1. اس فورم پر جواب بھیجنے کے لیے آپ کا صارف بننا ضروری ہے۔ اگر آپ ہماری اردو کے صارف ہیں تو لاگ ان کریں۔

حسن اور خوبصورتی (اشعار کی رو سے)

'اردو شاعری' میں موضوعات آغاز کردہ از ساگراج, ‏18 مئی 2008۔

  1. عبدالجبار
    آف لائن

    عبدالجبار منتظم اعلیٰ سٹاف ممبر

    تمہارے ہاتھوں کے لئے ایک دعا

    مرے مولا یہ حسیں ہاتھ سلامت رکھنا
    ایسا لگتا ہے جو یہ ہاتھ دعا کو اٹھیں
    خود فرشتے چلے آتے ہوں زمیں کی جانب
    سونپ کر مرمریں ہاتھوں کی ہتھیلی کو حناء
    جو بھی مانگا ہو وہ چپ چاپ دیے جاتے ہوں
    میرے مولا یہ حسیں ہاتھ سلامت رکھنا

    ان کی خوشبو سے معطر ہے مرا سارا وجود
    انہی ہاتھوں میں مرے خواب چُھپے ہیں مولا
    اُنگلیاں مجھ کو محبت میں بھگو دیتی ہیں
    انہی پوروں نے مرے درد چُنے ہیں مولا
    ان کی رگ رگ میں محبت ہی محبت رکھنا
    میرے مولا یہ حسیں ہاتھ سلامت رکھنا

    اِنہی ہاتھوں کی لکیروں میں مقدر ہے مرا
    یہ جو کونے میں ستارہ ہے سکندر ہے مرا
    خواب سے نرم خیالوں کی طرح نازک ہیں
    ان کے ہر لَمس میں میرے لئے چاہت رکھنا
    مرے مولا یہ حسیں ہاتھ سلامت رکھنا
    مرے مولا یہ حسیں ہاتھ سلامت رکھنا


    (وصی شاہ)
     
  2. ساگراج
    آف لائن

    ساگراج ممبر

    جباربھائی بہت شکریہ۔ آپ نے اس لڑی کو اتنی عزت بخشی ہے۔ اب تو امید ہے یہ انشاءاللہ چلتی رہے گی۔
    پہلے تو میں مایوس ہوگیا تھا۔ لیکن آپ کی مہربانی سے یہ قائم ہے۔

    کاشفی بھیا بہت خوبصورت نظم پیش کی ہے آپ نے
     
  3. کاشفی
    آف لائن

    کاشفی شمس الخاصان

    بہت خوب عبدالجبار بھائی۔۔۔

    شکریہ ساگراج بھائی
     
  4. چیٹرcheater
    آف لائن

    چیٹرcheater ممبر

    وہ یار پری چہرہ کہ کل شب کو سدھارا
    طوفاں تھا، طلاطم تھا چھلاوہ تھا شرارا
    گل بیز و گہر ریز و گہر و گہر تاب
    کلیوں نے جسے رنگ دیا گل نے سنواراہ
    نو خستہ و نورس و نو طلعت و نو خیز
    وہ نقش جسے خود یدِ قدرت نے ابھارا
    خوں ریز کم آمیز و دل آویز و جنوں خیز
    ہنستا ہوا مہتاب ، دمکتا ہو تارا
    خوش چشم وخوش اطوار و خوش آور و خوش آندام
    ایک خال پہ قرباں سمر قندو بخارا
    گل پیرہن و گل بدن و گل رخ و گل رنگ
    ایمان شکن، آئینہ جبیں انجمن آرا
    سرشار جوانی تھی کہ امڈے ہوئے بادل
    شاداب تبسم تھا کہ جنت کا نظارا
    زلفیں تھیں کہ ساون کی مچلتی ہوئی راتیں
    شوخی تھی کہ سیلاب کا مڑتا ہوا دھارا​
     
  5. ساگراج
    آف لائن

    ساگراج ممبر

    بہت خوبصورت نظم ہے چیٹر جی
    :a180:
     
