1. اس فورم پر جواب بھیجنے کے لیے آپ کا صارف بننا ضروری ہے۔ اگر آپ ہماری اردو کے صارف ہیں تو لاگ ان کریں۔

کیا زیادہ بچے پیدا کرنا ثواب کا کام ہے ؟؟؟

'تاریخِ اسلام : ماضی ، حال اور مستقبل' میں موضوعات آغاز کردہ از نعیم, ‏21 جون 2007۔

  1. کنعان
    آف لائن

    کنعان ممبر

    شمولیت:
    ‏25 جولائی 2009
    پیغامات:
    729
    موصول پسندیدگیاں:
    977
    ملک کا جھنڈا:
    السلام علیکم

    ماشا اللہ،

    صدقہ جاریہ پر پردہ رکھنا ہی ضروری ہوتا ھے اس کا تو کوئی ذکر نہیں کیا جا سکتا، بڑا بیٹا کمپیوٹر سائنس گریڈ اے پلس، فائنل ایئر ھے جو جون میں مکمل ہو گا اور پھر ستمبر سے ایک سال آگے پوسٹ گریجوئیٹ اس کے بعد اس کے بچے کھلائیں گے۔ میرے بارے میں اگر جاننا ہو تو یہاں سے مطالعہ کر سکتے ہیں۔

    والسلام
     
    نعیم اور غوری .نے اسے پسند کیا ہے۔
  2. غوری
    آف لائن

    غوری ممبر

    شمولیت:
    ‏18 جنوری 2012
    پیغامات:
    38,539
    موصول پسندیدگیاں:
    11,602
    ملک کا جھنڈا:
    تفصیلی تعارف کا شکریہ!
     
    کنعان نے اسے پسند کیا ہے۔
  3. سرحدی
    آف لائن

    سرحدی ممبر

    شمولیت:
    ‏14 دسمبر 2012
    پیغامات:
    11
    موصول پسندیدگیاں:
    3
    ملک کا جھنڈا:

    میرا سوال ہے ؟؟
    کیا پوری اسلامی تعلیمات چھوڑ کر ایک حکم کو پکڑ کر ملت اسلامیہ کو کثرتِ آبادی کی مشکلات میں ڈال دینا اسلامی نقطہ نظر سے درست ہے ؟؟
    جواب: محترم آپ کو کس نے کہا کہ دین اسلام کے ایک حکم کو پکڑ کر باقی کو چھوڑدیں ، اسلام تو کہتا ہے کہ پورے کے پورے دین میں داخل ہوجاو، جیسے کہ قرآن کریم میں صاف صاف بتادیا گیا ہے کہ (مفہوم) اے ایمان والو! پورے کے پورے اسلام میں داخل ہوجاو۔
    کیا حضور نبی اکرم :saw: کے فرمان کا یہی مقصد تھا کہ بچوں کی لائن لگا دو ؟؟
    جواب: جنابِ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے فرمان کا ہر گز مقصد یہ نہیں تھا کہ ایک ہی کام میں مصروف ہوجاو اور بچوں کی لائن لگادو بلکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے فرمان کا مقصد یہ ہے کہ جب تک میاں بیوی عام طور پر اعتدال کے ساتھ صحت مند رہ سکتے ہوں ، بچوں کی ولادت جاری رہے اس کو مت روکیے۔تفصیل کا یہ موقع نہیں ہے ، تفصیل ان شاء اللہ کسی اور موقع پر ۔
    یا آپ :saw: کے فرمان کا مقصد یہ بھی تھا کہ اپنے اعلی کردار اور دین اسلام کی دعوت و تبلیغ کے فروغ کے ذریعے غیر مسلموں کو بھی مسلمان بنا کر امتِ محمدیہ :saw: میں اضافہ کرو ؟؟؟
    جواب: یقیناً اس فرمان سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا مقصد یہ نہیں تھا البتہ مذکورہ مقصد اسلام کے مقاصد میں شامل ضرور ہے، دونوں مقاصد کی اپنی جگہ الگ حیثیت ہے، اور ہم نے کسی بھی مقصد کو پسِ پشت نہیں ڈالنا ہے۔ مسلمانوں کے ہاں شادی محض شہوت رانی یا خواہشاتِ نفسانی کی تکمیل کے لیے نہیں کی جاتی بلکہ اس سے مراد افزائشِ نسل بھی ہے، گو ضمنی طور پر لذت کا حصول بھی ہوجاتا ہے تاکہ معاشرہ پاکیزہ رُخ پر چلتا رہے۔
    کیا ہم لوگ اجتماعی طور پر دینی احکامات سے اپنی مرضی کے مطابق اور اپنے مفادات کو پورا کرنے والے جزو پکڑ کر دین اسلام پر ظلم نہیں کر رہے ؟؟؟
    جواب: یقیناً جو مطلب اس روایت سے آپ نے نکالا ہے اُس سے تو یہی معلوم ہوتا ہے کہ آپ اس پر پوری طرح گامزن ہیں۔ ‘‘اس روایت کا یہی مطلب ہے’’ یہ دعویٰ آپ کا ہے اور اس کے دلائل بھی آپ کے ذمہ ہیں کہ گزشتہ چودہ سو سال میں علم حدیث کے ماہرین جو مطلب سمجھا ہے وہ وہی ہے جو آپ فرمارہے ہیں یا کچھ اور؟ کیوں کہ حدیث میں ہے ‘‘البینۃ علی المدعی والیمین علی من انکر’’ یعنی ثبوت پیش کرنا دعویٰ کرنے والے کی ذمہ داری ہے اور مدعا علیہ اگر منکر ہو تو وہ قسم کھائے۔ ہم یہاں منکر نہیں البتہ آپ مدعی ضرور ہیں، لہٰذا دعویٰ کے ثبوت پیش کرنا بھی آپ کی ذمہ داری ہے، ہماری نہیں۔
    اور آخر میں عرض کرنا مناسب سمجھوں گا کہ!
    پوری بحث کا حاصل یہ ہے کہ اسلام اعتدال کا درس دیتا ہے اور زندگی کے تمام اُمور میں اعتدال پسندی کو پسند کرتا ہے، اسی طرح میاں بیوی کے تعلقات اور اُمورِ خانہ داری، بچوں کی تربیت اور ایک صحت مند معاشرہ کو دیکھتے ہوئے اس بات کی اجازت دیتا ہے کہ اگر عورت صحت مند ہے اور بچوں کی پیدائش کا بوجھ اٹھانے کے قابل ہے نیز بچوں کی اچھی طرح سے دیکھ بھال اور تربیت کرسکتی ہے تو پھر ایسی صورت میں بچوں کی پیدائش کو روکنا یقینا جرم تصور ہوگا، جبکہ اگر عورت کی صحت اس بات کی اجازت نہیں دیتی اور مزید بچوں کا بوجھ اٹھانے کے قابل نہیں ہے تو ایسی صورت میں وقتی طور پر احتیاط کرنے کی گنجائش بھی موجود ہے، لیکن اس کو قطعاً بند کردینے کا اسلام حکم نہیں دیتا بلکہ یہ بھی ایک جرم ہی ہوگا۔ اس لیے نہ تو دنیا پرستی اور مغربیت کا لباس اتنا پہنا جائے کہ اسلام کے اُصول وضوابط سے ہی دور ہوجائیں اور نہ ہی اتنی شدت اپنائی جائے کہ اسلام کے مقررہ کردہ اور جائزہ کردہ اُمور کو حرام جاننے لگے۔ یعنی ہر عمل میں اللہ تعالیٰ کے حکم اور جنابِ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشادات کو سامنے رکھتے ہوئے زندگی گزارے۔ نیز دینی موضوعات کو اپنی عقل و فہم کے مطابق سمجھنے اور سمجھانے کی کوشش نہ کریں بلکہ اپنے مستند علماء سے پوچھ کو اور مشورہ کرکے عمل کیا جائے۔ فقط واللہ اعلم
     
    پاکستانی55 اور نعیم .نے اسے پسند کیا ہے۔
  4. غوری
    آف لائن

    غوری ممبر

    شمولیت:
    ‏18 جنوری 2012
    پیغامات:
    38,539
    موصول پسندیدگیاں:
    11,602
    ملک کا جھنڈا:
    جزاک اللہ
     
