1. اس فورم پر جواب بھیجنے کے لیے آپ کا صارف بننا ضروری ہے۔ اگر آپ ہماری اردو کے صارف ہیں تو لاگ ان کریں۔

ڈرامہ اکبر ( آزاد )

'کتب کی ٹائپنگ' میں موضوعات آغاز کردہ از ساتواں انسان, ‏19 اکتوبر 2020۔

  1. ساتواں انسان
    آف لائن

    ساتواں انسان ممبر

    شمولیت:
    ‏28 نومبر 2017
    پیغامات:
    7,190
    موصول پسندیدگیاں:
    2,273
    ملک کا جھنڈا:
    صفحہ 3
    دیباچہ
    زبان اردو کی عمر کی طرف خیال کرو تو حیرت ہوتی ہے کہ یہ کیا تھی ، کیا ہوگئی ۔ کل کی بات ہے کہ اس میں کچھ نہ تھا مگر آج سب کچھ ہے اور جس تیزی کے ساتھ یہ ترقی کے رستوں پر بڑھ رہی ہے امید بندھتی ہے کہ ایک نہ ایک دن یہ بیل ضرور منڈھے چڑھ کر رہے گی ۔ اس وقت کون سی شے ہے جو اس میں نہیں اور کون سا پھول ہے جو یہ نہیں کھلاتی مگر یہ تمام خوبیاں کسی زبان میں ایک ساتھ نہیں آیا کرتیں ۔ اول اول جن ٹبیوں سے مل کر یہ رستے بنے ہیں اگر آج ان پر پھر کر
     
    ملک بلال اور شکیل احمد خان .نے اسے پسند کیا ہے۔
  2. ساتواں انسان
    آف لائن

    ساتواں انسان ممبر

    شمولیت:
    ‏28 نومبر 2017
    پیغامات:
    7,190
    موصول پسندیدگیاں:
    2,273
    ملک کا جھنڈا:
    صفحہ 4
    نظر ڈالیں تو تعجب آتا ہے کہ اوہو ہم پیدل تھے ۔ کس قدر جلدی سوار ہوگئے ۔
    اسی طرح اردو میں ڈرامہ لکھنا آج کچھ بڑی بات نہیں ۔ جس نے چند انگریزی اردو کی کتابیں پڑھی ہوں کچھ ناول دیکھے ہوں ۔ تھیٹروں کی زیارت سے مشرف ہوا ہو ، کہیں دل دیا ہو کہیں لیا ہو ۔ اچھا خاصہ ڈرامہ ٹسٹ ہوسکتا ہے ۔ مگر تعجب اور آفرین ہے اس حالت پر جبکہ انشا پروازی کے درخت میں یہ شاخ بالکل نہ تھی ۔ نہ کبھی کسی کو خیال تھا ۔ ایسی حالت میں زمین سخن میں نئی قلم لگانا ، پھر شاخ و برگ کا نکلنا ، گل پھول کا کھلنا دراصل ایک بڑی بات ہے ۔
    اول اول میاں باوا کے دل میں یہ خیال آیا تو انہوں نے اپنے شاگردوں سے شکسپئیر کے انگریزی ڈرامہ سننے شروع کیے ۔ ان کے مضامین کو سمجھا ۔ ان کے مطالب پر اردو میں
     
    ملک بلال اور شکیل احمد خان .نے اسے پسند کیا ہے۔
  3. شکیل احمد خان
    آف لائن

    شکیل احمد خان ممبر

    شمولیت:
    ‏10 نومبر 2014
    پیغامات:
    1,524
    موصول پسندیدگیاں:
    1,149
    ملک کا جھنڈا:
    بھائی یہ قصہ جاری رکھیں ۔بہت خوبصورت پیرایۂ بیان ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔واہ!
    ۔۔۔۔۔۔اب مجھے یقین ہوگیا ایک اچھا نثری ٹکڑا وہی اثر رکھتا ہے جوایک اچھے شعر میں ہوتا ہے۔۔۔۔۔۔۔واہ واہ!
    پس۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ہمیں وہ مواقع ضائع نہیں کرنا چاہئیں جب ایسی خوبصورت اور شاعرانہ نثر ماہرانہ انداز میں یوں
    لکھی جائے کہ خامہ اور ناطقہ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ایک انگشت بدنداں رہ جائے کہ اسے کیا لکھیے۔۔۔۔۔اور ایک سربہ
    گریباں کہ اِسے کیا کہیے؟شعر یا نثرسحر یا اعجاز یا اِس سے بھی بڑھ کر۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔!
     
    Last edited: ‏19 اکتوبر 2020
    ملک بلال اور ساتواں انسان .نے اسے پسند کیا ہے۔
  4. ساتواں انسان
    آف لائن

    ساتواں انسان ممبر

    شمولیت:
    ‏28 نومبر 2017
    پیغامات:
    7,190
    موصول پسندیدگیاں:
    2,273
    ملک کا جھنڈا:
    صفحہ 5
    پھیلاؤ پھیلائے ۔ بلکہ ایک دفعہ پرنسپل صاحب گورمنٹ کالج کی فرمائش سے میکبتھ کا اردو ترجمہ بھی شروع کیا ۔ جس کا ابتدائی حصہ اس زمانہ کے رومن اخبار میں نکلا ۔ شاید یہ ڈرامہ پورا ترجمہ کرلیا ہو ۔ مگر مجھے اس وقت تک اس کا ابتدائی حصہ ہاتھ آیا ہے وہ بھی خوب ہے ۔ اس چھوٹے سے ٹکرے سے طبعیت کی پہنچ اور مذاق سلیم کا ذوق معلوم ہوتا ہے ۔ لیکن قیاس کہتا ہے کہ اس ڈرامہ کے ترجمہ سے ان کی اپنی طبعیت کچھ خوش نہ ہوئی ۔ کیونکہ شکسپئیر کا ڈرامہ ایک غیر ملک کے واقع ہیں ہم لوگ ان میں دل لگائیں بھی تو کس قدر ۔ جب تک کہ ان کے تمدن ، تعلیم ، اخلاق معیار تعشق کو اپنے میں جذب نہ کرلیں ۔ ان کا پورا پورا لطف اٹھانا ناممکن سا ہے ۔
    اسی وجہ سے مولانا نے فورا جہانگیر اور نورجہاں کا ڈرامہ لکھنا شروع کردیا ۔ کیونکہ ہندوستان بھر میں خاص مشہور عشقیہ قصوں
     
