1. اس فورم پر جواب بھیجنے کے لیے آپ کا صارف بننا ضروری ہے۔ اگر آپ ہماری اردو کے صارف ہیں تو لاگ ان کریں۔

بیداری شعورو احساس

Discussion in 'کالم اور تبصرے' started by نعیم, Sep 20, 2011.

  1. غوری
    Offline

    غوری ممبر

    جواب: بیداری شعورو احساس

    میں نے ان کے جمعہ المبارک کے خطبے سنے اور ان کے ساتھ بہت نمازیں بھی ادا کیں۔ اصل مسلمان وہ ہے جو حق کے لئے ثابت قدمی سے ظلم کے سامنے کھڑا ہوجائے۔ علامہ صاحب اپنے عمل سے کیا ثابت کرتے ہیں، آیئے انتظار کیجئے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
     
  2. فرحان ثنائی
    Offline

    فرحان ثنائی ممبر

    جواب: بیداری شعورو احساس

    مجھے محترم نعیم اور دیگر صاحبان سے مکمل اتفاق ہے۔ پاکستان کے تمام مسائل کا حل موجودہ ''کرپٹ نظام'' کا خاتمہ ہے۔ کیوں؟ آئندہ پوسٹس میں مستند اعداد و شمار کے ساتھ ان قباحتوں کا ذکر ہو گا جو اس نظام سے جنم لیتی ہیں۔
     
  3. غوری
    Offline

    غوری ممبر

    جواب: بیداری شعورو احساس

    حضور والا
    ذیادہ تفصیل میں جانے کی کیا ضرورت ہے۔
    آپ مختصر سے چند ایک جملے (اپنے سے) لکھ دیں تو نوازش ہوگی۔ ورنہ تفصیل کیلئے تو گوگل کا سمندر سب کو دعوت عام دے رہا ہے۔۔۔۔۔۔۔
     
  4. نعیم
    Offline

    نعیم مشیر

    جواب: بیداری شعورو احساس

    السلام علیکم فرحان بھائی ۔
    ہماری اردو کے صفحات یقینا ہر صارف کے لیے کھلے ہیں۔
    ہمیں‌آپ کے خیالات پڑھنے کا اشتیاق اور انتظار رہے گا۔
     
  5. نعیم
    Offline

    نعیم مشیر

    ہمارے لیے "آئندہ الیکشن " بہت ہی اہم ہیں۔ ملک الیکشن میں ایک دن کی تاخیر کا بھی متحمل نہیں ہوسکتا ۔

    ابھی کوئٹہ میں سینکڑوں پاکستانیوں کے خون کے دھبے انکے کفنوں سے خشک نہ ہوئے تھے کہ کراچی میں ایسی ہی خون کی ہولی پھر سے کھیلی گئی جس میں درجنوں سہاگ اجڑے۔ سینکڑوں بچے یتیم ہوئے اور درجنوں گھروں میں صفِ ماتم بچھ گئی ۔
    ہر کوئی سوچ رہا ہے اب کیا ہوگا ؟ ۔۔۔
    ہم جانتے ہیں اب کیا ہوگا۔۔۔
    ہوگا وہی جو ہمیشہ بدقسمت قوموں اور بے شعور عوام کے ساتھ ہوتا ہے۔
    حکمرانوں کی طرف سے مرحومین کو عوام کے خزانے یعنی سرکاری خزانے سے چند لاکھ روپے’’ موت کا انعام‘‘ جبکہ زخمیوں کے خاندانوں کو بھی ’’زخم چاٹنے‘‘ کا معاوضہ دینے کا وعدہ کردیا جائے گا۔ شایدرینجرز یا پولیس کے ایک آدھ چھوٹے موٹے اہلکار کو چند دن کے لیے معطل یا ٹرانسفر بھی کردیا جائے۔
    لیکن ہم ان دہشت گردوں کی سرکوبی کے لیے کوئی قدم نہیں اٹھائیں گے۔ کیونکہ ہماری توجہ اس وقت آئندہ الیکشن پر ہے ۔
    کیونکہ ہمارے لیے "آئندہ الیکشن " بہت ہی اہم ہیں۔ ملک الیکشن میں ایک دن کی تاخیر کا بھی ’’متحمل‘‘ نہیں ہوسکتا ۔
    ہماری آزاد عدلیہ ۔۔۔ جی ہاں۔۔ عدل و انصاف کی علمبردار عدلیہ ۔۔ سوموٹو ایکشن لے کر پولیس ، رینجرز یا حکومت پر چند جگت نما ریمارکس سنا کر چند صفحات کالے کرکے فیصلہ بھی لکھ دے گی ۔ لیکن نتیجہ کیا ہوگا ؟ وہی جو راجہ رینٹل کی گرفتاری کے فیصلے کے ساتھ ہوا ؟ لیکن قوم کو انصاف ملے نہ ملے ہمارا مسئلہ آئندہ الیکشن ہیں۔
    کیونکہ ہمارے لیے "آئندہ الیکشن " بہت ہی اہم ہیں۔ ملک الیکشن میں ایک دن کی تاخیر کا بھی ’’متحمل‘‘ نہیں ہوسکتا ۔
    اگر دوچار دہشت گرد گرفتار ہوبھی گئے تو انہیں ’’عدم ثبوت‘‘ کی بنا پر باعزت بری کردیا جائے گا کیونکہ انکے تانے بانے پنجاب حکومت کی حکمراں جماعت سے ملتے ہوں گے۔ کیونکہ ہمیں فی الحال دہشت گردوں سے نمٹنے کی فرصت ہی کہاں۔ ہم تو 5سالہ کامیاب جمہوریت پر خوشیاں منا کر اگلے لٹیروں کی باری کا انتظام کررہے ہیں۔ اسی لیے تو ۔
    ہمارے لیے "آئندہ الیکشن " بہت ہی اہم ہیں۔ ملک الیکشن میں ایک دن کی تاخیر کا بھی ’’متحمل‘‘ نہیں ہوسکتا ۔
    جعلی ڈگریوں والے بددیانت اور جھوٹے حلف اٹھانے والے پھر سے اگلے الیکشن میں بےشک ہم پر مسلط ہوجائیں۔۔ کوئی پرواہ نہیں۔ کیونکہ یہی جمہوریت کا ’’ حسن ’’ ہے۔۔ (ہاہاہاہا)۔کیونکہ ہمارے لیے "آئندہ الیکشن " بہت ہی اہم ہیں۔ ملک الیکشن میں ایک دن کی تاخیر کا بھی ’’متحمل‘‘ نہیں ہوسکتا ۔
    دہشت گرد اور انکی سرپرست جماعتوں کے تعلقات کے ثبوت ہونے کے باوجود عدلیہ و انتظامیہ نے انکے خلاف ٹھوس ایکشن نہیں لینا کیونکہ :
    کیونکہ ہمارے لیے "آئندہ الیکشن " بہت ہی اہم ہیں۔ ملک الیکشن میں ایک دن کی تاخیر کا بھی ’’متحمل‘‘ نہیں ہوسکتا ۔
    الیکشن کمیشن کی تشکیل ہی غیر آئینی ہوئی ۔ بھلے اسکا چیف فخرو بھائی بتقاضائے عمر (85+ سال) اعصابی طور پر قانون کے تحفظ کے لیے سخت فیصلے لینے کے قابل نہ ہو۔ بقیہ 4 کمشنر سیاسی وابستگیوں کی بنا پر بھرتی ہوئے ۔ لیکن ہم اس الیکشن کمیشن کے خلاف بات کرے یا اسکی آئینی تشکیل کا مطالبہ کرے اسے ڈاکٹر طاہرالقادری کی طرح "شریر، غیروفاداری اور دوہری شہریت" کی جگتیں لگا کر قہقہے لگا کر نشانِ عبرت بنائیں گے ۔
    کیونکہ ہمارے لیے "آئندہ الیکشن " بہت ہی اہم ہیں۔ ملک الیکشن میں ایک دن کی تاخیر کا بھی ’’متحمل‘‘ نہیں ہوسکتا ۔
    حکومتی جماعتیں سرکاری خزانے سے اربوں روپے غیرآئینی طور پر اپنے حلقوں میں بانٹ کر ووٹ خریدنے کے عمل جاری رکھے ہوئے ہیں ۔ لیکن ہم آنکھیں بند کرکے "منصفانہ شفاف انتخابات" کا شور مچائے رکھیں گے۔ ک
    کیونکہ ہمارے لیے "آئندہ الیکشن " بہت ہی اہم ہیں۔ ملک الیکشن میں ایک دن کی تاخیر کا بھی ’’متحمل‘‘ نہیں ہوسکتا ۔
    ٹیکس چور، بھتہ خور، قومی خزانہ لوٹنے والے سیاستدان ، ٹی وی پر اینکروں کے سامنے " کرپشن ہمارا حق ہے" کے نعرے لگاتے رہیں۔ لیکن ہم نیب کے ایماندار کامران فیصل جیسے افسروں کو ہی راہ سے ہٹواتے رہیں گے اورسرکاری ڈاکٹروں سے اسکو خود کشی ثابت کردیں گے۔
    کیونکہ ہمارے لیے "آئندہ الیکشن " بہت ہی اہم ہیں۔ ملک الیکشن میں ایک دن کی تاخیر کا بھی ’’متحمل‘‘ نہیں ہوسکتا ۔
    اربوں لوٹ کر پاکستان کے امیرترین بن جانے والے سیاستدانوں زرداریوں، نواز شریفوں کہ جنہوں نے ملکی خزانے کےاربوں کھربوں باہر ملکوں میں منتقل کررکھے ہیں۔ انکا غبن شدہ پیسہ نکلوانے کے لیے احتساب کرنے کی بجائے انہیں اگلے الیکشن کے لیے پوتر کرکے پھر سے قوم کو لوٹنے کے لیے انکی راہیں ہموار کرتے رہیں گے
    کیونکہ ہمارے لیے "آئندہ الیکشن " بہت ہی اہم ہیں۔ ملک الیکشن میں ایک دن کی تاخیر کا بھی ’’متحمل‘‘ نہیں ہوسکتا ۔
    کراچی ، بلوچستان اور پختون خواہ وغیرہ میں قوم پرست، علیحدگی پسند، تعصباتی گروہ اور مذہبی فرقہ وارانہ جنونیت کے علمبردار دندناتے ہوئے لاشیں گراتے رہیں لیکن ہمارے پاس انکا سدباب کرنے کا وقت نہیں
    کیونکہ ہمارے لیے "آئندہ الیکشن " بہت ہی اہم ہیں۔ ملک الیکشن میں ایک دن کی تاخیر کا بھی ’’متحمل‘‘ نہیں ہوسکتا ۔
    اے پاکستانی قوم ! اور کتنے لاشیں گروائیں گے؟ اور کتنی خود کشیاں ہوں گی ؟ اور کتنی خود سوزیاں ہوں گی ؟ اور کتنی بیٹیاں بے آبرو ہوں گی ؟
    کیا ڈاکٹر طاہرالقادری کا پیغام اب بھی سمجھ نہیں آرہا کہ
    الیکشن ضرور کراؤ۔۔ لیکن ۔۔ خدا کے لیے آئین کے آرٹیکل 62، 63 اور 218 کے مطابق ایسے الیکشن کرواؤ جس کے ذریعے نیک ، صالح ، قابل، تعلیم یافتہ ، دیانتدار اور خدا خوفی رکھنے والے محب وطن لوگ اسمبلیوں میں پہنچ سکیں جو ملک و قوم کو ان مسلط شدہ عذابات، غربت، افلاس، خود سوزی، خود کشی، لوڈ شیڈنگ، مہنگائی ، دہشت گردی اور معاشی موت جیسے مسائل کا حل نکال کر ملک کے تحفظ اور قوم کی فلاح کے ضامن بن سکیں ؟
    کیا ہمارے نصیب میں انہی لٹیروں، چوروں، قاتلوں، رسہ گیروں، دھوکے باز مٹھی بھر خاندانوں کی غلامی لکھی ہوئی ہے ؟؟؟
     
