1. اس فورم پر جواب بھیجنے کے لیے آپ کا صارف بننا ضروری ہے۔ اگر آپ ہماری اردو کے صارف ہیں تو لاگ ان کریں۔

روزہ قرآن مجید کی روشنی میں

'تعلیماتِ قرآن و حدیث' میں موضوعات آغاز کردہ از شہباز حسین رضوی, ‏7 جولائی 2013۔

  1. شہباز حسین رضوی
    آف لائن

    شہباز حسین رضوی ممبر

    بسم اللہ الرحمٰن الرحیم

    روزے پہلی امتوں پر بھی فرض تھے۔
    روزے کا مقصد گناہوں سے بچنے اور نیکی پر چلنے کی ترغیب دیتا ہے۔
    ”اے لوگو، جو ایمان لائے ہو! تم پر روزے فرض کردئیے گئے ہیں جس طرح تم سے پہلے انبیاءکے پیروّں پر فرض کئے گئے تھے، اس سے توقع ہے کہ تم میں تقویٰ کی صفت پیدا ہوگی۔“
    (سورة البقرہ، آیت نمبر183)
     
    پاکستانی55 اور یوسف ثانی .نے اسے پسند کیا ہے۔
  2. پاکستانی55
    آف لائن

    پاکستانی55 ناظم سٹاف ممبر

    جزاک اللہ جناب
     
  3. غوری
    آف لائن

    غوری ممبر

    روزہ رکھنااگرچہ بہت مشکل فعل ہے مگر انسانی جسم اور روح کوپاکیزگی اور تقوی جیسی نعمت کے حصول میں روزہ بہت کارگر ہے۔۔۔۔۔۔
    اللہ تعالی نے رمضان کے مہینے میں ایک ایسی تاثیر رکھی ہے کہ آپ کو صبر، ضبط اورروحانیت حاصل ہوتی ہے۔
    اس کے علاوہ انسان میں قوت برداشت بھی پیدا ہوتی ہے۔۔۔
    رمضان کی نعمتوں سےفیضیاب ہونے کے لئے زیادہ سےذیادہ عبادت (نماز، قرات اور صدقہ و خیرات) کریں اور لوگوں سےصلح رحمی کریں۔
     
    شہباز حسین رضوی نے اسے پسند کیا ہے۔
  4. یوسف ثانی
    آف لائن

    یوسف ثانی ممبر

    روزہ اور اعتکاف


    ٭ تم پر روزے فرض کیے گئے ہیں (البقرۃ:۱۸۳)
    ٭ کوئی بیمار ہو یا سفر پر ہو تو دوسرے دنوں میں اتنی ہی تعداد پوری کر لے (البقرۃ:۱۸۴)
    ٭ ایک روزے کا فدیہ ایک مسکین کو کھانا کھلانا ہے (البقرۃ:۱۸۴)
    ٭ روزوں کے زمانے میں راتوں کو اپنی بیویوں کے پاس جانا حلال کر دیا گیا ہے (البقرۃ:۱۸۷)
    ٭ روزہ میں سیاہی شب کی دھاری سے سپیدۂ صبح کی دھاری تک راتوں کو کھاؤ پیو (البقرۃ:۱۸۷)
    ٭ جب تم مسجدوں میں معتکف ہو تو بیویوں سے مباشرت نہ کرو (البقرۃ:۱۸۷)

    ۲۶۔ زکوٰۃ اور مصارف زکوٰۃ

    ٭ اور زکوٰۃ ادا کرو (سورۃ البقرۃ:۸۳)
    ٭ یہ صدقات (زکوٰۃ) تو دراصل۱۔ فقیروں، ۲۔ مسکینوں، ۳۔ صدقات کے کام پر مامور لوگوں، ۴۔جن کی تالیفِ قلب مطلوب ہو،۵۔غلام آزاد کرانے، ۶۔ قرضداروں کی مدد کرنے، ۷۔ راہِ خدا اور ۸۔ مسافر نوازی میں استعمال کرنے کے لیے ہیں (سورۃ التوبۃ:۶۰)
    ٭ وہ زکوٰۃ کے طریقے پر عامل ہوتے ہیں (سورۃ مؤمنون:۴)

