1. اس فورم پر جواب بھیجنے کے لیے آپ کا صارف بننا ضروری ہے۔ اگر آپ ہماری اردو کے صارف ہیں تو لاگ ان کریں۔

کیا وزیراعظم تنہا ہوتے جا رہے ہیں؟ .... کنور دلشاد

'کالم اور تبصرے' میں موضوعات آغاز کردہ از intelligent086, ‏8 اگست 2020۔

  1. intelligent086
    آف لائن

    intelligent086 ممبر

    شمولیت:
    ‏28 اپریل 2013
    پیغامات:
    7,273
    موصول پسندیدگیاں:
    797
    ملک کا جھنڈا:
    کیا وزیراعظم تنہا ہوتے جا رہے ہیں؟ .... کنور دلشاد

    حالات کی تغیر پذیری میں تیزی آ چکی ہے اور بدقسمتی سے پاکستان کے لیے ایک آزاد اور فلاحی ریاست کے تصور کے مطابق فیصلہ کرنے کی پوزیشن بہتر ہونے کی بجائے خراب تر ہوتی جا رہی ہے کیونکہ پاکستان عالمی مالیاتی اداروں کا مز ید مقروض ہو رہا ہے اور اپنے سیاسی و معاشی معاملات پر بھی اسے کمپرومائز کرنا پڑ رہے ہیں۔ علاوہ ازیں معیشت بحران کا شکار ہے اور حکومت ایک لحاظ سے ملکی و غیر ملکی ماہرین کے ہاتھوں یرغمال بنی محسوس ہوتی ہے۔فنانشل ایکشن ٹاسک فورس کی شرائط پوری کرنے کے لیے انسدادِ دہشتگردی ایکٹ‘ اینٹی منی لانڈرنگ کے قانون اور سنگل ٹریژری بینک اکاؤنٹ کے قواعد میں تبدیلی کی منظوری دی جا چکی ہے۔ بین السطور میں اس کا مطلب یہ ہے کہ پاکستان میں انفرادی اور دیگر حقوق کے ساتھ ساتھ کاروباری اور دیگر آزادیوں میں مزید کمی ہو گی اور پاکستان ایک جمہوری کے بجائے مزید سکیورٹی ریاست میں تبدیل ہو سکتا ہے۔ اگرچہ سی پیک کا معاملہ ٹھیک طریقے سے آگے بڑھ رہا ہے‘ لیکن افغانستان میں مقیم چھ ہزار سے زائد دہشت گردمسلسل بلوچستان کے حساس علاقوں میں حملے کر رہے ہیں اور اقوام متحدہ کی رپورٹ میں واضح طور پر ان کی نشاندہی بھی کردی گئی ہے۔
    دوسری جانب امریکہ اور اس کے اتحادیوں کو اس بات کا احساس ہے کہ س بار سرد جنگ پہلے والی سرد جنگ سے مختلف ہے۔ بین الاقوامی سطح پر حالات و واقعات کا مقابلہ کرنے کے لیے ہر دور میں تین عوامل بہت اہمیت کے حامل رہے ہیں: معیشت‘ ٹیکنالوجی اور سیاسی استحکام۔ چین میں یہ تینوں عوامل بہت مضبوط ہیں۔ روس کے مقابلے میں چین کی معیشت بہت مستحکم ہے ‘اسی لیے امریکہ اور مغربی ممالک پر لرزہ طاری ہے۔ سیاسی استحکام کے حوالے سے بھی چین بہتر پوزیشن میں ہے۔ اس کے بر عکس پاکستان کی معیشت ڈانواں ڈول ہے۔ ایسی صورت حال میں دوست ممالک اپنی رقوم کی واپسی کا مطالبہ کر دیں تو سوال یہ ہے کہ پاکستان کی معیشت کہاں کھڑی ہوگی جبکہ پاکستان کے معاشی ماہرین کے تانے بانے غیرملکی اداروں سے ملتے ہیں اور دہری شہریت کے حامل ہونے کی وجہ سے ان کا پاکستان کے مفاد سے کوئی تعلق نہیں ہے؟ان کی حیثیت کرائے کے ماہرین کی ہے۔یہی وجہ ہے کہ چین پاکستان کے سیاسی حالات کا گہری نظر سے مطالعہ و تجزیہ کر رہا ہے۔ کہا جاتا ہے کہ چینی سفارت کاروں کا پاکستان کے ہر ادارے کے کلیدی حیثیت کے حامل اہلکاروں سے روابط ہیں اور میڈیا میں بھی ان کااثر و رسوخ گہرا ہو چکا ہے۔