    ملک بلال اور شکیل احمد خان .نے اسے پسند کیا ہے۔
  5. ساتواں انسان
    آف لائن

    ساتواں انسان ممبر

    شمولیت:
    ‏28 نومبر 2017
    پیغامات:
    7,190
    موصول پسندیدگیاں:
    2,273
    ملک کا جھنڈا:
    صفحہ 6
    میں سے ضرور ایک ہوسکتا ہے ۔ یہ تمام واقع 1885ء کے قریب کا ہے ۔ اس عرصہ میں تھوڑا سا حصہ تیار ہوا کہ دیوانگی نے قلم چھین لیا ۔ اس کے بعد عرصہ تک کسی کو خبر بھی نہ ہوئی کہ 1906ء میں مکرم و معظم شیخ عبدالقادر صاحب نے یہ مختصر سا حصہ مخزن میں چھپوا کر طبعیتوں کو بےچین کردیا ۔ اور ہر طرف سے تعجب اور افسوس کی صدائیں بلند ہوئیں ۔ اس کے سوائے ہو بھی کیا سکتا تھا ۔
    اب اتفاقا مجھے مولانا کے دست مبارک کا لکھا پوا ایک پرانا سا کاغذ ملا ۔ جس پر انہوں نے آئندہ ڈرامہ کے لئے ایکٹ لکھے تھے ۔ وہ کاغذ میں نے اپنے بزرگ و محترم جناب حکیم سید ناصر نذیر صاحب فراق دہلوی کی خدمت میں روانہ کردیا کیونکہ میرا ذاتی خیال ہے خواہ تمام اردودان اس پر متفق نہ ہوں کہ آج ہندوستان میں سلیس اور دردانگیز اردو لکھنے والا
     
    ملک بلال اور شکیل احمد خان .نے اسے پسند کیا ہے۔
  6. ساتواں انسان
    آف لائن

    ساتواں انسان ممبر

    شمولیت:
    ‏28 نومبر 2017
    پیغامات:
    7,190
    موصول پسندیدگیاں:
    2,273
    ملک کا جھنڈا:
    صفحہ 7
    ان کے سوائے کوئی نہیں ۔ اس پر مولانا آزاد کی شاگردی کا طرہ ان کے لئے سند اور قبالہ ہے ۔ جہاں بات کی گنجائش ہی نہیں ۔
    غرض کہ میر صاحب نے حق شاگردی ادا کیا اور خوب ادا کیا ۔ نہایت محنت اور احسان فرما کر اپنے استاد کی نایاب بنیادوں پر ایک مستحکم عمارت چن دی ۔ جس کا شکریہ جب تک یہ ڈرامہ قائم ہے ہوتا رہے گا ۔ اب رہا یہ سوال کہ پیوند کیسا رہا تو آج ڈرامہ لکھنے والے بہت ۔ مگر ادب اور مذاق زباندانی سے نابلد ۔ حضرت آزاد کی تصنیف کا درد کسے ۔ ان تمام باتوں پر غور کرتے ہوئے یہ ہی غنیمت معلوم ہوگا ۔ خواہ لوگ زربفت میں ٹاٹ ہی کیوں نہ کہیں ۔ اور سب سے زیادہ احسان میر صاحب کا یہ ہے کہ انہوں نے اپنے استاد کی ایک نامکمل بہت جلد مٹ جانے والی ، تھوڑے عرصے میں بھول جانے والی
     
    ملک بلال اور شکیل احمد خان .نے اسے پسند کیا ہے۔
  7. ساتواں انسان
    آف لائن

    ساتواں انسان ممبر

    شمولیت:
    ‏28 نومبر 2017
    پیغامات:
    7,190
    موصول پسندیدگیاں:
    2,273
    ملک کا جھنڈا:
    صفحہ 8
    تصنیف کو ہمیشہ ہمیشہ کے لئے کیسا محفوظ کردیا ۔ ورنہ وہ کبھی کا ناپید ہوچکا ہوتا ۔ اس کے ساتھ ساتھ میر صاحب کا تاریخی مذاق قابل داد ہے ۔ اگرچہ بعض جگہ ان کا اپنا اصلی رنگ جو تاریخی قصوں میں ہندوستان بھر میں ان کا خاص حصہ ہے ، جھلک مارنے لگتا ہے ۔ اور ڈرامہ کا نقشہ ذرا پھیکا پڑ جاتا ہے مگر یہ تمام خوبیاں اب مولانا کے ڈرامہ کی بقا اور میر صاحب کی تعریف کے ساتھ زندہ رہیں گی اور حق شاگردی پر سند ہوکر چمکیں گی ۔
    دعا کا محتاج
    طاہر نبیرہ آزاد
    2 نومبر 22ء
     
    ملک بلال اور شکیل احمد خان .نے اسے پسند کیا ہے۔
  8. ساتواں انسان
    آف لائن

    ساتواں انسان ممبر

    شمولیت:
    ‏28 نومبر 2017
    پیغامات:
    7,190
    موصول پسندیدگیاں:
    2,273
    ملک کا جھنڈا:
    صفحہ 9
    ڈرامہ اکبر
    پہلی جھلک
    وقت کا فرشتہ ہوں ۔ میرے پروں کی قینچی اطلس زمانہ کو کترتی چلی جاتی ہے ۔ میری بغل میں انقلابوں کا ذخیرہ ہے ۔ ابھی خوشی ابھی ملال ۔ ابھی بدر ابھی ہلال ۔ ابھی اوج ابھی زوال ۔ ابھی بارش ابھی خشک سال ۔ ابھی خزاں ہے ابھی بہار ہے یہ جنگل ہے یہ گلزار ہے ۔ پر اسی سے اس کی بہار ہے یہ نہ ہو تو وہ بےکار ہے ۔ مدت تک خون خرابے شور شرابے ہوئے
     
