1. اس فورم پر جواب بھیجنے کے لیے آپ کا صارف بننا ضروری ہے۔ اگر آپ ہماری اردو کے صارف ہیں تو لاگ ان کریں۔

وٹّا سٹّا اور جہیز کی شرعی حیثیت

'تعلیماتِ قرآن و حدیث' میں موضوعات آغاز کردہ از کنعان, ‏1 فروری 2017۔

  1. کنعان
    آف لائن

    کنعان ممبر

    شمولیت:
    ‏25 جولائی 2009
    پیغامات:
    729
    موصول پسندیدگیاں:
    977
    ملک کا جھنڈا:
    وٹّا سٹّا اور جہیز کی شرعی حیثیت

    جہیز
    بہت ساری معاشرتی خرابیوں کا حامل ہے، سب سے بڑی خرابی شادی اور نکاح میں رکاوٹ ہے۔ بعض اوقات تعلیم یافتہ، باصلاحیت، خوبصورت، دیندار اور بااخلاق لڑکیاں جہیز کی استطاعت نہ ہونے کی وجہ سے بن بیاہی رہ جاتی ہیں۔ اس رسم کے پھیلاؤ میں معاشرے کی مجموعی بےحسی، خود غرضی، لالچ اور خداخوفی کی کمی شامل ہیں، لیکن سب سے بڑی وجہ ہندوانہ رسوم ہیں، جو ہمارے معاشرے میں بےلگام میڈیا کے ذریعے دَر آئی ہیں۔ غیر ملکی چینلز کے ڈراموں اور فلموں نے ہم سے اپنی ثقافت کو چھین لیا ہے اور اپنی ثقافت کو ہم پر مُسلط کر دیا ہے۔ نکاح جتنا مشکل ہو گا، بدکاری اتنی عام ہو گی اور جتنا سہل ہو گا، گناہ کے دروازے اتنے ہی بند ہوں گے۔ جہیز کی رسم نے ہمارے معاشرے میں نکاح کو ایک انتہائی مشکل عمل بنا دیا ہے، اس لیے سَدِّ ذرائع کے طور پر اس کی مخالفت لازم ہے۔

    شریعت میں جہیز دینے کی کوئی پابندی نہیں ہے۔ رسول اللہ ﷺ نے اپنی ایک بیٹی حضرت فاطمہ رضی اللہ تعالی عنہا کو شادی کے وقت کچھ سامان مثلاً: چکی، پانی کا برتن اور تکیہ وغیرہ دیا تھا، حدیث میں ہے:

    ’’رسول اللہ ﷺ نے حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا کو اپنے شوہر (علی المرتضیٰ رضی اللہ عنہ) کے گھر بھیجنے کے لیے ایک چادر، مشک اور تکیہ، جس میں اَذخر گھاس بھری ہوئی تھی، پر مشتمل جہیز دیا.‘‘

    (سنن نسائی:3382)

    یہ سامان اس دور کے مطابق گھر بسانے کے لیے بنیادی ضروریات میں سے تھا۔ رسول اللہ ﷺ کی باقی بیٹیوں کے متعلق ایسی کوئی روایت نہیں ملتی۔
    حضرت ابو العاص کا گھر پہلے سے موجود تھا، اس لیے سیدہ زینب کے نکاح کے موقع پر رسول اللہ ﷺ نے ایسا کوئی انتظام نہ کیا۔
    سیدنا عثمان غنی رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کا الگ گھر بھی پہلے موجود تھا، اس لیے سیدہ رقیہ اور ام کلثوم رضی ﷲ تعالیٰ عنہما کے لیے رسول اللہ ﷺ کو ایسے کسی انتظام کی ضرورت نہ پڑی۔
    اسی طرح رسول اللہ ﷺ کی زوجیت میں جو خواتین آئیں، اُن کے والدین کو بھی ایسے کسی انتظام کی حاجت نہ تھی۔