    روزہ، اعتکاف، تراویح، لیلۃ القدر


    ٭ رسول اﷲﷺ تمام لوگوں سے زیادہ سخی تھے اور رمضان میں مزید سخی ہو جایا کرتے تھے (آغازِ وحی، بخاری)
    ٭ شبِ قدر میں ایمان کے ساتھ ثواب جان کر عبادت کرنے سے گزشتہ تمام گناہ معاف ہو جاتے ہیں (ایمان، بخاری)
    ٭ ماہِ رمضان میں ایمان کے ساتھ ثواب سمجھ کر روزے رکھنے سے گزشتہ تمام گناہ معاف ہو جاتے ہیں (ایمان، بخاری)
    ٭ شب قدر کو رمضان کی۲۵ویں، ۲۷ ویں اور ۲۹ ویں تاریخوں میں تلاش کرو (ایمان، بخاری)
    ٭ رمضان کے روزے رکھا کرو (زکوٰۃ، بخاری)
    ٭ ماہِ رمضان میں آسمان یعنی جنت کے دروازے کھل جاتے ہیں اور دوزخ کے دروازے بند ہو جاتے ہیں
    ٭ رمضان میں شیاطین مضبوط ترین زنجیروں سے جکڑ دیئے جاتے ہیں
    ٭ رمضان کا چاند دیکھ کر روزے رکھنا شروع کرو اور عید ا لفطر کا چاند دیکھ کر روزہ رکھنا ترک کر دو
    ٭ روزہ دار بیہودہ بات اور جاہلانہ افعال سے باز رہے
    ٭ روزہ دار کے منہ کی بو اﷲ کے نزدیک مشک کی خوشبو سے بھی زیادہ عمدہ ہے
    ٭ روزہ دار اپنا کھانا پینا اور اپنی شہوت میرے لئے چھوڑتا ہے لہٰذا میں ہی اس کا بدلہ دوں گا
    ٭ جنت میں ایک دروازہ ’’ریان‘‘ صرف روزہ داروں کے لیے مختص ہے
    ٭ روزہ میں جھوٹ بولنا، دھوکہ دینا نہ چھوڑا تو اﷲ کو اس بات کی کوئی پرواہ نہیں کہ تو اپنا کھانا پینا چھوڑ دے
    ٭ جب تک چاند نہ دیکھ لو روزہ نہ رکھو۔ اگر مطلع ابرآلود ہو اور چاند نہ دیکھ سکو تو تیس دن کی گنتی پوری کرو
    ٭ کوئی شخص رمضان سے ایک دو دن پہلے روزہ نہ رکھے
    ٭ سحری اور اذان کا درمیانی وقفہ پچاس آیتوں کی تلاوت کے دورانیہ جتنا تھا
    ٭ روزہ کے لئے سحری کھاؤ اس لئے کہ سحری کھانے میں برکت ہوتی ہے
    ٭ مشرق کی طرف آثارِ شب نمودار ہو جائیں تو روزہ افطار کر دو
    ٭ لوگ ہمیشہ نیکی پر رہیں گے جب تک کہ وہ جلد میں افطار کیا کریں گے
    ٭ نبیﷺ شعبان سے بڑھ کر کسی اور مہینہ میں نفلی روزے نہ رکھتے تھے (الصوم، بخاری)
    ٭ رمضان کا چاند دیکھ کر روزے رکھو۔ ۲۹ شعبان کو چاند دکھائی نہ دے تو ۳۰ دن کا شمار پورا کرو (ابی داؤد)
    ٭ اﷲ تعالیٰ کو اپنے بندوں میں وہ بندہ زیادہ محبوب ہے جو روزہ کے افطار میں جلدی کرے (ترمذی)
    ٭ کھجور سے افطار کرو، کھجور نہ ملے تو پھر پانی ہی سے افطار کرو (مسند احمد، ابی داؤد، ترمذی، ابن ماجہ)
    ٭ روزہ دار کو افطار کرانے اور مجاہد کو جہادی سامان دینے سے روزہ دار اور مجاہد کے مثل ہی ثواب ملے گا (بیہقی )
    ٭ ہر چیز کی زکوٰۃ ہے اور جسم کی زکوٰۃ روزہ ہے۔ (سنن ابن ماجہ)
    ٭ اسی قدر عبادتیں اپنے ذمہ لو جنہیں تم برداشت کرسکو
    ٭ جس نے ہمیشہ روزہ رکھا، اس نے گویا روزہ رکھا ہی نہیں
    ٭ صرف جمعہ کے دن کا روزہ رکھنا منع ہے۔ جمعرات یا سنیچر کا دن ملا کر دو دن روزہ رکھ سکتے ہیں
    ٭ عید الضحیٰ کے فوراً بعد اگلے دو تین دن (ایام تشریق) میں روزہ رکھنے کی اجازت نہیں ہے