  6. غوری
    Offline

    غوری ممبر

    تمام ووٹروں کو اپنے ووٹ کے حق کو ذمہ داری سے سرانجام دینا ہوگا۔ آپ کی ذرا سے سستی و کاہلی کڑوڑوں پاکستانیوں کے قسمت داو پہ لگا سکتی ہے۔ اس مرتبہ کوئی عذر قابل قبول نہیں ہوگا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
    خود بھی ووٹ دیں اور دوسروں کو بھی ترغیب دیں اور ساتھ لے کر جائیں۔۔۔۔۔۔۔
     
  7. نعیم
    Offline

    نعیم مشیر

    سچ یہی ہے کہ خرابی ہمارے شعور کی ہے۔ ہمیں بےشعور رکھا گیا
    کرپٹ سیاستدان مافیا اور ظالم استعمار کی سازش یہ ہے کہ بےشعور عوام کو ہمیشہ "باشعور " کہہ کر مزید بےوقوف بنایا جاتا ہے۔
    ہمیں بطور عوام درحقیقت نہ حقیقی جمہوریت کا معنی پتہ ہے،
    نہ جمہوری رویوں کا مطلب
    اور نہ ہی جمہوریت کے معاشرے پر اثرات سے کما حقہ آگہی ہے

    ہمیں 5 سال بعد ایک دن کے لیے "ووٹ" کا حق دے کر لولی پاپ دیا جاتا ہے کہ یہی جمہوریت ہے
    ٹی وی پر بڑی بڑی توندوں والے، یا پھر خوبصورت چمکتے دمکتے چہروں والے، اپنی لوچ دار انگریزی نما اردو میں آکر قوم کو ووٹ ڈالنے کی اہمیت بتاتے ہوئے سبزباغ دکھاتے ہیں جیسے اسی ایک پرچی سے آپ کا اور ملک کا نصیب سنورنا ہے۔ کیونکہ ان ٹی وی اینکرز، شوبز کے خوبصورت چہروں نے ساری زندگی میں کبھی ایک وقت کا بھی فاقہ نہیں کیا ہوتا۔ انہیں محرومی کے لفظ سے شناسائی بھی نہیں ہوتی ۔

    ووٹ لے چکنے کے بعد اشرافیہ، کرپٹ مافیا ، لٹیروں ، وڈیروں، رسہ گیروں کی طرف سے ایک خاموش پیغام آتا ہے۔
    اے پاکستانی عوام !!!
    تم نے ووٹ ڈال دیا ۔تمھاری جمہوریت اب ختم۔ تمھیں جمہوریت مل گئی ۔
    اب ظلم کی چکی میں پسنے کے لیے 5 سال کے لیے جاؤ بھاڑ میں ۔
    اب ہم جانیں، اسمبلیاں جانیں، ملکی خزانہ جانے اور ہماری عیاشیاں جانیں۔یہ سب ہمارا جمہوری حق ہے

    اے پاکستانی عوام ! تمھارا نہ ملکی خزانے پر حق ہے۔ نہ آئین میں کوئی حق ہے۔
    البتہ تمھیں بھی کچھ حقوق ہیں ۔

    تمھیں حق ہے خود سوزی کا
    تمھیں حق ہے خود کشی کا
    تمھیں حق ہے اپنے بچوں کو بیچنے کا
    تمھیں حق ہے اپنے گردے اور خون بیچنے کا
    تمھیں حق ہے مرنے کا۔
    تم عوام مرتے پھرو۔۔ مر جاؤ گے تو کوئی غم نہیں
    تمھاری آئندہ نسلیں ۔۔۔ غلام ہوں گی ۔۔ ہماری آئندہ نسلوں کی
    یہی جمہوریت ہے۔ اے پاکستانی عوام !!!