    ملک بلال اور شکیل احمد خان .نے اسے پسند کیا ہے۔
  9. ساتواں انسان
    آف لائن

    ساتواں انسان ممبر

    شمولیت:
    ‏28 نومبر 2017
    پیغامات:
    7,190
    موصول پسندیدگیاں:
    2,273
    ملک کا جھنڈا:
    صفحہ 10
    اب ذرا اعتدال کا موسم آیا ہے ۔ الہی تیرا شکر اتفاق کا شرف اختلاف برطرف ۔ آگ پانی کا میل ۔ بلکہ پانی آگ پر تیل مچھلیاں چاہیں تو ہوا میں اڑیں ۔ کبوتر چاہیں تو پانی میں رہیں ۔ ہاں ورق الٹ جا ۔ زمانے پلٹ جا ۔ دوئی ہٹ جا ۔ رات دن ہوجا ۔ فتنے سوجا ۔ صبا بہار کو بلالے ۔ بہار پھول کھلادے ۔ نیساں موتی برسا ۔ ہوا جہاز کنارے لگا ۔ سورج سونا بنا سخاوتیں ہوں گی جہاز و جنس منفعت اتارو تجارتیں ہوں گی ۔ عالمو آو خوشخوانیاں کریں ۔ ہنرمندوں کی قدردانیاں کریں اکبر بادشاہ کلانور میں تخت نشین ہوچکا فرمان جاری ہوگئے
    سوار خانخانا کے ڈیرے پر آیا
    سوار _ خانخانا کا خیمہ کدھر ہے ۔
    پہرہ دار شاہی _ وہ جہاں سرخ نشان لہرا رہا ہے
    خدمتگار خیرباشد _ کہاں سے ؟ بہت ہی گھبرائے نظر
     
    ملک بلال اور شکیل احمد خان .نے اسے پسند کیا ہے۔
  10. ملک بلال
    آف لائن

    ملک بلال منتظم اعلیٰ سٹاف ممبر

    شمولیت:
    ‏12 مئی 2010
    پیغامات:
    22,418
    موصول پسندیدگیاں:
    7,511
    ملک کا جھنڈا:
    صفحہ 11

    آتے ہو۔
    سوار۔ جلدی اطلاع دو۔ دلی سے کمر باندھ کے پھر نہیں کھولی
    خدمتگار۔ حضور دلی سے سوار آیا ہے۔
    خانخانا۔ ابھی ابھی ابھی۔
    (سوار داخل ہوا اور آداب بجا لایا)
    خانخانا۔ چہرہ روشن ہے اور قدم بڑھا ہوا پڑتا ہے کہ ڈالو بہادر کیا خوشخبری لائے۔
    سوار۔ ان شاءاللہ۔ انجام خوشخبری سے (خط) ملاحظہ فرمائیں۔
    (خانخانا خط لئے اکبر کے پاس آیا)
    اکبر۔ خان بابا خیر باشد؟
    خانخانا۔ سوار دلی کا چلا ہوا اسی وقت آیا ہے۔ اور خبر لایا ہے کہ ہیمو نے دارالخلافہ لے لیا۔
    اکبر۔ اللہ اللہ، ہیمو جھیمو اب کیا کرنا چاہیے۔
     
  11. ملک بلال
    آف لائن

    ملک بلال منتظم اعلیٰ سٹاف ممبر

    شمولیت:
    ‏12 مئی 2010
    پیغامات:
    22,418
    موصول پسندیدگیاں:
    7,511
    ملک کا جھنڈا:
    صفحہ 12

    خانخانا۔ ؎
    درہمہ کار مشورت باید
    کارِ بے مشورت نکو ناید
    اکبر۔ بہت مناسب ہے اہلِ مشورت کو بلاؤ۔
    (خان اعظم۔ منعم خان۔ خضر خواجہ داخل ہوئے)
    خانخانا۔ اے اراکین مملکت۔ اے اساطین سلطنت۔ تم سے قائم ہے سلطنت۔ تم سے دائم ہے مملکت ؎
    ابھی جانبِ مشرق سے اک سوار
    سوارِ سرِ توسن اضطرار
    یہ دہلی سے آیا ہے لے کر خبر
    کہ عدلی کا موذی وہ ہیمو ڈھوسر
    لئے ساتھ اک لشکرِ بیشمار
    کہ تھے جس میں فیلانِ جنگی قطار
    بنگالہ سے چلا ایک ہی میدان میں لشکرِ شاہی کو ہٹا دیا۔ اب دہلی کو جیت کر بکرما جیت کا لقب لیا ہے اور بڑھا چاہتا ہے۔ ؎
    کرو مشورت اس میں اور دو صلاح
    پٔے ملک و دولت جو کچھ ہو صلاح
     
  12. ملک بلال
    آف لائن

    ملک بلال منتظم اعلیٰ سٹاف ممبر

    شمولیت:
    ‏12 مئی 2010
    پیغامات:
    22,418
    موصول پسندیدگیاں:
    7,511
    ملک کا جھنڈا:
    صفحہ 13

    (سب دم بخود)
    خان اعظم۔ ایسے نازک وقت میں کہ جنت مکانی نے ابھی استقلال بھی نہ پایا تھا۔ ان کا مر جانا۔ اس پر بنگال سے دلی تک دفعتہً ہاتھ سے نکل جانا اور پھر مقابلہ پر ایسے دشمن قوی کا آنا نہایت خطر کا مقام ہے۔
    خضر خواجہ۔ پناہ بخدا۔ اگلے پچھلے انقلاب سامنے کھڑے ہیں۔ اس وقت مصلحت تو یہی ہے کہ اطمینان کے ساتھ کابل میں چل بیٹھیں۔ چڑھے سال خاطر خواہ بندوبست کر کے ادھر آئیں۔
    خانخانا۔ آج کچھ نہ ہوا تو سال آئندہ کیا ہو گا۔ بادشاہ تو لڑکا ہے۔ خواہ بدنامی۔ خواہ نیک نامی جو کچھ ہے تمہارے سر ہے۔ دال خور بنئے کے سامنے سے ہٹ جانا بڑی شرم کی بات ہے۔
     