    ٭ جب رمضان کے روزے فرض ہوئے تو عاشورے کا روزہ چھوڑ دیا گیا جس کا جی چاہا اس نے عاشورہ کا روزہ رکھ لیا اور جس نے چاہا اس نے نہ رکھا (بخاری)
    ٭ رسول اﷲﷺ نے عید ین کے دنوں میں روزہ رکھنے سے منع فرمایا ہے (اضاحی، بخاری)
    سفر میں اگر چاہو تو روزہ رکھو اور نہ چاہو تو نہ رکھو
    ٭ حالت میں سفر میں روزہ رکھ کر تکلیف اٹھانا کوئی نیکی نہیں ہے
    ٭ سفر میں روزہ رکھنے والا روزہ نہ رکھنے وا لے کو بُرا نہیں سمجھتا تھا اور روزہ نہ رکھنے والا روزہ دار کو بُرا نہیں سمجھتا تھا (الصوم، بخاری)
    ٭ نبیﷺ روزہ کی حالت میں ازواجِ مطہرات کے بوسے لے لیا کرتے اور معانقہ بھی کر لیتے تھے
    ٭ جب کوئی شخص بھول کر کھا لے یا پی لے تو وہ اپنے روزہ کو پورا کر لے
    ٭ کبھی کبھی اس حالت میں صبح ہو جاتی تھی کہ نبیﷺ جنبی ہوتے تھے حالانکہ آپ ؐ روزہ سے ہوتے تھے (الصوم، بخاری)
    ٭ روزہ کی حالت میں بھول کر کچھ کھا پی لیا اپنا روزہ پورا کرو کیونکہ اﷲ نے کھلایا پلایا ہے (صحیح مسلم)
    ٭ پچھنے لگوانے، قے ہو جانے اور احتلام سے روزہ نہیں ٹوٹتا (ترمذی)
    ٭ روزہ کی حالت میں سرمہ لگا یا جا سکتا ہے (جامع ترمذی)
    ٭ روزے کی حالت میں پیاس یا گرمی کی شدت کی و جہ سے نہانا جائز ہے (مؤطا امام مالک، ابی داؤد)
    ٭ روزے کی حالت میں اپنی بیوی کا بوسہ لینے سے روزہ میں کوئی فرق نہیں آئے گا (سنن ابی داؤد)
    ٭ حیض کے دنوں کے قضا شدہ روزے رکھنے کا حکم ہے لیکن قضا نماز پڑھنے کا حکم نہیں (مسلم)
    ٭ روزہ میں بیوی سے ہم بستری کرنے وا لے کو نبیﷺ نے فرمایا : ایک غلام آزاد کر یا پے در پے دو مہینے کے روزے رکھ یا ساٹھ مسکینوں کو کھانا کھلا (الصوم، بخاری)
    ٭ رمضان کے روزوں کے بعد شوال کے چھ نفلی روزے بھی رکھنا ہمیشہ روزہ رکھنے کے برابر ہے (مسلم)
    ٭ عاشورہ، یکم تا نو ذی الحج اور ہر مہینے کے تین روزے نبیﷺ کا معمول تھا (نسائی)
    ٭ ایام بیض یعنی ہر ماہ کی تیرھویں، چودھویں، پندرھویں کو روزے رکھنا ہمیشہ روزہ رکھنے کے برابر ہے (ابی داؤد)
    ٭ شعبان کی پندرھویں رات میں اﷲ کے حضور میں نوافل پڑھو اور اس دن کو روزہ رکھو (ابن ماجہ)
    ٭ لیلۃ القدر کو رمضان کے آخری عشرہ کی طاق راتوں میں تلاش کرو
    ٭ رمضان کے آخری عشرہ میں نبیﷺ خود بھی شب بیداری فرماتے اور گھر والوں کو بھی بیدار رکھتے (الصوم، بخاری)
    ٭ نبیﷺ رمضان کے آخری عشرہ میں اعتکاف کیا کرتے
    ٭ جب نبیﷺ اعتکاف میں ہوتے تو بلا ضرورت گھر میں تشریف نہ لاتے
    ٭ نبیﷺ نے فرمایا تم اپنی (جائز) نذروں کو پورا کرو (اعتکاف، بخاری)
    ٭ معتکف نہ تو مریض کی عیادت کو جائے اور نہ نماز جنازہ میں شرکت کے لئے باہر نکلے (ابی داؤد)
    ٭ معتکف عورت سے صحبت کرے نہ بوس و کنار (سنن ابی داؤد)
    ٭ رفع حاجت وغیرہ کے علاوہ معتکف اپنی دیگر ضرورتوں کے لئے بھی مسجد سے باہر نہ جائے (ابی داؤد)
    ٭ اعتکاف روزہ کے ساتھ ہونا چاہئے کیونکہ بغیر روزہ کے اعتکاف نہیں ہوتا (سنن ابی داؤد)
     