    رسول اللہ ﷺ حضرت فاطمہ زَہرا اور حضرت علی رضی ﷲ تعالیٰ عنہما دونوں کے کفیل اور سرپرست تھے۔ اس لیے دونوں کے ازدواج کا اہتمام بھی آپ ہی کو کرنا تھا۔ خانہ داری کے لیے کچھ مختصر ترین سامان مثلاً چارپائی، اَذخر گھاس سے بھری توشک تکیہ، مشکیزے، گھڑے اور چکی کا اہتمام آپ ﷺ نے فرما دیا۔ چاندی کا ہار حضرت فاطمہ رضی ﷲ تعالیٰ عنہا ہی کا تھا، جو آپ کو سیدہ خدیجہ رضی اللہ عنہا کے ترکے سے ملا تھا۔ یہ سارا انتظام رسول اللہ ﷺ کو اس لیے کرنا پڑا کہ ان کو ایک الگ گھر بسانا تھا۔ اگر حضرت علی رضی ﷲ تعالیٰ عنہ کا پہلے ہی سے کوئی الگ گھر ہوتا تو رسول اللہ ﷺ شاید یہ اہتمام نہ فرماتے، کیونکہ حضرت علی رضی ﷲ تعالیٰ عنہ شادی سے پہلے تک حضورکے ساتھ ہی رہتے تھے، لہٰذا نکاح کے وقت ان کے پاس کوئی الگ گھر نہ تھا۔ ایک انصاری صحابی نے اپنا ایک مکان رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں بخوشی پیش کر دیا، جس میں یہ پاکیزہ نیا جوڑا منتقل ہو گیا اور خانہ داری کے مختصر اسباب وہاں بھیج دیے گئے۔ یہ ہمارے عرف کے معیار کا جہیز نہ تھا بلکہ خانہ داری کی کم از کم بنیادی ضروریات تھیں۔

    رسول اللہ ﷺ نے حضرت علی رضی ﷲ تعالیٰ عنہ سے حق مہر پہلے ہی لے لیا تھا، ایک زرہ تھی جو حضرت علی رضی ﷲ تعالیٰ عنہ نے حضرت عثمان رضی ﷲ تعالیٰ عنہ کے ہاتھ تقریبا پانچ سو درہم میں فروخت کی تھی۔ یہی رقم حضرت علی رضی ﷲ تعالیٰ عنہ رسول اللہﷺ کی خدمت میں لے کر آئے جس سے آپ ﷺ نے خانہ داری کا سب سامان اور کچھ خوشبو وغیرہ منگوائی تھی۔

    حضرت علی رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں:
    ’’میں نے جب رسول اللہ ﷺ کو آپ کی صاحبزادی (فاطمہ رضی اللہ عنہا) کے نکاح کا پیغام دینے کا ارادہ کیا، تو مجھے یاد آیا کہ میرے پاس تو کچھ بھی نہیں ہے، پھر مجھے آپ ﷺ کی عادتِ مبارکہ اور فضل و احسان یاد آیا، تو میں نے پیغام دے دیا۔ نبی ﷺ نے فرمایا: تمہارے پاس کچھ ہے جو تم اسے (سیدہ فاطمہ کو) مہر کے طور پر دو، میں نے عرض کی: کچھ نہیں ہے، آپ ﷺ نے فرمایا: وہ حُطَمی زرہ کہاں ہے، جو میں نے فلاں دن تمھیں دی تھی، میں نے عرض کی: وہ میرے پاس موجود ہے، فرمایا: اُسے لے آؤ، حضرت علی رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں: میں نے وہ زرہ آپ کو دے دی (جسے حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے خرید لیا) اور آپ ﷺ نے (فاطمہ سے) میرا نکاح کر دیا.‘‘

    (مسند حمیدی : 38

    اگر لڑکا بہت زیادہ غریب ہو کہ گھر کا ضروری سامان خریدنے کی قدرت بھی نہ رکھتا ہو تو اس صورت میں لڑکی کے والدین اگر اس کے ساتھ مالی تعاون کرنا چاہیں، تو حرج نہیں بلکہ باعثِ ثواب ہے لیکن آج کل کے دور میں رائج جہیز کسی بھی صورت جائز نہیں. موجودہ دور میں بصورت جہیز دیا جانے والا سامانِ تعیّشات ایک معاشرتی لعنت ہے۔ نکاح کے عوض کسی طرح کے مال کا لین دین جائز نہیں ہے،