  6. عبدالجبار
    آف لائن

    عبدالجبار منتظم اعلیٰ سٹاف ممبر

    جزا کا حال سنائیں، سزا کی بات کریں
    خُدا مِلا ہو جنہیں، وہ خُدا کی بات کریں

    وفا شعار ہیں لاکھوں، کوئی حسیں بھی تو ہو
    چلو پھر آج اُسی بے وفا کی بات کریں​
     
  7. عاشو
    آف لائن

    عاشو ممبر

  8. کاشفی
    آف لائن

    کاشفی شمس الخاصان

    محمد :saw: باعث حسن جہاں ایمان ہے میرا
    محمد :saw: حاصل کون و مکاں ایمان ہے میرا

    محمد :saw: اول و آخر محمد :saw: ظاہر و باطن
    محمد :saw: ہیں بہر صورت عیاں ایمان ہے میرا
     
  9. عاشو
    آف لائن

    عاشو ممبر

    :saw: ۔۔
    :a180: ۔۔۔ :dilphool:
     
  10. ساگراج
    آف لائن

    ساگراج ممبر

    تیرے آنے کی جب خبر مہکے
    تیری خوشبو سے سارا گھر مہکے

    شام مہکے تیرے تصور سے
    شام کے بعد پھر سحر مہکے

    رات بھر سوچتا رہا تجھ کو
    ذہن و دل میرے رات بھر مہکے

    یاد آئے تو دل منور ہو
    دید ہو جائے تو نظر مہکے

    تو گھڑی دو گھڑی جہاں بیٹھے
    وہ زمیں مہکے وہ شجر مہکے
     
  11. عاشو
    آف لائن

    عاشو ممبر

    واہ !! بہت خوب :dilphool:
     
  12. این آر بی
    آف لائن

    این آر بی ممبر

    نازکی اُس کے لب کی کیا کہیے؟
    پنکھڑی اِک گلاب کی سی ہے​
     
  13. ساگراج
    آف لائن

    ساگراج ممبر

    جو بات تجھ میں ہے تیری تصویر میں نہیں

    رنگوں میں تیرا عکس ڈھلا تو نہ ڈھل سکی
    سانسوں کی آنچ جسم کی خوشبو نہ ڈھل سکی
    تجھ میں‌جو لوچ ہے میری تحریر میں نہیں‌

    جو بات تجھ میں ہے تیری تصویر میں نہیں

    بے جان حسن میں کہاں رفتار کی ادا
    انکار کی ادا ہے نہ اقرار کی ادا
    کوئی لچک بھی زلفِ گرہ گیر میں نہیں

    جو بات تجھ میں ہے تیری تصویر میں نہیں

    دنیا میں کوئی چیز نہیں ہے تیری طرح
    پھر اک بار سامنے آ جا کسی طرح
    کیا اور اک جھلک مری تقدیر میں نہیں

    جو بات تجھ میں ہے تیری تصویر میں نہیں



    (ساحر لدھیانوی)
     
  14. چیٹرcheater
    آف لائن

    چیٹرcheater ممبر

    رُخِ روشن کے آگے شمع رکھ کر وہ یہ دیکھتے ہیں
    اُدھر جاتا ہے دیکھیں یا پروانہ ادھر آتا ہے
     
  15. چیٹرcheater
    آف لائن

    چیٹرcheater ممبر

    رُخِ روشن کے آگے شمع رکھ کر وہ یہ دیکھتے ہیں
    اُدھر جاتا ہے دیکھیں یا ادھرپروانہ آتا ہے
     
  16. ساگراج
    آف لائن

    ساگراج ممبر

    متاع کوثر و زمزم کے پیمانے تری آنکھیں
    فرشتوں کو بنا دیتی ہیں دیوانے تری آنکھیں

    جہان رنگ و بو الجھا ہوا ہے ان کے ڈوروں میں
    لگی ہیں کاکل تقدیر سلجھانے تری آنکھیں

    اشاروں سے دلوں کو چھیڑ کر اقرار کرتی ہیں
    اٹھاتی ہیں بہارِ نو کے نذرانے تری آنکھیں