    شہباز حسین رضوی، پاکستانی55 اور غوری نے اسے پسند کیا ہے۔
  5. یوسف ثانی
    آف لائن

    یوسف ثانی ممبر

    زکوٰۃ، نصاب زکوٰۃ

    ٭ اﷲ نے ان کے مال پر زکوٰۃ فرض کیا ہے
    ٭ حضرت بو بکرؓ کا فرمان:اﷲ کی قسم میں اس شخص سے ضرور جنگ کروں گا جو نماز اور زکوٰۃ میں فرق سمجھے گا
    ٭ جو اپنے مال کی زکوٰۃ نہ دے تو اس کا مال روزِ قیامت گنجے سانپ کے ہم شکل کر دیا جائے گا
    ٭ اے لوگو! صدقہ دو۔ ہر شخص کو چاہیئے کہ آگ سے بچے اگرچہ کھجور کے ٹکڑے کے صدقہ دینے سے سہی۔ پھر اگر کھجور کا ٹکڑا بھی میسر نہ ہو تو عمدہ بات کہہ کر
    ٭ غریب صحابہؓ مزدوری کرتے اور مزدوری کے عوض ملنے وا لے غلہ وغیرہ کو صدقہ میں دے دیتے (زکوٰۃ، بخاری)
    ٭ صدقہ (زکوٰۃ) کے خوف سے متفرق مال یکجا نہ کیا جائے اور یکجا مال متفرق نہ کیا جائے
    ٭ جو مال دو شراکت داروں کا ہو وہ دونوں زکوٰۃ دینے کے بعد آپس میں برابر برابر سمجھ لیں خدمت گزار غلام اور اس کی سواری کے گھوڑے پر زکوٰۃ فرض نہیں (زکوٰۃ، بخاری)
    ٭ گھوڑوں اور غلاموں پر زکوٰۃ واجب نہیں ہے (جامع ترمذی، سنن ابی داؤد)
    ٭ پانچ اوقیہ (ساڑھے باون تولے چاندی) سے کم پر زکوٰۃ فرض نہیں ہے
    ٭ پانچ وسق (ساڑھے چار یا پانچ من) سے کم کھجور پر بھی زکوٰۃ فرض نہیں ہے
    ٭ دوسو درہم چاندی میں چالیسواں حصہ زکوٰۃ ہے۔ اگر ایک سونوے درہم ہیں تو اس میں کچھ زکوٰۃ نہیں (زکوٰۃ، بخاری)
    ٭ دو سودرہم پورے ہو جائیں تو چاندی کی ہر چالیس درہم میں سے ایک درہم زکوٰۃ ادا کرو (ترمذی، ابی داؤد)
    ٭ ہر اس چیز میں زکوٰۃ نکالیں جو تجارت کے لیے مہیا ہو (سنن ابی داؤد)
    ٭ زکوٰۃ اس وقت تک واجب نہ ہو گی جب تک مال پر سال نہ گزر جائے (ترمذی)
    مویشیوں کی زکوٰۃ:
    ٭ زکوٰۃ صرف ان ہی اونٹوں، گائے اور بکریوں پر فرض ہے جو چھ ماہ سے زیادہ جنگل میں چرتی ہوں
    ٭ اگر چھ ماہ سے زیادہ اپنے پاس سے چارہ وغیرہ کھلانا ہو تو ان پر زکوٰۃ نہیں ہے
    ٭ ان تین جانوروں کے علاوہ کسی اور جانور پر زکوٰۃ فرض نہیں، البتہ بھینس گائے ہی کی ایک قسم ہے
    ٭ پانچ اونٹ سے کم پر زکوٰۃ فرض نہیں ہے
    ٭ چوبیس یا اس سے کم اونٹوں میں ہر پانچ اونٹوں کی زکوٰۃ ایک بکری ہے (پانچ سے کم پر زکوٰۃ نہیں )
    ٭ پچیس سے پینتیس اونٹوں کی زکوٰۃ ایک برس کی ایک اونٹنی ہے
    ٭ چھتیس سے پینتالیس اونٹوں پر دو برس کی ایک اونٹنی اور چھیالیس سے ساٹھ اونٹوں تک کی زکوٰۃ میں تین برس کی اونٹنی جفتی کے لائق دینا ہو گی
    ٭ اکسٹھ سے پچھتر اونٹوں کی زکوٰۃ میں چار برس کی ایک اونٹنی دینا ہو گی
    ٭ چھہتر سے نوے اونٹوں کی زکوٰۃ میں دو دو برس کی دو اونٹنیاں دینا ہو گی
    ٭ اکیانوے سے ایک سو بیس اونٹوں کے لئے تین تین برس کی دو اونٹنیاں جفتی کے لائق دینا ہوں گی
    ٭ ۱۲۰ سے زیادہ پر ہر ۴۰؍ اونٹوں پر دو برس کی ایک اونٹنی اور ہر پچاس پر تین برس کی ایک اونٹنی دینی ہو گی
    ٭ جس کے پاس صرف چار اونٹ ہوں تو ان میں زکوٰۃ فرض نہیں
    ٭ جنگل میں چرنے والی بکریوں کی زکوٰۃ : چالیس سے ایک سو بیس بکریوں پر ایک بکری فرض ہے
    ٭ ایک سو بیس سے دو سو بکریوں تک دو بکریاں فرض ہیں
    ٭ دو سو سے تین سو بکریوں تک تین بکریاں فرض ہیں
    ٭ تین سو سے زیادہ پر ہر سو میں ایک بکری فرض ہے
    ٭ چالیس سے کم چرنے والی بکریوں پر کچھ زکوٰۃ فرض نہیں، ہاں اگر ان کا مالک دینا چاہے تو دے دے
    ٭ زکوٰۃ میں بوڑھا، عیب دار اور نر جانور نہ لیا جائے (زکوٰۃ، بخاری)
    ٭ جس چیز کو بارش کا پانی سینچے اور چشمے سینچیں یا خودبخود پیدا ہو اس میں عُشر واجب ہوتا ہے
    ٭ جو چیز کنوئیں کے پانی سے سینچی جائے اس میں نصف عُشر ہے (زکوٰۃ، بخاری)
    ٭ معدنیات میں خمس یعنی پانچواں حصہ زکوٰۃ ہے (زکوٰۃ، بخاری)
    (اوامر و نواہی کی موضوعاتی درجہ بندی کے چند ابواب)
     