    علامہ ابن عابدین شامی لکھتے ہیں: ’’عورت اپنے نکاح کے عوض جو مال دے ، وہ باطل ہے، اس لیے کہ نکاح میں عوض عورت پر نہیں ہے (بلکہ مہر کی شکل میں مرد پر ہے)،‘‘

    (ردالمحتار علی الدرالمختار، جلد8، ص:440)

    تنویرالابصار مع الدرالمختار میں ہے:
    ’’رخصتی کے وقت لڑکی والوں نے اگر کچھ لیا ہے تو شوہر کو اسے واپس لینے کا حق ہے کیونکہ وہ رشوت ہے‘‘۔

    اس کی شرح میں علامہ ابن عابدین شامی لکھتے ہیں:
    ’’یعنی اگر لڑکی کے بھائی یا کسی دوسرے ولی نے لڑکے سے مہر کے علاوہ مزید مال لے کر نکاح کرایا، تو شوہر کو حق حاصل ہے کہ اسے واپس لے لے، خواہ وہ مال موجود ہو یا ختم ہوگیا ہو، اس لیے کہ یہ (مال) رشوت ہے.‘‘

    (’’بزازیہ‘‘ ،ج: 8،ص:520)

    اسی طرح لڑکی والوں کا لڑکے سے مہر کے سوا کسی اور شے کا مطالبہ رشوت اور باطل ہے،

    علامہ نظام الدین لکھتے ہیں:
    ’’کسی شخص کی بہن کو کسی نے نکاح کا پیغام دیا، بھائی نے انکار کر دیا کہ جب تک کچھ روپے نہیں دو گے، رشتہ منظور نہیں، مرد نے وہ رقم دے دی اور نکاح کر لیا، پس مرد نے جو رقم دی، وہ اسے واپس لے سکتا ہے، اس لیے کہ یہ رشوت ہے، ’’قنیہ‘‘ میں اسی طرح ہے.‘‘
    (فتاویٰ عالمگیری ، جلد 4، ص:403)


    شریعت کا اصل حکم یہ ہے کہ عورت کا ماں یا بیوی یا بیٹی یا بہن کی حیثیت سے وراثت میں جو حق بنتا ہو، وہ اُسے دیا جائے، لیکن ہمارے ہاں خواتین کو وراثت کا حق دینے کا شِعار بہت کم ہے اور اُس کے بجائے جہیز کی رسم کو اپنے گلے کا طوق بنا لیا گیا ہے۔ اس کی بنا پر رشتے بنتے اور ٹوٹتے ہیں اور بعض لوگوں کو معاشرے میں اپنی عزت برقرار رکھنے یا اپنی بیٹی اور بہن کے لیے سسرال کے گھر میں گنجائش پیدا کرنے کے لیے بعض اوقات قرض لے کر جہیز کا انتظام کرنا پڑتا ہے اور بعض برادریوں اور علاقوں میں اس کی نمائش بھی کی جاتی ہے، یہ مالی اعتبار سے کمزور طبقات میں احساسِ محرومی کا سبب بنتا ہے۔

    شادی کے موقع پر دلہن کو اُس کے والدین کی جانب سے جو زیورات، سامان، لباس اور دیگر اشیاء بطور جہیز دی جاتی ہیں، خواہ منقولہ ہوں یا غیر منقولہ، وہ دلہن کی ملکیت ہوتی ہیں۔ اگر کبھی قضائے الٰہی سے اُس خاتون کا انتقال ہو جائے تو وہ تمام سامان اُس کے ترکے میں شامل ہو کر اس کے وارثوں میں ترکے کے طور پر تقسیم ہوگا۔