  13. ملک بلال
    آف لائن

    ملک بلال منتظم اعلیٰ سٹاف ممبر

    شمولیت:
    ‏12 مئی 2010
    پیغامات:
    22,418
    موصول پسندیدگیاں:
    7,511
    ملک کا جھنڈا:
    صفحہ 14

    خضر خواجہ۔ نہیں اسے ہٹنا نہیں کہتے۔ سال آئندہ کچھ دور نہیں۔
    خان اعظم۔ نازک وقت ہے۔ حضور کے دادا کا زمانہ دیکھا۔ شاہ جنت مکان کا عہد دیکھا۔ خدا کی پناہ۔ فلک نے پھر وہی وقت دکھایا۔
    شیخ گدائی۔ اپنے ملکوں میں ایک جگہ بات بگڑی تو دوسری جگہ ٹھکانا ملنا بھی آسان ہے۔ اس غیر ملک غیر قوم میں انسان کیا کرے۔
    (اکبر اور خانخانا میں سرگوشی)
    اکبر۔ خان بابا تم کہو۔
    خانخانا۔ ناحق ہمت ہارے دیتے ہیں۔ کچھ بگڑا نہیں۔ ناحق بنی بنائی سلطنت ہاتھ سے دیتے ہیں۔
    اکبر۔ تب کرنا کیا چاہیے۔ میں تو کچھ جانتا نہیں۔
    خانخانا۔ میری یہ لوگ ماننے کے نہیں۔ مگر دستِ اقبال حضور کا
     
  14. ملک بلال
    آف لائن

    ملک بلال منتظم اعلیٰ سٹاف ممبر

    شمولیت:
    ‏12 مئی 2010
    پیغامات:
    22,418
    موصول پسندیدگیاں:
    7,511
    ملک کا جھنڈا:
    صفحہ 15

    سر پر ہو تو سب آسان ہے۔
    اکبر۔ میں نے کل اختیار تمہیں دیا۔ تم پھر سلسلہ جنبانی کرو۔ دیکھو میں کیا کہتا ہوں۔
    خانخانا۔ اے اراکین صاحبِ تمکین۔ جوہرِ تیغ تم میں نقش نگین خیال کرو کہ ابھی جن جن کی رفاقت کا تم نے دم بھرا۔ ان اولوالعزموں نے کیسی کیسی تلواریں مار کر یہ ملک لیا۔ اور شہر طہران ایران و توران میں ہمارا تمہارا نام روشن کیا۔ وہ دنیا سے گئے اور اس گلِ نو شگفتہ کو تمہارے دامنِ جاں نثاری میں چھوڑ گئے۔ اگر آج چپ چپاتے ہم تم یہاں سے سفید ڈاڑھیوں میں جانیں چھپا کر نکل گئے تو سلاطین روئے زمین یہی کہیں گے کہ بادشاہ تو لڑکا تھا۔ ان بڈھوں کو کیا ہوا کہ ایک ڈھوسر کے سامنے سے نوک دم بھاگ گئے۔ خوب باپ دادا کا حق نمک ادا کیا۔ کیا کروں مجھ سے تو مروت کی آنکھوں میں خاک نہیں دالی جاتی۔
     
  15. ملک بلال
    آف لائن

    ملک بلال منتظم اعلیٰ سٹاف ممبر

    شمولیت:
    ‏12 مئی 2010
    پیغامات:
    22,418
    موصول پسندیدگیاں:
    7,511
    ملک کا جھنڈا:
    صفحہ 16

    خان اعظم۔ نامردی کی تو کچھ بات نہیں۔ سپاہی وہی ہے جو موقع دیکھ کر جان پر کھیلے۔ فقط اتنی بات ہے کہ خضر خواجہ سالِ آئندہ پر ملتوی رکھتے ہیں۔
    خانخانا۔ اگر مرنا ہے تو اب بھی مرنا۔ برس دن بعد بھی مرنا۔ البتہ اب دلی سے ملک لینا ہے پھر بہت دور سے لینا پڑے گا۔ اور سنو صاحب ایک دفعہ مر کر پھر مرنا نہیں۔ برائے خدا اس سفید ڈاڑھی پر میرا منہ کالا نہ کراؤ۔ اتنے دن جئے تو کیا لیا، بڑھاپے میں برس دن اور جیئو گے تو کیا لے لیں گے۔ آگے جو حضور فرمائیں۔
    اکبر۔ خان بابا۔ تمہاری رائے بالکل درست۔ کوئی جائے خواہ رہے۔ ہم تمہارے ساتھ ہیں۔ ؎
    مست کی جام سے گذرتی ہے
    یا دلآرام سے گذرتی ہے
    بوالہوس کی جہانِ فانی میں
    درم و دام سے گذرتی ہے
     
  16. ملک بلال
    آف لائن

    ملک بلال منتظم اعلیٰ سٹاف ممبر

    شمولیت:
    ‏12 مئی 2010
    پیغامات:
    22,418
    موصول پسندیدگیاں:
    7,511
    ملک کا جھنڈا:
    صفحہ 17

    خود غرض کی غرض پرستی میں
    جان خود کام سے گذرتی ہے
    دم و لیکن ہوا ہے زرہے خاک
    مرد کی نام سے گذرتی ہے
    جو ہو سو ہو اب یہیں کابل اور یہیں بابل۔ جانا کہاں اور پھر آنا کہاں۔ یا تخت یا تختہ۔
    (سب دم بخود)
    خانخانا۔ پھر اب کیا حکم ہے؟
    اکبر۔ بس حکم کیا۔ کہو لشکر تیار ہو۔ ہمت مرداں مددِ خدا۔ ان میں سے کوئی صورت ایسی نہیں نظر آتی جو مجھے چھوڑ کر چلی جائے۔
    ۔۔۔۔۔۔۔۔۔
    آغا اقبال خواجہ سرا۔ حضور یہ کس کی تصویر ہے۔
    اکبر۔ ہیمو کی۔
    آغا اقبال۔ یہ بند بند الگ؟
    خانخانا۔ ان شاءاللہ ایسا ہی دیکھیں گے۔
     
  17. ملک بلال
    آف لائن

    ملک بلال منتظم اعلیٰ سٹاف ممبر

    شمولیت:
    ‏12 مئی 2010
    پیغامات:
    22,418
    موصول پسندیدگیاں:
    7,511
    ملک کا جھنڈا:
    صفحہ 18

