوت نوجوان تمہارے محل پر دے ماریں گے اور تمہیں لاہور کی سڑکوں پر گھسیٹیں گے۔
    تمہارے دکھائے ہوئے خواب نوجوان اپنے زور بازو سے پورے کریں گے اور تمہاری آنکھیں نکال دیں گے۔

    ہا ں سن سکتے ہو تو سنو۔۔ جذبے ابھی زندہ ہیں۔۔ ولولے ابھی زندہ ہیں۔۔
    جیالے ابھی زندہ ہیں۔۔ رکھوالے ابھی زندہ ہیں۔۔
    یہ تحریر انقلابی کی ہے۔ انقلابیوں کے خاموش جذبے بھی طلاطم اور زلزلے بپا کردیا کرتے ہیں یہ پھر بھی الفاظ ہیں۔۔۔ یہ زندہ وجاوید لفظ ہیں۔۔۔ اگر تم انقلاب سے قبل بھی یہ لفظ پڑھ لو تو میرا ایمان ہے کہ روز انقلاب تک بھی تمہیں ہر روز پاگل پن کے دورے پڑھیں گے۔ میرے کالم کی کوئی ترتیب نہیں۔ یہ بے ترتیب الفاظ کا مجموعہ ہے۔ یہ لفظ نہیں جذبے ہیں۔۔ انقلاب سے قبل یہ میرے آخری الفاظ ہیں۔ میں اگر شہید نہ ہوا تو انقلاب کے بعد لکھوں گا۔ اگر شہید ہوگیا تو یہ تحریر تاریخ کے ماتھے کا جھومر بن کر صدیوں پڑھی جاتی رہے گی۔
    میں چلنے سے قبل بتانا چاہتا ہوں کہ میں نے انقلاب کے راستے کو کیوں اپنایا۔ میں نے اپنی بے حسی کی زندگی عیاشیوں میں گزارنے پر راہ انقلاب پر سفر کو ترجیح کیوں دی؟ اور میں نے ستمبر2013سے لیکراگست2014تک 40ہزار کلومیٹر کا سفر کراچی تا خیبر کیوں کیا؟ میں نے طاہرالقادری کی آواز پر لبیک کیوں کیا؟ بتانے تو اتنا ہی کافی ہے کہ گجرات کے ایک زمیندار نے معصوم بچے کے بازو کاٹ دئیے اسلئے میں انقلاب کیلئے نکلا ہوں مگر میں قوم کے تمام زخموں کے پیچھے چھپی تمہاری شرافت کے پردے چاک کرنا چاہتا ہوں۔ میں انقلاب کیلئے نہیں نکلوں گا اگرتم انصاف کے درج ذیل تقاضے پورے کردو۔۔۔
    1: میلسی میں مہنگائی اور حالات کی ستم ظریفی سے تنگ آکر نہر میں کود کر جان دینے والی پانچ بہنوں کا قصور بتادو؟
    2: میری عفت مآب بہن تنزیلہ امجد شہید سمیت14بے گناہ شہریوں کے قتل کا جواز بتادو؟
    3: کراچی کی فٹ پاتھوں پر روزانہ بے گناہ ہلاک ہونے والے شہریوں کو انصاف اور بسنے والوں کو امن دیدو
    4: ہزارہ وال برادری کی نسل کشی کرنے والے عناصر کو ننگا کرو اور انہیں عدالتوں میں پیش کرکے منطقی انجام تک پہنچادو
    5: پانچ سالہ فاطمہ کیساتھ زیادتی کرنے والے شیطان صفت درند ہ کو پکڑ کر کٹہرے میں لے آؤ۔
    6: شہید بینظیر بھٹو اور حکیم سعید کے قاتلوں کو گرفتار کرکے چوک پر پھانسی کی سزا دو۔
    7: سیالکوٹ میں کچھ سال قبل دن دیہاڑے درندگی سے قتل ہونے والے دو بھائیوں کی ماں کو عدل دو۔
    8: خودکش دھماکوں میں جام شہادت نوش کرنے والوں کے لواحقین کو انصاف دو اور ان کے قاتلوں، قاتلوں کے معاونین اور سربراہان کو عبرت کا نشان بنادو، ان کے تنظیموں کا جڑ سے اکھاڑ پھینکو، اندرون و بیرون ملک ان کے فنڈز کے ذرائع تلاش کرکے ختم کردو۔
    9: ان محرکات کو تلاش کرکے ختم کردو جس کی وجہ سے ایک ماں نے اپنے بچوں کے گلے کاٹ دئیے۔
    10: جاگیرداروں سے جاگیریں چھین کر مزارعوں میں بانٹ دو جو ظلم اور استحصال کی چکی میں پس رہے ہیں۔
    12: اپنی ملوں سمیت پبلک سیکٹر اور تمام پرائیوں ملوں اور فیکٹریوں کے ملازمین کو فیکٹری کے منافع کا حصہ دار بنادو۔
    13: جعلی پولیس مقابلے ختم کروا ؤ، پولیس سیکٹر میں تمام سفارشی اور سیاسی بھرتیوں کا خاتمہ کرکے میرٹ پر بھرتیاں کرو۔
    14: ملک کے تمام نونہالوں کو ایک نظام تعلیم دو۔
    15: طبقاتیت کا ہر سطح پر خاتمہ کرکے عام مخلص اور پڑھے لکھے شخص کو اسمبلی میں نمائندگی کیلئے قوانین وضع کرو۔

    تم نے یہ سب کچھ نہیں کیا۔ یہی میرا نقلاب کیلئے صف آراء ہونے کا جواز ہے۔ یہ سب کچھ شروع کرنے میں 24گھنٹے لگتے ہیں۔ مگر یہ سب کچھ کرنا تمہارے اور تمہاری بکاؤ کابینہ کیلئے پاؤں میں کلہاڑی مارنے کے مترادف ہے۔

    تاریخ کے صفحات میری ان سطور پر گواہی دیں گے کہ طاہرالقادری کیساتھ نکلنے والے کیوں نکلے ہیں۔ کون سی تڑپ، کون سا جذبہ انہیں سڑکوں پر لے آیا۔
    جی ہاں۔۔۔۔ مزدور اور مزدوروں کے بیٹے، بیٹیاں اپنے حصے کی تاریکیوں کو اجالے میں بدلنے نکلے ہیں۔
    وطن کے قابل فخر اور محنتی کسان، مزارعین اور ان کے بیٹے، بیٹیاں غلامی کی زنجیریں توڑنے نکلے ہیں۔
    چھوٹے تاجر، سرکاری ملازمین اور کم تنخواہ والے پاکستانی عوام اس بے انصافی اور استحصال کو جڑ سے اکھاڑنے نکلے ہیں۔
    طالب علم جن کے ہاتھ میں قلم اور کتابیں ہیں وہ طبقاتیت کے خاتمے اور ایک نظام تعلیم کیلئے نکلے ہیں۔
    قوم کے جوان بیروزگاری سے مایوس ہوکر امید کے دئیے جلانے نکلے ہیں۔
    اقلیتی برادری قائد اعظم کے وعدے جس کے مطابق برابر حقوق دیئے جانے کا وعدہ ہے اس کی تکمیل کیلئے نکلے ہیں۔
    وکلا، قانون دان آئین کی اپنی اصل روح کیساتھ بحالی کیلئے نکلے ہیں۔
    مشائخ، علمائے کرام اسلام کو پاکستان میں نافذ کرنے نکلے ہیں۔
    گویا۔۔۔۔ بچے، بوڑھے، جوان، خواتین اور ہر عمر کے پاکستانی پاکستان بچانے نکلے ہیں۔۔۔۔۔!!
    میرا آخری کالم ایک اذان ہے۔ بیداری شعور و احساس کیلئے ننھے ابابیل کی طرح کی ایک کوشش ہے۔ ہم نے ہمیشہ شب ظلمات کے شکوؤں اور شکایات پر ہی زور دیا، ہم نے اپنے حصے کے دیپ جلانے کی سعی نہ کی۔ طاہرالقادری ہو یا کوئی بھی جو ظلم کیخلاف اپنی آواز کو بلند کرے اس کا ساتھ دینا ایسا ہی ہے جیسے اپنے حصے کی شمعیں روشن کرنا۔اپنے حصے کے دیپ جلانا۔
    آخر کب تک ہم لاشیں اٹھاتے رہیں گے؟
    آخر کب تک بھوک سے نڈھال بچے مرتے رہیں گے؟
    آخر کب تک وطن کی گلیاں اندھیروں میں رہیں گی؟
    آخر کب تک فٹ پاتھوں پر خون بہتا رہے گا؟
    آخر کب تک بہنوں اور بیٹیوں کی عزتیں تار تار ہوتی رہیں گی؟
    یاد رکھیں معاشرے برائی کیساتھ قائم رہ سکتے ہیں مگرظلم کیساتھ نہیں۔ اگر ہم نے بڑھ کر ظلم کا بازو نہ توڑا تو ہمیں معاشرے سے ہاتھ دھونا پڑے گا۔ ظلم کیخلاف خاموش رہنے والی قومیں کبھی زندہ نہیں رہ سکتیں۔لہذا اٹھیں اس ہمہ گیر ظلم کے خلاف انقلاب برپا کردیں۔
    انقلاب ہی بے گھروں کو گھر دے گا۔
    انقلاب ہی بیروزگاروں کو روزگار دے گا۔
    انقلاب ہی استحصال کا خاتمہ کرے گا۔
    انقلاب ہی پاکستان کو عالمی سطح پر ایک خود مختار ریاست بنائے گا۔
    انقلاب ہی پاکستان کو ایسی قیادت فراہم کرے گا جو بڑی سے بڑی قیادت کو NOکہہ سکے۔
    انقلاب ہی مجھے اور آپ کو سرخرو کرے گا اور ہم اپنی نسلوں کو ایک آزاد اسلامی جمہوریہ پاکستان دے سکیں گے۔
    میں انشاء اللہ پاکستان کیلئے نکلا ہوں۔ کشتیاں جلا کر نکلا ہوں۔ زندہ رہا توپاکستان میں حقیقی جمہوری سیاسی رویوں کے فروغ پا جانے کے بعد اور نئے سیاسی و انتخابی نظام میں ایک کامیاب سیاستدان بنوں گا۔ اللہ ہمارا حامی و ناصر
    (رضی طاہر ۔ اٹک)
     

    منسلک کردہ فائلیں:

  2. آصف احمد بھٹی
    آف لائن

    آصف احمد بھٹی ناظم خاص سٹاف ممبر

    شمولیت:
    ‏27 مارچ 2011
    پیغامات:
    40,593
    موصول پسندیدگیاں:
    6,030
    ملک کا جھنڈا:
    السلام علیکم
    اصلاح و تبدیلی کی ہر کوشش اور سعی قابل قدر اور قابل پذیرائی ہے ، جس حد تک بھی ممکن ہو ایسی کسی بھی تحریک کا حصہ بننا اور اور اس کے لیے ہر حد تک جانا قابل تحسین و تقلید ہے ، میں خود برسوں سے تبدیلی کی کوشش کرنے والوں کے ساتھ رہا ہوں ، برسوں تحریک انصاف کا ( اپنے خیال کے مطابق ) سر گرم کارکن رہا ہوں ، اپنی حد تک تبدیلی کی تحریک کو اپنی انتہا تک پہنچانے کی ہر ممکن کوشش کرتا رہا ہوں ، 11 مئی 2013 تک میں ایک سیاسی جماعت کا سرگرم کارکن تھا ، اور اُس کے بعد اگلے دن جب نتائج آئے تو میں جان گیا ، اس نظام میں رہتے ہوئے اور اس نظام کا حصہ بنے رہنے سے تبدیلی کسی طور ممکن نہیں ہے ، موجودہ نظام ( نام نہاد جمہوریت ) میرے دل سے بلکل ہی اُتر گیا ، مجھے یقین ہو گیا کہ اگر آسمان سے فرشتے بھی اُتر آئیں تو اس نظام میں وہ بھی ہم سب جیسے ہی ہو جائینگے ۔
    پھر جب جناب طاہر القادری صاحب نے پاکستان آ کر خود تبدیلی کی کوشش کا حصہ بننے اور اُس کی قیادت کرنے کا اعلان کیا تو ایک بار پھر میرے دل میں امید پیدا ہوئی میں ایک بار پھر یہ سوچنے پر مجبور ہوا کہ موجودہ نظام کو تبدیل کیا جا سکتا ہے ، سانحہ ماڈل ٹاؤن نے مجھے اندر سے بلکل ہی توڑ دیا مگر شہداء کے عزم و حوصلہ نے میرا حوصلہ بڑھایا ، بلکہ بہت بڑھایا ، یہاں تک کہ میں پاکستان جا کر خود اس تحریک کا حصہ بننے کے بارے میں سنجیدگی سے سوچنے لگا ، مگر ۔ ۔ ۔ ۔
    مگر ۔ ۔ ۔ اب ایک بار مجھے پھر محسوس ہو رہا ہے ، جیسے ، جیسے ایک بار پھر ہمارے ساتھ " ہاتھ " ہو گیا ہے ، جیسے تبدیلی کے اس عمل کو بریک لگ گئی ہے ، جیسے چلتی ہو ئی مشین کی گراریوں میں اچانک کوئیی چیز آ پھنسی ہے ، پوری مشین ایک دُم رُک گئی بس محض گراریوں کے زور لگانے اور آپس میں گھسنے کے سبب پیدا ہونے والا بے ہنگم سا " گرر، گرر " کا شور ہی رہ گیا ہے ۔
    رضی طاہر جیسے لاکھوں انقلابی نوجوانوں کے ساتھ " ہاتھ " ہو گیا ، ( اللہ کرے میرے خدشات بلکل غلط ہوں ) مگر یہی میرا تجزیہ ہے ، میں یہ جانتا ہوں تبدیلی کی یہ لہر کہ جو چل نکلی ہے اسے کوئی نہیں روک پائے گا دیر سویر یہ اپنے منطقی انجام تک پہنچ کر رہے گی ، رضی طاہر جیسے یہ نوجوان کہ جو اپنے سروں سے کفن باندھ کر گھروں سے نکل چکے ہیں یہ اتنی آسانی سے اب گھروں کو نہیں لوٹ کر جائینگے ، یہ اس نظام کو تبدیل کر کے ہی آرام کرینگے ، مگر ان نوجوانوں کے ساتھ " ہاتھ " ہو چکا ہے ، ایک شیدید ترین جذباتی جھٹکے کے بعد یہ نوجوان ایک ایسی قیادت ( یا بغیر کسی قیادت ) کی رہنمائی میں ایسی تبدیلی لائینگے کہ جو نا صرف اس ملک کے لیے بلکہ اس خطے اور شاید پوری دُنیا کو ہی تبدیل کر دے ، کم و بیش وقت آ چکا ہے ، رضی طاہر اور اس جیسے لاکھوں نوجوانوں کے جذبوں کو سلام ، ان کی جرائتوں کو سلام ، ہم اپنی زندگی سوچتے اور کاغذ کالے کرتے ہی گزارتے رہے مگر یہ نوجوان ، یہ باکردار نوجوان عملی لوگ ہیں ، یہ اپنے عمل سے تبدیلی لائینگے ، شاید ہم نہ رہیں ، متی ہو جائیں مگر یہ لوگ ، اور ان کا نام ہماری تاریخ کا حصہ ہونگے ، آنے والی نسلیں ان کی احسان مند رہینگی ۔ ۔ ۔
     
    پاکستانی55، محبوب خان، تانیہ اور 2 دوسروں نے اسے پسند کیا ہے۔
  3. نعیم
    آف لائن

    نعیم مشیر

    شمولیت:
    ‏30 اگست 2006
    پیغامات:
    58,107
    موصول پسندیدگیاں:
    11,153
    ملک کا جھنڈا:
    رضی طاہر کے جذبوں کو سلام۔
    ہر اس پاکستانی کے عزم و ہمت کو سلام جو کروڑوں غریبوں کوظالموں و غاصبوں سے انکے حقوق واپس دلانے کے لیے برسرِ پیکار ہے
    جیسا کہ میں نے پہلے بھی کہیں لکھا تھا ۔
    انقلاب کبھی بھی ایک لیڈر نہیں لاتا۔ بلکہ رہنما صرف ایک سمت دکھاتا ہے۔ میکنزم دکھاتا ہے۔ طریقہ کار سمجھا دیتا ہے۔ ماقبل انقلاب اور ما بعد انقلاب کے تقاضوں کو واضح کرسکتا ہے۔ مستقبل میں ترقی و کامیابی کے خطوط سے آگہی دے سکتا ہے۔
    لیکن
    انقلاب لانے کے لیے اس قوم کو آگے بڑھ کر قوت ظلم و بدعنوانی کے نظام کا بانیوں اور محافظوں سے چھیننا ہوگی۔جب تک قوم کی بھاری اکثریت اپنے حقوق کی بازیابی کے لیے اٹھ کھڑی نہیں ہوتی ۔ کوئی بڑے سے بڑا لیڈر انقلاب لاکر اس قوم کی جھولی میں نہیں ڈال سکتا۔
    البتہ رضی طاہر بھائی اور ان جیسے ہزاروں لاکھوں نوجوان انشاءاللہ تاریخ میں اپنا نام انمٹ کرجائیں گے۔
    اللہ کریم ہمیں بطور قوم ظلم سے نفرت اور ظالم کے خلاف صدائے حق بلند کرنے کی توفیق اور اپنے حقوق کا شعور عطا فرمائے۔ آمین
     
    پاکستانی55، تانیہ اور آصف احمد بھٹی نے اسے پسند کیا ہے۔
  4. نعیم
    آف لائن

    نعیم مشیر

    شمولیت:
    ‏30 اگست 2006
    پیغامات:
    58,107
    موصول پسندیدگیاں:
    11,153
    ملک کا جھنڈا:
    میں آصف بھٹی بھائی کی اس بات سے متفق ہوں کہ پوری اسلامی دنیا کی نظریں اس وقت پاکستان پر لگی ہیں۔ بلکہ اغیار کی نظریں بھی اس وقت پاکستان پر گڑی ہیں۔
    امت مسلمہ کے تنِ مردہ میں اگر پھر سے کہیں سے روح ِ حیات پھونکی جاسکتی ہے۔ تو وہ شہ رگ پاکستان ہے۔ پاکستان کے اندر امت مسلمہ کی قیادت کرنے کے تمام اوصاف موجود ہیں اور پوری اسلامی دنیا میں پاکستان کی حیثیت اپنی تمام تر خامیوں کے باوجود ایک بڑے اور بہادر بھائی جیسی ہے۔
    اگر ہماری سمت ایک بار درست ہوگئی۔ قوتِ نافذہ ایک دیانتدار اور اہل قیادت کے پاس آگئی جو بےرحم احتساب کے ذریعے نہ صرف لوٹی ہوئی دولت واپس لاسکے۔ بلکہ کرپشن کو روک کر غریب عوام کو انکے بنیادی حقوق رہائش، خوراک، علاج ، تعلیم ، تحفظ جیسے آئینی حقوق کو یقینی بنا سکے تو چند سالوں میں ہم امتِ مسلمہ کی قیادت کے قابل ہوسکتے ہیں۔ انشاءاللہ العزیز
    وقت یہی ہے۔ کیونکہ " خوش قسمتی " بار بار دروازہ نہیں کھٹکھٹاتی ۔
     
    پاکستانی55, محبوب خان, تانیہ اور مزید ایک رکن نے اسے پسند کیا ہے۔
  5. آصف احمد بھٹی
    آف لائن

    آصف احمد بھٹی ناظم خاص سٹاف ممبر

    شمولیت:
    ‏27 مارچ 2011
    پیغامات:
    40,593
    موصول پسندیدگیاں:
    6,030
    ملک کا جھنڈا:
    السلام علیکم
    جناب محترم قادری صاحب کے دس نقات سے شاید ہی کوئی متفق نہ ہو ، یہ وہ تمام باتیں ہیں کہ جو ہر ایک کے " دل کی بات " ہے ، جیسا کہ ہمیشہ سے کہتا ہوں کہ پوری انسانی تاریخ میں انقلاب صرف ایک بار یعنی رسول عربی محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے ہاتھوں بپا ہوا ، اُس سے پہلے اور بعد میں اگر کچھ تبدیلی کا عمل ہوا ، یعنی قومی سطح پر کسی قوم نے اپنا رُخ اپنی سمت اور معیار زندگی تبدیل کیا تو وہ محض تبدیلی ہے ، یہ تمام واقعات محض زندگی کے کچھ رُخوں کو کچھ ترجیحات کو ہی بدل سکے ، کبھی ایسا نہیں ہوا کہ کسی قوم کے ہر شخص کی پوری زندگی ہی تبدیل ہو گئی ہو ، اور اگر ایسا ہوا ہے تو یہی انقلاب ہے اور یہ صرف ایک بار ہی ہوا ہے ۔
    وطن عزیز میں یہ جو تبدیلی کی لہر چلی ہے ، جسے ہر دوست انقلاب کا نام دیتا ہے ، میرے خیال میں اسے انقلاب نہیں بلکہ تبدیلی کا نام دینا چاہیے ، خیر یہ تو ہر شخص کا اپنا اپنا خیال ہے ، میں اسے انقلاب کہنے والوں کو غلط نہیں سمجھتا ، البتہ انقلاب کے لیے کچھ بنیادی ترجیحات ہوتی ہے ، اُن کے بغیر انقلاب تو کیا تبدیلی کی کامیاب کوشش بھی ما بعد کامیابی کچھ ہی عرصے بعد اپنی اصل ہیت کھو دیتے ہیں ، پہلی شے ، جسے میں سب سے ضروری سمجھتا ہوں وہ ہے عوامی تربیت ، انقلاب یا تبدیلی کی تحریک کی قیادت کرنے والے رہنما کے لیے لازم ہے کہ وہ اپنی عوام کی تربیت کرے ، آدھی تیتر آدھی بٹیر عوام ما بعد انقلاب یا تبدیلی ہر قربانی کو ضایع کر دیتے ہیں ، قادری صاحب کے کارکنان اور باقی عوام میں کس قدر فرق ہے ، سب جانتے ہیں ، اس ملک میں روزانہ بیسیوں قتل ہوتے ہیں ، بیسیوں بچوں ، بچیوں اور خواتین کے ساتھ زیادتی اور عصمت دری کے واقعات ہوتے ہیں ، حتی کے رمضان کے مبارک مہینے مین بھی یہ واقعات ہو رہے ہیں ، اور یہ سب جاگیر دار یا زمیں دار نہیں کرتے ، عام عوام ، جس کا جہاں " داں " لگ جائے ، لگا دیتا ہے ، اس ملک میں ہزاروں لوگ بجلی ، گیس ، اور پانی کی چوری کرتے ہیں ، اس میں بھی اشرافیہ کے ساتھ ساتھ عام عوام خوب خوب اپنا حصہ ملاتے ہیں ، اس ملک میں روز سرکاری و غیر سرکاری اداروں میں کام کرنے والے عوام اپنے بھائیوں کو رشوت کے زریعے لوٹتے ہیں ، یہاں ایک چپڑاسی سے لیکر وزیر اعظم تک ہر شخص " بہتہ گنگا میں ہاتھ دھونے " کی کوشش کرتا ہے ، اس ملک میں رکشا ، ٹیکسی میں سفر کرنے والی کوئی اکیلی عورت ، لڑکی محفوظ اپنی منزل تک نہیں پہنچ سکتی ، محلے دار اپنے ہی مھلے کے خواتین ، حتی کے معصوم بچوں تک کو اپنی جنسی تسکین کے لیے زیادتی کا نشانہ بناتے اور پھر بہیمانہ انداز میں قتل کر دیتے ہیں ، اپنے ہی رشتے دار پیسے والے عزیز کے بچوں کو اغوا کر کے تاوان وصول کرتے ہیں ، بنک کے گارڈ ، بنک لوٹنے والوں میں شامل ہیں ، اس ہی ملک میں لڑکوں کی جب مسیں بھگینے لگتی ہیں تو وہ " ایڈونچر " کے طور پر نشہ کا استعمال کرتے ہیں ، وہ " ایڈونچر " کے طور پر اپنے ہی گاؤں کے باہر " ناکہ " لگا کر آنے جانے والوں کو لوٹتے ہیں ، پولیس کہ جو کہ محافظ سمجھی جاتی ہے اُس کے بارے میں کچھ بھی لکھنا خود کو شرمندہ کرنے جیسا ہے ۔
    مابعد انقلاب یہ سب ایک دم کیسے ٹھیک ہو جائینگے ؟ کیا پہلے ان سب کو " انقلابی " بنانا درست نہیں ، کیا کسی " غیر تربیت یافتہ قوم " کے ہاتھوں انقلاب آیا ہے ؟
    یہ ہے اصل کام کہ جو کرنے کا ہے اور یہی سب سے بڑا انقلاب ہے ۔

