1. اس فورم پر جواب بھیجنے کے لیے آپ کا صارف بننا ضروری ہے۔ اگر آپ ہماری اردو کے صارف ہیں تو لاگ ان کریں۔

ہمارے دانش مند۔۔۔ مزے کی باتیں

'آپ کے مضامین' میں موضوعات آغاز کردہ از نوائے ملت, ‏15 اگست 2016۔

  1. نوائے ملت
    آف لائن

    نوائے ملت ممبر

    شمولیت:
    ‏17 اپریل 2014
    پیغامات:
    59
    موصول پسندیدگیاں:
    56
    ملک کا جھنڈا:
    بسم اللہ الرحمٰن الرّحیم
    ہمارے دانش مند۔۔۔مزے کی باتیں

    نذر حافی
    نوٹ:۔ یہ تحریر کافی عرصہ پہلے میں نے لکھی تھی،اس مرتبہ یومِ آزادی کے موقع پر کچھ اضافہ کرکے احباب کی خدمت میں دوبارہ پیش کررہاہوں
    ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

    دانش مندی کی دو قسمیں ہیں، مسائل حل کرنا اور مسائل پیدا کرنا۔آپ کو یہ جان کر تعجب نہیں ہونا چاہیے کہ پوری دنیا میں دانشمند اقلیت میں پائے جاتے ہیں جبکہ ہمارے ہاں اکثریت میں دستیاب ہیں۔مزے کی بات تو یہ ہے کہ پوری دنیا کے دانشمند ہمارے ہاں کے دانشمندوں کی محنت کی کمائی کھاتے ہیں۔چونکہ دیگر دنیا کے دانشمند مسائل حل کرتے ہیں جبکہ ہمارے ہاں کے دانشمند مسائل پیدا کرتے ہیں۔

    اگر ہمارے ہاں کے دانشمند اپنا کام چھوڑ دیں تو دیگر ممالک کے دانشمندوں کو بھی بے روزگاری کا سامنا کرنا پڑ جائے گا۔چونکہ اگر مسائل پیدا نہیں ہونگے تو وہ حل کیا کریں گے۔


    ہمارے ہاں کچھ دانشمند ایسے بھی ہیں جن کے نزدیک روز مرّہ کے مسائل کے بارے میں بالکل نہیں لکھنا چاہیے اُن کی دانش کے مطابق لکھنے لکھانے سے مسائل حل نہیں ہوتے بلکہ بڑھتے ہیں ،نفرتیں پیدا ہوتی ہیں،دوریاں جنم لیتی ہیں اور غیبت وحسد کے دروازے کھل جاتے ہیں۔لہذا وہ ہمیں اکثر مسائل کا حل خاموشی اختیار کرنے ،منّت سماجت سے کام نکالنے اور حسبِ استطاعت کچھ لے دے کرمعاملہ نمٹانے میں بتاتے ہیں۔

    اس کے علاوہ ہمارے ہاں کے دانشمندوں کی ایک اور قسم بھی ہے ،یہ ایسے مہادانشمند ہیں کہ جو اصلاً دو جملے بھی نہیں لکھ سکتے،یا پھر خیر سے ایک جملہ بھی ٹھیک سے نہیں لکھ پاتے،البتہ اپنی باتوں سے یہ عالمِ امکان کو زیروزبر کرنے کے ماہر ہوتے ہیں۔یہ ہر جگہ اپنے آپ کو ہرفن مولا ثابت کرتے ہیں۔آپ دنیا کا کوئی مسئلہ ان کے سامنے پیش کریں یہ اس میں اپناسنہری تجربہ آپ کے سامنے رکھ دیں گے۔آپ خطابت کی بات کریں یہ اس میں مشورہ دیں گے ،آپ صوت و لحن کی بات کریں یہ اس میں اپنی ماہرانہ رائے سے نوازیں گے،آپ عالمی اقتصاد کے مسائل چھیڑیں یہ ان مسائل کی گتھیاں سلجھانے لگیں گے،آپ ۔۔۔

    اپنے اندر کے احساسِ کمتری کو چھپانے کے لئے ان کے پاس چند رٹے رٹائے جملے بھی ہوتے ہیں،مثلاً ہم تو تنظیمی ہیں،ہم تو انقلابی ہیں،ہم تو اتنا تجربہ رکھتے ہیں،ہم تو۔۔۔وغیرہ وغیرہ