    آغا اقبال۔ کوئی سوار ہے کہ کوڑا مارے چلا آتا ہے۔
    اکبر۔ لانا ہماری دوربین۔ اوہو نظر قلی ہے۔
    نظر قلی۔ حضور فتح مبارک۔
    اکبر۔ خان بابا! اسے خوشخبر خاں کا خطاب دینا چاہیے۔ کہو خوشخبر خاں میدان جنگ کا کیا ڈھنگ ہوا؟
    نظر قلی۔ اقبال خداوندی زیاد۔ غنیم نے پانی پت کو پشت پر رکھ کر فوج ڈالی تھی۔ اور اس کے قبضے میں نہر کی نالی تھی۔ سوار پیادے بے ٹھکانے اور ساتھ کئی توپخانے تھے۔ دلی سے لشکر تک رسد کا بھی تانتا لگا تھا۔ غرض سپاہ گری کے رو سے کسی بات کی کسر نہ تھی مگر کل کا ذکر ہے کہ رستم ثانی حضور کا سیستانی توپخانہ ہاتھوں پر گھسیٹ لایا۔ غنیم نے اس پر بھی پروا نہ کی۔ اسے بڑا گھمنڈ ہاتھیوں کا تھا۔ کہ سارے بنگالہ کے ہاتھی سمیٹ لایا تھا۔ حضور! ایک کجلی بن تھا کہ کالی گھٹا کی طرح کھڑا جھوم رہا تھا۔ غرض کہ ہمارے لشکر میں بھی اگرچہ کئی دن سے بخیالِ شبخوں رات
     
  18. ملک بلال
    آف لائن

    ملک بلال منتظم اعلیٰ سٹاف ممبر

    شمولیت:
    ‏12 مئی 2010
    پیغامات:
    22,418
    موصول پسندیدگیاں:
    7,511
    ملک کا جھنڈا:
    صفحہ 19

    آنکھوں میں کٹتی تھی مگر آج کی رات دونوں طرف برچھی کی انی پر گذری۔ پچھلے پہر رات تھی جو ہاتھیوں کی ٹاپوں نے کان گنگ کر دئیے ۔ اتنے میں خبردار نے آ کر خبر دی کہ 15سو جنگی ہاتھی لوہے میں غرق ہو کر میدان میں سدِ سکندر ہو گیا۔ دایاں بایاں آگا پیچھا افغانوں کے پیاادوں اور سواروں سے درست کر کے بیچ میں خود ہیمو یراق جنگی سج کر تیر کمان ہاتھ میں لئے اہوائی نام ہاتھی پر صندوقی ہودہ میں بیٹھ، قلب میں قائم ہو گیاہے۔ یہ سن کر حضور کا سیستانی شیر جاں نثارانِ دلیر کو لے کر شیر کی طرح بپھرا ہوا نکلا۔ صبح ہوتے ہوتے ادھر بھی قلعہ فولاد قائم تھا۔ ابھی دمامۂِ جنگی پر چوٹ نہ پڑتی تھی کہ وہ گنیش موذیوں کی قطار بادل کی طرح گرجتی آگے بڑھی اور ہاتھیوں کی ہتھیائی سے آگا ہماری فوج کا پیچھے ہٹا۔ اتنے میں داہنی طرف سے پٹھانوں نے ایسا سخت حملہ کیا کہ دائیں کو الٹ کر بائیں پر دے مارا۔ اور ساتھ ہی قلب میں ہل چل پڑ گئی۔ مگر واہ رے سیستانی شیر۔ بیرم خانی۔ دلیروں کو ساتھ لے کر ارجن کے بان مارتا
     
  19. ملک بلال
    آف لائن

    ملک بلال منتظم اعلیٰ سٹاف ممبر

    شمولیت:
    ‏12 مئی 2010
    پیغامات:
    22,418
    موصول پسندیدگیاں:
    7,511
    ملک کا جھنڈا:
    صفحہ 20

    آگے بڑھا اور دم میں اس کالی گھٹا کے دھوئیں اڑا دئیے۔ بہادرخان بائیں کو کٹ کر غنیم کے قلب پر گرا اور دم میں زیروزبر کر دیا۔ یہ حالت دیکھ کر اس کے لشکر میں بھاگڑ پڑ گئی۔ حضور پھر تو یہ عالم ہوا کہ ہیمو خود ہودہ میں کھڑا ہوا دیوانوں کی طرح ہاتھی دوڑاتا پھرتا تھا اور بھگوڑوں کو بلاتا تھا۔ مگر کوئی سنتا نہ تھا۔ اسی عالم میں یہ غُل ہوا کہ اس کی بھینگی آنکھ میں تیر۔
    آغا اقبال۔ اے لیجیے وہ بھی حاضر ہو گیا۔
    (ہیمو گرفتار ہو کر آتا ہے)
    خانخانا۔ ہاں سامنے لاؤ۔ ہیں۔ تم نے گرفتار کیا۔
    اکبر۔ سچ کہو۔ کس نے گرفتار کیا۔
    سوار۔ حضور کسی نے نہیں پکڑا۔ فقط حضور کے اقبال نے پکڑا ہے۔ غلام کو ایک ہاتھی بھاگتا ہوا دکھائی دیا۔ آوارہ سمجھ کر گھوڑا پیچھے ڈالا اور تیر کمان میں جوڑ کر فیل بان کو آواز دی کہ روک اسے۔ اس نے گھبرا کر آواز دی کہ ہاتھ روکنا۔ تمہارا مطلب میرے پاس ہے۔ غلام
     
  20. ملک بلال
    آف لائن

    ملک بلال منتظم اعلیٰ سٹاف ممبر

    شمولیت:
    ‏12 مئی 2010
    پیغامات:
    22,418
    موصول پسندیدگیاں:
    7,511
    ملک کا جھنڈا:
    صفحہ 21