    نوٹ : - یہ میرے نکتہ نظر کے کچھ خاص خاص پہلو ہیں ( میرا نکتہ نظر غلط بھی ہو سکتا ہے ) اور اسے سامنے رکھتے ہوئے میں یہ سمجھنے میں حق بجانب ہوں کہ رضی طاہر جیسے باہمت اور عظیم نوجوانوں کے ساتھ " ہاتھ " ہو گیا ہے ۔ تبدیلی تو خیر آ کر رہے گی ، مگر یہ تبدیلی اب رضی طاہر جیسے نوجوان خود لائینگے ، مگر یہ کوئی سبز انقلاب ( تبدیلی ) نہیں ہو گا ، کہ انقلاب ( تبدیلی ) کبھی سبز ہو ہی نہیں سکتا ، لہو کی سُرخی ہمیشہ اسکے ماتھے کا جھومر ہوتی ہے ، گو کہ ماڈل ٹاؤن کے شہداء نے اس کی ابتداء کر دی ہے ، مگر جب رجی طاہر ، اس " آدھے تیتر آدھے بٹیر " معاشرے کے مکروہ چہرے سے نقاب اُٹھائے گا تو کیا اس معاشرے کا وہ حصہ کہ جو مکروہ چہرے والا ہے ، خاموش رہے گا ؟
     
    واصف حسین، پاکستانی55، محبوب خان اور 2 دوسروں نے اسے پسند کیا ہے۔
  6. آصف احمد بھٹی
    آف لائن

    آصف احمد بھٹی ناظم خاص سٹاف ممبر

    شمولیت:
    ‏27 مارچ 2011
    پیغامات:
    40,593
    موصول پسندیدگیاں:
    6,030
    ملک کا جھنڈا:

    بھولے بادشاہ ! بنیادی حقوق ، رہائش ، روٹی ، علاج ، تعلیم ، اور آئینی تحفظ کبھی بھی اس قوم کا مسئلہ نہیں رہا ، میرا یہی اختلاف مجھے زیادہ عرصے تک کسی بھی تحریک کا بنے رہنے نہیں دیتا ، کہ تمام وہ تحریکیں کہ جو تبدیلی ( انقلاب ) کی بات کرتی ہیں ، اُن کی سوچ یہیں تک ہوتی ہے ، یہ سب کے نا ہونے کے باوجود یہ قوم آج بھی دُنیا کے نقشے پر قائم ہیں ، اصل مسائل صرف دو ہیں ، بحثیت قوم ، " یک قومی تشخص " اور " قیادت کا فقدان " محمد علی جناح کے بعد ہم لوگ آج تک کوئی ملی قائد پیدا نہیں کر سکے ، 12 سال پہلے تک بھی یہ قوم اپنے بنیادی حقوق سے محروم تھی ، مگر پھر بھی دُنیا مین ہم سر اُٹھا کر چلتے تھے ، 9 ، 11 کے بعد ایک سازش کے تحت اور چونکہ ہماری قیادت انتہائی نا اہل تھی ہمارے سر جھکا دئیے گئے ۔
    بھولے بادشاہ ! پاکستان اس لیے معرض وجود میں نہیں آیا کہ ہم پاکستانی باقی دُنیا کے ممالک کی عوام کی طرح بس پیدا ہوں ، بچے پیدا کریں اور ایک روز مر جائیں ، اور ہماری زندگی کا مقصد بس بنیادی حقوق رہائش، خوراک، علاج ، تعلیم ، آئینی تحفظ جیسے حقوق کی فراہمی کو یقینی بنانا ہو ، یہ قوم اور یہ ملک امت مسلمہ اور پھر پوری دُنیا کی قیادت کرنے کے لیے ہمیں بخشا گیا ، یہ اسی قوم کا خاصہ ہے کہ خود رسول اللہ نے فرمایا تھا ( اللہ کمی بیشی معاف فرمائے ) مجھے ہند کی سرزمین سے ٹھنڈی ہوا کے جھونکے آتے ہیں ، یہ خراسان ہی تھا کہ جسے بارے میں رسول اللہ نے فرمایا تھا ( اللہ کمی بیشی معاف فرمائے ) خراسان کے سرزمین سے وہ لشکر نکلے گا کہ جسے دُنیا کی کوئی طاقت نہیں روک سکے گئی ، حتی کہ وہ اپنے جھنڈے ایلیا ( یروشلم ) میں جا کر نصب کریں گے ۔ اور ایک اور حدیث شریف میں اسی لشکر کے بارے میں فرمایا گیا کہ یہی لشکر امام مہدی علیہ السلام کی مدد کرے گا ، علامہ اقبال نے کیا خوب فرمایا تھا ۔
    میر عرب کو آئی ٹھنڈی ہوا جہاں سے
    میرا وطن وہی ہے ، میرا وطن وہی ہے
    اور پھر فرمایا ۔
    سبق پھر پڑھ شجاعت کا صداقت کا امانت کا
    لیا جائے گا تجھ سے کام دُنیا کی امامت کا
    پچھلے چار سو سال کی تاریخ اُٹھا کر دیکھ لیں ، پاکستان کے وجود اور اُس کے ظہور کی پوری کہانی سمجھ آ جائے گی ، چار سو سال سے میشیت الہی ، اس پاک سر زمین کو قیادت عالم کے لیے تیار کر رہی ہے ، حضرت شیخ مجدد الف ثانی رحمتہ اللہ ، حضرت خواجہ غریب نواز ، خواجہ بختیار کاکی ، حضرت علی ہجویری رحمتہ اللہ ، شیخ سر ہندی رحمتہ اللہ ، شہیدین بلاکوٹ حضرت شاہ اسماعیل و حضرت شاہ ولی اللہ سے لیکر علامہ اقبال محمد علی جناح تک ، مولانا مودودی رحمتہ اللہ ، مولانا شفیع محمد اوکاڑوی ، جناب علامہ کوکب نورانی ، جناب ڈاکٹر اسرار احمد سے لیکر جناب مولانا الیاس قادری اور علامہ محمد طاہر القادری تک آپ جس طرف نظر دوڑائیں آپ کو رجل عظیم ہی نظر آئینگے ، اتنی تعداد میں اُمت مسلمہ میں کسی اور قوم نے رجل عظیم پیدا نہیں کئے ، یہ ہماری اپنی غفلتیں ہیں ، کہ ہم لوگ آج بھی یعنی پاکستان کے ظہور کے 66 سال بعد بھی ابھی تک نام کے اسلامی جمہوریہ ہیں ، اس ملک کا آئین کہتا ہے کہ اس ملک میں کوئی بھی قانون قرآن و شریعت کے منافعی نہیں بنے گا مگر ہمارا ایک بھی قانون اسلام کے مطابق نہیں ہے اور یہ ہماری اپنی غفلت ہے ، ہم لوگ صحیح وقت میں صحیح قیادت کے گرد جمع نہیں ہوتے یا پھر ہماری بہترین قیادت یہ تمام رجل عظیم اپنی تمام کر نیک نیتی اور کوششوں کے باوجود ابھی تک ہمیں ایک قوم کی لڑی میں نہیں پرو سکے ۔
     
    واصف حسین، پاکستانی55، محبوب خان اور 2 دوسروں نے اسے پسند کیا ہے۔
  7. محبوب خان
    آف لائن

    محبوب خان ناظم سٹاف ممبر

    شمولیت:
    ‏28 جولائی 2008
    پیغامات:
    7,126
    موصول پسندیدگیاں:
    1,499
    ملک کا جھنڈا:
    یہ قوم مسلمان ہے۔۔۔۔۔۔یا اکثریت ان کی ہے۔۔۔آبادی میں۔۔۔۔مگر تاریخ گواہ ہے۔۔۔۔قوم نے مذہب کے نام پر کسی کو ووٹ نہیں دیے۔۔۔۔۔۔۔۔۔اس کے باوجود۔۔۔۔۔جمہوری سیاست کے بجائے مذہبی سیاست کے نام پر
    فروغ اور پاکی جمہوریت کے نعرے لگانے والے۔۔۔کس کو بہلا رہے ہیں؟۔۔۔۔یہ بس ان کا یہی کام ہے؟
    ورنہ جمہوریت میں ۔۔۔اسی انداز میں آؤ ۔۔ جو طریقہ ہے۔۔۔۔۔اگر موقع ملے تو ثابت کردو۔۔۔۔۔ورنہ ۔۔۔کام کرنے دو۔۔۔۔۔۔۔۔یونان کے فلسفی ساری زندگی یہ کہتے رہے۔۔۔۔کہ بھاری چیزیں اوپر سے زمین پر جلدی اور تیزی سے
    گرجاتی ہیں۔۔۔مگر یہ توفیق نہیں ہوا۔۔۔۔۔کہ چارپائی کوئی دو ہلکے اور بھاری چیز گراکر تجربہ کرتے۔
    تیاری سفر کا کوئی نہیں ہوتا۔۔۔۔منزل کا معلوم نہیں۔۔۔۔۔زادہ سفر کچھ بھی۔۔ نہیں۔۔۔۔۔۔۔۔۔اور نکلے ہیں نظام بدلنے۔۔۔۔ایسے بدلتا ہے۔۔۔۔۔نظام؟۔۔۔۔۔نظام بگڑتا ہے۔۔۔۔۔۔۔۔اور خود خراب ہوجاتے ہیں۔۔۔۔۔کیا
    تجربے کرنے کو پاکستان کے عوام کے سوا کسی کے پاس کچھ نہیں۔۔۔۔جو یہاں سب کرتے ہیں۔۔۔۔۔خدارا۔۔۔۔اپنے نظریات کی پہلے ترویج کریں۔۔۔۔۔۔لوگوں کو ہر طرح سے تیار کریں۔۔۔وہی لوگ اپنے طرز زندگی اور معاملات
    سے وہی کچھ کریں گے۔۔۔۔جو مقصود ہے۔۔۔۔۔مگر ہائے قسمت۔۔۔۔۔۔۔کہ سادہ دل بندے کہاں جائیں ۔۔۔کہ درویش بھی عیار اور شاہ بھی۔۔۔۔۔۔سو دعائے خیر۔
     