    سونے پر سہاگہ تو یہ ہے کہ ایسے دانشمند فیڈبیک کے بنیادی اصولوں سے بھی آگاہ نہیں ہوتے اور اگر کہیں پر اپنے کمنٹس کے ذریعے تیر مارنا بھی چاہیں تو سیدھا وہاں مارتے ہیں جہاں نہیں مارنا ہوتا۔

    مثلاً اگر کوئی آدمی فوری طور پر کہیں سے رپورٹنگ کرے یا کوئی خبر نقل کرےکہ فلاں جگہ فلاں حادثے میں اتنے لوگ ہلاک ہوگئے ہیں تو ایسے دانشمند فوراً کمنٹس میں لکھیں گے کہ” ہلاک نہیں شہید ہوئے “اس کے بعد یہ بحث کو کھینچ کر ہلاک اور شہید میں الجھا دیں گے اور اصل مسئلہ ان کی قیل و قال میں ہی دفن ہوجائے گا۔

    علاوہ ازیں ہمارے ہاں اس طرح کے دانشمند بھی بکثرت پائے جاتے ہیں جو سارے مسائل کو لغت اور اصطلاح کی روشنی میں کُلی طور پرحل کرنا چاہتے ہیں۔مثلاًاگر کہیں پر شراب کی خرید و فروخت کا دھندہ ہورہاہو اور آپ اس کے خلاف آواز اٹھائیں یا کوئی میدانی تحقیق کریں تو فوراً یہ دانشمند ناراض ہوجاتے ہیں۔ان کے نزدیک شراب فروشی اور شراب خوری کا علاج یہ ہے کہ آپ زمینی تحقیق کرنے کے بجائے شراب پر ایک علمی مقالہ اس طرح سے لکھیں :۔

    شراب در لغت۔۔۔۔ شراب در اصطلاح۔۔۔۔شراب کا تاریخچہ۔۔۔۔ شراب کے طبّی فوائد و نقصانات ۔۔۔دینِ اسلام میں شراب کی حرمت۔۔۔۔شرابی کے لئے دنیا و آخرت کی سزائیں۔۔۔اور آخر میں حوالہ جات

    آپ انہیں لاکھ سمجھائیں کہ قبلہ میڈیا میں میڈیم کے بغیر لکھا ہوا ایسے ہی ہے جیسے آپ نےکچھ لکھا ہی نہیں لیکن وہ اپنی ہی بات پر ڈٹے رہیں گے۔

    اس کے علاوہ بھی ہمارے ہاں دانشمندوں کی ایک بہت ہی نایاب قسم بھی پائی جاتی ہے۔یہ تعداد میں جتنے کم ہیں معاملات کو بگاڑنے میں اتنے ہی ماہر ہیں۔یہ ایک چھوٹے سے مسئلے کو پہلے بڑھا چڑھا کر بہت بڑا بناتے ہیں اور پھر آخر میں اس کا حل ایک چھوٹی سی مذمت کی صورت میں پیش کرتے ہیں۔

    مثلاً اگر اسلام آباد میں کہیں پر خود کش دھماکہ ہوجائے اور آپ علاقے کو فوکس کرکے وہاں کے سیاستدانوں،بیوروکریسی,مقامی مشکوک افراد اور دیگر متعلقہ لوگوں اور اداروں کے بارے میں زبان کھولیں تو ہمارے ہاں کے یہ نایاب دانشمند فوراً ناراض ہوکر میدان میں کود پڑتے ہیں۔

    اس وقت ان کے بیانات کچھ اس طرح کے ہوتے ہیں:

    خود کش دھماکے کہاں نہیں ہورہے،پاکستان ،عراق،شام ،افغانستان وغیرہ وغیرہ ۔یہ ایک عالمی مسئلہ ہے اور ان دھماکوں میں مارے جانے والے لوگوں کی اپنی غفلت کا بھی بہت عمل دخل ہے۔لوگ خود بھی اپنے ارد گرد کھڑی گاڑیوں ،موٹر سائیکلوں اور مشکوک افراد پر نگاہ نہیں رکھتے،ہم عوام کی غفلت کی مذمّت کرتے ہیں۔