    وہ دیوانے زمام لالہ و گل تھام لیتے ہیں
    جنہیں منسوب کر دیتی ہیں ویرانے تری آنکھیں

    شگوفوں کو شراروں کا مچلتا روپ دیتی ہیں
    حقیقت کو بنا دیتی ہیں افسانے تری آنکھیں



    (ساغر صدیقی)
     
  17. این آر بی
    آف لائن

    این آر بی ممبر

    :a180:
     
  18. عاشو
    آف لائن

    عاشو ممبر

  19. ساگراج
    آف لائن

    ساگراج ممبر

    بہت خوب
    عاشو جی آپ کو انتخاب ہمیشہ اچھا ہوتا ہے :mashallah:
    :dilphool:
     
  20. ساگراج
    آف لائن

    ساگراج ممبر

    تصویر تیری دل میرا بہلا نہ سکے گی
    یہ تیری طرح مجھ سے تو شرما نہ سکے گی

    میں بات کروں گا تو یہ خاموش رہے گی
    سینے سے لگا لوں گا تو یہ کچھ نہ کہے گی
    آرام وہ کیا دے گی جو تڑپا نہ سکے گی

    تصویر تیری دل میرا بہلا نہ سکے گی

    آنکھیں ہیں ٹھہری ہوئی چنچل وہ نگاہیں
    یہ ہاتھ ہیں سہمے ہوئے اور مست وہ بانہیں
    پرچھائی تو انسان کے کام آ نہ سکے گی

    تصویر تیری دل میرا بہلا نہ سکے گی

    ان ہونٹوں کو فیاض میں کچھ دے نہ سکوں گا
    اس زلف کو میں ہاتھ میں بھی لے نہ سکوں گا
    الجھی ہوئی راتوں کو یہ سلجھا نہ سکے گی

    تصویر تیری دل میرا بہلا نہ سکے گی




    (فیاض ہاشمی)
     
  21. مریم سیف
    آف لائن

    مریم سیف ناظم خاص سٹاف ممبر

  22. عاشو
    آف لائن

    عاشو ممبر

    بہت شکریہ ساگراج بھائی ۔۔ لیکن یہ سب آپ کا حُسنِ نظر ہے :dilphool:

    بہرحال آپ کی کلیکشن بھی :a180: ہے :dilphool:
     
  23. عاشو
    آف لائن

    عاشو ممبر

  24. عاشو
    آف لائن

    عاشو ممبر

  25. مریم سیف
    آف لائن

    مریم سیف ناظم خاص سٹاف ممبر

    واہ۔۔ آنکھوں کی تعریف میں دونوں کلام بہت اچھے ہیں۔۔ :a180: عاشو جی۔۔
     
  26. ساگراج
    آف لائن

    ساگراج ممبر

    میری بہت پسندیدہ غزلوں میں سے ایک۔ غلام علی صاحب نے اسے گایا بھی بہت خوبصورتی سے ہے۔


    کل چودھویں کی رات تھی، شب بھر رہا چرچا تیرا
    کچھ نے کہا یہ چاند ہے، کچھ نےکہا چہرا تیرا

    ہم بھی وہیں موجود تھے، ہم سے بھی سب پوچھا کیے
    ہم ہنس دیئے، ہم چپ رہے، منظور تھا پردہ تیرا

    اس شہر میں کس سے ملیں؟ ہم سے تو چھوٹیں محفلیں
    ہر شخص تیرا نام لے، ہر شخص دیوانہ تیرا

    کوچے کو تیرے چھوڑ کر، جوگی ہی بن جائیں مگر
    جنگل تیرے، پربت تیرے، بستی تیری، صحرا تیرا

    ہم اور رسمِ بندگی؟ آشفتگی؟ افتادگی؟
    احساں ہے کیا کیا تیرا، اے حسنِ بے پروا تیرا

    دو اشک جانے کس لئے، پلکوں پر آ کر ٹک گئے
    الطاف کی بارش تیری، اکرام کا دریا تیرا