    اگر محرومیوں، سسکیوں، آہوں، خود سوزیوں، قتل و غارت گری، لوڈ شیڈنگ، ملکی تباہی، خونریزی اور بربادی کا نام جمہوریت ہے تو 60 فیصد پاکستانی جو اس ملک میں ووٹ دینا گناہ سمجھتے ہیں وہ سب دراصل خاموش زبان سے یہی کہتے ہیں
    لعنت ہے ایسی جمہوریت پر

    کیونکہ جمہوریت میں جمہور حکمران ہوتے ہیں ۔ غلام نہیں
    جمہوریت میں جمہور آئینی حقوق اپنے دروازے پر حاصل کرتے ہیں۔ انہیں منگتا نہیں بننا پڑتا
    جمہوریت میں ریاستی ادارے عوام کے زیر نگیں ہوتے ہیں۔
    جمہوریت میں عوام جسے چاہیں ریاستی امور سونپتے ہیں۔ اسٹیبلشمنٹ ، الیکشن کمیشن مافیا، سیاسی مافیا ، عدلیہ مافیا نہیں۔

    جب تک پاکستانی عوام اپنے آئینی و جمہوری حقوق کا شعور حاصل کرکے
    ظلم کے اس نظام اور اسکے محافظوں کے خلاف اٹھ کھڑی نہیں ہوتی ۔ عوام کے حقوق کی عصمت دری جاری رہے گی
    اور جیسے ہم سسک سسک کر جی رہے ہیں ایسے ہی ہماری آئندہ نسلیں بھی انہی لٹیروں کی غلامی کا دم بھرتی رہیں گی۔
    آؤ ان لٹیروں کا محاسبہ کرنے کے لیے آہنی ہاتھ انکے گریبانوں پر ڈال دیں۔
    آؤ ان لٹیروں کی تجوریوں سے قوم کی لوٹی ہوئی پائی پائی واپس لے کر قوم کے سسکتے ہوئے بچوں کو واپس کردیں کیونکہ یہ انہی کا قانونی حق ہے۔
    اٹھو میری دنیا کے غریبوں کو جگا دو
    کاخِ امراء کے در و دیوار ہلا دو
    جس کھیت سے دہقاں کو میسر نہیں روزی
    اس کھیت کے ہر خوشہء گندم کو جلا دو
    سلطانیء جمہور کا آتا ہے زمانہ
    جو نقشِ کہن تم کو نظر آئے، مٹا دو
     
  8. عنایت عادل
    Offline

    عنایت عادل ممبر

    نعیم بھائی۔۔۔۔آپ کا حرف حرف حقیقت ہے۔ لیکن۔۔اگر ہم ووٹ نہیں ڈالتے تو کیا ہم ان بھیڑیوں کے لئے میدان مارنا زیادہ آسان نہین بنا دیں گے؟؟ اگر ہم اس بیداری مہم کو اس طرح بنائیں کہ لوگ ’’جھنڈے کی پوج‘‘ا کے بجائے بندے کو دیکھ کر ووٹ ڈالیں تو زیادہ بہتر ہو گا۔ ہر حلقہ مین ایک آدھ ایسا امیدوار ضرور ایسا ہوتا ہے کہ جو واقعی خدمت کے جذبے سے انتخابات میں خود کو پیش کرتا ہے۔ لیکن ایسے افراد کا تعلق کسی جماعت سے کم کم ہی ہوتا ہے۔ کیونکہ صادق اور امین قسم کے خبطی لوگ ہمیشہ کسمپرسی کے شکار نہ سہی، بڑی بڑی جماعتوں کی ٹکٹوں کے لئے لگنے والی بولیوں کو پورا کرنے کے قابل نہیں ہوتے۔ اگر ہم اپنے تمام دوستوں سے گزارش کریں کہ وہ کسی ایسے ہی ’’خبطی‘‘ کو نا صرف ووٹ ڈالیں بلکہ اسکی انتخابی مہم میں بھی اس کی معاونت کریں اور عوام کے ذہن کھولیں تو ہو سکتا ہے کہ اآنے والے اسمبلی میں کچھ ’’خبظی‘‘ اکٹھے ہو جائیں جو ان بھیڑیوں کو نکیل ڈالنے کا باعث بن سکین۔۔۔۔آپ کی رائے کا انتظار رہے گا۔۔۔
     
