1. اس فورم پر جواب بھیجنے کے لیے آپ کا صارف بننا ضروری ہے۔ اگر آپ ہماری اردو کے صارف ہیں تو لاگ ان کریں۔

پاکستانیو باشعور اور زندہ قوم ہونے کا ثبوت دو

'حالاتِ حاضرہ' میں موضوعات آغاز کردہ از زیرک, ‏17 جنوری 2018۔

  1. زیرک
    آف لائن

    زیرک ممبر

    شمولیت:
    ‏24 اکتوبر 2012
    پیغامات:
    2,041
    موصول پسندیدگیاں:
    1,017
    ملک کا جھنڈا:
    پاکستانیو! باشعور اور زندہ قوم ہونے کا ثبوت دو
    پاکستانی قوم سے گزارش ہے کہ وہ اپنے اپنے لیڈروں کے پجاری/پٹواری بننے کے بجائے ان کے محتسب یا نگران بنیں تاکہ آپ کے لیڈروں کو بھی فخر ہو کہ انہیں چاہنے والے زندہ قوم ہیں نہ کہ ایسی بھیڑ بکریاں جنہیں وہ جب چاہیں، جہاں چاہیں لے جائیں، اور جس کھائی میں چاہیں دھکیل دیں۔
     
    نعیم اور زنیرہ عقیل .نے اسے پسند کیا ہے۔
  2. زنیرہ عقیل
    آف لائن

    زنیرہ عقیل ممبر

    شمولیت:
    ‏27 ستمبر 2017
    پیغامات:
    21,126
    موصول پسندیدگیاں:
    9,750
    ملک کا جھنڈا:
    اس بار ووٹ کے ذریعے احتساب کیا تو ثابت ہو جائے گا کہ پاکستانی قوم زندہ ہے
    لیکن جہانگیر ترین والی سیٹ کے رزلٹ نے تو سوئی قوم کا سندیسہ دیا ہے
     