    اسی وقت سمجھ گیا اور ادھر روانہ ہوا۔
    اکبر۔ فوجدار! تم کہو کہ اس پر تیر کھا کر کیا گذری۔
    مہابت۔ جہاں پناہ! جی کی ماں پاؤں تو عرض کروں۔
    اکبر۔ کہہ تیرے جان تجھے بخشی۔
    مہابت۔ حجور نام ہیمو ہے پر دل بکرما جیت کا ہی لایا ہے۔ آنکھ میں تیر لگا پر تیور میلا نہ کیا۔ تیر کو ہاتھ سے کھینچ کر گلام کی گود میں پھینک دیا۔ اپنے ہاتھ سے رومال آنکھ پر باندھ کر کھڑا ہو گیا اور برابر فوج کو آواز دئیے گیا۔ پر حجور کے اقبال سے کون مقابلہ کرے۔ اکھر گرنا ہی تھا۔
    شیخ گدائی۔ حضور!۔ شمشیر اکبری سے اس کا سر جدا ہو تا کہ جہادِ اکبر ہو۔
    اکبر۔ پہلی تلوار پڑے دست اور پا بستہ پر۔
    خانخانا۔ دو زانو کھڑے ہو کر۔ بسم اللہ ۔ اللہ اکبر۔ دھڑ دلی اور سر جلد
     
  21. ملک بلال
    آف لائن

    ملک بلال منتظم اعلیٰ سٹاف ممبر

    شمولیت:
    ‏12 مئی 2010
    پیغامات:
    22,418
    موصول پسندیدگیاں:
    7,511
    ملک کا جھنڈا:
    صفحہ 22

    کابل کو روانہ کرو کہ بالاحصار کے دروازے پر آویزاں ہو۔
    ۔۔۔۔۔۔۔۔۔
    دوسری جھلک
    خوش نظر۔ آج مینا بازار لگا ہے۔ چلو دیکھ آئیں۔
    خود گذر۔ کیا ہو گا۔ کیوں ناحق حیران ہوتے ہو۔ بہت میلے دیکھ لئے۔
    خوش نظر۔ ارے میاں زندگی کا میلہ ہے چلو یک نظرے خوش گذرے اے لو وہ خانہ بدوش بھی آن پہنچے۔ ان سے پوچھو نہ۔ کہیے صاحب کیا کیا دیکھا۔
    خانہ بدوش۔ کیا کہوں۔ کتابوں میں دیکھ دیکھ کر بہشت کا تصور کیا کرتے تھے۔ آج اس بادشاہ نے آنکھوں سے دکھا دیا۔
    خوش نظر۔ بھلا پھر اس میں سے کچھ سناؤ تو سہی کہ یہ بھی ایمان لائیں۔
     
  22. ملک بلال
    آف لائن

    ملک بلال منتظم اعلیٰ سٹاف ممبر

    شمولیت:
    ‏12 مئی 2010
    پیغامات:
    22,418
    موصول پسندیدگیاں:
    7,511
    ملک کا جھنڈا:
    صفحہ 23

    خانہ بدوش۔ کیا کیا کچھ کہوں۔ وہاں کی تو بات بات عجائب ہے۔ خیر اول مقام کا نقشہ کھینچتا ہوں کہ 7 چوپڑ کے چوک۔ جن کے چاروں طرف نہایت وسیع بازار۔ بیچ میں برابر چمن بندی چلی گئی ہے جس کی کیاریوں میں کشمیر اور کابل کے فرشی پھولوں نے وہ گلکاری کی ہے کہ قالین ہائے مخمل کو بھی گرد کر دیا ہے۔ اور باغبانوں نے بھی اس ساحری سے تخم ریزی کی ہے۔ کہ جو پھول اگا ہے۔ گویا قالین کا بیل بوٹا حاشیہ ترنج بناتا چلا گیا ہے۔ بیچوں بیچ میں ایک سنگ مرمر کی نہر جس کا آب باریک تہ کی سفیدی سے کہکشاں میں سیماب بہا رہا ہے اور اس میں جو جانوران آبی و ہوائی کی تصویریں ہیں اس طرح تھرا رہی ہیں گویا اب اڑ کر نخل فوارہ پر جا بیٹھتی ہیں۔
    خوش نظر۔ اب آپ فسانہِ عجائب کی قصہ خوانی تو موقوف کیجیے۔ اصل حال سنائیے۔
    خانہ بدوش۔ پھر تو مشکل ہے کہ تم کہانی اور قصہ خوانی سمجھتے ہو۔
     
  23. ملک بلال
    آف لائن

    ملک بلال منتظم اعلیٰ سٹاف ممبر

    شمولیت:
    ‏12 مئی 2010
    پیغامات:
    22,418
    موصول پسندیدگیاں:
    7,511
    ملک کا جھنڈا:
    صفحہ 24

    اور میں کہتا ہوں کہ اصلیت کا حق شمہ بھی نہیں ادا ہوا۔ خیر اب بازار کی کیفیت سنیے کہ دونوں طرف قد آدم بلند چبوتروں پر خیمے اور شامیانے کھڑے کر کے انہیں بادلے تاش تمامی فرنگی محل کاشانی شال کشمیری سقرلاط رومی زربفت بنارسی سے سجایا تھا اور بلورالات سے بقعہ نور بنایا تھا۔ صاحب کا سلیقہ دکاندار اپنے اپنے اجناس لگائے بیٹھے تھے مگر چوک پر پہنچ کر کچھ اور ہی عالم تھا۔ کیونکہ وہاں عمارات عالی شان تھیں۔ جن میں دو دو تین تین ارکانِ دولت اپنے اپنے فنوں اور کارخانوں کی زرق برق دکھا رہے تھے۔ پہلے ہی چوک میں ایک طرف ابوالفضل ایک طرف فیضی بیٹھے تھے۔، ابوالفضل کے گرد الماریوں میں کتابیں چنی تھیں۔ علماء فضلاء اور بہت سے سخن فہم گرد بیٹھے تھے۔ اور وہ خود آئینِ اکبری سنا رہا تھا۔ فیضی کے ہاتھ میں نل دمن تھی۔ کہتے ہیں قصیدہ بہشت کا بہت خوب کہا ہے۔ جب جہاں پناہ آئیں گے تو سنائے گا۔ اس کے پاس بھی بڑا مجمع تھا۔
     