    نعیم likes this.
  9. عنایت عادل
    Offline

    عنایت عادل ممبر

    تصحیح: لفظ ’’جھنڈے کی پوجا ‘‘ ہے، جذبات مین مس ٹائپ ہو گیا۔۔بہت معذرت
     
  10. نعیم
    Offline

    نعیم مشیر

    بہت شکریہ محترم عنایت عادل بھائی ! اللہ پاک آپکی حب الوطنی میں اضافہ فرمائے ۔ آمین
    ہمیں انفرادی اور حلقہ جاتی سوچ سے نکل کر قومی و اجتماعی سطح پر سوچنے کی ضرورت ہے۔ کیونکہ قومیں اجتماعی سوچ سے وجود میں آتی ہیں۔ علاقائی و انفرادی مفادات پر مبنی سوچ سے قوم و وطنیت ہمیشہ انتشار کا شکار ہوتی ہے اور ہم اسی دلدل میں بدقسمتی سے گرے ہوئے ہیں۔
    ایک حقیقت جو سمجھنے کی اشد ضرورت ہے وہ یہ کہ ہمارے ملک میں رائج نظام دراصل چند درجن یا چند سو خاندانوں کے چند ہزار افراد کا بنایا ہوا ایک جال ہے۔ ان چند ہزار میں صرف سیاستدان ہی نہیں بلکہ بیوروکریسی (سول و فوجی) ، عدلیہ ، بنک اور اسٹیبلشمنٹ کے دیگر سٹیک ہولڈرز بھی شامل ہیں۔ جس میں عوام کو 5 سال کے لیے پھنسایا جاتا ہے۔ انکا خون چوس کر یہ چند ہزار افراد اپنی تجوریاں بھرتے ہیں۔ عیاشیاں کرتے ہیں۔ عوام کو غلامی کی زنجیروں میں جکڑ کر کبھی کبھار انکو ایک آدھ لالی پاپ کا تحفہ دے دیا جاتا ہے تاکہ اپنے نظام کی ساکھ بھی بنی رہے اور عوام کا شعور بھی بیدار نہ ہوسکے۔
    سمجھنے کی بات یہ ہے ایسا کرپٹ نظام جو شاید دنیا بھر کی جمہوریتوں میں کہیں بھی اتنے غلیظ انداز میں رائج نہیں ہے۔ اس نظام کی بنیاد اسی نظامِ انتخابات پر ہے جس کے ذریعے سے کرپٹ و بددیانت افراد ایوانِ اقتدار میں پہنچتے ہیں۔ اور پھر کھل کھیلتے ہیں۔ اور بقیہ کرپٹ طبقوں کو بھی تحفظ دیتے ہیں۔
    یہ نظام نہ صرف ان چند ہزار کرپٹ اشرافیہ کو سوٹ کرتا ہے بلکہ انکے پیچھے جو اسلام دشمن اور پاکستان دشمن "نادیدہ طاقتیں" ہیں انکو بھی یہی نظام اور یہی افراد سوٹ کرتے ہیں اور انکے پاکستان میں مفادات کا تحفظ بھی اسی نظام سے ممکن ہے۔ چنانچہ اس نظام کو قائم رکھنے اور اسے "جمہوریت" کا عنوان دینے کے لیے وہ نہ صرف زبانی بلکہ مالی اور عملی حمایت بھی جاری رکھتے ہیں۔
    اس نظام میں ووٹ دینا دراصل اسی نظام کو سپورٹ کرنے اور طاقتور کرنے کے مترادف ہے اور یہی ان کرپٹ افراد کی طاقت ہے ۔ وہ کسی نہ کسی حیلے ، حربے، بہانے سے 30-40 فیصد افراد کو اپنا ہمنوا بنا کر ہر الیکشن میں ووٹ ڈالنے پر قائل کرلیتے ہیں۔ اس مقصد کے لیے میڈیا پر چمکتے دمکتے چہروں والی شوبز کی شخصیات، لفافہ بردار صحافی و قلمکار سمیت ایسے دانشواران جن کے مفادات اسی نظام سے وابستہ ہوتے ہیں اور جنہوں نے شاید کبھی محرومیت کی ہوا بھی محسوس نہیں کی ہوتی ۔ وہ میڈیا سکرینوں کے ذریعے قوم کے ہمدرد بن کر انہیں ووٹ کی پرچی کے ذریعے "تقدیر بدل دینے" کا مژدہ جانفزا سنا تے ہیں۔ قوم یہ سبز باغ دیکھ کر ووٹ دیتی ہے اور اگلے 5 سال کے لیے رونا دھونا شروع کردیتی ہے۔ اور کرپٹ سیاستدان، عدالتوں پر حملے، این آر او معاہدات، سرے محل، مہران بنک، اصغر خان سکینڈلز، میمو گیٹ سکینڈلز، اربوں کی کرپشن کے باوجود، میڈیا پر آکر دھڑلے سے کہتے ہیں ہم عوام کے ووٹوں سے آئے ہیں۔ اور اگلے الیکشن میں بھی عوام ہی ہمیں ووٹ دیتے ہیں۔ کیونکہ انہیں اپنے بنائے ہوئے مکروہ جال پر اتنا اعتماد ہے کہ جب تک عوام ہماری اس سازش سے بےشعور و ناواقف ہیں ۔ انہیں اقتدار سے کوئی نہیں الگ کرسکتا۔
    ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
    اتنی حقیقت سمجھ لینے کے بعد اگلا سوال یہ ذہن میں آسکتا ہے کہ اگر موجودہ نظام اصل جمہوریت نہیں ہے تو پھر کیا کوئی اور نظام بھی موجود ہے؟
    اسکا جواب 100 فیصد ہاں میں ہے۔ دنیا بھر میں جمہوریت کئی انداز اور صورتوں میں رائج ہے۔ امریکہ کا صدارتی نظام بھی جمہوریت ہی کہلاتا ہے۔ چائنہ میں اپنا طرز حکومت ہے وہ بھی جمہوریت ہے۔ یورپ کے کئی ممالک میں "متناسب نمائندگی " کا نظام ہے وہ بھی عین جمہوریت ہے۔ جس میں ووٹ صرف پارٹی پروگرام کو جاتا ہے ۔ حلقہ بندیاں نہیں ہوتی۔ وہاں وننگ ہارسز نہیں ہوتے۔ ہر پارٹی حاصل شدہ ووٹوں کے تناسب سے اسمبلی میں اپنے ممبران بٹھانے کی مجاز ہوتی ہے۔ وغیرہ وغیرہ ۔
    چلیں بقیہ نظام کو فی الوقت ایک طرف رکھ کر دیکھا جائے تو اگر موجودہ نظام انتخابات ہی کو آئین کے عین مطابق بنا دیا جائے ۔ آرٹیکل 62، 63 کے تحت کرپٹ ، بددیانت اور رسہ گیر غنڈوں کو الیکشن سے باہر کرکے ایسا ماحول بنایا جائے جس میں شریف ، اہل ، دیانتدار چند ہزار یا چند لاکھ روپے لگا کر اسمبلی میں پہنچ سکیں تو بھی تبدیلی ممکن ہے۔
    لیکن
    پاکستان کی 65 سالہ تاریخ اور بالخصوص 1988 کے بعد سے جمہوری ادوار پر ایک طائرانہ نگاہ ڈالنے سے یہ بات عیاں ہوجاتی ہے کہ موجودہ نظام انتخاب دراصل کسی شریف، اہل، محب وطن، تعلیم یافتہ اور دیانتدار شخص (بقول آپکے خبطی )کے لیے بنا ہی نہیں ہے۔ میں بیسیوں مثالوں کے ذریعے یہ بات حق الیقین تک پہنچا سکتا ہوں کہ شریف، اہل ، دیانتدار لوگ اول تو اس نظام میں امیدوار بننے کا سوچ ہی نہیں سکتا، اگر سوچ لے تو انتخابی مہم کے دوران ہی قتل کردیا جاتا ہے۔ اسکے خاندان کو ظلم و زیادتی کا شکار بنایا جاتا ہے یا پھر کسی نہ کسی طریقے سے اسکو مجبور کرکے اسی نظام کا حصہ بنا دیا جاتا ہے۔
    قارئین کرام !
    حقیقت یہ ہے کہ موجودہ نظام میں کروڑوں روپے لگائے بغیر اسمبلی میں پہنچنا ناممکن ہے۔ صاف اور سیدھی سی بات ہے عنایت عادل بھائی !
    جو بندہ 15 ۔ 20 کروڑ انویسٹمنٹ کرکے اسمبلی کی سیٹ حاصل کرے گا ۔ کیا وہ اپنے 15 ۔ 20 کروڑ ، ڈبل یا ٹرپل منافع کے ساتھ واپس نہیں لے گا؟ یہ رقم وصول کرنے کے لیے وہ لامحالہ کرپشن کرے گا اور رفتہ رفتہ اسی نظام کا حصہ بن جائے گا۔
    ہمارا شعور ہمیشہ اگلے الیکشن تک سوچتا ہے۔ سو جوتے اور سو پیاز والی مثال ہمیں پر صادق آتی ہے۔ ہردور کی مصیبتوں کو دیکھتے ہوئے پچھلا ظالم ہمیں اچھا محسوس ہوتا ہے۔ ہمیں 1988 کے بعد ضیاء الحق کا دور اچھا لگا، ہمیں 1992 کے بعد بےنظیر کا دور اچھا لگا، ہمیں 1998 کے بعد نواز شریف کا دور اچھا لگا، ہمیں 2008 کے بعد مشرف کا دور اچھا لگا، میری بات لکھ لیں ہمیں آئندہ الیکشن کے بعد پی پی پی اور زرداری کادور بھی اچھا لگے گا۔
    کیونکہ ہماری ذہنی رسائی ہی یہی ہے کہ چند پیاز کھا کر جوتے کھانے کا سوچتے ہیں، اور پھر چند جوتے کھا کر پھر پیاز کا سوچنا شروع کردیتے ہیں۔ اور کھلانے والے ہماری نفسیات کو خوب جانتے ہیں اس لیے وہ ہمیں باری باری کھلائے جاتے ہیں۔
    ہمیں اس بات کا یقین کرنا ہوگا کہ پاکستان کے سیاسی و ریاستی نظام کو موجودہ چند ہزار کرپٹ افرادسے چھینے بغیر پاکستان کا مقدر کبھی تبدیل نہیں ہوسکتا۔ یہ بات ہم عوام اجتماعی سطح پر جتنا جلدی سمجھ جائیں اور اس اشرافیہ کے بنائے ہوئے جال نما نظام کو مسترد کرکے آئین پاکستان کی بالادستی پر مبنی نظام نہ لے آئیں ۔ اس وقت تک ہمارا مقدر نہیں بدل سکتا
    ورنہ ہم ہر الیکشن میں اپنے حلقے سے کسی "خبطی" کو ڈھونڈتے ڈھونڈتے اپنی نیا بھی ڈبو دیں گے۔ اور اپنی آئندہ نسلوں کے لیے بھی اندھیرا چھوڑ جائیں گے۔
    ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
    بعض اوقات حلقہ میں کام کروانے کا تعلق ہے۔ اور حلقہ میں "خدمت" کو معیار بنا کر کسی کو ووٹ دینے کی مسئلہ ہے ۔ اس میں بھی ہماری بےشعوری پر کفِ افسوس ملا جاسکتا ہے۔ پارلیمنٹ یعنی مقننہ کا ممبر بننے کا دنیا بھر میں یہ کوئی معیار نہیں ہے کہ جو شخص حلقہ میں نالیاں پکی کروا دے، پل، پلیاں یا سڑکیں بنوا دے اور گیس کنکشن اور بجلی کے کھمبے لگوا دے وہی پاکستان کے مقدس ترین قانون ساز ادارے کا رکن بننے کا اہل ہوجاتا ہے۔
    یہ کام تو ہر چور، ڈاکو، سمگلر، باآسانی کرسکتا ہے اور اکثر و بیشتر وہی لوگ ایسے کام کرتے ہیں۔ اور خیرات کی طرح اس حلقے کے عوام کو اپنا احسان مند بنا لیتے ہیں۔ اور ہم انکی غلامی کا دم بھرتے ہوئے انکی گاڑیوں اور دروازے کے سامنے ناچنا شروع کردیتے ہیں۔
    گلیاں پکیاں کروانا، نالیاں صاف کروانا، بجلی کے کھمبے او ر تاریں اور دیگر ترقیاتی کام بلدیہ کی ذمہ داری ہوتی ہے۔ پوری دنیا میں حکومتیں عوام کے ٹیکس سے بلدیاتی نظام کے ذریعے عوام کو سہولت دینے کے لیے یہ کام کرتے ہیں اور حکومت کی ڈیوٹی یعنی ذمہ داری سمجھی جاتی ہے۔ کوئی کسی پر احسان نہ جتاتا ہے اور نہ سمجھتا ہے۔
    لیکن بدقسمتی سے ہمارے ہاں سب کچھ اس کے برعکس ہوتا ہے۔
     