  5. مناپہلوان
    آف لائن

    مناپہلوان مدیر جریدہ سٹاف ممبر

    شمولیت:
    ‏8 دسمبر 2012
    پیغامات:
    1,717
    موصول پسندیدگیاں:
    1,767
    ملک کا جھنڈا:
    کسی بھی مذہب، مکتبہ فکر، معاشرے وغیرہ کو پرکھنے کے لئے اس کے بنیادی اصولوں کو دیکھا جاتا ہے، اور اگر اسلام کے بنیادی اصولوں کو دیکھا جائے تو اس میں اعتدال کا ذکر بھی ہے، جس کا حدیث پاک میں ذکر فرمایا کہ "مَن عَالَ مَنِ اقتَصَدَ" تو اگر ہم اس اصول کو پیش نظر رکھیں تو سارا مسئلہ حل ہو جاتا ہے
     
    نعیم نے اسے پسند کیا ہے۔
  6. مناپہلوان
    آف لائن

    مناپہلوان مدیر جریدہ سٹاف ممبر

    شمولیت:
    ‏8 دسمبر 2012
    پیغامات:
    1,717
    موصول پسندیدگیاں:
    1,767
    ملک کا جھنڈا:
    کسی بھی مذہب، مکتبہ فکر، معاشرے وغیرہ کو پرکھنے کے لئے اس کے بنیادی اصولوں کو دیکھا جاتا ہے، اور اگر اسلام کے بنیادی اصولوں کو دیکھا جائے تو اس میں اعتدال کا ذکر بھی ہے، جس کا حدیث پاک میں ذکر فرمایا کہ "مَن عَالَ مَنِ اقتَصَدَ" تو اگر ہم اس اصول کو پیش نظر رکھیں تو سارا مسئلہ حل ہو جاتا ہے
     
  7. مناپہلوان
    آف لائن

    مناپہلوان مدیر جریدہ سٹاف ممبر

    شمولیت:
    ‏8 دسمبر 2012
    پیغامات:
    1,717
    موصول پسندیدگیاں:
    1,767
    ملک کا جھنڈا:
    بلکہ فقہ حنفی کی مشہور و متداول کتابِ مستطاب "الدرالمختار" و "المرجع السابق" میں ہے کہ: "اگر یہ اندیشہ ہے کہ نکاح کرے گا تو نان و نفقہ نہ دے سکے گا یا جو ضروری باتیں ہیں ان کو پورا نہ کرسکے گا تو مکروہ ہے اور ان باتوں کا یقین ہو تو نکاح کرنا حرام۔ مگر نکاح بہر حال ہو جائے گا"
     
  8. سیف اللہ حنفی
    آف لائن

    سیف اللہ حنفی ممبر

    شمولیت:
    ‏17 جولائی 2012
    پیغامات:
    1
    موصول پسندیدگیاں:
    0
    ملک کا جھنڈا:
    خاندانی منصوبہ بندی، کم بچے پیدا کرنا، بچے دو ہی اچھے، ۔۔۔۔۔ وغیرہ وغیرہ مشورے آپ صرف غیر مسلموں کو دیں کیوں کہ یہ انہی کی اجاد ہیں۔
    مسلمانوں کے لئے یہی ہے کہ اگر وہ صحیح مسلمان ہیں اور اچھے اعمال کرنے والے ہیں تو بچوں کی پیدائش میں اضافہ کریں۔ اگرممکن ہو تو ایک سے زیادہ شادیاں کریں تا کہ زیادہ سے زیادہ بچے ہوں۔ اسلام میں ایک وقت میں چار بیویاں رکھنے کی اجازت ہے۔
    قیامت کے دن اللہ کے پیارے حبیب حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنی اُمت پر تعداد کی کثرت پر فخر ہوگا۔
    باقی یہ وسوسے پیدا کرنا کہ کیا یہی کام رہ گیا ہے تو جناب یہی کام نہیں بلکہ یہ بھی کام رہ گیا ہے۔
    ہر کام کی اپنی اہمیت ہوتی ہے۔ نماز، کلمہ، روزہ، زکوۃ، حج، جہاد فی سبیل اللہ، صدقہ، خیرات، نکاح، قرآن کی تلاوت، اور بچوں کو اللہ کے دین کے لئے پیدا کرنا اپنی اپنی جگہ نہایت نیکی کے کام ہیں۔
    میری تو یہ نیت ہے کہ اللہ مجھے زیادہ سے زیادہ بچے دے۔ جن میں سے میں ان کو عالم بنائو، حافظ بنائو، مجاہد بنائو، مبلغ بنائو، ڈاکٹر بنائو، وکیل بنائو، اُستاد بنائو، نمازی بنائو، ۔۔۔۔ دین کے ہر شعبے میں کام کرنے والا بنائو۔ آمین
     
  9. نعیم
    آف لائن

    نعیم مشیر

    شمولیت:
    ‏30 اگست 2006
    پیغامات:
    58,107
    موصول پسندیدگیاں:
    11,153
    ملک کا جھنڈا:
    سرحدی بھائی ۔۔ اب ذرا سیف اللہ حنفی کے خیالات عالیہ کا مطالعہ فرما کر یہاں اپنا جواب ارسال فرمائیں۔
    انتظار رہے گا۔
     
  10. دلبر جان
    آف لائن

    دلبر جان ممبر

    شمولیت:
    ‏30 جولائی 2014
    پیغامات:
    18
    موصول پسندیدگیاں:
    8
    ملک کا جھنڈا:
    محترم نعیم بھائی: آپ نے لکھا ہے کہ
    میرا سوال ہے ؟؟

    کیا پوری اسلامی تعلیمات چھوڑ کر ایک حکم کو پکڑ کر ملت اسلامیہ کو کثرتِ آبادی کی مشکلات میں ڈال دینا اسلامی نقطہ نظر سے درست ہے ؟؟

    کیا حضور نبی اکرم :saw: کے فرمان کا یہی مقصد تھا کہ بچوں کی لائن لگا دو ؟؟

    یا آپ :saw: کے فرمان کا مقصد یہ بھی تھا کہ اپنے اعلی کردار اور دین اسلام کی دعوت و تبلیغ کے فروغ کے ذریعے غیر مسلموں کو بھی مسلمان بنا کر امتِ محمدیہ :saw: میں اضافہ کرو ؟؟؟

    کیا ہم لوگ اجتماعی طور پر دینی احکامات سے اپنی مرضی کے مطابق اور اپنے مفادات کو پورا کرنے والے جزو پکڑ کر دین اسلام پر ظلم نہیں کر رہے ؟؟؟

    آپ کی ان تمام باتوں کا جواب سیدنا علی المرتضی رضی اللہ عنہ کی عملی زندگی کا مطالعہ کرنے سے مل جائے گا ۔ کیا سیدنا علی اسلامی تعلیمات سے واقف نہ تھے؟کیا انہوں نے بچوں کی لائن نہ لگائی؟ کیا سیدنا علی اس فرمان نبوی کا مقصد نہیں جانتے تھے؟
    اس حدیث مبارکہ کی روشنی میں سیدنا علی المرتضی کی زندگی کو دیکھا جائے تو وہ اس کی "عملی" تفسیر نظر آتی ہے

    سیدنا علی المرتضی کی اولاد میں 18 بیٹے اور10 بیٹیوں کا ذکر ملتا ہے یعنی کل تعداد 28 ہوئی

    کیا سیدنا علی المرتضی نے 28 بچے پیدا کر کے (نعوذ باللہ) اپنے کسی مفاد کو پورا کرنے والے جز کو پکڑ کر دین اسلام پر کوئی ظلم کیا تھا ؟؟؟
     
  11. دلبر جان
    آف لائن

    دلبر جان ممبر

    شمولیت:
    ‏30 جولائی 2014
    پیغامات:
    18
    موصول پسندیدگیاں:
    8
    ملک کا جھنڈا:
    اس دھاگہ میں لکھنے والے محترم اراکین یہ مضمون تھوڑی توجہ سے پڑھیں :

    تحدید پس نسل کامعروضی وفقہی منظر !(1)