  24. ملک بلال
    آف لائن

    ملک بلال منتظم اعلیٰ سٹاف ممبر

    شمولیت:
    ‏12 مئی 2010
    پیغامات:
    22,418
    موصول پسندیدگیاں:
    7,511
    ملک کا جھنڈا:
    صفحہ 25

    کچھ سنائی تو دیتا نہ تھا مگر واہ وا واہ وا بہت ہو رہی تھی۔
    خوش گذر۔ بارے فیضی اپنے کتے وہاں تو نہیں لائے۔
    خانہ بدوش۔ ہاں عجیب لطیفہ ہوا۔ تمام بازار میں یہی چرچا ہو رہا تھا کہ عرفی بھی پھرتے ہوئے وہاں آ نکلے اور فیضی کے پاس آ کر بیٹھے۔ ایک کتا دم ہلاتا ہوا آیا اور اس کے پہلو میں بیٹھ گیا۔ فیضی اسے بیٹا بیٹا کہہ کر پیار کرنے لگا۔ عرفی نے مسکرا کر کہا کہ "ایں صاحبزادہ چہ نام دارد؟" فیضی نے ہنس کر کہا کہ "سگِ را نام چہ باشد۔ خود عرفی ست" عرفی نے کہا کہ مبارک شد۔
    ایک چوک میں امیر فتح اللہ شیرازی بیٹھے تھے۔ کتابیں تو انہوں نے بہت چنی تھیں مگر آلات ریاضی اور سامان جرثقیل اور اسباب صدوہیت ایسا لگایا تھا کہ بطلیموس ہی آ کر سمجھے تو سمجھے ۔ نہیں تو کچھ معلوم نہیں ہوا۔
    خوش نظر۔ اجی بیربر کو دیکھا تھا وہ کس رنگ میں تھے۔
     
    ساتواں انسان نے اسے پسند کیا ہے۔
  25. ساتواں انسان
    آف لائن

    ساتواں انسان ممبر

    شمولیت:
    ‏28 نومبر 2017
    پیغامات:
    7,190
    موصول پسندیدگیاں:
    2,273
    ملک کا جھنڈا:
    صفحہ 51
    مہاراجہ _ سب ایشور کی دیا اور مہابلی کا اقبال ہے ۔ ہمارے راج کنور کو مہابلی کے سایہ میں ایشور پروان چڑھائے ۔ وہ آج کل کس ملک کے بندوبست میں ہیں ۔
    راجہ بیربل _ پورب دسا میں ہیں ۔
    دیوان _ ایشور کی دیا سے جو جو باتیں راجکماروں اور شہزادوں کو چاہئیں سب موجود ہیں ، ہمت کی بلی ، ہاتھ کے سخی ، نیت کے ولی ۔
    مہاراجہ _ صورت کیسی موہنی ہے ۔ دیکھے سے پیار آتا ہے ۔ ہم نے دو دفعہ درشن کئے تھے ۔ ایک دفعہ شیر کے شکار میں ، پھر مہابلی کے سامنے تیر لگا رہے تھے
    دیوان _ مہابلی تو ٹھاکر دوارے میں ہیں ۔ راج کنور کی تصویر ہر دم سامنے ہے ۔
    بیربل _ مہاراج ! دل کا درپن دل ہے انہیں بھی آپ کا ذکر کرتے اکثر سنا ہے
    ابوالفضل _ مہابلی کو تو آپ سے بڑی محبت ہے ۔ جو بھروسہ آپ کے اخلاص اور محبت پر ہے وہ کسی پر نہیں ، کیوں راجہ جی ؟
     
    Last edited: ‏21 اکتوبر 2020
    ملک بلال نے اسے پسند کیا ہے۔
  26. ساتواں انسان
    آف لائن

    ساتواں انسان ممبر

    شمولیت:
    ‏28 نومبر 2017
    پیغامات:
    7,190
    موصول پسندیدگیاں:
    2,273
    ملک کا جھنڈا:
    صفحہ 52
    بیربل _ ہاں اس دن شکار سے پھرتے ہوئے جو آپ کا وکیل سامنے آگیا تو ہنس کر بولے کہ ان لوگوں نے بزرگوں کا وطن ہم سے چھڑا دیا ورنہ ترکستان کے باغوں کا درخت ہندوستان میں کب ہرا ہوا ہے ؟
    مہاراجہ _ سب مہابلی کی دیا ہے ، ہم سے کیا خدمت ہوسکتی ہے ؟
    ابوالفضل _ مہابلی کو بھی معلوم ہے کہ آپ کو شہزادے سے دلی الفت ہے بلکہ ان کی تو آرزو یہ ہے کہ تیموری تاج کو اس طرح سجائیں جس سے راج اور سلطنت کا ایک کاج ہوجائے
    بیربل _ ہاں ، پر ایسی باتیں مہاراج ہی کی خوشی پر چھوڑی ہیں ۔ فرماتے تھے کہ اس معاملہ میں اپنی خوشی کو ہم نے ایسا رکھا ہے جیسے بڈھا چاہے جوان ہوجائے ۔ سورج چاہے آسمان ہوجائے ۔
    مہاراجہ _ ہرے ہرے ہرے
    دیوان _ گنوانو ! بدھیاندانو ! تم سوچو پیوند سے پیوند ہوتا ہے ۔ ترک اور راجپوت کا پیوند سو کیا ؟
     