    یہ پہلے چھوٹی سی بات کو گھمبیربناتے ہیں،ایک سادہ سے مسئلے کو پیچیدہ کرتے ہیں،کسی بھی مقامی ایشو کے ڈانڈے بین الاقوامی مسائل سے جوڑتے ہیں اور آخر میں ایک سطر کا مذمتی بیان دے کر یا لکھ کر بھاگ جاتے ہیں۔

    میں ان کی ایک مثال اور دینا چاہوں گا کہ مثلاً آپ انہیں کہیں کہ پاکستان کے فلاں علاقے میں ایک مافیا رشوت کا بازار گرم کئے ہوئے ہے۔یعنی فلاں جگہ پر مافیا انسانوں کا خون پی رہاہے۔

    اس کے بعد ہمارے ہاں کے ” نایاب دانشمند “کچھ اس طرح سے قلمطراز ہونگے کہ دنیا میں جب تک پینے کا صاف پانی میسر نہیں ہوتا اس وقت تک لوگ ایک دوسرے کا خون پینے پر مجبور ہیں۔یہی صورتحال پاکستان سمیت متعدد ترقی پذیر ممالک میں ہے ۔ دنیا میں جہاں جہاں پینے کا صاف پانی میسّر نہیں ہم وہاں کے محکمہ واٹر سپلائی کی مذمت کرتے ہیں۔

    اب آئیے دانشمندوں کی ایک اور جماعت کا حال بھی جانئے۔یہ دانشمند تبلیغی جماعت والوں کی طرح ہر وقت بوریا بستر باندھ کر دوسروں کی اصلاح کے پیچھے پڑے رہتے ہیں۔فلاں نے یہ کہا،فلاں نے یوں کردیا،ان کے پاس مختلف علاقوں کی اہم شخصیات اور اداروں کے نقائص اور عیوب کا مکمل انسائیکلو پیڈیا ہوتا ہے۔



    المختصر انہیں یہ تو پتہ ہوتا ہے کہ فلاں روز فلاں مقام پر فلاں شخص شرم سے آب آب ہوگیا لیکن انہیں اپنی کچھ بھی خبر نہیں ہوتی کہ ہم کتنے پانی میں ہیں!

    یاد رہے کہ مذکورہ اقسام کے علاوہ بھی ہمارے ہاں دانشمندوں کی چند ایسی اقسام پائی جاتی ہیں جو شاید دنیا کے کسی دوسرے خطے میں نہ پائی جاتی ہوں۔ان میں سے ایک ایسی قسم بھی ہے کہ اس کے ہوتے ہوئے آپ کوئی مسئلہ بیان ہی نہیں کر سکتے۔

    مثلا اگر آپ یہ کہیں کہ فلاں جگہ پر پولیس والے ناکہ لگاکر رشوت لیتے ہیں تو یہ فورا بولیں گے کہ اجی! ابھی ہم کل ہی تو آئے ہیں ،ہم سے تو کسی نے نہیں لی۔آپ انہیں لاکھ سمجھائیں کہ دانشمند صاحب آپ سے تو نہیں لی ،اس لئے آپ کا تو مسئلہ ہی نہیں ،آپ کیوں بول رہے ہیں،جن سے رشوت لی گئی ہے انہیں بولنے دیں ،ان کا مسئلہ ہے ۔لیکن یہ مجال ہے کہ خاموش ہوجائیں ۔۔۔

    ان کی مثال بالکل ایسے ہی ہے جیسے دو آدمی جوتا خریدنے اکٹھے دکان پر جائیں اور دونوں باری باری جوتے کو پہن کر چیک کریں۔

    ان میں سے ایک کہے کہ یہ جوتا میرے پاوں میں پورا نہیں ہے جبکہ دوسرا چیخنے لگ جائے کہ میں نے ابھی پہن کر دیکھا ہے کہ پورا ہے۔

    اب چیخنے والے کو کون سمجھائے کہ تم کیوں چیخ رہے ہو ،جس کو پورا نہیں ہے اسے بولنے دو اس کا مسئلہ ہے۔

    اسی طرح ہمارے ہاں ایک حلقے کے نزدیک صرف تنقید کرنے اور بہ اصطلاح دیگر کیڑے نکالنے کو بھی دانشمندی ہی سمجھا جاتا ہے۔