    اے بے دریغ و بے اماں، ہم نے کبھی کی ہے فغاں؟
    ہم کو تیری وحشت سہی، ہم کو سہی سودا تیرا

    تو بےوفا، تو مہرباں، ہم اور تجھ سے بد گماں
    ہم نے تو پوچھا تھا ذرا، یہ وقت کیوں ٹھہرا تیرا؟

    ہم پر یہ سختی کی نظر؟ ہم ہیں‌ فقیرِ راہ گزر
    رستہ کبھی روکا تیرا؟ دامن کبھی تھاما تیرا؟

    ہاں ہاں تیری صورت حسیں، لیکن تو ایسا بھی نہیں
    اس شخص کے اشعار سے، شہرہ ہوا کیا کیا تیرا

    بے شک اسی کا دوش ہے، کہتا نہیں خاموش ہے
    تو آپ کر ایسی دوا، بیمار ہو اچھا تیرا

    بے درد سننی ہو تو چل، کہتا ہے کیا اچھی غزل
    عاشق تیرا، رسوا تیرا، شاعر تیرا، انشاء تیرا




    (انشاء جی)
     
  27. ساگراج
    آف لائن

    ساگراج ممبر

    جب یار نے اٹھا کر زلفوں کے بال باندھے
    تب میں نے اپنے دل میں لاکھوں خیال باندھے

    تیرِ نگاہ میں اس کے کیونکر پھنسے نہ یہ دل
    آنکھوں میں جس کی لاکھوں وحشی غزال باندھے

    مارو گے کس کو جی سے کس پر کمر کسی ہے
    پھرتے ہو کیوں پیارے تلوار ڈھال باندھے :horse:

    دو چار شعر آگے اس کے پڑھے تو بولا
    مضموں یہ تو نے اپنے کیا حسب و حال باندھے

    سودا جو ان نے باندھا زلفوں میں دل سزا ہے
    شعروں میں اس کے تو نے کیا خدوخال باندھے




    (محمد رفیع سودا)
     
  28. عاشو
    آف لائن

    عاشو ممبر

  29. مبارز
    آف لائن

    مبارز ممبر

    بہت خوب ۔۔۔زبردست۔
     
  30. مبارز
    آف لائن

    مبارز ممبر

    اگر وُہ اپنے حسین چہرے کو بُھول کر بے نقاب کر دے

    تو ذرّے کو ماہتاب اور ماہتاب کو آفتاب کر دے

    تری محبّت کی وادیوں میں مری جوانی سے دور کیا ہے

    جو سادہ پانی کو اِک نشیلی نظر میں رنگیں شراب کر دے

    حریمِ عشرت میں سونے والے، شمیم ِگیسوُ کی مستیوں سے

    مری جوانی کی سادہ راتوں کو اب تو سرشارِ خواب کر دے

    مزے وہ پائے ہیں آرزو میں کہ دل کی یہ آرزو ہے یارب

    تمام دُنیا کی آرزوئیں مرے لئے اِنتخاب کر دے

    نظر نہ آنے پہ ہے یہ حالت کہ جنگ ہے شیخ و برہمن میں

    خبر نہیں کیا سے کیا ہو دُنیا جو خود کو وہ بے نقاب کر دے

    مرے گناہوں کی شورشیں اس لئے زیادہ رہی ہیں یارب

    کہ ان کی گُستاخیوں سے تو اپنے عفو کو بے حساب کر دے

    خدا نہ لائے وہ دن کہ تیری سنہری نیندوں میں فرق آئے

    مجھے تو یُوں اپنے ہجر میں عُمر بھر کو بے زارِ خواب کر دے

    میں جان و دل سے تصوّر حُسن دوست کی مستیوں کے قرباں

    جو اِک نظر میں کسی کے بے کیف آنسوؤں کو شراب کر دے

    عُروسِ فطرت کا ایک کھویا ہوا تبسّم ہے جس کو اختر

    کہیں وہ چاہے شراب کر دے ، کہیں وہ چاہے شراب کر دے​
     

اس صفحے کو مشتہر کریں