    ملک بلال نے اسے پسند کیا ہے۔
  27. ساتواں انسان
    آف لائن

    ساتواں انسان ممبر

    شمولیت:
    ‏28 نومبر 2017
    پیغامات:
    7,190
    موصول پسندیدگیاں:
    2,273
    ملک کا جھنڈا:
    صفحہ 53
    ابوالفضل _ مہاراج راجپوت اور ترک کا کیا ذکر ہے ۔ اب تو جو وہ سو آپ ، مہابلی کا تو ہر وقت یہی کلام ہے ۔ ۔ ۔
    من وتو نیست میان من وتو
    ابوالفضل _ راجہ جی { بیربل سے } اب کے دسہرے کا جشن یاد ہے ؟ جس وقت تم مہابلی کو پوجا کروا کے لائے اور ہاتھ پکڑ کر تخت پر بٹھایا نرنکار کا پرکاش نظر آتا تھا ۔
    ابوالفضل _ { راجہ سے سرگوشی } شہزادوں کے ختنے قطعا موقوف ، فرمائیے مسلمانی کہاں گئی ؟
    بیربل _ مہاراج ! جن لوگوں نے دوئی کو دل سے اٹھا دیا ہے وہ تو ایک کو مانتے ہیں ۔ اور ایک کو پہچانتے ہیں ۔ وہی اندھیرے میں ، وہی اجالے میں ، وہی گورے میں ، وہی کالے میں ۔ مہابلی کی دیا اور آپ کی کرپا سے آج دین اور دھرم ایک ترازو میں تل رہے ہیں ۔
    ابوالفضل _ مہاراج ! یہ سب لوگوں کی باتیں ہیں ۔ نہیں تو وہی رام
     
    ملک بلال نے اسے پسند کیا ہے۔
  28. ملک بلال
    آف لائن

    ملک بلال منتظم اعلیٰ سٹاف ممبر

    شمولیت:
    ‏12 مئی 2010
    پیغامات:
    22,418
    موصول پسندیدگیاں:
    7,511
    ملک کا جھنڈا:
    صفحہ 26

    خانہ بدوش۔ ہاں مزے میں تھے۔ بہت سے لوگ گرد بیٹھے تھے۔ وہ اپنے اشلوک سنا رہے تھے۔ دور سے کچھ سنائی تو دیتا نہ تھا مگر یہ معلوم ہوتا تھا کہ جتنے بیٹھے تھے۔ سب ہنس پڑتے تھے۔ حیم ہمام کو دیکھا۔ عطاری کی دکان خوب سجائی تھی۔ مرصع مرتبان، الماس تراش شیشے، قرعنبیق بھپنکے اور دواسازی کے سامان سب موجود تھے۔ ایک طرف فن جراحی کے اوزار بھی تھے مگر دور سے اچھی طرح دکھائی نہ دیتے تھے۔ لوگوں کا ہجوم بہت تھا۔
    خوش نظر۔ ٹودرمل کی تو کچھ سناؤ۔
    خانہ بدوش۔ موٹے موٹے بستے تو بہت دھرے تھے مگر رونق کچھ نہ تھی۔ اپنا بہی کھاتا لگائے بیٹھے تھے اور چند متصدی لکھنے والے بغل میں قلمدان کھڑے مکھیاں مار رہے تھے۔
    صاحب! جوبن تو خانخانا پر تھا۔ ایک چوک کا چوک قبضہ میں کر لیا تھا۔ تمام اسلحہ جنگ اور حرب اور ضرب کے سامان۔ جہاں
     
  29. ملک بلال
    آف لائن

    ملک بلال منتظم اعلیٰ سٹاف ممبر

    شمولیت:
    ‏12 مئی 2010
    پیغامات:
    22,418
    موصول پسندیدگیاں:
    7,511
    ملک کا جھنڈا:
    صفحہ 27

    جہاں میدان مارے ہیں، ان لڑائیوں کے مرقع اس خوبصورتی سے سجائے کہ جو وہاں جا نکلتا تھا ہٹنے کو جی نہ چاہتا تھا۔ شاہانہ آن بان سے دربار لگائے بیٹھا تھا۔ امرا و اراکین گرد بیٹھے تھے۔ شعراء قصیدے سنا رہے تھے اور وہ مٹھیاں بھر بھر کے دیتا جاتا تھا۔ اشرفیاں ہی ہوں گی۔ ایک طرف باورچی خانہ گرم تھا۔ لوگ کھاتے تھے اور موچھوں کو تاؤ دیتے چلے جاتے تھے۔ ہاں صاحب۔ لوگ کہتے تھے کہ سوا لاکھ روپیہ کا چبوترہ بھی باندھا ہے۔ حضور آئیں گے تو ٹھوکر مار کر لٹائیں گے۔ ارغنون خوب بخود پڑا بجتا ہے۔ بیلون کے اڑنے کی تیاریاں ہو رہی ہیں۔ صاحب۔ فرنگیوں نے غضب کا طلسمات کر رکھا ہے۔ بیلون کیا ہے ایک جہاز کا جہاز ہے۔ ایک آتشی گیند بنائی ہے کہ زمین پر انگاری کی طرح لوٹتی چلی جاتی ہے اور بجھتی نہیں۔ کہتے تھے کہ رات کو چوگان کھیلیں گے۔ وہیں فرائی ٹون بھی دوڑا دوڑا پھرتا تھا۔ کوکلتاش خان نے بھی دھوم دھام تو اچھی کر رکھی تھی۔ خانخانا کا
     
  30. ملک بلال
    آف لائن

    ملک بلال منتظم اعلیٰ سٹاف ممبر

    شمولیت:
    ‏12 مئی 2010
    پیغامات:
    22,418
    موصول پسندیدگیاں:
    7,511
    ملک کا جھنڈا:
    صفحہ 28

    منہ چڑاتا تھا۔ مگر اس کی بات اسی کے ساتھ ہے۔ اس کا اپنا حسن خداداد وہ ہے کہ سارے بازار کو جگمگا رکھا تھا۔ میاں صورت دیکھے سے آنکھوں میں نور آتا تھا۔
    خوش نظر۔ میاں خانہ بدوش۔ تم نے خان خانا کو کیا دیکھا ہے۔ خدا جانے تم ان دنوں میں کہاں ہو گے۔ اس کے حسن کی بہاریں ہم نے ہی لوٹیں ہیں۔
    ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
    بازارِ حسن
    آج باغ میں جوانانِ چمن سر جھکائے کھڑے ہیں۔ موج آبِ رواں کی چادر کترتی ہے۔ شبنم نقابیں تیار کرتی ہے۔ نرگس ادھر نہ دیکھٔیو۔ سوسن ذرا زبان کو روکیو۔ آج گل و بلبل میں باتیں ہوں گی۔ سرو و قمری کی ملاقاتیں ہوں گی۔ اکبر نے مینا بازار سجوایا ہے۔ اور بیگمات کے ساتھ
     

اس صفحے کو مشتہر کریں