    تحدید پس نسل کامعروضی وفقہی منظر

    ہمیں اس طرز عمل پر کوئی حیرت نہیں، کیونکہ یہ مغربی طوفانوں کا ایک دھارا ہے جو ٹوٹنے کا نام نہیں لیتا ، حیرت کا مقام تو یہ ہے کہ اب اس صیہونی فکر کو اسلامی فکر باور کرنے کے لئے اسلامی جمہوریہ پاکستان کے علماء طبقہ پر مختلف طریقوں سے محنت ہو رہی ہے، کہیں فکری نشستیں منعقد ہو رہی ہیں، کہیں تربیتی ورکشاپ کا انعقاد ہورہاہے، کہیں ملکی سطح کے سیمینار ہو رہے ہیں اور علماء دین کو اس موضو ع پر بحث و مباحثہ کے لئے مواقع دیئے جارہے ہیں اور کئی سادہ لوح مخلصین شعوری و لا شعورعی طور پر ” عزل“ کے جوا ز کے دلائل لیکر انتہائی سادگی کے ساتھ ” بہبودی آبادی“ کے دربار میں بطور نذرانہ پیش کرآتے ہیں ، جسے بعد میں ”بہبود آبادی “ والے اسلام کی اہم ترین خدمت کے طور پر خطیر رقم خرچ کرکے وسیع پیمانے پر شائع کرتے ہیں اور سمجھتے ہیں کہ اس طرح کرنے سے ملکی معیشت فقر و فاقہ سے آزاد ہو جائے گی۔
    حالانکہ علماء کرام کے لئے مقام فکریہ ہے کہ میاں بیوی کے ازدواجی تعلقات اور اس تعلق کے دوران صوابدیدی احتیاطی تدابیر اس قدر اہم مسئلہ نہیں کہ اس پر اتنی علمی توانائیاں صرف کی جائیں اور اسے مستقل موضوع کا درجہ دیا جائے۔دوسرے اس پروگرام کے محرکین کو بھی سوچنا چاہیے کہ خاندانی منصوبہ بندی کے نام پر جس قدر مصارف اٹھائے جارہے ہیں، اگر یہی مصارف کسی پسماندہ دیہی علاقے کی تعمیر و ترقی اور وسائل روزگار میں صرف کئے جائیں تو اس سے فقر و فاقہ میں کمی اور ملکی معیشت میں مناسب بہتری آئے گی۔لیکن ان پروگراموں کے پس پردہ اصل مقصد فقر وفاقہ کا خاتمہ اور ملکی معیشت میں بہتر استحکام نہیں ہے، اس لیے ان لوگوں سے یہ سوچ متوقع نہیں۔
    تحدید نسل کا اصل مقصد ازدواجی قوت پر ہے
    فی زمانہ خاندانی منصوبہ بندی /تحدید نسل/ ضبط ولادت کے پس پردہ اصل مقصد یہ ہے کہ صحت مند مسلمان معاشرے میں افرادی قوت کا مناسب شرح کے ساتھ اضافہ، مذہبی اور جمہوری اصولوں کے تناظر میں مغرب کے لئے حد درجہ پریشان کن ہے، کیونکہ مستقبل قریب میں عددی اکثریت کے بل بوتے پر اقلیت کو انفعالی طور پر اپنے اندر مدغم کرے گی، جیسا کہ جرمنی کے بارے میں دستاویزی فلم سے ظاہر کیا گیا ہے کہ آئندہ برسوں میں جرمنی کا اقتدار مسلمانوں کے ہاتھوں میں آسکتا ہے، وجہ اس کی یہ ہے کہ ایک تو اسلام تیزی سے اپنا اثر و نفوذ بڑھا رہا ہے، دوسرے یہ کہ مسلمانوں میں الحمد لله! بچوں کی پیدائش کا رجحان بحوبی پایا جارہا ہے، یہی سلسلہ دیگر غیر مسلم ممالک میں بھی قائم ہے۔
    چائناکی افرادی قوت اور معاشی ترقی!
    اسی طرح چائنا میں آبادی کی شرح برتھ کنٹرول کے فلسفہ پر نظریہ کو سو فیصد غلط قرار دیتی ہے، چائنا کو عالمی دوڑ میں شریک کرنے میں اس کی افرادی قوت کا بنیادی کردار ہے، اگر چائنا اپنی تمام وسعتوں اور بھر پوروسائل کے باوجود محنت کا روں کی کھیپ سے محروم ہو تا تو شاید اسے گلگت کی چائنا مارکیٹ سے آگے بڑھنے کا موقع نہ ملتا۔ مگردنیا جانتی ہے کہ اس کی افرادی قوت کو جب روز گار کے جس قدر وسائل مہیا ہو ئے اس قدر محنت ہوئی اور ظاہر ہے کہ محنت پیداوار کا بنیادی ستون ہے ،جب پیداورا بڑھی توپوری دنیا میں اقتصادی سیلاب کی صورت اختیار کرگئی، جس کے بل بوتے آج چائناسپر پاور بننے کے لئے پر تول رہا ہے
    معاشی استحکام ، محنت اور وسائل کی مناسب تنظیم پر منحصر ہے
    اس سے بخوبی اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ معاشی استحکام اور اقتصادی خوشحالی میںآ بادی کے کم یا زیادہ ہونے کا کوئی کردار نہیں، بلکہ اصل کردار محنت کا ہے ، اگر تھوڑی آبادی ہو وہ محنت نہ کرے تو موجودہ شہر ی وسائل معاش کو استعمال کرتے کرتے ایک دن ختم کردیں گے، لیکن اگر معاشرے کے افراد زیادہ ہیں اور محنت سے جی نہیں چراتے ،نکما پن کا عارضہ انہیں لا حق نہ ہو ،اور وہ محنت کش ہوں تو ایسے لوگ جتنے زیادہ ہوں گے اسی بقدر پیداوار بڑھے گی، وسائل میں اضافہ ہو گا، جن کی موجودگی میں معاشرہ عدم استحکام اور اقتصادی بدحالی کا شکار نہیں ہو سکتا۔البتہ یہ ممکن ہے کہ کہیں وسائل کی فراوانی ہو، اس کے باوجود آبادی کا ایک حصہ دوسرے کے لیے مضر ثابت ہو، اس میں آبادی کا قصور نہیں ،بلکہ ایسا طبقاتی تقسیم کی وجہ سے ہوسکتا ہے، جس پر شریعت اسلامیہ پابندی عائد کرتی ہے۔نیز یہ بھی ممکن ہے کہ وسائل کی فراوانی ہو مگر معاشرے کے تمام افراد اس سے مستفید نہ ہو سکتے ہوں ، لیکن یہاں بھی آبادی کی کثرت کو مورد الزام ٹھہرانے کی بجائے حکومت وقت کی عدم تنظیم کو ذمہ دار ٹھہرانا چاہیے، اگر حکومت کسی معاملہ میں بد انتظامی کی مرتکب ہو تو اس کے نتیجہ میں رعایا کی نسل کشی کے مشورے دینا حماقت کے سوا کیا ہو سکتا ہے؟
    آبادی کی قلت اور کثرت جمہوریت کی نظر میں!
    اس وقت مغربی دنیا جس نظام کے تحت زندگی گزارنے کی ترغیب و تلقین کی علم بردار بنی ہوئی ہے وہ جمہوری نظام ہے، جمہوری نظام میں سارے فیصلے اکثریتی رائے کے تحت ہو نا ضروری ہیں، اس اکثریت میں شامل ہونے کے لئے صرف انسان ہونا کافی ہے، یہاں تک کہ انسانی کمالات اور انسانی اوصاف سے عاری انسان بھی گنتی میں وہی وزن رکھتا ہے جو ایک باکمال اور اعلیٰ اوصاف کا حامل انسان رکھتا ہے۔اس غیر فطری تفاوت سے صرف نظر کرتے ہوئے ایک نااہل اور ناقص انسان کو بھی جمہوریت”گنتی“ کے لئے محض اس لئے قبول کرلیتی ہے کہ اس کی وجہ سے افرادی قلت، کثرت میں بدل سکتی ہے۔
    غور کا مقام یہ ہے کہ دنیا پر حکمرانی کرنیو الے جس نظام میں افراد کی” کثرت “اس حد تک قابل قدر ہو کہ جہاں ناقص اور کامل انسان مرد اور عورت کا فرق معتبر نہ سمجھا جا تا ہو، اس نظام کے علم بردار جب ہمیں ”آبادی“ میں کمی کا مشورہ دیں اور اس کے لیے سرکاری سطح پر محنتیں کرائی جائیں تو ہمیں صرف عزل کی گنجائشوں میں کھو جانے پر اکتفاء نہیں کرنا چاہیے، بلکہ یہ سوچنا چاہیے کہ اس وقت دنیا ایک گاوٴں کی مانند ہو چکی ہے اور دنیا میں بین الاقوامی اور قومی مسائل اکثریتی رائے کے تحت ہورہے ہیں،جس کے لئے افراد کی کثرت مطلوب ہے۔ مثال کے طور پر اس گاوٴں ( دنیا) کی سطح پر کسی معاملے میں قومیتوں کی بنیاد پر رائے شماری ہو توکون سی قوم ایسی ہوسکتی ہے جو اس موقع پر اپنی عددی اکثریت کو اہمیت دینے کے بجائے اس کے محدود ہو نے پر رضامند ہو؟
    ذرا انصاف فرمائیے کہ ایسے نظام کے تحت بسنے والا انسان ، ادارہ یا ملک اگر خطیر وسائل اور کثیر خزانے صرف کرکے اپنی عددی اکثریت کو محدود کرنے کا تصور پیش کرے اور اس کے لئے اپنی صلاحیتیں صرف کرے تو اسے عقلمندی کا مظہر کہیں گے یا اسے حماقت کے ایورارڈ کا مستحق سمجھا جائے گا؟
    الغرض !اگر صرف افرادی قوت اور وسائل معاش کے لئے اس کی اہمیت و ضرورت یا خالص جمہوری نقطہٴ نظر سے آبادی کے محدود ہونے کا جائزہ لیا جائے تو اقتصادی اور جمہوری اصول بھی اس کی شدید نفی کرتے ہیں،مگر مسلمانانِ پاکستان ہیں کہ وہ مغربی چالوں اور دوسرے معیاروں کی طرف توجہ دینے کی بجائے اپنی سادگی کو ان کی عیاری کے قدموں میں قربان کئے جارہے ہیں ۔
    آبادی کی قلت و کثرت شریعت کی روشنی میں
    جہاں تک مسلمان معاشرہ کے لئے آبادی کی قلت و کثرت کا تعلق ہے، اس سلسلے میں شریعت اسلامیہ کا موقف اور مزاج بالکل واضح ہے، استشراقی مزاج کے مغرب پرست بعض اسلامی دانشور،مالتھس کے نظریئے کو قبائے اسلام پہنانے کی ناروا کو شش نہ کرتے تو یقینا اہل اسلام کے لئے اس موضوع کے رد میں دلائل کی ضرورت نہ ہوتی ،بلکہ یہ بالکل ایسے ہی ہو تا جیسے مسلمان معاشرے میں نکاح کے جواز کے دلائل پیش کئے جاتے یا نماز کی فرضیت پر دلائل پیش کئے جاتے ہیں، کیونکہ ہر مسلمان نکاح اور اس کے جواز سے، نیز نماز اور اس کے فرضیت سے واقف ہوتا ہے، یہی معاملہ مسلمان معاشرے کے لئے افرادی قوت کا بھی تھا ،مگر اسے مغرب پرستوں نے اس غلط عنوان کے تحت درج کردیا ہے کہ اسلام میں آبادی کی کثرت ناپسند ہے اور آبادی و خاندان کا محدود ہونا عین اسلام ہے، بلکہ بعض مواقع پر ضروری بھی ہے ،جبکہ اسلامی مزاج کے بالکل خلاف اور اسلام کے نام پر سراسر جھوٹ ہے۔
     