    اس حلقے میں ایسے افراد حلقہ بنائے بیٹھے رہتے ہیں جو خود تو عملا کچھ نہیں کرتے بلکہ دوسروں کے کاموں میں فقط خامیاں ڈھونڈتےرہتے ہیں۔

    ان کے بقول انہوں نے یہ مشن ،تنقید برائے تعمیر کے فارمولے کو باقی رکھنے کے لئے اپنایا ہوا ہے۔

    حد تو یہ ہے کہ پاکستان کے یومِ آزادی کے روز بھی کہ جب ملت پاکستان، جشنِ آزادی کے کیک کاٹ رہی ہوتی ہے ،چاند میری زمین پھول میراوطن اور اس پرچم کے سائے تلے ہم ایک ہیں جیسے ترانوں سے خوشی کا اظہار کررہی ہوتی ہے ،پورے ملک میں ملکی سلامتی اور ترقی کے لئے دعائیں کی جارہی ہوتی ہیں اورنئی نسل کے سامنے تاریخ پاکستان کو بیان کیا جارہاہوتا ہے ۔۔۔

    اس وقت بھی یہ دانشمند ملی دھارے سے الگ ہوکر حالات کا ماتم کررہے ہوتے ہیں اور مسلسل آنسو بہاتے رہتے ہیں کہ اقبال تیرے دیس کا میں کیاحال سناوں۔۔۔یہ اس کا پاکستان ہے جو صدر پاکستان ہے۔۔۔

    پاکستان کی نظریاتی تاریخ سے ان بے خبر دانشمندوں کو پاکستان کی ستر سالہ تاریخ میں کوئی مثبت پہلو،تعمیروترقی اور پیشرفت نظر نہیں آتی ۔ایسے دانشمندوں کے بارے میں پہلے ہی کسی دانشمند نے کہا تھا کہ

    جس کا بس چلتا نہیں جورو پہ آج کل

    باہر آکر کوستا ہے پہلے پاکستان کو

    اب کچھ ایسے دانشمندوں کا ذکر بھی ضروری ہے کہ جو پاکستان میں تعلیمی انقلاب لانا چاہتے ہیں۔ان کا ہم و غم بہت سارے سکول اور یونیورسٹیاں کھولنے کا ہوتا ہے،نظامِ تعلیم میں تبدیلی تو اِن کے ایمان کا حصہ ہے۔

    البتہ ان میں سے بہت سارے ایسے بھی ہیں جو میٹرک پاس بھی نہیں ہیں اور بعض نے بمشکل پرائیویٹ طریقے سے ایف اے ،بی اے کیا ہوتا ہے اور جنہوں نے کسی ادارے سے باقاعدہ تعلیم حاصل کی بھی ہوتی ہے ان کا موضوع بھی خود تعلیم نہیں ہوتا۔

    ایسے دانشمند آج کل ہمارے ہاں بڑی دیدہ دلیری سے تعلیم کے نام پر چندے اکٹھے کرتے ہیں اور ملک و ملت میں تعلیمی انقلاب کے لئے مصروف ہیں۔

    یعنی ہے ناں مزے کی بات کہ ایک شخص یا تو میٹرک فیل ہے ،یا پرائیویٹ کچھ پڑھا ہے اور یا پھر ایم بی بی ایس یا ایل ایل بی وغیرہ ہے اور وہ نظام تعلیم میں تبدیلی کی بات کرتاہے۔

    قارئینِ کرام ! اپنے ہاں پائے جانے والے دانشمندوں کے بیانات،تقاریر،کمنٹس ،نگارشات اور تحقیقات کا جائزہ لیں اور پھر خوب ہنسیں،اس لئے کہ کہتے ہیں کہ ایک شخص اخبار پڑھتے ہوئے زور زور سے ہنس بھی رہا تھا،کسی نے پوچھا کہ بھائی کیا کوئی خاص خبر ہے،کیوں ہنس رہے ہو ،اس نے کہا کہ میں اس لئے ہنس رہاہوں کہ اس میں لکھا ہے کہ ہنسنے سے خون پیدا ہوتا ہے۔

    اپنے دانشمندوں کی دانش مندی پر آپ بھی ہنسیے اور خون پیدا کیجئے۔

     

اس صفحے کو مشتہر کریں