    آصف احمد بھٹی اور پاکستانی55 .نے اسے پسند کیا ہے۔
  8. نعیم
    آف لائن

    نعیم مشیر

    شمولیت:
    ‏30 اگست 2006
    پیغامات:
    58,107
    موصول پسندیدگیاں:
    11,153
    ملک کا جھنڈا:
    محبوب بھائی ۔ ذرا ایمانداری سے بتائیے گا ۔۔ چند فیصد باشعور لوگوں کو چھوڑ کر سندھ، بلوچستان، پنجاب کے دیہی پنجاب میں ووٹ دینے کا معیار کیا ہے؟
    کاش پاکستانی عوام ایک بار''ووٹ'' کے ذریعے ترقی پانے والے ممالک میں ''ووٹ کا نظام اور امیدوار کامعیار''سمجھنے کی زحمت کر لیتے تو انہیں معلوم ہوتا کہ جمہوریت کیا ہوتی ہے۔
    جس نظام نے 35-40 سال سے سوائے غربت، افلاس، بدامنی، دہشگردی، لوڈ شیڈنگ ، مسائل اور مایوسی کے اور کچھ نہیں دیا ۔۔۔ اور بطور نظام اپنی ناکامی ثابت کردی ہو
    جاہل سے جاہل بلکہ بھی دوبارہ ایسے راستے پر جانے سے گریز کرتا ہے جہاں سے اسے ایک بار ناکامی و مایوسی کاسامنا ہو۔
    لیکن خداجانے ہم عقل و شعور کے کس ''اعلی مقام '' پر فائز ہیں کہ اسی اوکھلے میں سر دیے جانے ، چند خاندانوں، چند ہزار کرپٹ اشرافیہ کی نسل در نسل غلامی پر مصر ہیں ۔ جو آئین کی دھجیاں اڑاتے ہوئے اسماقتدار کے ایوانوں میں پہنچتے ہیں۔ کیا 62-63 آئین کا حصہ نہیں ؟
    کیا موجودہ حکمرانوں سمیت 60-70 فیصد یا اس سے بھی زیادہ 62-63 اور 218 پر پورے اترتے ہیں ؟
    کیا یہ نظام ہے جس میں حلقے کا کرپٹ ترین غنڈہ ، بدمعاش اور امیر کروڑوں لگا کر اسمبلی پہنچ جائے اور شریف ، لائق، اعلی تعلیم یافتہ کلرکی کرتا رہے ؟
    آپ اسکے نظام کہتے ہیں کہ عوام کے مسائل حل کرنے کے لیے بلدیاتی ڈھانچہ تک نہ بنایا جائے اور کروڑوں اربوں ترقیاتی فنڈز ممبران اسمبلی کی جیب میں جائیں؟ میرا چیلنج ہے چائنہ، ایران ترکی سمیت دنیا کز کسی ترقی پذیر یا ترقی یافتہ ملک میں ترقیاتی فنڈز کا یہ نظام دکھا دیں ؟
    جمہوریت یہ ہے کہ اختلاف رائے رکھنے والے کو سینوں ، گردنوں اور منہ میں سیدھی گولیاں ماردی جائیں ؟ آپ جناب اسکو نظام کہتے ہیں ؟
    جمہوریت یہ ہے یوم شہداء کی فاتحہ خوانی کرنے والوں کو روکنے کے لیے پورا پنجاب بلاک کردیں؟
    محترم ۔۔ جمہوری سوچ والے لوگ اور ہوتے ہیں۔ جن کی سوچ میں جمہوریت ہوتی ہے۔ عوام کی رائے کا احترام ہوتا ہے وہ 20-30 ہزار عوام کے سڑکوں پر آجانے سے بھی غیرت اور جمہوری اقدار کا مظاہرہ کرتے ہوئے استعفی دے کر گھر چلے جاتے ہیں کہ اب میری عوام مجھے پسند نہیں کرتے ۔یہاں گولیوں کے منہ کھول دیے جاتے ہیں ۔
    آئین کے پہلے 40 آرٹیکل پڑھ کر یہاں اردو ترجمہ لکھ دیں ۔۔ جس میں ریاست و حکومت کا فرضِ منصبی ہے کہ وہ عوام کے جان مال، عزت آبرو کے تحفظ کی ضامن بنے ۔ تعلیم، علاج اور محفوظ و خوشحال مستقبل کی ضمانت ہو۔
    کیا یہ نظام آئین کے ان تقاضوں کو پورا کرچکا ہے ؟
    اگر نہیں تو کیا قران و حدیث کا کوئی حکم ہے چند ہزار کرپٹ اشرافیہ کے جال میں پھنس کر محرومیوں، مایوسیوںاور غلامیوں میں نسل در نسل پھنسےرہو؟
    اگر غلامی ہی درکار تھی تو تحریک پاکستان کیوں چلائی ؟ غلامی ہی کرنی تھی تو انگریزوں یا ہندووں کی ہی کرتے رہتے۔۔۔ کھانا تو تب بھی ملتا تھا۔ نماز روزہ کی اجازت تو تب بھی تھی۔
    جو اس نظام سے مطمئن ہوکر غلامی سے خوش ہیں۔ انہیں اپنی سوچ مبارک ۔
    لیکن اگر اس ملک کے لاکھوں لوگ اس نظام سے مطئن نہیں اور وہ تبدیلی چاہتے ہیں تو ان کا بھی جمہوری حق ہے کہ وہ ہر قانونی طریقہ سے اپنی آواز بلند کریں۔
    لیکن تاریخ یاد رکھے گی کہ گولیاں چلانے والے نظام کی حمایت میں کون کون بولا !
    اور اپنے حق کے لیے شہید ہوجانے والوں کے ساتھ کون بولا !
    اپنا اپنا کردار ادا کرتے چلے جارہے ہیں۔ ظالمانہ ، فرعونی و یزیدی نظام کو تحفظ دینے والے بھی ۔۔ اور مظلوم، موسوی و حسینی نقشِ پا پر چلے والے بھی !
    نظام سے مطمئن ہوکر لکیر کے فقیر بنے رہنے والوں سے اتنی گذارش ضرور ہے کہ علامہ اقبال کے فلسفہ انقلاب کو ضرور پڑھیں اور اگر پڑھ چکیں ہیں تو موجودہ حالات کے تناظر میں غوروخوض ضرور کریں۔
     
  9. محبوب خان
    آف لائن

    محبوب خان ناظم سٹاف ممبر

    شمولیت:
    ‏28 جولائی 2008
    پیغامات:
    7,126
    موصول پسندیدگیاں:
    1,499
    ملک کا جھنڈا:
    نعیم بے حد شکریہ۔۔۔۔تجزیہ پیش کرنے کا۔۔۔۔ہمارے دیہاتوں میں ۔۔۔پنجاب کو کسی حد تک چھوڑ کر۔۔۔۔۔جاگیردار ۔۔۔ہی رکن قومی اسمبلی بنتے رہے ہیں۔۔۔۔لیکن یہ اب بہت حد تک کم ہوگیا ہے۔۔۔لوگوں میں سیاسی شعور کے لیے
    خود عمران خان کی پارٹی کا پہلی دفعہ اکثریت میں منتخب ہونا اس بات کا ثبو ت ہے کہ اس قومی میں تمام خوبیاں موجود ہیں۔۔۔۔۔۔۔مگر وہ صوبائی حکومت میں کیا کرپائے؟ ما سوائے اپنے وزیر اعلی کو روکنے کے۔۔۔۔یہ وزیر اعلی صرف پارٹی
    کا ہوتا ہے۔۔۔۔ہرگز نہیں پورے صوبے کا ہوتا ہے۔۔۔۔۔پھر یہ کیا ہے؟اسی طرح علامہ صاحب نے دینی اور تعلیمی اداروں کے ذریعے بہت ہی اچھا اور قابل تعریف کام شروع کیا۔۔۔۔جس کی وجہ سے لوگ بھی ان کے ساتھ ملے۔۔۔اور
    یہ قافلہ بنا۔۔۔۔۔۔اگر آپ لوگوں کو تعلیم یافتہ اور دین کی فہم والے بنانے میں کامیاب ہوگئے۔۔۔۔تو یقین کریں ۔۔۔یہی انقلاب ہوگا۔۔۔۔۔۔۔بطور قومی آدھے صدی کا ہی سفر کیا ہے۔۔۔۔۔اور بہت کچھ سہنے کے باوجود ۔۔۔ہم لوگ
    قوموں کی صف میں ممتاز ہیں۔۔۔۔۔خدا کے لیے درخت ضرور لگاؤ۔۔۔۔مگر اس نیت سے کہ جب بھی پھل ملے۔۔۔۔۔وہ پھل کھائے۔۔۔۔خود کھانے کے لالچ میں ۔۔۔۔۔۔۔اس درخت کے پتے تو توڑے جاسکتے ہیں۔۔۔مگر اس میں پھل اپنے
    وقت پر ہی لگے گا۔
    موجودہ حکمرانوں کیا کچھ کررہے ہیں؟ وہ سب جانتے ہیں۔۔۔۔۔انہیں کام کرنے دیں۔۔۔۔۔آپ ان کے کاموں پر تعمیری اورتنقیدی جائزہ ، تجزیے، رپورٹ اور دیگر زرائع سے لوگوں کو بتائیں۔۔۔۔۔اگر آپ کا مشن سیاسی بیداری ہے۔۔۔۔
    پھر انتخابات میں عوام کو اپنے طاقت کا استعمال کرنے دیں۔۔۔۔اس وقت ۔۔۔۔چاہے تحریک کے کارکنوں کی شہادت ہو یا پولیس والوں کی۔۔۔۔۔۔یہ سب ہمارے شہید ہیں۔۔۔۔جو رہنماؤں کے ہٹ دھرمی کے وجہ سے اپنی زندگیوں سے
    ہاتھ دھو بیٹھے ہیں۔۔۔۔۔۔۔آپ کو معلوم۔۔۔۔۔سندھ، خیبر پختونخواہ، کشمیراور بلوچستان میں لوگ آپ کے تحریک کو صرف اور صرف تعلیم کے حوالے سے جانتےہیں۔۔۔۔میں ذاتی طور پر جانتا ہوں کہ بلوچستان کے کئی غریب اور درمیانے
    طبقے کے بچے منہاج کے ادارے سے تعلیم حاصل کررہے ہیں۔۔۔۔۔۔۔یہ کیا سیاست سیاست کے کھیل میں شامل ہوئے۔۔۔۔۔۔۔شیخ رشید اب آپ لوگوں کو جذباتی کرتا رہے۔۔۔۔۔علامہ صاحب کی تقریریں اب صرف الزامات کے لیے ہیں۔۔۔۔افسوس صد افسوس۔۔۔۔۔۔۔نعیم ۔۔۔۔۔۔۔۔میرا دل دکھ ہی نہیں۔۔۔۔رہا۔۔۔۔مجھے رونا آرہا ہے۔۔۔۔۔۔۔ہم کیا کرسکتے ہیں۔۔۔اور کس طرح کرسکتے ہیں۔۔۔۔اور کیا کررہے ہیں؟
    یہ سب شہادتیں حق پر ہیں۔۔۔۔عام کارکن مخلص ہوتا ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔پولیس اپنی فرائض کی ادائیگی میں جان دہے رہے ہیں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔دونوں کی زیادتیاں ۔۔۔ظلم ہیں۔۔۔۔مگر ڈور کس کے ہاتھ میں ہے؟
    اللہ کریم ہم سب کو ہدایت دے۔ آمین
     