    علامہ ابن عابدین شامی لکھتے ہیں:
    ’’پس ہر شخص یہ جانتا ہے کہ جہیز عورت کی ملکیت ہوتا ہے، اور جب شوہر اس کو طلاق دے دے تو وہ تمام جہیز لے لے گی اور جب اس عورت کا انتقال ہو جائے تو وہ جہیز ترکے کے طور پر اس کے وارثوں کو ملے گا اور اِس میں کسی چیز کا استثنا نہیں ہے.‘‘

    (ردالمحتارعلی الدرالمختار،ج: 2، ص : 238

    امام احمد رضا قادری لکھتے ہیں:
    ’’جہیز ہمارے بلاد کے عرفِ عام میں زوجہ کی ملکیت ہوتا ہے، اس میں شوہر کا کوئی حق نہیں، طلاق ہوئی تو کل لے گی اور مرگئی تو اسی کے ورثاء پر تقسیم ہو گا،‘‘

    (فتاویٰ رضویہ، جلد12، ص:202)

    خیبرپختونخوا، قبائلی علاقوں، افغانستان اور بلوچستان کے بعض علاقوں میں یہ رواج ہے کہ مرد جب تک دلہن کے والد کو ایک مقررہ رقم نہ دے، تب تک وہ اس کو رشتہ نہیں دے گا، اسے مقامی زبان میں ’’ولور‘‘ کہتے ہیں، یہ رسم و رواج شریعت کے خلاف ہے۔ مہر کے علاوہ کسی اور رقم کا مطالبہ لڑکی والوں کے لیے جائز نہیں ہے۔

    اِسی طرح بعض علاقوں میں ’’وٹّا سٹّا‘‘ کی رسم رائج ہے. زمانۂ جاہلیت میں اس سے ملتی جلتی نکاح کی ایک شکل یہ تھی کہ دو افراد یا دو خاندان ایک دوسرے کو رشتہ دیتے، ایک جانب کی لڑکی کا نکاح دوسرے جانب کے لڑکے سے منعقد کر لیا جا تا ہے، اس میں دونوں جانب سے لڑکیوں کا مہر مقرر نہیں ہوتا، بلکہ یہ نکاح بلا مہر ہوتا ہے اور عملاََ ایک لڑکی دوسری کا بدلِ مہر بن جاتی ہے، اِسے ’’نکاح شِغار‘‘ کہا جاتا تھا۔ اسلام نے اس رسم کو باطل قرار دیا ہے۔ یہ نکاح اپنی اصل کے اعتبار سے صحیح ہے اور اس میں حرمت کا کوئی سبب نہیں، فساد کا سبب صرف یہ ہے کہ عورت کو اس کے حق مہر سے محروم کر کے دوسری عورت کا بدل مہر بنا دیا جاتا ہے، اس لیے یہ شرط کالعدم ہو جائے گی۔ ایسا نکاح اگر ان عورتوں کی آزادانہ رضامندی سے گواہوں کی موجودگی میں ہوا ہے، تو یہ شرعاً جائز ہے اور اگر ان دونوں عورتوں کا مہر مقرر نہیں ہوا ہے، تو دونوں مہرِمثل (یعنی اُن کے خاندان میں اِس حیثیت کی حامل خواتین کا عام طور پر جو مہر مقرر ہو تا ہے) پائیں گی، اور اگر دونوں کا اپنا اپنا مہر مقرر ہوا ہے تو وہ اسی کی حقدار ہوں گی۔


    حدیث میں ہے:
    ’’حضرت ابن عمر بیان کر تے ہیں: رسول اللہ ﷺ نے ’’شِغار‘‘ سے منع فرمایا ہے۔ شِغار یہ ہے کہ ایک شخص اپنی بیٹی کا نکاح دوسرے شخص سے اس کی بیٹی کے عوض کر دے (یعنی وہ بھی اپنی بیٹی کا نکاح پہلے شخص سے کر دے) اور ان دونوں نکاحوں میں مہر مقرر نہ ہو.‘‘

    (صحیح مسلم : 3354 )