    نعیم نے اسے پسند کیا ہے۔
  3. نعیم
    آف لائن

    نعیم مشیر

    شمولیت:
    ‏30 اگست 2006
    پیغامات:
    58,107
    موصول پسندیدگیاں:
    11,153
    ملک کا جھنڈا:
    پاکستان کے مروجہ سیاسی و انتخابی نظام میں "ووٹ" کے ذریعے آزادانہ اظہارِ رائے کا رستہ کبھی نہیں کھل سکتا۔
    خلفائے راشدین علیھم الرضوان کے چاروں خلفاء کے انتخابات کے وقت چار الگ الگ جمہوری طریقوں سے سربراہِ ریاست کا انتخاب دراصل امت مسلمہ کو ہر چار ممکن جمہوری انداز دے دیے گئے۔
    "سربراہ ریاست کی نامزدگی اور پھر عوامی رائے" ۔۔ "مجلسِ خاصہ کے ذریعے انتخاب" ۔۔ "مجلسِ عامہ کے ذریعے انتخاب" اور پھر "عوام الناس کے ووٹ بصورت بیعت" کے ذریعے انتخاب۔
    لیکن پاکستان میں مروجہ جمہوری بدمعاشی کسی بھی نظام پر پورا نہیں اترتی اور نہ ہی کسی معروف غیراسلامی ملک میں رائج جمہوریت کے معیار کی مطابقت میں ہے۔
    دنیا بھر میں سربراہ ریاست یا پارلیمنٹ کے چناؤ کے لیے عوام کبھی بھی ذاتی فائدے یعنی گلیاں نالیاں، قیمے کےنان بریانی، بچوں کی سرکاری نوکری وغیرہ کے مفادات پر ووٹ نہیں دیتی بلکہ پارٹی یا امیدوار کی صلاحیت کے مدنظر رکھا جاتا ہے کہ وہ پارلیمنٹ میں پہنچ کر اپنی تعلیم، علم، بصیرت تجربے سے ملک کی کیا اور کتنی خدمت کرسکتا ہے۔
    جبکہ ہمارے ہاں ۔۔۔۔۔
    ہر حلقہ میں چند خاندان "جیتنے والے انتخابی گھوڑے" ہیں۔ جن میں اکثریت سمگلروں، غنڈہ گردوں، قاتلوں حتی کہ دہشتگردوں کی بھی ہے۔ کرپشن کے ذریعے کروڑوں اربوں پتی بھی ہیں۔ اب قائداعظم بھی موجودہ دور میں واپس آ جائیں تو انکو بھی اسمبلی میں اکثریت حاصل کرنے کےلیے انہیں "جیتنے والے کرپٹ Winning Horses" کو ہی ٹکٹ دینا پڑے گا۔ کیونکہ ان میں سے
    ہر امیدوار 20-30-40-50 کروڑ لگا کر اپنے اپنے حلقے کے غریب، مجبور، لاچار عوام کے ضمیر چند ٹکوں کے مفاد کے عوض خریدتا ہے۔ گلیاں، نالیاں پکی کروانے، بجلی ، گیس کے کنکشن لگوانے، بچوں کو نوکری اور کالجوں میں داخلوں کی رشوت سے لے کر براہ راست کئی کئی ہزار روپے فی ووٹ کی قیمت پر عوام کے ضمیر خریدے جاتے ہیں۔
    شاید ایسی لیے علامہ اقبال نے فرمایا تھا ۔ جمہوریت اک طرز حکومت ہے کہ جس میں بندوں کو گنا کرتے ہیں،تولا نہیں کرتے اور ساتھ ہی فرمایا کہ "دو سو گدھے (بےشعور و جاہل ووٹر) مل کر بھی ایک "انسان" کی عقل کا مقابلہ نہیں کرسکتے"۔
    الغرض بیان کرنا مقصودہے کہ ہمارے ملک میں موجودہ تماشا کسی طرح بھی جمہوریت کی کسی تعریف پر پورا نہیں اترتا اور ہمیں ایک اسلامی جمہوری نظام کی اشد ضرورت ہے۔
    ہمارے ہاں کا حلقہ جاتی نظام ہماری عوام کا سب سے بڑآ دشمن اور اشرافیہ (جاگیردار، امیر، طاقتور، غنڈہ گرد اور دہشتگرد) طبقات کا سب سے بڑآ محافظ ہے۔ چند استثنایات کو چھوڑ کر ہر حلقہ میں 3-4 طاقتور خاندان ہیں۔ جو اکثر کرپشن، غنڈہ گردی، سمگلنگ، اور رسہ گیری کے لیے مشہور بھی ہوتے ہیں موجودہ نظام میں کوئی بھی سیاسی جماعت ہوکتنے ہی اعلی پروگرام رکھتی ہو، کتنی ہی باکردار قیادت ہو ۔ حتی کہ قائد اعظم بھی اگر دوبارہ زندہ ہوکر آجائیں تو وہ انہی 3-4 خاندانوں میں سے کسی کو ٹکٹ دے کر جیت سکتے ہیں ورنہ کوئی شریف، متوسط طبقہ کا باکردار آدمی جو کروڑہا روپے نہ لگا سکتا ہو۔ وہ جیتنا تو درکنار، اس نظام میں کھڑا بھی نہیں ہوسکتا ۔ اسکی بہن بیٹیوں اور عزت آبرو کا جنازہ نکال کر موت کے گھاٹ تک اتارا جا سکتا ہے۔ یا اگر ان سب سے بچ نکلے تو چند ہزار ووٹ لے کر گھر بیٹھ جائے گا۔
    اب موجودہ حلقہ جاتی نظام کے ذریعے جیتنے کا طریقہ بھی سن لیں۔ اگر ایک حلقہ میں فرض کریں 3 امیدوار ہیں۔ کل ڈالے گئے ووٹ کی تعداد ایک لاکھ ہے، فرض کریں ایک امیدوار 28 ہزار ووٹ لیتا ہے۔ دوسرا 32 ہزار لیتا ہے۔ جبکہ تیسرا 40 ہزار لے کر جیت جائے گا۔ اب خود عقل ودانش سے کام لے کر سوچیں اور وہی اصول پیش نظر رکھیں کہ "عوام کی اکثریتی رائے ہی جمہوریت ہے" تو اس جیتنے والے کو اس حلقے کے 60 ہزار لوگ اپنا نمائندہ نہیں بنانا چاہتے۔ لیکن ہمارے اس نظام میں وہ ممبر اسمبلی بن جاتا ہے۔
    اسی غلیظ نظام کا نتیجہ ہے کہ پاکستان میں تقریبا ساڑھے آٹھ کروڑ رجسٹرڈ ووٹر ہیں۔ جس میں سے گذشتہ الیکشن میں نوازشریف نے حقیقی و جعلی ملا کر تقریبا ڈیڑھ کروڑ ووٹ لیے تھے۔ اب اندازہ کریں کہ پاکستان کے رجسٹرڈ ووٹرز میں سے 7 کروڑ ووٹر نوازشریف کو وزیراعظم نہیں دیکھنا چاہتے لیکن وہ ڈیڑھ کروڑ ووٹ لے کر ملک کا سب سے طاقتور وزیراعظم بن گیا۔
    ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
    اور یاد رہے کہ الیکشن 2013 کے بعد خود وزیرداخلہ چوہدری نثار نے اسمبلی میں کہا تھا کہ 60 فیصد انگوٹھوں کے نشان ایسے ہیں جن کی تصدیق ہی نہیں ہوسکتی۔ گویا ڈالے گئے ووٹوں میں 60 فیصد ووٹ تو سیدھے سیدھے جعلی ہونے کا خود حکومت اقرار کرلے تو اس الیکشن نظام کی حقیقت کیا رہ جاتی ہے؟
    مان لیجئے کہ موجودہ انتخابی ڈھکوسلہ چند درجن کرپٹ خاندانوں کے چند ہزار افراد کا بنایا ہوا ایک خندق ہے جسے شریف، باکردار، باصلاحیت شخص کبھی بھی پار نہیں کر سکتا۔ بلکہ اسکے پار کرنے کے لیے بالعموم کرپٹ، حرام خور، غنڈہ گرد اور بدقماش و بدمعاش ہونا ضروری ہے۔ (الا ماشاءاللہ)
     
    سعدیہ، زنیرہ عقیل اور پاکستانی55 نے اسے پسند کیا ہے۔
  4. سعدیہ
    آف لائن

    سعدیہ ناظم سٹاف ممبر

    شمولیت:
    ‏7 اکتوبر 2006
    پیغامات:
    4,590
    موصول پسندیدگیاں:
    2,393
    ملک کا جھنڈا:
    بہت منطقی تجزیہ ہے۔ کافی پہلو خود میرے لیے بھی نئے ہیں۔
     
    نعیم اور زنیرہ عقیل .نے اسے پسند کیا ہے۔

اس صفحے کو مشتہر کریں