    نعیم نے اسے پسند کیا ہے۔
  12. دلبر جان
    آف لائن

    دلبر جان ممبر

    شمولیت:
    ‏30 جولائی 2014
    پیغامات:
    18
    موصول پسندیدگیاں:
    8
    ملک کا جھنڈا:
    تحدید نسل کامعروضی وفقہی پس منظر

    تحدید نسل کامعروضی وفقہی پس منظر
    (۲)

    ایک مسلمان کے لئے تفصیل میں جائے بغیر جس قدر شواہد کی ضرورت ہے، وہ ملاحظہ ہوں۔
    ۱:․․․ افرادی قوت اور عددی کثرت ، اللہ تعالیٰ کے ان احسانات میں سے ہے جو اللہ تعالیٰ نے بطور خاص جتلائے ہیں، سورہٴ اعراف میں ارشادہے:
    ”واذکروا اذ کنتم قلیلافکثر کم… الآیة۔ (الاعراف:۸۶)
    ترجمہ:․․․”اوریادکروجب تم تھوڑے تھے،پھر تمہیں بڑھادیا“
    ۲:․․․ ذخیرہٴ احادیث میں ایسی لا تعداد نصوص موجود ہیں ، جن میں واضح طور پر یہ مضمون موجود ہے کہ افرادی قوت میں اضافہ ، مردم شماری میں کثرت ،زیادہ اولاد کی پیدائش اورخواہش ،اسلام کا بنیادی تقاضا ہے ،حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے اس تقاضے کو کبھی ترغیب کی صورت میں، کبھی دعاء کی صورت میں اور کبھی صریح تاکید کی صورت میں بیان فرمایا ہے ، اس موضوع پر چندا حادیث ملاحظہ ہوں۔ ۱:۔” عن ام سلیم انہا قالت: یارسول الله! خادمک انس ادع الله لہ، فقال: اللّٰھم اکثر مالہ وولدہ وبارک لہ فیما اعطیتہ، قال انس : فو الله مالی لکثیر، وان ولدی وولد ولدی یتعادون علی نحو المائة الیوم۔“ ( مسلم:۲/۲۹۸)
    ترجمہ:…”حضرت ام سلیم سے روایت ہے کہ انہوں نے کہا یا رسول اللہ ! آپ اپنے خادم حضرت انس کے لئے دعا فرمادیں، آپ انے فرمایا: اللہ اس کے مال واولاد کو زیادہ کرے اور برکت دے اس میں جو ا س کو دیا ہے۔ حضرت انس فرماتے ہیں :اللہ کی قسم میرا مال بھی بہت ہے اور میری اولاد اور اولاد کی اولاد آج سو سے بڑھ کر ہیں“۔
    ۲:۔”۔ تزوجوا الودود الولود فانی مکاثر بکم الامم…“( ابو داوٴد، : ۱/۵)
    ترجمہ:…” محبت کرنے والی ،زیادہ بچے جننے والی عورت سے شادی کرو،میں دوسری امتوں کے مقابلے میں تمہاری کثرت پر فخر کروں گا “۔
    ۳:۔”وعن عیاض بن غنم قال: قال لی رسول الله صلی الله علیہ وسلم ذات یوم : یاعیاض! لا تزوجن عجوزا ولا عاقرا فانی مکاثر بکم ۔“
    ( مستدرک حاکم: ۴/۳۳۹ ،ط: دار المعرفة)
    ترجمہ:۔”حضرت عیاض بن غنم سے روایت ہے کہ ایک دن رسول کریم ا نے مجھ سے فرمایا: اے عیاض! عمر رسیدہ اور بانجھ عورت سے ہرگز نکاح نہ کرنا، کیونکہ میں تمہاری کثرت پر فخر کروں گا“۔ ۴:۔” إنی فرطکم علی الحوض، وإنی مکاثر بکم الامم فلا تقتلن بعدی ۔“
    (سنن ابن ماجہ: ص: ۲۸۳ )
    ترجمہ:…”حوض پر میں تمہارا پیش رو ہوں گا اور میں تمہارے ذریعہ دیگر امتوں پر فخر کروں گا ،پس میرے بعد قتل وقتال ہرگز نہ کرنا“۔
    ۵:”۔وإنی مکاثر بکم الامم اوالناس فلا تسودوا وجہی۔“ ( شرح مشکل الاثار: ۱/۳۳)
    ترجمہ:…”میں دوسری امتوں کے مقابلے میں تمہاری کثرت پر فخر کروں گا ،تم ہرگز مجھے رسوا نہ کرنا“۔
    ۶:۔”وإنی مکاثر بکم الامم، لا تسودن وجہی۔“ (الآحاد المثانی: ۵/۳۵۱)
    ترجمہ:…”میں دوسری امتوں کے مقابلے میں تمہاری کثرت پر فخر کروں گا، تم ہرگز مجھے رسوا نہ کرنا“۔
    ۷:۔” عن محمد بن سیرین قال: قال رسول الله صلی الله علیہ وسلم : دعوا الحسناء العاقر وتزوجو السوداء الولود، فانی اکاثر بکم الامم یوم القیٰمة، حتیٰ السقط یظل محبنطیا أی متغضبا ، فیقال لہ: ادخل الجنة، فیقول: حتیٰ یدخل أبوای ، فیقال: ادخل انت وابواک۔“ (مصنف عبد الرزاق:۶/۱۶۰)
    ترجمہ:۔”محمد بن سیرین سے روایت ہے کہ رسول اللہ ا نے ارشاد فرمایا :خوبصورت بانجھ عورت کو چھوڑدو اور کالی زیادہ بچے جننے والی عورت سے نکاح کرو، میں تمہاری کثرت کے ذریعہ قیامت کے دن اور امتوں پر فخر کروں گا، یہانتک کہ … اس سے کہا جائے گا کہ جنت میں داخل ہوجا ،وہ کہے گا: میں اس وقت تک جنت میں داخل نہیں ہوں گا جب تک میرے والدین کو بھی جنت میں داخل نہ کیا جائے، پس کہا جائے گا تم اپنے والدین کے ساتھ جنت میں داخل ہوجاؤ “۔
    ۸:۔”ان رجلا أتی النبی صلی الله علیہ وسلم فقال: ابنة عم لی ذات میسم ومال، وھی عاقر أفاتزوجھا؟ فنہاہ عنہا، مرتین أو ثلاثا، ثم قال: لإمراة سوداء ولود أحب الیّ منہا، أما علمت أنی مکاثر بکم الامم ۔“ ( مصنف عبد الرزاق: ۶/۱۶۱)
    ترجمہ:۔”ایک آدمی حضور ا کی خدمت میں حاضر ہوا اور کہنے لگا: میرے چچا کی بیٹی مالدار عورت ہے اور وہ بانجھ ہے، کیا میں اس سے نکاح کرلوں؟ آپ ا نے اس شخص کو اس نکاح سے منع کیا ،دو یا تین بار فرمایا: کالی زیادہ بچے جننے والی عورت مجھے اس سے زیادہ پسند ہے، کیا تم نہیں جانتے کہ میں تمہاری کثرت پر دیگر امتوں کے مقابلے میں فخر کروں گا“۔
    ۹:۔”قال النبی صلی الله علیہ وسلم: أن تنکح سوداء ولودا خیر من أن تنکحہا حسناء جملاء لا تلد ( مصنف ابن ابی شیبہ : ۶/۱۶۱)
    ترجمہ::۔”حضور ا نے ارشاد فرمایا: کہ تم کالے رنگ والی زیادہ بچے جننے والی عورت سے نکاح کرو ،یہ بہتر ہے اس سے کہ تم خوبصورت حسین وجمیل بانجھ عورت سے نکاح کرو“۔
    ۱۰:۔” سوداء ولود خیر من حسناء لا تلد ، إنی مکاثربکم الامم حتیٰ بالسقط۔“ (المعجم الکبیر، معاویة بن حکم السلمی:۱۹/۴۱۶)
    ترجمہ:۔”کالے رنگ کی زیادہ بچے جننے والی عورت بہتر ہے خوبصورت بانجھ عورت سے، میں تمہاری کثرت کے ذریعہ دیگر امتوں کے مقابلے میں فخر کروں گا، یہانتک کہ گرا ہوا لوتھڑا بھی کثرت میں شمار ہوگا“۔
    اس مضمون کی بے شمار حدیثیں کتب حدیث میں موجود ہیں، بطور نمونہ یہ چند احادیث ان اہل اسلام کے لئے نقل کی جارہی ہیں جو حدیث کو حجت مانتے ہیں اور صریح حدیثوں کے مقابلے میں کٹ حجیتوں کو دین و ایمان کے منافی خیال کرتے ہوں، ورنہ ایک نظریہ قائم کرکے اس کے تحت دلائل جمع کرنے اور اس کے معارض دلائل کو رد کردینے والوں کا تا قیامت کوئی علاج نہیں، کیونکہ ایسے لوگوں کے لئے تا قیامت امہال و انظار کا فیصلہٴ خدا وندی صادر ہوچکا ہے۔