  11. آصف احمد بھٹی
    Offline

    آصف احمد بھٹی ناظم خاص Staff Member

    سیاسی طور پر جناب طاہر القادری صاحب سے شدید نظریاتی اختلافات کے باوجود میں اُن کی اس بات سے متفق ہوں کہ موجودہ نظام تبدیل ہونا چاہیے ، اور اُن سے میرا اختلاف اس نظام کی تبدیلی کے طریقہ کار پر ہے ، میں موجودہ نظام اتنا برا نہیں بلکہ اس کے منتطمین برے لوگ ہیں جو نظام کو بھی برا بنا رہے ہیں ۔ ہم لوگ موجودہ نظام میں تبدیلی کے لیے پہلے اہل منتطمین لائیں اور پھر اُن کے توسط سے نظام میں موجود برائیاں ختم کریں ۔
    ایک پر امن تحریک کے زریعے اہل منتطمین کو سامنے لانے کا طریقہ کار وضع کرنے کے لیے ایک پریشر گروپ بنایا جا سکتا ہے مگر اُس کے لیے حوصلہ ، صبر اور دوسروں بہتر لوگوں کو بھی اس عمل کا حصہ بنانا ضروری ہے ۔
     
    ملک بلال and نعیم like this.
  12. نعیم
    Offline

    نعیم مشیر


    • 11مئی 2013 پاکستان کی تاریخ کا ایک اور سیاہ دن۔

      پاکستانی قوم کو تین تین ، چار چار اور پانچ پانچ بارآزمودہ کرپٹ سیاستدانوں کو پھر سے حکمران منتخب کرنے۔۔۔ اور پھر سے ظالموں، بدعنوانوں اور بدقماشوں کو اپنی تقدیر کا مالک بنانے پر مبارکباد !!!

      ڈاکٹر طاہرالقادری 23دسمبر2012 سے انہی نتائج سے آگاہ کرتے آرہے تھے اور یہی انکا مطالبہ تھا کہ آئینی اصلاحات کے ذریعے پہلے ان کرپٹ، بدعنوان ، قرضہ خوروں اور ٹیکس چوروں کو نااہل قرار دے دیا جائے تاکہ اعلی تعلیم یافتہ، ایماندار اور محب وطن قیادت آگے سکے۔۔ لیکن لگتا ہے پاکستانی قوم کی ظلم و ستم سہ سہ کر بھی تشفی نہیں ہوئی۔ اس لیے اگلے پانچ سالوں کے لیے پھر سے انہی بدعنوانوں کی غلامی قبول کر چکے ہیں۔
      11مئی 2013 پاکستان کی تاریخ کا ایک اور سیاہ دن۔

      ڈاکٹر طاہرالقادری نے عین یہی نقشہ بہت پہلے کھینچ کر دکھا دیا تھا ۔

     
  13. غوری
    Offline

    غوری ممبر

    میں اس لڑی سے استفادہ کرتے ہوئے یہ عرض کرنا چاہتا ہوں کہ ہم لوگ اپنے گرد و نواح میں صفائی ستھرائی کا اہتمام کریں اور جو لوگ ذمہ دار ہیں انھیں جھنجھوڑیئے اور اگر ممکن ہو ایک آدھ شیشےکی بوتل یا کوئی خطرناک شے جس سے انسانی جان کو خطرہ ہو یا قیمتی اشیاء کے خراب ہونے کا ڈر ہو جیسے کیل سے گاڑی و موٹر بائیک پنکچر ہوسکتے ہیں انھیں محفوظ جگہ تلف کریں۔ اور کوشش کریں ہمارے عزیز و اقارب کو بھی کوڑا کرکٹ سرعام شارع پر پھینکنے سے منع کریں اور خود بھی عمل کریں۔۔۔۔۔
    جزاک اللہ
     
