1. اس فورم پر جواب بھیجنے کے لیے آپ کا صارف بننا ضروری ہے۔ اگر آپ ہماری اردو کے صارف ہیں تو لاگ ان کریں۔

کماؤ سوچ

'اردو ادب' میں موضوعات آغاز کردہ از مقصود حسنی, ‏8 مارچ 2017۔

  1. مقصود حسنی
    آف لائن

    مقصود حسنی ممبر

    شمولیت:
    ‏2 مارچ 2017
    پیغامات:
    23
    موصول پسندیدگیاں:
    16
    ملک کا جھنڈا:
    کماؤ سوچ

    منسانہ


    لمبی کمائی منفی ہو کہ مثبت‘ اس کے لیے محنت‘ مشقت اور کوشش ہی کافی نہیں ہوتی‘ منصوبہ بندی کرنے کی بھی ضرورت ہوتی ہے۔ منصوبہ بندی کے لیے سوچنا پڑتا ہے۔ کمائی کے لیے سود مند اور کماؤ سوچ کی ضرورت ہوتی ہے۔ تخلیقی اور حصولی سوچ کے مالکوں کے کھیسے ہمیشہ بھرے رہتے ہیں ہاتھ سے نکلتی دولت بھی‘ اپنے ساتھ مزید کچھ نہ کچھ یا کچھ نہ کچھ سے بہت زیادہ‘ سمیٹ کر واپس لوٹتی ہے۔ جوں ہی سوچ کے دائرے سکڑتے یا کسی فکری یا حادثاتی انقلاب کے باعث محدود پڑتے ہیں‘ مزید تو دور کی بات‘ گرہ لگی بھی جفارکاری پر اتر آتی ہے۔

    سیٹھ بہشتی لال نے کمال کا دماغ پایا تھا۔ شاطر سے شاطر لوگوں کی جیب پر بلاتکلف اور باآسانی قنچی چلا جاتا تھا۔ ساری عمر اس نے مال کھینچے کے ہنر آزمانے میں بتا دی تھی۔ بڑھاپے میں جانے بسنتو اس کی زندگی میں کیسے آ گئی۔ وہ مردوں کے حواس پر گرفت کرنے میں اپنا جواب نہیں رکھتی تھی۔ سیٹھ بہشتی لال بھلا اس کے سامنے کیا دم رکھتا تھا۔ خیر یہ تو اپنی اپنی فیلڈ ہوتی ہے۔ اپنی فیلڈ میں مہارت اور نت نئے تجربے ہی کامیابیوں سے ہم کنار کر سکتے ہیں۔ سیٹھ جو کسی کو جوں مار کر نہیں دیتا تھا کی پائی پائی کمال ہنرمندی سے بسنتو نے ہتھیا لی تھی۔

    سیٹھ نے بہت غور کیا دماغ لڑایا لیکن کچھ سمجھ میں نہ آ سکا۔ بسنتو نے جہاں مال کھینچا وہاں اس کے سوچ کا بھی ستیاناس مار دیا تھا۔ پھر اس نے اخبار میں اشتتہار دیا کہ ایک ذہین اور ہوشیار ملازم کی ضرورت ہے۔ کامیاب امیدوار کو ستر ہزار روپیے تنخواہ دی جائے گی۔ بہت سے امیدوار آئے لیکن کوئی منتخب نہ ہو سکا۔

    دینا لال نے بھی انٹرویو دیا۔ سیٹھ کو وہ کام کا لگا اس لیے اسے منتخب کر لیا گیا۔ دینا لال دلالی کا دھندا کرتا تھا۔ اپنے علاقے کا شاطر ترین سمجھا جاتا تھا۔ معقول کما لیتا تھا لیکن ستر ہزار ماہانہ کمانا تو وہ خواب میں بھی نہیں سوچ سکتا تھا۔

    متخب ہو جانے کے بعد اس نے سیٹھ سے اپنے کام کی تفصیلات دریافت کیں۔ سیٹھ نے جوابا کہا کہ تمہیں یہ سوچنا ہو گا کہ تین لاکھ کہاں سے آئیں۔

    جی! تین لاکھہاں ہاں تین لاکھ ۔۔۔۔۔ ستر ہزار تمہارے دو لاکھ تیس ہزار میرے

    وہ کل آنے کی کہہ کر چلا گیا۔

    اگلے دن وہ وقت پر ا گیا اور کہنے لگا: آپ کی کمائی گاہ کافی بڑی ہے۔ بسنتو ایسی بہت سی پھل جھڑیاں آئیں گی بل کہ میں بقلم خود لا سکتا ہوں۔ پھر دیکھنا شہر کے امیر کبیر رئیس اعلی ملازم کس طرح آتے ہیں اور آپ کے چرن چھوتے ہیں۔ باقی گل بات‘ خدمت اور دیکھ بھال کے لیے میں ہوں نا۔

    سیٹھ کو اس کا مشورہ پسند آ گیا۔ انہوں نے کہا: گل بات میں خود کر لوں گا۔ تم مناسب اور صاف ستھرا مال لانا دیکھ بھال کرنا اور ٹپ مٰیں سے آدھا میرا ہو گا۔ تمہیں ماہانہ ستر ہزار ملتے رہیں گے۔

    ٹپ پر تھوڑا تکرار ہوا اور پھر مک مکا ہو ہی گیا۔

    کام چل نکلا۔

    بڑے بڑے شریف اور معزز بستو نواز اس حسن گاہ کا طواف کرنے لگے۔ مال و دولت ہی ہاتھ نہ لگے بڑی کلغیوں والے سلام دعا میں داخل ہو گئے۔
     
    ھارون رشید نے اسے پسند کیا ہے۔

اس صفحے کو مشتہر کریں