    واصف حسین نے اسے پسند کیا ہے۔
  10. نعیم
    آف لائن

    نعیم مشیر

    شمولیت:
    ‏30 اگست 2006
    پیغامات:
    58,107
    موصول پسندیدگیاں:
    11,153
    ملک کا جھنڈا:
    یہی ہمارا المیہ بھی ہے ۔۔ جس پر رونا بھی چاہیے
    ایک مصلح ، ایک اعلی تعلیم یافتہ سکالر، ایک ماہر قانون دان، ایک بہترین منتظم ۔۔۔ ہمارے نزدیک ایک ثوابی آدمی تو قابل قبول ہے۔ اسکی تقریریں سن لی جائیں۔ اسکی کتابیں پڑھ لی جائیں۔ اسکی تعریفیں کردی جائیں۔
    لیکن ایوانِ اقتدار کے لیے ہمیں وہی جاگیردار، رسہ گیر، بنک ڈیفالٹرز، کرپٹ ، اربوں لوٹ کر دنیا کے درجنوں ممالک میں پراپرٹیاں اور کاروبار بنانے والے کے سپرد کرنا پسند کرتے ہیں۔
    کیا ایک ایسا شخص جو اپنی تمامتر خوبیوں اور اخلاص کا حامل ہے۔ اسکو بطور قوم ایک حاکم تسلیم کرنے میں ہمیں کیا امر مانع ہوتا ہے ؟
    بطور قوم ہم نے کتنا سفر طے کیا ہے۔۔۔ کیا چائنہ نے انقلاب کے بعد بھی اتنا ہی سفر طے نہیں کیا ؟
    کیا بھارت نے بھی آزادی کے بعداتنا ہی سفر طے نہیں کیا ؟
    بنگلہ دیش کی آزادی تو ابھی کل کی بات ہے۔۔ کیا انکی تعلیم و ترقی کی رفتار ہم سے کہیں زیادہ نہیں ؟
    یورپ میں جرمنی ، آسٹریا ، سمیت متعدد ممالک عالمی جنگ کے بعد ہم سے بھی بعد میں تعمیرِ نو کے مرحلے میں داخل ہوئے۔۔۔ کیا انکی حالت بھی ایسی ہی ہے ؟
    اور کتنی مثالیں دوں یہ ثابت کرنے کے لیے کہ موجودہ نظام ۔۔۔ چند ہزار کرپٹ اشرافیہ کا بنایا ہوا جال ہے۔۔ ایسا جال جس کے ذریعے وہی اشرافیہ ، انہی کے مامے چاچے، انہی کی قبیل کے لوگ 19-20 کے فرق سے اقتدار میں پہنچتے ہیں۔ ٹائٹل کوئی بھی ہو۔ جماعت کوئی بھی ہو۔ لیڈر کوئی بھی ہو ۔۔۔۔ ایوانان اقتدار میں کم و بیش وہی کرپٹ خاندان بیٹھے نظر آتے ہیں۔
    عمران خان کی مثال خوب ہے۔۔۔۔ کیا عمران خان نے بھی اکثریتی الیکشن ٹکٹ انہی خاندانوں کے نمائندگان کو نہیں دیے؟ چند ایک حلقوں کو چھوڑ کر۔۔ بتائیے کہاں سے متوسط طبقہ کی قیادت سامنے آئی؟ کیا ہر حلقہ میں تحریک انصاف کو بھی کروڑوں روپے نہیں لگانے پڑے ؟؟؟؟
    اور پھر آپ نے خود ہی اپنے جواب میں یہ بھی بتا دیا کہ ۔۔ موجودہ نظام کے نمائندگان کے ذریعے اگر آپ حکومت بھی بنا لین تو یہ کرپٹ نظام اسکے کرپٹ نمائندگان اور آلہ کار آپ کو چاہتے ہوئے بھی کوئی مثالی کارکردگی نہیں دکھانے دیں گے۔ ۔۔۔ وزیراعلی ہاوس کو لائبریری بنانے کے اعلان سے لے کر کرپشن کو جڑ سے اکھاڑ پھینکنے کے دعوے کہاں گئے ؟
    یہی موقف ہمارا بھی ہے۔۔۔ کہ جب تک کرپٹ نظام بنیادوں سے تبدیل نہیں ہوتا ۔۔۔ کڑا احتساب کرکے لوٹ مار کرنے والوں کو قانون کے مطابق سزا دے کر نشانہ عبرت نہیں بنا دیا جاتااور انکی لوٹی ہوئی دولت کو واپس قومی خزانے کے ذریعے عوام کو منتقل نہیں کردی جاتی ۔
    جب تک اختیارات ، وسائل منصفانہ طور پر ہر شہر قصبہ تک نہیں پہنچ جاتے ۔۔ اس وقت تک کچھ بھی تبدیل نہیں ہوگا۔
    الیکشن کا نظام جب تک شفاف اور سستا نہ ہوجائے۔۔ دھن دھونس دھاندلی کا مکمل طور پر صفایا نہ ہوجائے۔۔۔ اور الیکشن میں ووٹ خریدنا باقاعدہ قابل سزا جرم نہ بن جائے ۔۔ قوم کو ووٹ کی اہمیت کا شعور دے کر اسکے قیمے کے نان، بریانی پلیٹ، بیٹے کی نوکری۔ بچے کے سکول داخلہ ، گلی کی پکی نالیاں یا بجلی کے کھمبوں کی رشوت اور برادری ازم کے نام پر ووٹ دہندگی کا حلقہ جاتی نظام جڑ سے اکھاڑ کر پھینک نہ دیا جائے۔۔۔ اس وقت تک کبھی ووٹ کے ذریعے قوم کا مقدر نہیں بدل سکتا ۔
    کیونکہ موجودہ نظام انتخابات اور سیاسی کلچر دراصل 20-25 ہزار کرپٹ افراد کا کئی دہائیوں کی محنت سے بنایا ہوا ایک کرپٹ جال ہے جس کو جمہوریت کا لیبل دے کر کروڑوں غریب عوام کو انکے بنیادی حقوق سے محروم رکھ کر اپنے مفادات کا تحفظ کیا گیا ہے۔ ۔۔۔ یہ کرپٹ اشرافیہ کی بنائی ہوئی وکٹ ہے۔۔۔ جس پر جو بھی ایماندار، دیانتدار، لائق اور متوسط طبقے کے محب وطن کھیلنے جائے گا۔ شکست کھا کر آئے گا۔ کیونکہ ایمپائرنگ بھی اشرافیہ کی مرضی سے ہوتی ہے۔ ۔۔ غریب عوام کو 5 سال بعد ایک ووٹ کا ٹکٹ دے کر تماشا دیکھنے کے لیے سٹیڈیم میں بٹھا دیا جاتا ہے۔ ۔۔۔
    ایک نئی منصفانہ وکٹ بنانے کی ضرورت ہے۔ غیر جانبدار اور ایماندار ایمپائرنگ کی ضرورت ہے۔ اور اس مطالبے میں عوام کا سٹیڈیم میں تماشائی بنا رہنا کافی نہیں۔۔ بلکہ ایک بھاری اکثریت کا ساتھ دینا کافی ہے۔
    رستہ دکھانے والوں نے رستہ دکھا دیا ۔
    اب قوم پر منحصر ہے۔ کہ کوفی بن کر ظالموں ، جاگیرداروں ، وڈیروں اور شاہانہ مزاج سیاستدانوں کے ظلم پر خاموش بیٹھی رہے۔ یا صحیح سمت رہنمائی کرنے والوں کے ہاتھ مضبوط کرے۔
     
    احتشام محمود صدیقی، پاکستانی55 اور محبوب خان نے اسے پسند کیا ہے۔
  11. نعیم
    آف لائن

    نعیم مشیر

    شمولیت:
    ‏30 اگست 2006
    پیغامات:
    58,107
    موصول پسندیدگیاں:
    11,153
    ملک کا جھنڈا:
    یہ کرپٹ نظام وہ سڑک ہے جو ملک و قوم کے لیے ترقی، فلاح ، خوشحالی کے رستے کی طرف جاتی ہی نہیں۔ بلکہ گذشتہ کئی دہائیوں نے ثابت کردیا ہے کہ یہ تنزلی، ذلت، غربت او ر مایوسی کی طرف لے جانے والی سڑک ہے۔
    ہم بطور انسان ۔عام زندگی میں۔ اگر کسی ایسے رستے پر چند قدم چلیں تو شعور ملتے ہی فوری طور پر راہ بدلنے کی کوشش کرتے ہیں۔ ۔۔ لیکن ۔۔ ہم عقل و شعور کی کس منزل پر ہیں کہ 65 سال سے دن بدن ہر قدم تنزلی کی طرف اٹھا رہے ہیں۔ پھر بھی مطمئن ہیں کہ ترقی اسی رستے سے ملے گی۔۔۔۔ جبکہ حمزہ شریف، بلاول زرداری وغیرہم اگلے حکمران بننے کی تیاریاں بھی کررہے ہیں۔ اور ہم اپنی اگلی نسل کو انکی غلامی میں دینے کو تیار بیٹھے ہیں۔
    سڑک بدلنا ہوگی۔۔ نظام بدلنا ہوگا۔۔۔ اسکے لیے کرپٹ اشرافیہ کے بنائے ہوئے جال میں پھنس کر کبھی نظام نہیں بدلا جائے گا۔۔۔ اس جال کو توڑ نا ہوگا۔۔ اس سازش کو چاک کرنا ہوگا۔
    ورنہ ہم طاہرالقادری، عبدالستار ایدھی، ڈاکٹر عبدالقدیر کی یاد میں سیمینار کرنے والے تو بنے رہیں گے۔ کبھی ان سے استفادہ نہ کرسکیں گے۔
     