    نعیم likes this.
  14. نعیم
    Offline

    نعیم مشیر

    ابھی کسی نیوز چینل پر دیکھا ہے کہ الیکشن کے دوران استعمال ہونے والے بیلٹ بکس مال مفت دلِ بے رحم سڑکوں پر پھینک دیے گئے ہیں۔
    یہ ایک طرف تو قومی خزانے سے کروڑوں روپے کا بےدریغ ضیاع ہے۔ کیونکہ یہی بکس اگلے کچھ دنوں تک ضمنی الیکشن میں یا کسی اور موقع پر استعمال کیے جاسکتے ہیں۔
    دوسری طرف ماحولیاتی آلودگی اور شہروں کی گندگی میں اضافے کا سبب بھی بن رہے ہیں۔
     
  15. نعیم
    Offline

    نعیم مشیر

    موجودہ کرپٹ نظام کے نتیجے میں ایک اور حقیقت سامنے آئی ہے۔ کہ عوام کو یہ باور کروا دیا جائے کہ ان مٹھی بھر جاگیرداروں، سرمایہ داروں ، کرپٹ قرضہ خوروں اور ٹیکس چوروں کو ہی حقِ حکمرانی ہے ۔
    اور ہم 18-19 کروڑ عوام کو اور ہماری آئندہ نسلوں کو انہی کی غلامی کا دم بھرنا ہے۔
    یہ خود کروڑوں اربوں روپے غبن کرکے اس میں ایک جنگلہ بس بنا کر واویلا کردیں تو ہم اسی پر مطمئن۔
    ہم ڈگری یافتہ ہو جائیں یا ہمارے بچے ڈگری یافتہ ہوجائیں تو ہم پھر سے نوکریاں لینے کے لیے انہی کے در پر بھکاری؟
    یہ وڈیرے بدقماش گاؤں ، دیہاتوں میں جب چاہیں ہماری ماوں بہنوں کی عزتوں سے کھیلتے رہیں اور ہم دم سادھے ان کے "طاقتور" ہونے کا رونا روتے رہیں؟
    کیا ہم واقعی اتنے بےوقوف ہیں کہ یہ سرمایہ دار، یہ زرداری، یہ تماشہ گر جب چاہیں ، چند تماشے کرکے ہمیں سبز باغ دکھا کر ہم سے ایک پرچی وصول کرکے جمہوریت کا ذپ ہمارے منہ پر لگا کر ہمارا منہ بند کردیا جائے۔ اور ہم 5 سال پھر سے انکی عیاشیوں اور اپنی محرومیوں کا تماشا دیکھ دیکھ کر جمہوریت کا جشن مناتے رہیں؟

    ہم یہ تسلیم کرنے پر کیوں تیار نہیں کہ الیکشن آئین کے مطابق نہیں ہوئے؟
    عدلیہ نے جعل سازوں، ٹیکس چوروں، قرضہ خوروں کو تحفظ دے کرایوان اقتدار میں پہنچایا۔
    سٹیٹ بنک نے قرضہ خوروں کی بروقت لسٹیں جاری نہ کرکے عوام کو بےوقوف بنایا۔
    الیکشن کمیشن نے آئیں کا مذاق اڑایا ۔۔ اور یہ سب جج تھے۔۔ یہ سب قانون دان تھے۔
    الیکشن کے دن ہر ممکن دھاندلی کی گئی ۔ جس کی تفصیلات منظر عام پر آبھی چکی اور کچھ آبھی رہی ہیں۔
    میڈیا کو خرید کر اس الیکشن کے جائز ہونے اور اس دھاندلی، دھونس اور کرپٹ افراد کے چناو ہی کو "جمہوریت" ثابت کیا گیا۔
    اے پاکستانیو ! یہ سب جمہوریت نہیں۔ یہ جمہوری تماشا ہے۔

    خدا کے لیے کم از کم حضرت اقبال رح کے پیغام کو تو سمجھیں۔
    ہے وہی سازِ کہن، مغرب کا جمہوری نظام
    جس کے پردوں میں نہیں غیرازنوائے قیصری
    دیو استبداد "جمہوری قبا " میں پائے کوب
    تو سمجھتا ہے یہ آزادی کی ہے کوئی نیلم پری
    گرمئی گفتارِ اعضائے مجالس ، الاماں !
    یہ بھی اک سرمایہ داروں کی ہے جنگِ زرگری
     
  16. نذر حافی
    Offline

    نذر حافی ممبر

    نعیم بھائی ہم تو اپنے شخصی فائدے کے علاوہ کچھ بھی تسلیم کرنے پرتیار نہیں ہیں ہمیں دوہرے معیار کی بیماری لگی ہوئی ہے۔آگے آگے دیکھئے ہوتاہے کیا۔۔۔؟
     
    نعیم and پاکستانی55 like this.
  17. غوری
    Offline

    غوری ممبر

    آپ لوگ یہ ویڈیو ملاحظہ کرلیں تو آپ کو الیکشن کی حقیقت کے بارے میں قدرے کچھ معلومات حاصل ہوجائیں:-

     
    نعیم and پاکستانی55 like this.
  18. غوری
    Offline

    غوری ممبر

    اس ویڈیو میں کھلے عام دھاندلی کی گئی ہے۔ اور یہ جانتے ہوئے کہ ویڈیو بن رہی ہے مگر کہتے ہیں پیچھے ہاتھ تگڑا ہوتو کوئی ڈر نہیں رہتا۔۔۔۔۔۔

    مگر اللہ تعالی نے ہر عمل کے لئے جزاء اور سزا مقرر فرما دی ہے۔۔۔۔۔۔

    ہر ایک کو اس کے کئے کا پھل مل کر رہے گا۔۔۔۔

    استغفراللہ۔۔۔
     
  19. پاکستانی55
    Offline

    پاکستانی55 ناظم Staff Member

    دھاندلی کر کے جیتے والے قوم کی کیا خدمت کریں گے؟؟؟
     
  20. نعیم
    Offline

    نعیم مشیر

    میری درخواست ہے کہ شخصیت کو ایک طرف رکھ کر ٹھنڈے دل سے اس تجزیے کو دیکھیں اور سنیں۔ کہ موجودہ نظام میں کیا خرابی ہے ؟ کہاں خرابی ہے؟ کیسی خرابی ہے ؟ اور کیوں یہ نظام ، چہرے، قیادتیں، پارٹیاں تبدیل ہونے کے باوجود ملک کی تقدیر بدلنے سے قاصر ہے۔ ذرا غور سے اس تجزیے کو سنئیے۔ شکریہ

     
  21. پاکستانی55
    Offline

    پاکستانی55 ناظم Staff Member

    ایک اور خبر میں نے پڑھی ہے کہ بعض حلقوں میں ووٹروں کی کل تعداد سے دگنے یا تین گنا ووٹ لے کر بھی کچھ لوگ جیتے ہیں
     
    نعیم likes this.
  22. نعیم
    Offline

    نعیم مشیر

    جی ہاں۔ بعض علاقوں میں نتیجہ 200 فیصد سے بھی زیادہ رہا ۔
     
    پاکستانی55 likes this.
  23. غوری
    Offline

    غوری ممبر

    محترم نعیم بھائی
    السلام علیکم
    میں نے ابھی آپ کی طرف سے پوسٹ کردہ ویڈیو سنی ہے۔
    اس میں تمام حقائق اپنی جگہ درست ہیں مگر روز روشن کی طرح واضح گورکھ دھندے کے بارے میں ہمارے راہنماوں کو ضرور علم ہوگا مگر ہم جیسے کڑوڑوں لوگ تو دو وقت کی روٹی کے مسئلے کو سلجھانے میں اس قدر تنگ آچکے ہیں کہ اپنی ذاتی صحت پر بھی مناسب توجہ نہیں دے پاتے تو پھر ایسی گہری باتیں کیسی سمجھ سکیں گے۔