    جمہوری ملکوں میں امورِ مملکت چلانے میں پارلیمنٹ کا ادارہ کلیدی حیثیت کا حامل ہوتا ہے۔ عوام کے ووٹوں سے منتخب ہو کراقتدار کے ایوانوں میں آنے والی سیاسی جماعتوں کے ارکان مل بیٹھ کر ملک کے وسیع تر مفاد میں بنیادی پالیسیاں مرتب کرتے اور قوانین بناتے ہیں۔ آئین کی تشکیل اور اس میں حسبِ ضرورت ترامیم بھی پارلیمنٹ ہی کا کام ہے۔ اسی بنیاد پر اس کی سپریم حیثیت ہے‘ لیکن اس بات پر افسوس ہی کیا جا سکتا ہے کہ جب بھی الیکشن میں کوئی سیاسی جماعت اپنی حکومت بنانے کا مینڈیٹ حاصل کرنے میں ناکام ہوئی اس کا اثر قانون سازی پر پڑا کیونکہ برسرِ اقتدار آنے والی اور اپوزیشن جماعتیں اپنے اپنے مفاد کے حصار سے باہر نکلنے پر کبھی آمادہ نہ ہوسکیں۔ اس کی واضح مثال مولانا فضل الرحمن کے بھائی ضیاالرحمن کو کراچی میں ضلع وسطی کا ڈپٹی کمشنر تعینات کیا جانا تھا‘ جو سیاسی حلیف نوازی کی مثال کے ساتھ ساتھ آئین کے آرٹیکل 1 (1) ‘ 97 ‘127‘ 129‘ 137‘ 139 اور 240 کی بھی خلاف ورزی ہے۔ یہ اقدام سول سروسز ایکٹ 973 1 کی دفعہ 10 (a) کی روح کے بھی خلاف ہے۔
    ان سارے عوامل کو پیشِ نظر رکھ کر جاری معاملات کا جائزہ لیا جائے تو محسوس ہوتا ہے کہ حکومت غیر مقبول ہو تی جارہی ہے ۔عمران خان صاحب کی حکومت بنیادی اصلاحات لانے میں ناکام نظر آتی ہے اور بظاہر ملک کی بیوروکریسی اس کے ہاتھ سے نکل چکی ہے۔ انتظامی اصلاحات کے نام پر ہزاروں اہلکاروں کو قبل از وقت ریٹائر کرنے کی جو پالیسی بن رہی ہے‘اس پر عمل درآمد کے نتیجے میں انتظامی معاملات کے مزید خراب ہو جانے کے اندیشے کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔ ماضی میں جھانکا جائے تو معلوم ہو گا کہ اسی وجہ سے وزیر اعظم بھٹو اقتدار سے محروم ہوئے تھے اور مارشل لا حکام نے بیوروکریٹس ہی کو وعدہ معاف گواہ بنا لیا تھا‘ جن میں کیبنٹ سیکرٹری وقار احمد نمایاں تھے۔ وزیر اعظم بھٹو کے دستِ راست یہ بیوروکریٹ خوف کی علامت سمجھے جاتے تھے ۔ پھر انہوں نے ہی مسٹر بھٹو کے خلاف وعدہ معاف گواہ بنتے ہوئے اپنے ہاتھ سے سو سے زائد صفحات پر مشتمل بھٹو کے سیاہ کارناموں پر مشتمل دستاویزات پیش کی تھیں‘ جن میں مارچ 1977ء کے الیکشن کی دھاندلی کا روڈ میپ بھی شامل تھا۔ بہرحال تحریک انصاف کی حکومت کو احساس ہے کہ عوام اس سے مایوس ہوتے جا رہے ہیں۔ علاوہ ازیں شنید ہے کہ پنجاب کے ارکانِ صوبائی و قومی اسمبلی کا زیرزمین ایک مضبوط گروپ بن چکا ہے‘ جس میں فیصل آباد‘ سرگودھا ‘ وہاڑی اور ڈیرہ غازی خان کے ارکانِ اسمبلی شامل ہیں۔ اسی طرح جنوبی پنجاب کا ایک بڑا مضبوط گروپ جہانگیر ترین کے زیر اثر ہے۔ مستقبل کی صف بندی میں پنجاب اور بلوچستان میں اہم تبدیلیوں کی جھلک نظر آرہی ہے‘ جن کے تحت پیپلز پارٹی‘ مسلم لیگ (ن)‘ جمعیت علمائے اسلام ‘ مسلم لیگ (ق) اور بلوچستان نیشنل پارٹی مینگل حکومت کے خلاف محاذ بنانے کی کوشش کر سکتی ہیں۔ ان حالات میں وزیراعظم عمران خان کو چاہئے کہ قومی احتساب بیورو کے اختیارات پر قدغن لگانے کے بجائے اپنے اقتدار کو مضبوط اور مستحکم کرنے پر توجہ دیں اور دہری شہریت کے حامل معاونینِ خصوصی کو فارغ کر کے کابینہ میں اہم تبدیلی لا ئیں‘ کیونکہ جب سیلاب کناروں سے باہر نکل آئے گا تو یہ اپنے مختصر سامان کے ساتھ خاموشی سے نکل جائیں گے کیونکہ یہ لوگ عوام کو جواب دہ نہیں ہیں‘ لیکن حکومت جواب دہ ہے۔
    یہ بھی سننے میں آیا ہے کہ وزیراعظم پنجاب میں چودھری سرور گروپ‘ علیم خان گروپ اور عثمان بزدار کے گروپ سے سخت پریشان ہیں جبکہ کہا جاتا ہے کہ شاہ محمود قریشی کا بھی قومی اسمبلی میں ایک مختصرگروپ ہے۔ ان حالات میں لگتا ہے کہ وزیراعظم تنہا ہوتے جا رہے ہیں۔ پارلیمانی پارٹیوں کی عددی کیفیت کی وجہ سے بعض امور میں اختیار کیے گئے رویوں کے باعث حکومت کو کئی قوانین کو پارلیمان سے منظور کرانے میں دشواریوں کا سامنا ہے۔ فنانشل ایکشن ٹاسک فورس سے تعلق رکھنے والے قوانین اور احتساب قوانین پر اپوزیشن اور حکومت کے اپنے اپنے مؤقف پر سختی سے قائم رہنے کے باعث بعض مسائل کا سامنا کرنا پڑا لیکن اب اپوزیشن نے اندرونی خفیہ مفاہمت کے تحت قومی مفاد میں درست فیصلہ کرتے ہوئے قانون سازی میں حائل تمام دشواریوں کو نظر انداز کر دیا ہے۔
    اب کچھ بات ملک کی اقتصادی شہ رگ کراچی کی ہو جائے‘ جس کے متعدد علاقے بارش کے نتیجے میں جس طرح ڈوب جاتے ہیں‘ اس سے نکاسیٔ آب کے نظام کو فعال رکھنے میں بلدیاتی اداروں اورصوبائی حکومت کے متعلقہ محکموں کی ناکامی واضح ہوگئی ہے۔ حالیہ دنوں وزیراعظم کی ہدایت پر ایف ڈبلیو او اور این ڈی ایم اے کراچی شہر کو مشکل سے نکالنے کے لیے سرگرم ہیں‘لیکن اس سے لگ رہا ہے کہ سندھ حکومت اپنے فرائض کی ادائیگی میں ناکام رہی ہے اور قومی سلامتی کی حفاظت پر مامور ادارے کو نالوں کی صفائی کے لیے بلانا پڑا ہے ۔وفاقی وزیر اطلاعات شبلی فراز نے سندھ حکومت کو وارننگ دی ہے کہ وہ اپنے حالات کو بہتر بنائیں ورنہ آئین کے آرٹیکل 149 کے تحت سندھ میں گورنر راج نا گزیر ہو جائے گا۔​
     

اس صفحے کو مشتہر کریں