    ایک مسلمان کی حیثیت سے اگر کوئی شخص ” خاندانی منصوبہ بندی“ کے حوالے سے شریعت کا واضح موقف جاننا چاہے اور مزاجِ نبوت اپنانا چاہے تو اس کے لئے درج بالا صریح روایات کافی ہیں ، ایک بادی النظر شخص بھی ان روایتوں سے مندرجہ ذیل فوائد اخذ کر سکتاہے:
    ۱… مسلم آبادی کی کثرت اور بڑھوتری ، حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی آرزو اور تمنا تھی۔
    ۲… حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے اولاد کی کثرت اور بہتات کے لیے خصوصی ترغیبات دی ہیں۔
    ۳… افرد امت اور کثرت اولاد کے لیے حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے خصوصی دعائیں ارشاد فرمائی ہیں۔
    ۴… امت کی کثرت کو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے باعثِ فخر اور قلت ( محدود ہونے )کو باعثِ شرمندگی ٹھہرایا ہے۔
    ۵… کثرت میں ناتمام لوتھڑا( گراہوا حمل) بھی شمار ہوگا۔
    ۶… حسن و جمال اور مال و متاع جیسے کمالات کی بجائے حضور صلی الله علیہ وسلم نے کثرت ولادت اور تولیدی صلاحیت کو باعثِ کمال اور لائقِ نکاح قرار دیا ۔
    اب سوال یہ ہے کہ جو اہل علم” عزل“ کی رخصتوں کے سہارے مروجہ خاندانی منصوبہ بندی / ضبطِ ولادت کا جواز بتانے کے لیے مختلف دلائل پیش کرتے ہیں، کیا وہ مسلمانوں کو یہ بتا سکتے ہیں کہ:
    ۱… کیا مروجہ خاندانی منصوبہ بندی کے جواز کے لیے اس درجہ کی کوئی ایک روایت بھی موجود ہے، جس میں یہ صراحت ہو کہ آبادی کم رکھنا اور بچوں کی تعداد ہر گز نہ بڑھانا؟
    ۲… خاندانی منصوبہ بندی کی نفی کرنے والی روایات جس قدر صریح اور واضح ہیں ،کیاا س کو ثابت کرنے والی روایات بھی اس قدر صریح اور واضح ہیں؟
    ۳… کیا پورے ذخیرہٴ حدیث میں کوئی ایک ایسی روایت پائی جاتی ہے جس میں حضور صلی الله علیہ وسلم نے یہ ارشاد فرمایا ہو کہ زیادہ بچے پیدا کروگے تو فقر وفاقہ اور تنگدستی کا شکار ہو جاوٴگے؟
    ۴… کیا کوئی ایک ایسی ( ضعیف ہی سہی) روایت مجوزین بتا سکتے ہیں جس میں ارشاد ہو کہ اپنی آبادی کو کم رکھنا ،ورنہ قیامت میں مجھے شرمساری کا سامنا ہو سکتا ہے؟
    ۵… مجوزین حضرات کوئی ایک ضعیف یا موضوع روایت بھی دکھا سکتے ہیں جس میں یہ فرمایا گیا ہو کہ شادی کے لیے ایسی عورتوں کا انتخاب کرنا جن میں بچے جننے کی صلاحیت نہ ہو یا ہو تو بالکل کم ہو؟ اگر خاندانی منصوبہ بندی کو جواز فراہم کرنے والے ان سوالوں کا جواب نفی میں دیں اور یقینا جواب نفی میں ہی ہوگا تو ان سے خیر خواہانہ گزارش ہے کہ ان کا طرز عمل شریعت اسلامیہ سے متصادم جارہا ہے، ان کی کاوشیں مزاج نبوی صلی اللہ علیہ وسلم سے معارضہ کررہی ہیں،لہذا اگر مجوزین خاندانی منصوبہ بندی کے موضوع کو دین کا مسئلہ سمجھ کر اس کا جواز ثابت کرنے کے لیے کو شاں ہیں اور اپنی نیتوں میں مخلص ہیں تو انہیں اپنے موٴقف پر ضرور نظر ثانی کرنی چاہیے، ہاں! اگر کوئی مسلم دانشور مالتھس کے نظریے کی فقہی تخریج کو اسلامی خدمت کہنے پر مصر ہو تو اس کا معاملہ الگ ہے،۔یہ نظریہ کسی غلط فہمی پر مبنی نہیں ہے، جو دلائل اور براہین سے تبدیل ہو سکے ،بلکہ یہ سوچے سمجھے منصوبے کے تحت قائم ہوا ہے، جو کسی دلیل اور حجت کے سامنے سرنگوں ہونے کی بجائے اس کی تاویل و تردیدکو اپنی ذ مہ داری سمجھ کر بجالانے کے لیے کمر بستہ ہے ۔ یہ سلسلہ گذشتہ نصف صدی سے اسلامی دنیا میں قائم ہے،اس اکھاڑے میں پہلے صرف تجدد پسند طبقہ شریک تھا، اب مختلف عناوین کے تحت متدین علماء کرام کو بھی شریکِ موضوع بنایا جارہا ہے۔علماء کرام نیک مقاصد کے تحت ایسی مجالس میں شریک ہو ئے ہیں اور اہل مجالس ان کی شرکت کو اپنے مقاصد کے لئے استعمال کرتے ہیں۔
    ضبط ولادت اور اسلامی نقطہٴ نظر
    ”تحدید نسل“ کا شریعت اسلامیہ کی روشنی میں جائزہ لینے کے بعد اب ضبط ولادت سے متعلق اسلامی نقطہ ٴ نظر جاننے کی کوشش کرتے ہیں۔
    ضبطِ ولادت یا منعِ حمل کا موضوع اس معنی کر فقہی موضوع کہلاتا ہے کہ اس کے لیے جو بنیاد بتائی جاتی ہیں، اس بنیاد پر فقہاء کرام نے حسبِ موقع کلام کیا ہے، وہ ”بنیاد“ ”عزل“ ہے ( بیوی یا باندی سے اس طور پر شہوت پوری کرنا کہ مادہ منویہ کا اخراج محل میں نہ ہو) اس مسئلے پر حدیث وفقہ کی ہر کتاب میں تقریباً بحث موجود ہے، کہیں گنجائش کا بیان ہے اور کہیں ممانعت و نکیر کو وضاحت و صراحت کے ساتھ اجاگر کیا گیا ہے ،اس موضوع پر مفصل بحث ابن قیم رحمہ اللہ کی زاد المعاد اور امام غزالی رحمہ اللہ کی احیاء العلوم میں آداب المعاشرہ کے تحت مذکور ہے، مفصل بحث کے چند مندرجات کو خاندانی منصوبہ بندی کا حامی طبقہ اپنی حمایت میں زور و شور سے پیش کرتا ہے۔
    حالانکہ ان پر لازم تھا کہ وہ دونوں پہلووٴں کو ملحوظ رکھتے ہوئے یہاں بھی مزاجِ نبوی کا ادب بجالاتے اور امام غزالی رحمة اللہ کے فلسفی نقطہٴ نگاہ کو سمجھنے کی کوشش کرتے ۔اہل علم جانتے ہیں کہ احکام شریعت کی عقلی حکمتوں و مصلحتوں سے بحث کرنا، احکام شریعت کے دینی و روحانی ثمرات کے ساتھ مادی فوائد سمجھانے کے لئے امام غزالی رحمة اللہ کا خاص طریقہ کار ہے، ایک ادنیٰ درجہ کا طالب علم بھی اگر امام غزالی رحمة اللہ یا دیگر اسلامی فلاسفروں کی اس موضوع پر گفتگو کا جائزہ لے تو واضح طور پر معلوم ہوگا کہ یہ بزرگ یہ سمجھا نا چاہتے ہیں کہ” عزل“ کی ناپسندیدگی کے باوجود گنجائش کے بیان میں کیا حکمت ہے؟ اسباب ووجوہ کیا ہیں؟ دوسرے یہ کہ گنجائش اور رخصت کے لیے کیا کیا شرائط ہونی چاہئیں؟۔
    غور فرمائیے کہ ” عزل“ کے جواز کے لئے حکمت کا بیان اور شرائط کا التزام خود اس بات کی دلیل ہے کہ” عزل“ کا مسئلہ اتنا عام الوقوع یا مطلق الجواز نہیں ہے، جتنا اسے سمجھا اور باورکرایا جارہا ہے، مگر جن لوگوں نے اسے ہر حال میں جائز ثابت کرنا ہے اور اس پر عمل کو کارِ ثوب باور کرانا ہے، انہیں کسی عبارت میں عزل کے ساتھ بس لفظِ ”جائز“ کے علاوہ کچھ دیکھنا ،سوچنا اور پڑھنا ہی نہیں ہے، یہ نفسیاتی مسئلہ ہے فقہی نہیں۔
     