    شہباز حسین رضوی، پاکستانی55 اور غوری نے اسے پسند کیا ہے۔
  6. شہباز حسین رضوی
    آف لائن

    شہباز حسین رضوی ممبر

  7. شہباز حسین رضوی
    آف لائن

    شہباز حسین رضوی ممبر

  8. شہباز حسین رضوی
    آف لائن

    شہباز حسین رضوی ممبر

    بسم اللہ الرحمٰن الرحیم
    مسافر اور مریض کو روزہ نہ رکھنے کی رخصت ہے، لیکن رمضان کے بعد ان دنوں کی قضا ادا کرنی ضروری ہے۔
    مریض یا مسافر پر روزہ چھوڑنے کا کوئی کفارہ نہیں۔
    رمضان کا مہینہ اللہ تعالیٰ کی خصوصی عبادت اور حمدو ثنا کرنے کا مہینہ ہے۔
    ”رمضان وہ مہینہ ہے جس میں قران نازل کیا گیا ہے جو انسانوں کے لئے سراسر ہدایت ہے اور ایسی واضح تعلیمات پر مشتمل ہے جو راہ راست دکھانے والی اور حق اور باطل کا فرق کھول کر رکھ دینے والی ہیں، لہٰذا اب سے جو شخص اس مہینے کو پائے اس کو لازم ہے کہ اس پورے مہینے کے روزے رکھے اور جو کوئی مریض ہو یا سفر پر ، تو وہ دوسرے دنوں میں روزوں کی تعداد پوری کرے۔ اللہ تمہارے ساتھ نرمی کرنا چاہتا ہے، سختی کرنا نہیں چاہتا، اس لئے یہ طریقہ تمہیں بتایا جارہا ہے تاکہ تم روزوں کی تعداد پوری کرسکو اور جس ہدایت سے اللہ نے تمہیں سرفراز کیا ہے، اس پر اللہ تعالیٰ کی کبریائی کا اظہار و اعتراف کرو اور شکر گزار بنو۔“
    (سورہ بقرہ، آیت نمبر185)
     
    پاکستانی55 نے اسے پسند کیا ہے۔

اس صفحے کو مشتہر کریں