    تاریخ میں تمام راہنماوں کو اس لئے یاد رکھا جاتا ہے کہ انھوں نے کسی بڑے مقصد کے لئے اپنی تمام توانائیاں صرف کیں اور حتی کہ اپنی زندگیاں تک بھی قربان کردیں تاکہ ان کے لوگ سکون میں آجائیں۔

    کیا ہمارے لیڈر یہ جذبہ رکھتے ہیں
    کیا ہمارے لیڈر ذاتی قربانی دیتے ہیں
    کیا ہمارے لیڈر ہمارے عام لوگوں میں سے ہیں
    کیا ہمارے لیڈروں کو عوام کی تکلیف کا اندازہ ہے

    جب تک ہماری اعلی قیادت اپنی ذات سے بالاتر ہوکر اخلاص کا مظاہرہ نہیں کریں گے اور اپنی ہم خیال جماعتوں سے اتحاد اور اتفاق نہیں کرپائیں گے نہ تو وہ خود اپنی جگہ بنا سکیں گے اور نا ہی اپنی آواز دور تک پہنچا سکیں گے۔ بلکہ ان کی کاوشیں صحرا میں گم گشتہ ہوجائیں گی۔

    ہمارے عوام بہت سوپر ہیں لیکن ابھی صحیح اور مجاہد و مومن راہنما اور عوام کا ٹاکرا نہیں ہوسکا۔
     
    نعیم likes this.
  24. نعیم
    Offline

    نعیم مشیر

    پاکستانی جمہوریت !!! اعداد و شمار کی روشنی میں ایک حیران کن جائزہ
    الیکشن 2013 میں پورز ملک میں رجسٹرڈ ووٹرز کی کل تعداد تقریبا 8 کروڑ اور چند لاکھ تھی
    الیکشن کمیشن کی رپورٹ کے مطابق الیکشن 2013 میں ڈالے گئے ووٹوں کا ٹرن آؤٹ 54 فیصد رہا۔ یعنی 4 کروڑ اور چند لاکھ ووٹ کاسٹ ہوئے۔
    مسلم لیگ ن جو الیکشن 2013 میں فاتح قرار پائی ہے اسے الیکشن کمیشن کے مطابق تقریبا 1 کروڑ اور 65 لاکھ ووٹ ملے۔
    کل رجسٹرڈ ووٹرز کی تعداد : تقریبا ساڑھے 8 کروڑ
    اس میں سے 46 فیصد یعنی تقریبا پونے 4 یا 4 کروڑ لوگوں نے اس نظام پر اعتماد ہی نہیں کیا۔ گویا اور اس گلے سڑے متعفن نظام سیاست سے ہی بیزار ہیں۔ انہوں نے مسلم لیگ ن سمیت ہر پارٹی کو ٹھکرا کر اس غیر منصفانہ نظام پر عدم اعتماد کا اظہار کیا۔
    باقی بچے تقریبا ساڑے 4 کروڑ ووٹرز۔ جن میں سے 1 کروڑ 65 لاکھ ووٹ مسلم لیگ ن کو ملے۔
    باقی 3کروڑ ووٹرز نے مسلم لیگ ن کو ٹھکرا کر باقی پارٹیوں کو ووٹ دیا۔
    یاد رہے کہ 4 کروڑ نے پہلے ہی اس نظام کو ووٹ نہیں دیا۔
    اب دیکھیے۔۔ ساڑھے 8 کروڑ ووٹرز میں سے صرف 1 کروڑ 60-65 لاکھ ووٹ حاصل کرنے والی جماعت یا لیڈر 18 کروڑ عوام پر حقِ حکمرانی حاصل کرکے انکی تقدیر کے فیصلے کرنے کے قابل ہوگیا۔
    یعنی 18 کروڑ عوام کے ایک ملک میں ایک لیڈر کو تقریبا ساڑھے 16کروڑ لوگ ناپسند کرتے ہیں۔ اور پھر بھی وہ سیاستدان تختِ حکمرانی پر بیٹھ جاتا ہے۔
    جمہوریت میں سبق تو یہ پڑھایا جاتا ہے کہ عوام کی اکثریت کی حکومت ہوگی ۔
    لیکن غور کریں تو پتہ چلتا ہے کہ یہ تو چند اقلیتی سرمایہ داروں و وڈیروں کا کھیل تماشہ اور کاروبار ہے۔
    یہ نہ جمہوریت ہے۔ نہ عوامی اکثریت ہے اور نہ ہی رائے عامہ کا اعتماد !!!

    مکر کی چالوں سے بازی لےگیا سرمایہ دار​
    انتہائے سادگی سے کھاگیا مزدور مات​

    دنیا میں جمہوریت کے اور بھی بہت سے نظام رائج ہیں۔
    جن میں متناسب نمائندگی کا نظام ہے۔
    سربراہ ریاست کے براہ راست عوامی ووٹوں سے انتخاب کا نظام موجود ہے۔
    فقط پارٹی لیڈر، پارٹی نظام کو براہ راست مینڈیٹ دینے کا نظام موجود ہے۔
    ہمارے ہاں پچھلے 60-65 سال اور بالخصوص پچھلے 40 سال سے رائج "حلقہ جاتی" نظام سیاست نے ہمیں تباہ وبرباد کرکے رکھ دیا ہے۔ ہر حلقے کے عوام اس حلقے کے دو چار امیر، جاگیردار، سرمایہ دار اور بدقماش و غنڈہ مزاج خاندانوں کے غلام بن جاتے ہیں۔
    پارٹی کوئی بھی آئے، لیڈر کوئی بھی آئے ، نعرے کیسے بھی آئیں، منشور کوئی بھی ہو۔
    یہی جیتنے والے گھوڑے۔ وننگ ہارسز کے خاندان والے ہی الیکشن لڑتے ہیں ۔ کسی نہ کسی پارٹی سے منتخب ہوتے ہیں۔ اور اسمبلی میں بیٹھ کر کرپشن کرتے اور عیاشیاں کرتے ہیں۔
    اس وقت ملک میں ایک آواز ڈاکٹر طاہرالقادری کی بلند ہورہی ہے جس کے مطابق عوام کو اپنے حقوق کی بازیابی اور حقیقی جمہوریت کے نفاذ کے لیے پہلے نظام کو بدلنا ہوگا۔
    حالیہ الیکشن کا تجربہ ایک بار پھر واضح کرگیا ہے کہ یہ انتخابی نظام انہی کرپٹ سرمایہ داروں کی ایک "جنگِ زرگری" کے سوا کچھ نہیں۔ یہ انتخابی نظام کبھی اس ملک کو تبدیلی نہیں دے سکتا۔
    ہمیں اس نظام کو بدلنے کے لیے عوامی قوت کے ساتھ اس کو مسترد کر کے نئے منصفانہ طرزِ جمہوریت کو اپنانا ہوگا۔

    "بشکریہ فیس بک پیج رضوان سیال"
     