  13. دلبر جان
    آف لائن

    دلبر جان ممبر

    شمولیت:
    ‏30 جولائی 2014
    پیغامات:
    18
    موصول پسندیدگیاں:
    8
    ملک کا جھنڈا:
    تحدید نسل کامعروضی وفقہی پس منظر

    تحدید نسل کامعروضی وفقہی پس منظر! (3)

    عزل اوراحادیثِ نبویہ علیہ السلام

    خاندانی منصوبہ بندی کے علم برداروں کے شرعی مشیر ”نس بندی“ کو منصوبہ بندی باور کرانے کے لیے عام طور پر ان احادیث مبارکہ کو پیش کرتے ہیں جن سے بظاہر ”عزل“ کا جواز ثابت ہو تا ہے، حالانکہ صحیح دینی رائے قائم کرنے کے لیے ان روایتوں کو پیش نظر رکھنا بھی ضروری ہے جن میں عزل کی ناپسندیدگی کا تذکرہ ہے، نیز یہ بات بھی انتہائی غور طلب تھی کہ آیا عزل کا مسئلہ شریعت کے تعبدی امور میں سے ہے یا میاں بیوی کے مخصوص تعلق کے ضمن میں محض انفرادی اور خانگی مسئلہ ہے؟
    اس لیے ذیل میں اس مضمون کی دونوں طرح کی چند روایتیں نقل کرنے کے بعد اپنی بات کو آگے بڑھاتے ہیں، چنانچہ عزل کے جواز پر پیش کی جانی والی مشہور روایت یہ ہے:
    ۱:۔” قال عمر : واخبرنی عطاء انہ سمع جابرا رضی الله عنہ یقول: کنا نعزل والقرآن ینزل۔“
    ۲:۔ ”وفی روایة: کنا نعزل علی عہد رسول الله صلی الله علیہ وسلم، فبلغ ذلک النبی صلی الله علیہ وسلم فلم ینہنا۔“
    ۳:۔ ”وفی روایة: عن عمر بن الخطاب رضی الله عنہ أنہ قال: نہی رسول الله صلی الله علیہ وسلم أن یعزل عن الحرة إلا باذنہا۔“
    ۴:۔ دوسری طرف حضرت ابو سعید خدری رضی الله عنہ کی روایت ہے، جو غزوہٴ بنی مصطلق کے موقع پر واردہوئی تھی کہ انہوں نے حضور صلی الله علیہ وسلم سے عزل کے بارے میں پوچھا تو آپ نے یوں ارشاد فرمایا:”ما علیکم ان لا تفعلوا ، ما من نسمة کائنة الی یوم القیٰمة الا وھی کائنة۔“
    یعنی اگر تم ایسا نہ کرو تو تمہارا کوئی نقصان نہیں، کیونکہ جو جان قیامت تک پیداہونی والی ہے ،وہ ضرور ہو کر رہے گی۔
    ۵… ایک اور روایت حضرت جذامة بنت وہب کی ہے کہ صحابہ کرام نے حضور صلی الله علیہ وسلم سے عزل کے بارے میں سوال کیا تو آپ نے فرمایا:”
    ذلک الوأد الخفی، وھی اذا الموٴودة سئلت۔
    یعنی ” عزل “ خفیہ طریقے سے اولاد کو زندہ درگور کرنے کے مترادف ہے ،جو آیت قرآنی ”إذاالموٴودة سئلت“ کے زمرے میں آتا ہے۔
    ۶… حضرت ابو سعید خدری رضی الله عنہ سے یوں بھی روایت ہے:
    ”اصبنا سبیا فکنا نعزل فسألنا رسول الله صلی الله علیہ وسلم فقال: أوإنکم تفعلون؟ قالہا ثلاثا ، ما من نسمة کائنة الی یوم القیٰمة الا ھی کائنة۔“
    یعنی جب حضور صلی الله علیہ وسلم سے صحابہ نے عزل کے بارے میں پوچھا تو آپ صلی الله علیہ وسلم نے اظہار تعجب کرتے ہوئے فرمایا کہ: کیا تم لوگ ایسا کرتے ہو؟یا جس نفس کو بھی تا روز قیامت پیدا ہونا ہے ،وہ بہرحال پیدا ہوکر رہے گی۔
    ۷… حضرت اسماء بنت یزید رضی الله عنہا فرماتی ہیں کہ میں نے رسول خدا صلی الله علیہ وسلم کویہ کہتے ہوئے سنا ہی:
    ”لا تقتلوا أولادکم سراً، فان الخیل یدرک الفارس۔فیدعثرہ عن فرسہ “ (أبو داؤد)
    ۸…حضرت سعد بن ابی وقاص رضی الله عنہ فرماتے ہیں کہ ایک شخص حضور صلی الله علیہ وسلم کے پاس آیا اور کہنے لگا:
    ”إنی أعزل عن امرأتی فقال لہ رسول الله صلی الله علیہ وسلم: لم تفعل ذلک ؟ فقال الرجل: أشفق علی ولدہا ، فقال رسول الله صلی الله علیہ وسلم: لو کان ذلک ضاراً اضر فارس والروم ۔“ ( مشکوٰة المصابیح، ص: ۲۷۶، )
    ۹:۔” عن أسامة بن زید قال : جاء رجل إلی رسول الله صلی الله علیہ وسلم فقال: إنی أعزل عن امرأتی شفقة علی ولدہا، فقال رسول الله صلی الله علیہ وسلم: لا، ان کان ذلک فلا ، ما ضر ذلک فارس ولا الروم (مسلم)
    ۱۰:۔” عن عمر بن الخطاب رضی الله عنہ ، أنہ قال: نہی رسول الله صلی الله علیہ وسلم أن یعزل عن الحرة إلا باذنہا (مسند احمد) وکذا عن ابن عباس قال: نہی عن عزل الحرة إلا بإذنہا ( عبد الرزاق والبیہقی)