    پاکستانی55 اور محبوب خان .نے اسے پسند کیا ہے۔
  12. نعیم
    آف لائن

    نعیم مشیر

    شمولیت:
    ‏30 اگست 2006
    پیغامات:
    58,107
    موصول پسندیدگیاں:
    11,153
    ملک کا جھنڈا:
    ہمیں ایک قصائی کی دکان سے گوشت ۔۔ ایک بار ۔۔ اچھا نہ ملے تو دوبارہ اسکے پاس نہیں جائیں گے۔
    کسی بھی دکان سے اسکی پراڈکٹ اچھی نہ ملے تو دوبارہ ادھر نہیں جائیں گے۔۔۔۔ تبدیلی کا سوچیں گے۔۔
    لیکن جب ملک و ملت کا معاملہ آتا ہے ۔ ہماری بقا کا مسئلہ درپیش ہو تو ہم سب اصول بھول کر کبوتر کی طرح ریت میں آنکھیں داب لیتے ہیں۔
     
    پاکستانی55 اور محبوب خان .نے اسے پسند کیا ہے۔
  13. محبوب خان
    آف لائن

    محبوب خان ناظم سٹاف ممبر

    شمولیت:
    ‏28 جولائی 2008
    پیغامات:
    7,126
    موصول پسندیدگیاں:
    1,499
    ملک کا جھنڈا:
    اگر یہ سب کچھ ۔۔۔۔۔خونی طریقے سے آنا ہے۔۔۔۔۔اور اس کے علاوہ علامہ صاحب کے پاس کوئی لائحہ عمل نہیں۔۔۔۔تو اس کا مطلب یہ ہوا کہ ان کے پاس "اب یا کبھی نہیں" کا اختیار ہے۔۔۔۔ایسے میں آپ خود سوچیں۔۔۔۔کیا قوم
    کے رہنمائی کے لیے اس قدر کم اختیارات اور لائحہ عمل کے ساتھ ۔۔۔۔۔کچھ کیا جاسکتا ہے؟۔۔۔میرا نہیں خیال۔۔۔کہ کچھ درست ہوگا:

    محبت گولیوں سے بو رہے ہو
    وطن کا چہرہ خوں سے دھو رہے ہو
    گماں تم کو کہ رستہ کٹ رہا ہے
    یقین مجھ کو کہ منزل کھو رہے ہو
     
    واصف حسین، نعیم اور پاکستانی55 نے اسے پسند کیا ہے۔
  14. محبوب خان
    آف لائن

    محبوب خان ناظم سٹاف ممبر

    شمولیت:
    ‏28 جولائی 2008
    پیغامات:
    7,126
    موصول پسندیدگیاں:
    1,499
    ملک کا جھنڈا:
    جی درست مثال دی۔۔۔۔۔اور وضاحت بھی خوب۔۔۔۔یہ تو بتائیں۔۔۔۔آپ نےفرمایا کہ دوبارہ اس کے پاس نہیں جائیں گے۔۔۔۔یہی تو میں بھی کہہ رہا ہوں ۔۔۔لوگوں کو شعور دو۔۔۔۔کہ گوشت اور قصائی کے اچھے اور برے کی تمیز کرسکیں۔
    مگر قصائی سے لڑنا؟ یا ا س کے دکان میں موجود گوشت کو پھیکنا؟ کیا یہ درست ہے؟
    اب ایسے میں لڑائی بہتر یا دوبارہ نہ آنا بہتر؟۔۔۔۔۔یقینا۔۔۔۔دوبارہ کا انتظار۔۔۔۔کبوتر تو نہیں۔۔۔۔البتہ شتر مرغ کے متعلق مشہور ہے کہ سر ریت میں دیتا ہے۔۔۔۔۔کبوتر کی ضد تو بلی سے ہے۔
     
    پاکستانی55 نے اسے پسند کیا ہے۔
  15. محبوب خان
    آف لائن

    محبوب خان ناظم سٹاف ممبر

    شمولیت:
    ‏28 جولائی 2008
    پیغامات:
    7,126
    موصول پسندیدگیاں:
    1,499
    ملک کا جھنڈا:
    اگر میں ایک کام جانتا ہوں۔۔۔اور اچھے طریقے سے کرسکتا ہوں۔۔۔تو وہی کروں۔۔۔۔۔۔عام انسانوں کے لیے تو یہ اصول۔۔۔۔۔۔تو ایسے میں علامہ صاحب پہلے۔۔۔۔عالم ہیں۔۔۔۔۔۔اور آخر میں بھی عالم ہی ہیں۔۔۔۔وہ اپنے خوشی سے
    یہی بنے ہیں۔۔۔۔اور کامیاب ہیں۔۔۔۔اگر سیاست کا شوق ہےتو عوام کے پاس طریقہ کار کے مطابق جائیں۔۔۔۔۔۔شارٹ کٹ کس لیے؟
     
  16. محبوب خان
    آف لائن

    محبوب خان ناظم سٹاف ممبر

    شمولیت:
    ‏28 جولائی 2008
    پیغامات:
    7,126
    موصول پسندیدگیاں:
    1,499
    ملک کا جھنڈا:
    کیا آپ کے خیال میں ہم نے ترقی بالکل ہی نہیں کی؟۔۔۔۔پھر تو آپ انڈین کانگریس کا موقف پیش کررہے ہیں۔۔۔۔لیکن پاکستان بنانے والوں نے اسے ایک کامیاب ملک کے طور پر بنایا۔۔۔۔بعد کی کوتاہیوں کی سزا پوری قوم کو؟۔۔۔یہ کہاں کا انصاف ہے؟
     
  17. نعیم
    آف لائن

    نعیم مشیر

    شمولیت:
    ‏30 اگست 2006
    پیغامات:
    58,107
    موصول پسندیدگیاں:
    11,153
    ملک کا جھنڈا:
    مجھے آپ کے اس جملے پر بھی حیرت ہوئی کہ ۔۔۔ پولیس اپنے فرائض کی ادائیگی میں جان دے رہی ہے ۔۔۔۔
    17 جون کو ماڈل ٹاون میں 100 افراد کے سینے ، گردن اور سر میں گولیاں مارنا ۔۔ کونسے فرض کی ادائیگی تھی ـ
    یاد رکھ لیں۔۔ پولیس کسی حکمران کی ذاتی ملازم نہیں ہوتی ۔۔ بلکہ عوام کی ملازم ہوتی ہے۔۔ عوام کے ٹیکس سے اسکی تنخواہ بنتی ہے۔
    ملک عوام کا ہوتا ہے۔۔ خزانہ عوام کا ہوتا ہے۔۔۔ ملکی آمدن عوام کی ہوتی ہے۔۔۔ اوروزیراعظم سے لے کر وزیراعلی اور عام پولیس مین تک ہر کوئی اس عوام کا ملازم اور نوکر ہوتا ہے۔
    پولیس کی ٹریننگ مکمل ہونے پر جو حلف نامہ ہوتا ہے۔۔۔ ذرا اسکے الفاظ یہاں نقل فرما دیں۔ جس میں لکھا ہو کہ پولیس حکمرانوں کی ذاتی ملازم ہوتی ہے۔
    ہرگز نہیں بلکہ پولیس ریاست کی ملازم ۔۔ اور عوام کے جان و ملا کی حفاظت کرنے کی ذمہ دار ہوتی ہے۔
    بھٹو تو ایک قتل سے نہیں بچ سکا تھا۔۔ یہاں تو 14 قتل 17جون کے ۔۔ اور آجکل یوم شہدا کے قافلوں سے بھی نصف درجن شہادتیں ہوچکی ہیں۔ یہ سارے قتل انشاءاللہ حکمرانوں کے گلے کا پھندہ بنیں گے۔
    سیدنا فاروق اعظم کے قانون کے مطابق دجلہ کے کنارے بکری کے بچے کی جان کی ذمہ داری بھی حکمران پر بنتی ہے۔ قرآن بھی قصاص کا حکم دیتا ہے۔
    ۔۔۔۔
    پولیس شریف فیملی کے ذاتی غنڈوں کا کردار ادا کر رہی ہے۔۔۔ خدا کے لیے اسے ۔۔ فرض کی ادائیگی ۔۔۔ کا نام دے کر شہیدوں کے خون سے زیادتی نہ کریں۔
     
  18. نعیم
    آف لائن

    نعیم مشیر

    شمولیت:
    ‏30 اگست 2006
    پیغامات:
    58,107
    موصول پسندیدگیاں:
    11,153
    ملک کا جھنڈا:
    گویا سیاست کرنا ہوتو پھر بنکوں سے اربوں لوٹنے چاہیں ؟
    کرپشن کرکے پہلے اربوں پتی بناجائے ؟
    یا بھٹو خاندان جیسے کسی خاندان میں پیدا ہوا جائے ؟
    مدرسوں ، سکولوں ، یونیورسٹیوں کے طالبعلموں کو دہشتگردی کی ٹریننگ دے کر دہشت قائم کی جائے ؟
    نعرے ایمانداری کے لگائے جائیں۔ مگر ٹکٹ حلقے کے غنڈے بدمعاش رسہ گیر کو دے کر اسمبلی کی سیٹیں جیتی جائیں ؟

    سبحان اللہ ۔۔ سبحان اللہ۔۔ سبحان اللہ
     
  19. نعیم
    آف لائن

    نعیم مشیر

    شمولیت:
    ‏30 اگست 2006
    پیغامات:
    58,107
    موصول پسندیدگیاں:
    11,153
    ملک کا جھنڈا:
    کیا اسلام ۔۔ امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کا حکم نہیں دیتا ؟
    گویا ۔۔ قصائی غلط بیچتا ہے تو بیچتا جائے۔۔ لوگ کھا کھاکر مرتے ہیں تو مرتے رہیں۔ اسے کچھ نہ کہا جائے۔۔ اسے شاباشی دی جائے ۔۔ معاشرے میں لوگ ، ادارے، سمگلنگ کرتے جائیں۔ چوری ڈکیتی کرتے جائیں۔ حکومتی سرپرستی میں لوٹ مار کا بازار گرم رہے۔۔ اسلام تو ایسی خود غرضی نہیں سکھاتا
    معاف کیجئے گا۔۔ یہ نہ تو اسلامی سوچ ہے نہ ہی انسانی ہمدردی کے کسی پیمانے سے justifiable ہے ۔۔۔
     
    Last edited by a moderator: ‏10 اگست 2014
  20. نعیم
    آف لائن

    نعیم مشیر

    شمولیت:
    ‏30 اگست 2006
    پیغامات:
    58,107
    موصول پسندیدگیاں:
    11,153
    ملک کا جھنڈا:
    خون بہا کون رہا ہے ؟؟؟
    حیرت ہے کہ خون بہانے والے کے خلاف تو ہمیں لفظ نہیں مل رہے۔۔۔
    یہ مثال ایسی ہے جیسے کسی کے گھر میں کوئی ڈاکو گھس کر لوٹ مار شروع کردے ۔خون خرابہ شروع کردے۔ اور گھر والے چیخیں چلائیں۔
    اور ایسی سوچ والے منصفین گھر والوں کو ہی دوشی قرار دیتے ہوئے فرما دیں ۔۔ کہ تم نے گھر میں سامان رکھا ہی کیوں تھا کہ ڈاکو آئیں۔ تم نے جان سنبھالی ہی کیوں تھی کہ ڈاکو خون بہائیں۔
    مطلب ڈاکو، قاتل ، ظالم کی مذمت کی بجائے ۔۔ مظلوم، مجبور ، غریبوں پر ہی طعنہ زنی کردی جائے۔
    اگر معیار اور پیمانہ یہی ہے۔ تو پھر حق کی خاطر لڑنے والے تاریخ کے سبھی شہیدوں کو اسی پیمانے پر دوشی قرار دینا ہوگا۔
    کربلا کے میدان پر بھی معاذاللہ یہی تبصرہ کرنا ہوگا
    تاریخ پاکستان میں ہجرت کے وقت کی قربانیوں پر بھی یہی اصول لاگو کرنا ہوگا۔ کیونکہ قائداعظم خود تو کیڈلاک میں گھومتے اور ہوائی جہازوں میں سفر کرتے تھے۔ لیکن عوام کو''اکسا'' کر نئی مملکت کی خواب دکھایا اور پھرہزاروں معصوم بہنوں، بچوں اور انسانوں کی جان و مال کی قربانیاں دینا پڑیں۔
    خون خرابہ تو پھر ہردور میں ہوا ہے جناب ۔۔ ہر لیڈر کو الزام دیں۔
    یہ نہ کریں کہ جو گذر گیا وہ کتابوں میں بطور ہیرو۔۔ اور جو سامنے ہے وہ مجرم !!!!
     