  25. نعیم
    Offline

    نعیم مشیر

    ایسے سو انتخابات کرا لیں نتیجہ یہی نکلے گا۔ زیرو + زیرو= زیرو۔
    کہیے کہیے مجھے برا کہیے ۔۔۔ ایثار رانا


    آئینے کے سو ٹکڑے کر کے ہم نے دیکھے ہیں
    ایک میں بھی تنہا تھے سو میں بھی اکیلے ہیں​
    ایسے سو انتخابات کرا لیں نتیجہ یہی نکلے گا۔ زیرو + زیرو= زیرو۔جن انتخابات کی صحت پر اس ملک کاصدر شک کا اظہار کردے تو پھر باقی کیا بچتا ہے۔ انتخابات کے نام پر دھونس ، فراڈ ، جعل سازی ، غنڈہ گردی ، دولت کے انبار ، بیوروکریسی کا استعمال ہو تو پھر جمہوریت کس چڑیا بلکہ چیونٹی کا نام ہے۔ پاکستان کی جمہوریت ایک ایسی رضیہ ہے جو غنڈوں میں پھنس چکی ہے۔ یہ انتخابات جمہوریت ، سیاست ، قیادت سب فراڈ ہیں بس دھوکہ ہیں۔ جمہوریت کے نام پر طاقتوروں کے درمیان ملاکھڑاہے بس اور کچھ نہیں۔ اگر باجی مقصودہ اپنے بچے کے ہاتھوں میں پڑے چھالوں کو دیکھ کر رات بھر نہیں سوتی ، اگر رحمت بی بی کو انصاف نہیں ملتا، چھیمے کو زندہ رہنے کا جواز نہیں ملتا تو لعنت ہے ایسی جمہوریت پر ۔ ایسی جمہوریت کوحنوط کر کے مادام تساؤ کے میوزیم میں سجا دینا چاہئے۔ مجھے یقین ہے کہ پاکستان برانڈڈ جمہوریت سے وہاں کے تمام مومی مجسّمے بھی کرپٹ ہو جائیں گے۔ آپ مجھے برا کہہ لیں ، جمہوریت کا مخالف کہہ لیں، مجھے نظام کی خرابی کہہ لیں جو مرضی کہہ لیں
    ناروا کہیے برملا کہیے
    کہیے کہیے مجھے برا کہیے
    دل میں رکھنے کی بات ہے غم ِ دل
    اس کو ہر گز نہ برملا کہیے
    وہ مجھے قتل کر کے کہتے ہیں
    مانتا ہی نہیں تھا کیا کہیے
    آ گئی آپ کو مسیحائی
    مارنے والوں کو مرحبا کہیے​
    لیکن مجھے صرف اس بات کا جواب دے دیں کہ اگر پورے ملک میں لاشیں گرنے کا نام جمہوریت ہے، غریب آدمی کے سسکنے کا نام جمہوریت ہے ، لاکھوں لوگوں کو ایک وقت کی روٹی میسر نہ ہونے کا نام جمہوریت ہے، سرکاری ہسپتالوں میں علاج کے نام پر ٹارچر کا نام جمہوریت ہے، عوام کے ٹکڑوں پر پلنے والی بیوروکریسی کا نام جمہوریت ہے، اپنی مرضی کے تھانیداروں کو تھانے دلانے کے بعد بدمعاشی کا نام جمہوریت ہے، بڑے بڑے قرضے لے کر ہڑپ کر جانے کا نام جمہوریت ہے اور کروڑوں بھوکے ننگوں کی لیڈرشپ اربوں کھربوں بلکہ پدم پتیوں کے ہاتھوں میں ہونے کا نام جمہوریت ہے تو پھر اس جمہوریت کا فائدہ؟

    بشکریہ روزنامہ جنگ ادارتی صفحہ ۔
    تبصرہ :
    بات دراصل یہ ہے کہ ہم نے کرپٹ اشرافیہ اور چور لٹیروں کے بنائے ہوئے اس ظالمانہ و غاصبانہ نظام کو جمہوریت سمجھ لیا ہے۔
    اصل جمہوریت کی روح سے ناواقفیت کی بنا پر ہم ان چور لٹیروں کو مسترد کرنے کی بجائے "نظام جمہوریت" کو ہی گالی دینا شروع ہوگئے ہیں۔
    ہمیں ان چوروں ، لٹیروں، رسہ گیروں ، قاتلوں ، دہشت گردوں کے سرپرستوں اور بدعنوانوں کے خلاف متحد ہوکر جنگ لڑنا ہوگی تاکہ انکو ایوانانِ اقتدار سے دور رکھ کر اصل اسلامی و جمہوری نظام کو ملک میں نافذ کیا جاسکے۔
    اسکے لیے ایک پرامن انقلاب کی ضرورت ہے۔
    ڈاکٹر طاہرالقادری واحد رہنما ہے جو ملک و قوم کی صحیح سمت میں رہنمائی کرتے ہوئے عوام کو اس "ظالمانہ و غاصبانہ نظام " سے بغاوت کے لیے کھڑا ہونے کی دعوت دے رہا ہے۔
     
    ھارون رشید likes this.
  26. ھارون رشید
    Offline

    ھارون رشید برادر Staff Member

    باتیں بلکل ٍ ٹھیک ہیں مگر دیکھیں پتھروں سے کب دودھ کہ نہر نکلتی ہے
     
    نعیم likes this.
  27. محبوب خان
    Offline

    محبوب خان ناظم Staff Member

    لیکن پاکستان بدل رہا ہے۔

    ضمنی انتخابات کے موضوع پر نہایت ہی اہم کالم:

    [​IMG]

    بشکریہ روزنامہ جنگ
     
  28. غوری
    Offline

    غوری ممبر

    شکریہ!
    بے شک اس ملک میں چند ایک غدار ہوں گے مگر لاکھوں ابھی بھی جاں نثار موجو د ہیں۔۔۔۔۔
    جہاں سر پہ کفن رکھ کر جینے والے بستے ہوں ان سے نبٹنا آسان نہیں۔
    پاکستان زندہ باد
    ہمیشہ جیئے پاکستان تاقیامت جئے پاکستان۔۔۔
     
    نعیم and محبوب خان like this.
  29. آصف احمد بھٹی
    Offline

    آصف احمد بھٹی ناظم خاص Staff Member

  30. غوری
    Offline

    غوری ممبر

    ہمارے ملک کو درپیش مسائل کی طویل فہرست ہے
    مگر یہ خرافات بیرونی مداخلت کے بغیر نہ تو سرایت کرسکتی تھیں اور نہ ہی برقرار رہ سکتی تھیں۔
    ایسے میں جب ہم سب ہی اس ظلم کا شکار ہیں کیا یہ زیب دیتا ہے کہ اہل سخن ہمارے زخموں پہ مرہم لگانے کی بجائے، ان پہ نمک پاشی کا فریضہ انجام دیں۔
    میری ذاتی کوئی حیثیت نہیں مگر میں ہمیشہ اپنے وطن پہ فخر کرتا ہوں اور سبھوں کو پرامید رہنے کی امید افزا گفتگو کرتا ہوں۔
    ہم بے مثال قوم ہیں اور اس کرب سے ضرور باہر نکلیں گے ا ور دنیا کے سامنے کامیاب ہوکر دکھائیں گے۔۔۔
    ابھی سحر قریب ہے عزیزان وطن

    ہم ہوں گے کامیا ب ایک دن۔۔۔۔۔۔

    غوری
     
    نعیم and محبوب خان like this.

Share This Page