    مندرجہ بالا احادیث مبارکہ میں واضح طور پر یہ بیان موجود ہے کہ”عزل“ کے جواز کے ساتھ ساتھ ممانعت اور قباحت و شناعت کا بیان بھی مذکور ہے، البتہ یہ فرق صاف عیاں ہے کہ اجازت کا بیان مخصوص، مشروط ومقید ہے، اور کراہت و ناپسندیدگی کا بیان عموم و اطلاق سے با وصف ہے۔
    ممانعت کی روایتوں میں یہ بھی صراحت پائی جارہی ہے کہ اگر عزل کے پیچھے متوقع خدشات و توہمات کارفرما ہوں تو پھر درست نہیں ہے
    تیسرا یہ کہ خود ”جواز“والی روایتوں سے واضح طور پر ثابت ہو تا ہے کہ ”عزل“ میاں بیوی کا انفرادی ، ذاتی اور صوابدیدی معاملہ ہے، اسے ادارتی و ریاستی مداخلت سے محفوظ اور دور رکھنا چاہیے، جیسا کہ حضور صلی الله علیہ وسلم کے ارشادات سے آپ کی ناگواری اور ناپسندیدگی عیاں ہے، مگر کلی طور پر ممانعت نہیں فرمائی، بلکہ کبھی یوں فرمایا کہ: اگر ایسا نہ کرو تو تمہیں کیا نقصان ہوگا۔ کبھی یوں فرمایا کہ: آزاد عورت کی رضامندی سے ایسا کرسکتے ہو اور خود سب سے بڑا مستدل” کنا نعزل والقرآن ینزل“ اس بات کا بیان ہے ” عزل “ قانونی و دستوری مداخلت سے آزاد رہا ہے۔
    اس سے بخوبی اندازہ لگایا جاسکتا ہاے کہ ” عزل“ کے جواز پر جن روایتوں سے استدلال کیا جاتا ہے ،ان روایتوں سے جہاں” عزل“ کی گنجائش معلوم ہو تی ہے، اس سے زیادہ یہ ثابت ہو تا ہے کہ میاں بیوی کے اس انفرادی صوابدیدی عمل میں ریاستی ، قانونی یا ادارتی دخل اندازی کا کوئی جواز نہیں، یعنی اس مسئلے کو تنظیم ، ادارہ یا ریاست کی سطح پر اٹھانا بالکل درست نہیں ہے۔
    چوتھا یہ کہ جواز بتانے کے لئے جو الفاظ و تعبیرات استعمال ہوئے، وہ ناپسندیدگی سے خالی نہیں ۔ اس کے مقابلے میں ممانعت والی روایتوں میں بیان حکم کے لیے زیادہ سخت الفاظ استعمال کے لیے گئے ہیں مثلا ” وادخفی“ ( خفیہ طور پر زندہ درگوری)، یہ ڈانٹ کہ نہ کریں۔ اور” قتل بالسر“(یعنی خفیہ طورپر قتل کرنا)، تو ہم پرستی کا حصہ قرار دیتے ہوئے اس کے ازالے کے لیے” عار“ دلانے کے لیے کافروں کی مثالیں دینا وغیرہ وغیرہ۔
    اس حقیقت حال کی روشنی میں ”عزل“ کے مجوزین کے مطلق استدلال ، طرز استدلال اور یکطرفہ روش تو بہت بڑا سوالیہ نشان ہے؟ البتہ اس مسئلے سے متعلق جہاں تک ابحاث کے علمی پہلو کا تعلق ہے، وہ نہ تو زیادہ طویل ہے، نہ اتنا پیچیدہ اور گنجلک ہے ،جسے سمجھنے اور سمجھانے کے لئے ڈھیروں خزانے خرچ ہوں اور ضخیم ،ضخیم مقالے لکھے جائیں۔
    دوسری طرف جب ان ( منع والی ) احادیث کو رخصت و اجازت والی حدیثوں کے ساتھ جمع و تطبیق کی کوشش کرتے ہیں تو یہی رائے سامنے آتی ہے کہ ممانعت کراہت تنزیہی پر محمول اور اجازت کا محور و محمل یہ ہے کہ عزل بس حرام نہیں ہے، اجازت کا یہ معنی نہیں ہے کہ کراہت ہی ختم ہوگئی، ( نووی علی مسلم :۱/۴۶۴)
    بنا بریں صحیح نقطہٴ نظر یہی معلوم ہو تا ہے کہ ” عزل “ نہ تو بالکل حرام ہے اورنہ بلا کراہت جائز ہے ، جہاں جن صورتوں میں کراہت کے ساتھ جائز ہے وہ شریعت کا لازمی تعبدی حکم ہر گز نہیں،جسے بلا روک ٹوک بے حجابانہ اختیار کیا جائے، اسے پیشہ اور مشن بنایا جائے اور سرکاری یا غیر سرکاری اداروں کی مستقل مصروفیت میں دیا جائے، بلکہ یہ میاں بیوی کا باہمی انفرادی، نجی اور بند کمرے کا صوابدیدی معاملہ ہے، وہ ان کے ذاتی حالات کے تناظر میں زیادہ سے زیادہ مباح عمل ہے۔
    اور مباحات کا ضابطہ امام شاطبی رحمة اللہ نے یہ ذکر کیا ہے کہ ” ھوتابع للأغراض “ اگرمباح اعمال کا محرک صحیح غرض ہو تو صحیح ہے اور اگر مباح اعمال میں غرض فاسد کی تحریک شامل ہو یا عام معمول کے مطابق مباح عمل کسی ممنوع کام کے لیے وسیلہ بنتا ہے تو ایسے مباح کو ممنوع کا م کا وسیلہ ہونے کی بنا پر اختیار نہیں کیا جاسکتا ہے۔ (الموافقات:۱/۱۷۶)
    لہٰذا یہ کہنے کی مطلق گنجائش ہے کہ اگر عزل کی رخصتوں کی بنیاد پر منع حمل کی احتیاطی تدابیر میاں بیوی ذاتی عوارض کے تحت کریں تو مباح ہے اور اگر خاندانی منصوبہ بندی کے مغربی مشن کی تکمیل کے لیے کریں تو غرض فاسد کی وجہ سے ناجائز ہے۔واللہ اعلم
     