  21. واصف حسین
    آف لائن

    واصف حسین ناظم سٹاف ممبر

    شمولیت:
    ‏3 جولائی 2006
    پیغامات:
    10,073
    موصول پسندیدگیاں:
    1,807
    ملک کا جھنڈا:
    ہم سب تبدیلی کے خواہاں ہیں مگر ہم سب اس تبدیلی کو اوپر سے نیچے لانا چاہتے ہیں۔ کوئی سیاسی پارٹی ہو، کوئی تحریک ہو یا طالبان۔ سب تبدیلی کا نعرہ لگا رہے ہیں مگر تبدیلی کو زبردستی عوام پر مسلط کرنا چاہتے ہیں۔ دیرپا تبدیلی کبھی اوپر سے نیچے نہیں آتی بلکہ نیچے سے اوپر جاتی ہے۔کسی بھی معاملے میں پیش رفت کے لیے ہمیں ایک خوبصورت راستہ دکھایا گیا ہے اور خود اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ تمھارے لیے اللہ کے رسول کی زندگی بہترین نمونہ ہے۔

    اس تمہید کے بعد میں آپ سب کے سامنے ایک سوال رکھتا ہوں۔ اللہ تعالیٰ ہر چیز پر قادر ہیں اور محمد مصطفیٰ اللہ کے حبیب ہیں تو اللہ تعالیٰ نے یوں کیوں نہ کیا کہ اپنے حبیب کا کام آسان کرنے کے لیے تمام سرداروں اور بادشاہوں کو ہدایت دے دیتا اور یہ سردار اور بادشاہ ڈنڈا لے کر پوری عوام کو مسلمان کر دیتے۔ نہ کوئی جنگ ہوتی نہ مسئلہ ہوتا اور تما دنیا میں اسلام پھیل جاتا۔۔۔۔۔۔

    اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے کہ "بے شک اللہ اپنے اصولوں کو تبدیل نہیں کرتا"۔ اور اصول یہ ہے کہ تبدیلی ہمیشہ نیچے سے اوپر جاتی ہے۔ اسی لیے سب سے پہلے غریب اور کمزور ترین لوگ حلقہ اسلام میں داخل ہوئے۔ اور یہ تبدیلی کسی لالچ یا اقتدار کے حصول یا سرداروں سے دست بدستہ ہونے کے لیے نہیں تھی بلکہ دلوں کی تبدیلی تھی۔ اس تبدیلی کی قیمت انہوں نے مظالم برداشت کر کے دی۔ اس سے پہلی بات یہ سامنے آئی کہ تبدیلی کا آغاز معاشرے کے کمزور ترین طبقے سے ہوتا ہے۔اور آغاز میں مظالم برداشت کرنے پڑتے ہیں اور صبر کرنا ہوتا ہے۔
    اس تبدیلی کے آغاز کے ساتھ ہی مخالفت شروع ہوتی ہے اور لیڈر کو اس مخالفت سے پہلے ہی معاشرتی طور پر اپنا ایسا مقام بنانا ہوتا ہے جس کے درست ہونے پر دشمن کو بھی یقین ہو۔مخالفت میں استقامت، برداشت اور اپنے حلقہ میں شامل ہونے والوں کی تربیت کی جاتی ہے۔لیڈر کو اپنے حلقہ میں شامل ہونے والوں کے ساتھ ہونا پڑتا ہے اور مظالم برداشت کرنے ہوتے ہیں۔ اگر کوئی شخص بھوک سے پیٹ پر ایک پتھر باندھے تو لیڈر کو دو باندھنے ہوتے ہیں۔اگر ذاتی مثال شامل حال نہیں تو لیڈر کی قابلیت میں کمی ہے۔
    اور جب تربیت مکمل ہوجائے تو طریقہ کار بھی بتایا جاتا ہے۔ کبھی بھی مارو یا مر جاو کی بات نہیں کی جاتی بلکہ ہمیشہ صلح اور امن کی راہ کھلی رکھی جاتی ہے۔ وہ چاہے مدینہ ہجرت کے بعد اہل مکہ سے معاہدہ ہو یا صلح حدیبیہ۔ کڑی شرائط کے باوجود امن کو ترجیح دی جاتی ہے۔
    اور جب تمام چیزیں اپنے ہاتھ میں آ جاتی ہیں تو بد ترین دشمنوں کو بھی امان دی جاتی ہے۔

    مختصر الفاظ میں یہ انقلاب یا تبدیلی کا طریقہ کار ہے۔ آپ احباب مجھ سے زیادہ صاحب علم ہیں اور اسوۃ حسنہ سے مذید مثالیں لا کر اس ترکیب کو مکمل کر سکتے ہیں۔ ایک بات اور ذہن میں رکھیں کہ اس پورے عمل میں اگر اللہ کےحبیب کو 23 سال لگتے ہیں تو ایک عام آدمی کو کتنا عرصہ لگنا چاہیے۔

    یاد رہے کہ میں کسی بھی سیاسی حلقے سے تعلق نہیں رکھتا اور اوپر کا تجزیہ کسی بھی لیڈر کو ٹارگٹ کرنے کے لیے نہیں کیا گیا بلکہ ایک کوشش ہے کہ ہم اپنے راستے اس سمت سے ڈھونڈیں جو ہمیں اللہ تعالیٰ نے دکھا رکھی ہے۔
     
    نعیم، محبوب خان اور آصف احمد بھٹی نے اسے پسند کیا ہے۔
  22. آصف احمد بھٹی
    آف لائن

    آصف احمد بھٹی ناظم خاص سٹاف ممبر

    شمولیت:
    ‏27 مارچ 2011
    پیغامات:
    40,593
    موصول پسندیدگیاں:
    6,030
    ملک کا جھنڈا:
    السلام علیکم
    محبوب بھائی ! اور بھولے بادشاہ بات صرف اتنی سی ہے کہ ہم میں سے ہر ایک ملک و قوم کے لیے اپنے سینے میں درد محسوس کرتا ہے ، اور ہر ایک اصلاح کا خواہش مند بھی ہے البتہ ہم میں سے ہر ایک اصلاح کرنے کا طریقہ دوسرے سے مختلف ہے ۔ اللہ کرے یہ جو تبدیلی کی لہر اُٹھ کھری ہوئی ہے یہ پر امن طریقے سے اپنی تکمیل کو پہنچ جائے ۔ آمین
    جیسا کہ واصف بھائی بھی کہہ رہے ہیں اور مین بھی کئی بار لکھ چکا ہوں کہ تبدیلی کے لیے پہلے عوامی تربیت کی ضرورت ہوتی ہے ، جس کی بہترین مثال واصف بھائی دے چکے ہیں ، یہ کہہ دینا کہ سب پر لازم ہو چکا ہے کہ وہ جناب قادری صاحب کا ساتھ دیں ، شاید مناسب نہ ہو گا ، پہلے عوام کے پاس دلیل کہ جو کہ جناب قادری صاحب کے پاس موجود ہے ، لیکر جایا جائے ، عوام کو قائل کیا جائے ، پھر تربیت کی جائے ، انشاء اللہ یہی انقلاب ہے اور یہی تبدیلی ہے ، جس ملک کی عوام کی اکثریت اپنے ووٹ کا صحیح استعمال کرنا ہی نہیں جانتی وہاں کتنی ہی انتخابی اصلاحات کیوں نہ لائی جائیں ، سب بے کار ہیں ، پہلے عوام کو اُن کو ووٹ کی حقیقت اور اُس کی طاقت کا شعور دلایا جائے ، اسی طرح نظام کو تبدیل کرنے کے لیے پہلے عوام کو نظام میں موجود دکھائی جائیں ، اُنہیں قائل کیا جائے ، اُس کی بعد تربیت ، اور پھر انقلاب ، یقینا یہ وقت طلب کام ہے مگر اس کے زریعے دیر پا اور پر امن انقلاب آتا ہے ورنہ عرب بہار کے انجام کا ذکر میں کئی بار کر چکا ہوں ۔
    اور ہاں ! میں پہلے بھی کہہ چکا ہوں اور ایک بار پھر کہہ رہا ہوں " میرے پیارے " انقلابی بھائیوں " کے ساتھ " ہاتھ " ہو گیا ہے ۔
     
    محبوب خان نے اسے پسند کیا ہے۔
  23. محبوب خان
    آف لائن

    محبوب خان ناظم سٹاف ممبر

    شمولیت:
    ‏28 جولائی 2008
    پیغامات:
    7,126
    موصول پسندیدگیاں:
    1,499
    ملک کا جھنڈا:
    اور مجھے حیرت ہے کہ فرض کی ادائیگی تو آپ کے خیال میں ظلم ہے۔۔۔۔اور اس میں جان سے گزرنا شہادت نہیں؟۔۔۔۔۔۔اور وہ جو سیاست کے نام پر خون بہاتے ہیں۔۔۔۔اپنا بھی اور دوسروں کا بھی۔۔۔۔وہ حق پر ہیں۔۔۔۔ہر گز نہیں۔۔۔
    بھٹو صاحب کی پھانسی۔۔۔۔۔۔۔کیا تھی؟۔۔۔۔آپ بھی جانتے ہیں۔۔۔۔اور سارا باغ جانے ہے۔۔۔۔؟اب چونکہ رضا قصوری۔۔۔چرن چھورہے ہیں۔۔۔۔۔تو ان کے الفاظ آپ کے ہاں۔۔۔۔درست۔۔۔۔بہت خوب۔۔۔۔۔
    آپ ملک کی اینٹ سے اینٹ بجادے۔۔۔کوئی آپ روکے نہیں۔۔۔۔۔یہ ریاست ہے ۔۔۔۔کسی کا ذاتی باغ نہیں۔۔۔۔۔۔حکمرانی کے معاملے میں ہمارا دین کیا کہتا ہے؟۔۔۔۔۔۔۔یہ قتل ۔۔۔جو شہادتیں ہیں۔۔۔۔چاہے جس بھی طرف سے ہیں
    ۔۔۔۔ان شاء اللہ ۔۔۔۔۔۔فسادیوں سے اس قوم کو نجات کا ذریعہ بنیں گے۔۔۔۔۔ان شاء اللہ
     