    تحریر: مفتی منیب الرحمن
    01/02/2017
     
  2. کنعان
    آف لائن

    کنعان ممبر

    شمولیت:
    ‏25 جولائی 2009
    پیغامات:
    729
    موصول پسندیدگیاں:
    977
    ملک کا جھنڈا:
    السلام علیکم

    جب ہم چھوٹے ہوتے تھے تو سنا کرتے تھے کہ صوبہ سرحد خیبر پختونخواہ پٹھانوں میں لڑکیاں بیچی جاتی ہیں اور ہمارے محلہ سے بھی کچھ لوگ وہاں بیاہ کر بیویاں لائے ہوئے تھے جسے وہ کہتے تھے کہ خرید کر لائے ہوئے ہیں مگر یہ شائد کم عقلی یا کم علمی ہے، پھر جب عرب ملک میں آئے اور عرب مواطنین کے ساتھ ائرفورس میں کام کرنے کا موقع ملا تب اسے درست طریقے سے جانا، اسے یہ نہیں کہا جاتا کہ رقم کا مقرر ہونا، بلکہ اس پر جو ہم نے سنا، ان کا یہ کہنا ہے کہ لڑکیاں امانت ہوتی ہیں اور ان کی پیدائش سے تعلیم اور شادی کے اخراجات تک جتنا خرچ ہوا، وہ دلہا کے ذمے ہے جسے حق مہر کی صورت میں لیا جاتا ہے اور اس پر ان کے پاس بھی قرآن و حدیث سے کوئی نہ کوئی دلیل ہو گی جس سے وہاں شادی ہر ایسا کیا جاتا ہے۔ اسی لئے وہاں کے وہ مواطین جن کے پاس حق مہر کی رقم ادا کرنے کے لئے نہیں ہوتی تو وہ حیدرآباد انڈیا میں جا کر شادیاں کیا کرتے تھے جس پر وہ ان کے والدین کو حق مہر کی عوض کچھ رقم بھی ادا کرتے تھے اور اپنی بیوی کو واپس اپنے ملک لے آتے ہیں جس پر وہ ان کے ساتھ زندگی گزارتے اور بچے بھی پیدا ہوتے، اس سے بیوی کے گھر والوں کو ایک فائدہ یہ بھی ہوتا کہ وہ بھی ان ممالک میں آ جاتے۔ ابوظہبئی الامارت سے 1998 کے قریب شیخ زاید بن سلطان النہیان مرحوم سے وہاں کے رہائشیوں نے شکایت کی کہ مواطنین کی زیادہ تعداد دوسرے ممالک میں شادیاں کر کے اپنی اہلیوں کی الامارت لا رہے ہیں اور جو یہاں پر کنواری لڑکیاں ہیں ان کی تعداد میں اضافہ ہو رہا ہے اس پر نظر ثانی فرمائیں، جس پر شیخ زاید مرحوم نے ایک ادارہ بنایا اور انہیں خوشخبری دی کہ اب باہر شادیاں کرنے کی ضرورت نہیں اس ادارہ میں رجسٹرڈ ہوں اور انہیں 1 لاکھ درھم یا اس سے زیادہ ادا کیا جائے گا، وہ ادارہ اس وقت شارع الجواززات میں واقع تھا، اب شیخ زاید نہیں رہے اور ہم بھی اب وہاں نہیں اس لئے نئی اپڈیٹ کیا ہے اس پر علم بھی نہیں۔ خیال رہے پاکستان میں شروع سے عرب مواطنین سے پاکستانی میں آ کر شادی کرنے پر پابندی تھی اور ہے۔

    خیبر پختونخواہ والے جس طرح رمضان، حج اور عید سعودی عرب کے اعلان کے ساتھ اسی دن کرتے ہیں اسی طرح وہ لڑکی کی شادی پر بھی جو رقم کا مطالبہ کرتے ہیں وہ حق مہر کی صورت میں لیا جاتا ہے۔ ہر کوئی اپنے کئے کا جواب دہ ہے۔

    والسلام

     

اس صفحے کو مشتہر کریں