    نعیم نے اسے پسند کیا ہے۔
  14. نعیم
    آف لائن

    نعیم مشیر

    شمولیت:
    ‏30 اگست 2006
    پیغامات:
    58,107
    موصول پسندیدگیاں:
    11,153
    ملک کا جھنڈا:
    محترم دلبر جان بھائی ۔ موضوع کے مطابق عمدہ تحقیقی مراسلہ جات پر شکریہ !
    لیکن آخری پوسٹ میں عزل سے متعلق احادیث کا اردو ترجمہ نہ ہونے کی وجہ سے اسکا پسِ منظر و وجوہات کو کما حقہ سمجھنا دشوار ہے۔
    اگر ممکن ہوتو مکمل ترجمہ ارشاد فرما دیجئے۔
    والسلام
     
  15. مخلص انسان
    آف لائن

    مخلص انسان ممبر

    شمولیت:
    ‏10 اکتوبر 2015
    پیغامات:
    5,415
    موصول پسندیدگیاں:
    2,746
    ملک کا جھنڈا:
    کسی حساس معاملے پر لکھتے ہوئے ڈر محسوس ہوتا ہے ، پھر بھی ہمت کر کے کمنٹس کر رہا ہوں
    اگر اسلامی نقطہ نظر سے دیکھا جائے تو ہمیں یہ بھی دیکھنا چاہیے کہ ہمارے نبی پاک (ص) کی چار بیٹیاں زینب (رض) ، فاطمہ (رض) ام کلثوم (رض) اور رقیہ (رض) تھیں اور بیٹے تین تھے جبکہ ام مومنین کی تعداد میرے خیال سے دس سے اوپر ہے گیارہ یا بارہ
    اور تمام اولاد نرینہ بھی اللہ کی رضا کے ساتھ طویل عمر نہیں پا سکے تھے باقی چار بیٹیاں ہی تھیں
     
  16. کنعان
    آف لائن

    کنعان ممبر

    شمولیت:
    ‏25 جولائی 2009
    پیغامات:
    729
    موصول پسندیدگیاں:
    977
    ملک کا جھنڈا:
    حضرت مولانا! خاندانی منصوبہ بندی کی حمایت کیوں؟


    آج کل ٹی وی چینلز پر خاندانی منصوبہ بندی کے حوالے مختلف اشتہارات چل رہے ہیں، جس میں حضرات علمائے کرام اور مولانا حضرات، چھوٹے خاندان پر تلقین کرتے دکھائی دیتے ہیں. ان کی خدمت میں چند سوالات پیش کیے جا رہے ہیں، امید ہے کہ وہ جواب سے نوازیں گے.

    (1) انسان اشرف المخلوقات ہے یا بہت سے مخلوقات سے اشرف ہے؟ قرآن کے نص سے کیا ثابت ہوتا ہے؟

    (2) بہتر زندگی کی تعریف کیا ہے؟ قرآن و سنت کی نظر میں بہتر زندگی سے کیا مراد ہے؟ بہتری کا پیمانہ آپ نے مغرب سے لیا ہے یا اسلام سے؟

    (3) مناسب حکمت عملی کیا ہوتی ہے؟ قرآن و سنت کیا بتاتے ہیں؟

    (4) اچھی تعلیم کسے کہتے ہیں؟ پندرہ سو سال تک 1924ء میں خلافت عثمانیہ کے خاتمے تک مسلمانوں کو کون سی اچھی تعلیم دی جاتی تھی؟اس زمانے میں اسکول تھے نہ کالج اور نہ یونیورسٹی، تو کیا مسلمان جاہل تھے، تعلیم سے محروم تھے، اب وہ پڑھے لکھے ہو گئے ہیں، یہ تعلیم کیا فرض ہے؟ سرسید تو کہتے تھے کہ سیکولر تعلیم آدمی کو مذہب سے دور کرتی ہے، مغرب سے محبت پیدا کرتی ہے مگر مجبوری ہے، میں اپنے علم الکلام سے اس کی خرابی ٹھیک کروں گا۔ آپ کہہ رہے ہیں یہ اچھی تعلیم ہے تو سرسید غلط تھے یا آپ غلط ہیں؟

    (5) قرآن و سنت میں کہاں لکھا ہے کہ چھوٹا خاندان ہو تو زندگی آسان ہوتی ہے، بڑا خاندان ہو تو زندگی مشکل ہوتی ہے۔ صحابہ کرام، اکابرین کے خاندان بڑے بڑے تھے توکیا وہ سب مشکل کی زندگی گزارتے تھے۔ آپ کیا کہہ رہے ہیں؟

    (6) جس حکم خداوندی کو آپ پیش کر رہے ہیں، اس کا اصل مطلب اور محمل کیا ہے؟ اس حکم خداوندی کے نیچے جو کچھ آپ نے لکھا یا آپ سے لکھوایا گیا ہے، کیا وہ اس سے میل کھاتا ہے؟

    ( 7) اگر بچوں کی پیدائش میں وقفہ نہ ہو تو ان کی تربیت نہیں ہو سکتی، یہ قرآن کے کس نص سے ثابت ہے؟ تربیت کا تعلق وقفے سے کب ہو گیا ہے؟ یہ سبق آپ نے کس آیت اور کس حدیث سے لیا ہے؟ اسلامی علمیت میں تو یہ بحث کبھی نہیں ہوئی، آج اس بحث نے کیسے جنم لیا اور کیوں؟

    بہتر پرورش کیا ہوتی ہے؟ قرآن و سنت بہتر پرورش کا کیا معیار بتاتے ہیں؟
    حکومت سندھ اور حکومت پاکستان تو تعلیم، پرورش، تربیت، معیار زندگی کے تمام معیارات مغرب سے مستعار لیتی ہے۔ آپ کن معیارات کی بات کر رہے ہیں؟

    (9) بچوں کو اچھی زندگی کا حق دینے کا کیا مطلب ہے؟ اچھی زندگی کیا ٹی وی، کمپیوٹر، گاڑی، موبائل یا کچھ اور؟ کم بچوں اور چھوٹے خاندان کی زندگی اچھی ہوتی ہے تو کیا زیادہ بچوں، بڑے خاندان کی زندگی بہت بری ہوتی ہے؟ یہ سب باتیں، الفاظ، اصطلاحات کہاں سے سیکھی جا رہی ہیں؟ آپ کے بیان سے تو یہ معلوم ہو رہا ہے کہ جو لوگ زیادہ بچے، بڑا خاندان بناتے ہیں، وہ احمق اور بے وقوف ہوتے ہیں کیونکہ سمجھداری میں خوشیاں ہوتی ہیں اور سمجھ دار وہ ہے جس کا خاندان چھوٹا ہے، اس کی زندگی آسان ہے؟

    (10) کسی صحابی، عالم کا خاندان چھوٹا نہیں تھا، عام آدمی کا خاندان بھی 1970ء تک بڑا ہوتا تھا، یہ سبق آپ کو کون پڑھا رہا ہے کہ بڑا خاندان آفت ہے، مصیبت ہے، لعنت ہے؟ آپ تو اپنی تاریخ کا انکار کر رہے ہیں۔ حضرت مولانا، یہ بیان آپ کا نہیں ہے، یہ پاپولیشن ویلفیئر ڈپارٹمنٹ کا ہے جو امریکہ سے آیا ہے۔ آپ نے بغیر پڑھے، بغیر سوچے، بغیر سمجھے دستخط کر دیے ہیں۔ اپنی تصویر بھی چھپوا دی ہے، کیا یہ آپ کو زیب دیتا ہے؟ آپ عالم دین ہیں اور آپ اپنی تاریخ کا، اسلام کا، قرآن کا، دین کے احکامات کا خود ہی انکار کر رہے ہیں؟

    (11) کل تک آپ خاندانی منصوبہ بندی کے خلاف تھے، اور آج اس سے متعلق اشتہارات کا حصہ بن رہے ہیں، آپ کل غلط تھے یا آج غلط ہیں؟


    تحریر: عثمان حبیب
    01/02/2017

     
    نعیم نے اسے پسند کیا ہے۔

اس صفحے کو مشتہر کریں