  24. محبوب خان
    آف لائن

    محبوب خان ناظم سٹاف ممبر

    شمولیت:
    ‏28 جولائی 2008
    پیغامات:
    7,126
    موصول پسندیدگیاں:
    1,499
    ملک کا جھنڈا:
    کسی کے خاندان میں پیدا ہونا۔۔۔یہ خدائی تقسیم ہے۔۔۔۔۔پورے خاندان کو الزام دینا۔۔۔یہ غلط ہے۔۔۔۔انفرادی کام بھی دیکھو۔۔۔۔۔۔بھٹو کا پورا خاندان قتل ہوا ہے۔۔۔۔۔معلو م ہے؟کیوں؟۔۔۔۔کاش ۔۔۔۔۔ایک دوسرے کے متعلق ۔۔۔
    نظریات اور وابستگیوں سے بلند ہوکر بھی درد دل پیدا کریں۔۔۔۔۔۔۔۔بھٹو خاندان کے المناک انجام کا مجھے شدید دکھ ہے۔۔۔۔۔اور آپ بھی اس دکھ کو محسوس کریں۔۔۔۔۔۔یہ اس قوم کے لیڈر تھے۔۔۔۔۔بے دردی سے انہیں
    جان سے مارا گیا۔۔۔۔۔۔کیسے؟ سب خوب جانتے ہیں۔۔۔۔۔۔تاریخ شاہد ہے۔۔۔۔۔۔ذوالفقار علی بھٹو۔۔۔۔۔۔۔ایک عظیم رہنما تھے۔۔۔۔ایک عظیم سیاستدان تھے۔۔۔۔۔۔بدقسمتی ہے۔۔۔ہماری۔۔۔۔۔۔۔کہ ہم میں پیدا ہوئے۔۔۔اور جان
    سے گزر گئے۔۔۔۔مرنا برحق۔۔۔۔مگر ایسے موت کو افسوس تو کرو۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔وہ کوئی فرشتہ نہ تھے۔۔۔۔انسان تھے۔۔۔۔مگر اس قوم کو سیاسی شعور دے گئے۔
    کسی سکول یونیورسٹی میں دہشت گردی کی تربیت؟۔۔۔۔۔۔یہ کام صرف اور صرف کہا ہوتا ہے؟ یہ آپ بھی جانتے ہیں۔۔۔۔۔دین کے نام پر کیا ہوتا ہے؟۔۔۔۔۔مجھ ایسے عام آدمی کی نسبت آپ زیادہ صاحب علم ہیں۔۔۔۔۔اس لیے سورج
    کو چراغ دکھاکر کیا بے وقوفی کروں۔۔۔۔۔۔۔ویسے بھی بار بار پہیہ ایجاد تو نہیں کرنی۔
    تو ان حلقوں میں ایمان دار بنانے کے ۔۔۔۔عوامی تحریک نے کیا کیا ہے؟
    بس خون بہانا ہے؟
    ظلم کرنا یا سہنا ہے؟
    عام لوگوں کے خون کی ارزانی سے کیا ملے گا؟
    کس کے کہنے پر ہورہا ہے یہ سب؟
    ایک مسلمان تو اس طرح مقاصد کے لیے جدوجہد نہیں کرسکتا ؟ کہ دوسرے مسلمانوں کو لڑا کر۔۔

    آئیے مل کر دعا کرتے ہیں۔۔۔کہ ہمیں اللہ کریم ہدایت دے۔ آمین
     
  25. محبوب خان
    آف لائن

    محبوب خان ناظم سٹاف ممبر

    شمولیت:
    ‏28 جولائی 2008
    پیغامات:
    7,126
    موصول پسندیدگیاں:
    1,499
    ملک کا جھنڈا:
    اسلام کے تمام کاموں کے متعلق صرف آپ لوگ ہی تشریح کریں گے۔۔۔۔کوئی عالم نہیں؟
    میں سب عالموں کو مانتا ہوں۔۔۔۔۔۔۔کیا آپ بھی؟ اگر جواب مثبت ہے۔۔۔۔تو آپ کا مطالعہ اور ملنا مجھ سے زیادہ ہے۔۔۔میری بھی رہنمائی کریں۔
    پوری قوم کا بیڑا غرق کرنے کے چکر میں کونسی نیکی ہورہی ہے؟مجھے بھی بتائیں۔۔۔۔میں بھی آپ کا مسلمان بھائی ہوں۔۔۔۔ایک پاکستانی بھائی ہوں۔۔۔۔میں بھی آپ کے ساتھ شامل ہوں گا۔۔۔مگر سمجھ کر۔۔۔اور شعوری طورپر۔
    صرف نعروں کے زور پر نہیں۔
    اسلام میں ایک دوسرے کا احساس سکھاتا ہے۔۔۔۔مگر لوگوں کو مرنے اور مارنے کے چھوڑنا ۔۔۔۔یہ کونسا اسلام ہے؟ کیا یہ خود غرضی نہیں؟انسانیت کے نام پر اس میں انصاف سے بتائیں؟۔۔۔۔میرے ساتھ دوسروں احباب کا بھی بھلا ہوجاءے گا۔
     
    Last edited: ‏10 اگست 2014
  26. محبوب خان
    آف لائن

    محبوب خان ناظم سٹاف ممبر

    شمولیت:
    ‏28 جولائی 2008
    پیغامات:
    7,126
    موصول پسندیدگیاں:
    1,499
    ملک کا جھنڈا:
    واصف بھائی ۔۔۔خدا کرے۔۔۔۔ہمارے وہ دوست۔۔۔۔جو صرف ۔۔۔۔اپنے سیاسی یا تحریکی نگاہ سے ہر چیز کو دیکھتے اور تولتے ہیں۔۔۔۔۔آپ کے اس پیغام کو پڑھیں۔۔۔جس میں اللہ کریم ، رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے حوالے ہیں۔
    کاش ۔۔۔۔پرامن طریقے سے وہی کریں ۔۔۔جس کا اسلام میں حکم ہے۔
    اللہ کریم ہم سب کو ہدایت دے۔۔۔۔اور ایک دوسرے کو سمجھنے اور سمجھانے کی توفیق ۔۔۔حق بات کی ۔۔۔۔عطاء فرمائے۔ آمین
     
    آصف احمد بھٹی نے اسے پسند کیا ہے۔
  27. محبوب خان
    آف لائن

    محبوب خان ناظم سٹاف ممبر

    شمولیت:
    ‏28 جولائی 2008
    پیغامات:
    7,126
    موصول پسندیدگیاں:
    1,499
    ملک کا جھنڈا:
    جی آصف بھائی۔۔۔۔۔یہی میرا خیال ہے۔۔۔۔۔۔کہ تبدیلی بھی پرامن ہو۔۔۔۔اور پرامن طریقے سے آئے۔۔۔۔۔چاہے اس میں نصف صدی لگے۔۔۔پہلے شعور دیں۔۔۔۔۔۔اس کے بعد امید رکھے۔۔۔۔زبردستی کی کوئی گنجائش نہیں۔
    اور نہ ہی کرنی چاہیے۔
     
    آصف احمد بھٹی نے اسے پسند کیا ہے۔
  28. محبوب خان
    آف لائن

    محبوب خان ناظم سٹاف ممبر

    شمولیت:
    ‏28 جولائی 2008
    پیغامات:
    7,126
    موصول پسندیدگیاں:
    1,499
    ملک کا جھنڈا:
    خدا کے لیے تمام احباب سے میری گزارش ہے کہ میرے تجزیوں کو میرے دل کی آواز سمجھیں۔۔۔۔۔میں جو محسوس کررہا ہوں۔۔۔وہی لکھ رہا ہوں۔۔۔۔اس میں میرا کوئی ذاتی غرض نہیں۔۔۔۔نہ ہی یہ میں اس لیے کررہا ہوں کہ کسی نے کہا ہے۔۔۔۔
    کہ کرتا رہوں۔۔۔۔میرے جملے پڑھیں۔۔۔۔یہ میرے دل کی آواز ہیں۔۔۔۔مجھے غلط سمجھیں ۔۔۔۔۔مجھے سمجھائیں۔۔۔۔میں بھی آپ لوگوں کا دوست ہوں۔۔۔۔۔میرا بھی آپ سب پر حق ہے۔۔۔اگر میں کچھ درست نہیں سمجھتا۔۔۔۔
    کیا وہ بتانا مجھ پر فرض نہیں ہے؟۔۔۔۔۔۔۔اس لیے کسی شک کو دل میں جگہ نہ دیں۔
    نعیم بھائی۔۔۔۔آپ ذاتی حیثیت میں مجھے عزیز ہو۔۔۔۔۔۔۔اور نظریاتی و سیاسی اختلافات کا ہر گز یہ مطلب نہیں ۔۔۔۔کہ مجھے آپ سے کوئی شکوہ ہے۔۔۔۔۔میرے سوال وجواب۔۔۔۔میرے دکھ اور درد کی عکاسی کرتے ہیں۔۔۔۔اس لیے
    مجھے یقین ہے کہ میرے ان ذاتی خیالات کو۔۔۔ذاتی نہیں۔۔۔۔بلکہ اصولی اور بطور میرے خیالات کے لیں گے۔

    اللہ کریم سے دعا ہے کہ ہمیں ایک دوسرے کی برداشت۔۔۔اور ذاتی نظریات سے بلند ایک دوسر ے کو سمجھنے اور سمجھانے کی توفیق دے۔ آمین
     
  29. نعیم
    آف لائن

    نعیم مشیر

    شمولیت:
    ‏30 اگست 2006
    پیغامات:
    58,107
    موصول پسندیدگیاں:
    11,153
    ملک کا جھنڈا:
    اگر آپ 17 جون کو منہاج القرآن پر حملہ اور پولیس کی ڈائریکٹ فائرنگ سے 14 جانوں کے ضیاع اور 90 شدید زخمیوں کو دہشت گرد اور پولیس کو " فرض شناسی " کا خطاب دینے پر مصر ہیں تو آپ کی سوچ آپ کو مبارک !!!
    معافی چاہتا ہوں مگر پولیس کا فرض بہرحال عوام کی حفاظت ہے اور مجرموں کی گرفتاری ہے۔ اگر انتہائی سنگین حالت ہوجائے تو وارننگ دے کر نچلے حصے میں گولی مارنے کا آرڈر ہے۔ لیکن یہاں نہتے عوام کی جانب سے ایک بھی گولی نہ چلی نہ رائفل بندوق نظر آئی۔ لیکن آپ کا اصرار ہے تو آپ کو مبارک !
     
  30. نعیم
    آف لائن

    نعیم مشیر

    شمولیت:
    ‏30 اگست 2006
    پیغامات:
    58,107
    موصول پسندیدگیاں:
    11,153
    ملک کا جھنڈا:
    عوامی تحریک نے کب خون بہایا ؟
    خدا کے لیے اپنی تحقیق کا دائرہ کار غیرجانبداری سے وسیع کریں۔ محض داڑھی دیکھ کر دہشت گرد طالبان خوارج اور اہلِ حق اور اہلِ امن کو ایک صف میں کھڑا نہ کریں۔
    عوامی تحریک نے کیا کیا ۔۔ کبھی وقت ملے تو www.minhajwelfare.org کو ایک دفعہ کھنگال لیں۔ بلکہ آپ تو خود گواہ ہیں کہ کئی دورافتادہ علاقوں میں تعلیم کو عام کرنے کے لیے منہاج کے سکول چل رہے ہیں۔
     
    مبشر ڈاہر اور آصف احمد بھٹی .نے اسے پسند کیا ہے۔

اس صفحے کو مشتہر کریں